Friday 20 October 2017

حرمت : کہانی


 از
ٹیپو سلمان مخدوم



پچاس سالہ اشرف موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ڈول رہا تھا۔ اسے سب کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آ رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دنیا کو اپنی بیوی کی آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ ہارن کی آوازوں کی جگہ اس کے کانوں میں آنند بخشی کا یہ گیت بج رہا تھا:
میں اس دنیا کو اکثر دیکھ کر حیران ہوتا ہوں،
نہ مجھ سے بن سکا چھوٹا سا گھر، دن رات روتا ہوں،
خدایا! تو نے کیسے یہ جہاں سارا بنا ڈالا۔

Wednesday 27 September 2017

آخر جمہوری نظام ہی کیوں؟ : اصول قانون

از
ٹیپو سلمان مخدوم


آخر جمہوری نظام ہی کیوں؟ یہ سوال اکثر سننے میں آتا ہے۔ اور سوچ پر بھی مجبور کرتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس نظام کے ذریعے جو بھی گروہ ہم پر حکمران بنتا ہے اس میں بہت سے چور، لٹیرے، جاہل اور بدکردار لوگ شامل ہوتے ہیں۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں اور جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے ہمیں یہی شکایت ہوتی ہے۔ تو پھر ہم یہ نظام بدل کیوں نہیں دیتے؟

Monday 25 September 2017

تھائی ہیجڑا : کہانی


از
ٹیپو سلمان مخدوم


وہ ایک تھائی ہیجڑا تھا۔ مجھے اس کی جو چیز سب سے واضع طور پر یاد ہے وہ اس کی ٹک ٹک پر مجھ سے بچھڑتے ہوئے کی مسکراہٹ ہے۔ اس وقت ہم دونوں روئے تھے۔ وہ اب بھی یہی سمجھتا ہو گا کہ صرف وہ رویا تھا، مگر حقیقت میں میں بھی رو پڑا تھا۔

Thursday 21 September 2017

ترکی مٹھائی: کہانی



از
ٹیپو سلمان مخدوم



گھر کے اندر  داخل ہوتے ہی اس کی نظر پورچ کے کونے میں پڑے پندرہ سو روپے والے چینی بیگ پر پڑی جو وہ ترکی سے پچاس لیرے کا لایا تھا۔ گاڑی سے اترتے ہی وہ مچل کر بیگ کی طرف بڑھا اور یہ دیکھ کر تڑپ کر رہ گیا کہ بیگ میں بہت سے کاڈے مٹر گشت کر رہے تھے۔ اس نے غصے سے گیٹ کھولنے والے ملازم سے پوچھا کہ بیگ میں کیڑے کیوں پھر رہے ہیں؟ جواب سے پہلے اندر سے بیگم نکل آ ئی۔

Wednesday 26 July 2017

سندھوستان: کہانی

از
ٹیپو سلمان مخدوم

دبئی کے ایئرپورٹ پر تلاشیاں وغیرہ دے کر فارغ ہوا تو بوریت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کنکٹنگ فلائٹ چار گھنٹے بعد تھی۔ دن کے دو بج رہے تھے، ہر طرف ہڑبونگ اور شور شرابا مچا ہوا تھا۔ اچانک میری نظر اس پرکشش عورت پر پڑی جسے میں جہاز میں بھی دیکھ چکا تھا۔ وہ اکیلی بیٹھی تھی۔ اچھا تو وہ جو گنجا موٹا اس کے ساتھ بیٹھا تھا وہ اس کے ساتھ نہیں تھا۔ تیس سال کی متناسب بدن کی یہ سانولی عورت جینز پہنے اور بندی لگائےبیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ آس پاس کی کرسیاں خالی دیکھ کر میں نے ہمت کی اور ایک کرسی چھوڑ کر ساتھ بیٹھ گیا۔

Monday 24 July 2017

قیمت: کہانی


 از
ٹیپو سلمان مخدوم



یوں تو پاکستان میں بھی اب جہاز ٹنل سے لگ جاتے ہیں مگر اس کے امریکی  جہاز کو ٹنل مہیا نہ کی گئی۔ ایسا کچھ اگر امریکہ میں ہوا ہوتا  تو وہ  آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ اب اسے امریکی شہری ہوئے بیس برس ہو چکے تھے، امریکہ اب اس کے روم روم میں تھا۔ مگر پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں یہ سب وہ معمول سمجھتا تھا، گو کہ پچیس برس بعد لوٹ رہا تھا۔ آنے کا اس کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا مگر نوجوان بھتیجے کی ناگہانی موت نے اسے کچھ دنوں کے لئے ہی سہی، بھائی کا سہارا بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنازے پر نا بھی پہنچ سکا تو کوئی بات نہیں، چار دن بعد ہی سہی۔ اوپر  سے جہاز صبح کے چار بجے ہی لاہور اتر آیا تھا۔

Friday 21 July 2017

مٹی: کہانی


از
ٹیپو سلمان مخدوم



م اور ع کمرے میں داخل ہوئے اور آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ دونوں نے سگریٹ سلگا لئے۔ م نے دونوں پاوں میز پر رکھ دیئے۔ ع نے اپنے پاوں م کی رانوں پر رکھ لئے۔

م بولا: ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ میں اپنا زکام ٹھیک کرنےکے لئے بے بانگے چوزے کی یخنی پیوں؟
ع بولی: حکیم کہتے ہیں، اور میرے خیال سے ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ دیسی چوزے کی یخنی میں بڑی گرمی اور طاقت ہوتی ہے۔ زکام ٹھیک کر دے گی۔

م نے غصہ سے ع کو گھورا: تمہیں پتا ہے تم کیا کہ رہی ہو؟ اپنی ایک وقتی اور معمولی سی بیماری ٹھیک کرنے کےلئے میں ایک بچے، ایک چھوٹے بچے کی گردن پر چھری پھیروں تاکہ اس کا سارا خون بہہ جائے اور پھر اس کے بدن سے کھال کھینچ کر، اس کی انتڑیاں نکال کر اس کے مردہ جسم کو آگ پر رکھے پانی میں ابالوں؟ میں انسان ہوں کہ وحشی درندہ؟

ع ذرا سنبھل کر بولی: اب تم عجیب و غریب باتیں نہ کرو۔ مرغی کے چوزے اور بچے کو مت ملاو۔

Monday 3 July 2017

بے غیرت کتے : کہانی


از

ٹیپو سلمان مخدوم




وہ ایک کتا تھا۔ بے غیرت اس لئے تھا کہ اپنی بہن کے ساتھ سوتا تھا۔ کیا کہا جا سکتا ہے، جانور تھا کوئی ذات دھرم کو ماننے والا تو تھا نہیں۔ نہ کوئی اصول نہ شرم و حیا۔ اسے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بھائی یہ بے غیرتیاں تمہارے جنگل میں بے شک معمول ہوں گی مگر یہ جنگل نہیں مہذب معاشرہ ہے۔ نہ ہی اسے سائنس کی منطق سے قائل کیا جا سکتا تھا کہ ایسے عمل سے اجتناب کرو ورنہ اگلی نسلوں میں موروثی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، ہماری کزن میرج نہیں دیکھتے؟

Tuesday 20 June 2017

ڈوارکن اور عدالتی فیصلے: اصول قانون


از
ٹیپو سلمان مخدوم



رونلڈ ڈوارکن (Ronald Dworkin) اصول قانون کے امریکی پرفیسر تھے جو امریکہ کی ییل اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں اصول قانون (Jurisprudence)  پڑھاتے تھے۔ آپ کی وفات 2013 میں ہوئی۔ آپ کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا قانونی فلسفی مانا جاتا ہے۔  مقدموں کے فیصلوں سے متعلق  پرفیسر ڈوارکن نے بہت کچھ کہا ہے جس میں سے چند دلچسپ  خیالات  کا خلاصہ درج  ذیل ہے:


Wednesday 14 June 2017

تم کون ہو؟ : کہانی


از
ٹیپو سلمان مخدوم



جب روسٹرم پر پہنچ کر وکیل صاحب نے فائلیں سیدھی کیں اور کہا، "جناب والا، میرے مؤکل پر ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے جرم سے میرے مؤکل کا کوئی تعلق نہیں" تو یہ وکیل صاحب کا مقدمہ میں پہلا جملہ تھا۔

Tuesday 18 April 2017

باپ: کہانی

از
ٹیپو سلمان مخدوم

ایک ہی باپ تھا میرا، وہ بھی مَر گیا سالا۔ آپ شاید حیران ہو رہے ہوں کہ میں اپنے والدِ بزرگوار کے بارے میں کیسے الفاظ استعمال کر رہا ہوں۔ کیا بتاوں آپ لوگوں کو، دل تو میرا کرتا ہے مغلظات بکنے کو مگر  برداشت کرتا ہوں۔ پتہ نہیں کیا خبط سوار تھا اُسے خالق بننے کا۔ ماں کے پیٹ میں بیج بو کر مجھے پیدا کیا، اپنے جگر پر شراب کی بارشیں برسا کر سرطان پیدا کیا، اُلٹی سیدھی حرکتیں کر کہ دولت، شہرت اور عزت پیدا کرنے کی کوشیشیں کرتا رہا۔ 

Thursday 6 April 2017

Jinnah Of Pakistan by Stanley Wolpert- A Review!


By
Ahaz bin Salman Makhdoom


Probably the most prominent figure in the Indian politics of his time Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah the greatest ambassador of Hindu-Muslim unity, the man who divided India and the leader who fought for the Muslims. Stanley Wolpert's informative book on Jinnah reveals many unknown things regarding the great leader. The book sheds light on Jinnah and urges the reader to look at the bigger picture, Jinnah is not just portrayed as an epitome of perfection but as an ordinary human being who possesses certain sentiments and feelings.

Monday 3 April 2017

جناح آف پاکستان- کتاب کا جائزہ

از
احذ بن سلمان مخدوم


قائد اعظم محمد علی جناح اپنے وقت میں ہندوستانی سیاست میں ایک اہم شخصیت تھے اور وہ ایک سیاست دان سے بڑھ کے تھے۔ ان کا شمار ان چند عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی قابلیت کےذریعے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ مصنف سٹینلے وولپرٹ نے اپنی کتاب ’جناح آف پاکستان'  میں پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے کردار کو نہایت کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ مصنف نے جناح کو صرف ایک لیڈرکے طور پر دیکھتے ہوئے ان کی زندگی پر تبصرہ نہیں کیا  بلکہ ایک طالب علم، وکیل اور شوہر کے طور پر بھی ان کی زندگی کا خاکہ  پیش کیا ہے۔

Saturday 1 April 2017

فیصلوں کے فیصلے- اصول قانون

از
ٹیپو سلمان مخدوم


کومن لاء نظام میں قانون کی تشریح کا حق عدالت کے پاس ہوتا ہے۔ قانون کسی خاص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا جاتا بلکہ  قانون کی کتاب ایسے لکھی جاتی ہے کہ قوانین کو ہر قسم کے حالات میں لاگو کیا جا سکے۔ چنانچہ جب عدالت کے سامنے کوئی مقدمہ آتا ہے تو عدالت نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے حالات میں دستیاب قانون کو کس انداز سے لاگو کیا جائے؛ جیسے سختی سے یا نرمی سے، وغیرہ۔

Saturday 25 March 2017

عدالتی کارروائی کی ماہیت- اصول قانون

از
ٹیپو سلمان مخدوم
Benjamin Nathan Cardozo


بینجامِن ناتھن کورڈوذو، 1880-1938، امریکہ کی سپریم کورٹ کے یہودی جج تھے۔ یئل یونیورسٹی میں انہوں نے لیکچر دیئے جو نیچر آف جوڈیشل پروسیس کے نام سے کتابی شکل میں چھپے اور بہت مشہور ہوئے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس کارروائی پر اظہارِ خیال کیا ہے جو منصف کی کرسی پر بیٹھ کر قاضی کیا کرتا ہے۔ اپنے ایک لیکچر میں جج صاحب کچھ اس طرح فرماتے ہیں:

Friday 24 March 2017

نظریہء خالص قانون-اصول قانون


از
ٹیپو سلمان مخدوم
 
ہانز کیلسن

ہانز کیلسن ۱۸۸۱ سے ۱۹۷۳، آسٹریا کے ایک یہودی وکیل تھے۔ آپ نے آسٹریا کا آئین بھی تحریر کیا اور وہاں کی عدالتِ اعظمیٰ کے جج بھی مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۰ میں وہ امریکہ جا کر رہائش پذیر ہو گئے اور مختلف یونیورسٹیوں میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔آپ کے خالص نظریہء قانون کا ذکر پاکستان کے متعدد آئینی فیصلوں میں ملتا ہے۔ ان میں سے چند مشہور فیصلے سرکار بنام دوسو   PLD 1958 SC 533   عاصمہ جیلانی بنام حکومتِ پنجاب   PLD 1972 SC 139   اور بیگم نصرت بھٹو بنام  چیف آف آرمی سٹاف   PLD 1977 SC 657    ہیں۔

Monday 20 March 2017

شہادت کیوں ضروری ہے؟ - اصول قانون


از
ٹیپو سلمان مخدوم


جب دو فریقین  کے درمیان ایک تیسرے فریق نے انصاف کرنا ہو تو انصاف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور ہوتا نظر آنا بھی۔  عدالت میں بیٹھے قاضی صاحب بہت دفعہ دونوں فریقین کی کہانیاں سن کر ہی سمجھ جاتے ہیں کہ کون سا فریق حق پر ہے اور کونسا فریق جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر پھر بھی قاضی صاحبان اپنی سمجھ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے شہادت طلب کرتے ہیں اور شہادت ہی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

Thursday 16 March 2017

خبیث عورت : کہانی

از
ٹیپو سلمان مخدوم




اس کے پاوں دودھ کی طرح گورے اور ملائی کی طرح ملائم تھے۔ بھرے بھرے، رس ملائی جیسے۔ وہ  روزانہ رات کو کریمیں لگا کر انہیں مزید ملائم کیا کرتی۔ اس پر ہمیشہ نیل پالش سے آویزاں اور پازیبوں سے میّزن۔  دیکھتے ہی جی چاہتا کہ لمس ہاتھ پر اور  ذائقہ زبان میں  لیا جائے۔ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے والا محاورہ اس پر صادق آتا تھا۔ 

Monday 13 March 2017

دہشت گردی اور عدالتی کردار


از
شہزاد اسلم



 آج دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو امریکہ پر دہشتگردی کے خوفناک  سائے جب چھائے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ افغانستان اور پاکستان خصوصی طور پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے میدان بن گئے۔ جہاں دہشت گردی نے تمام ممالک کو امتحان میں ڈالا وہاں جمہوری ممالک کے لئے ایک کڑا وقت شروع ہو گیا .

Saturday 25 February 2017

زندہ: کہانی


از 
ٹیپو سلمان مخدوم





میں نے روح وغیر کے وجود پر کبھی زیادہ توجہ نہ کی تھی۔ 

مذہبی میں اتنا ہی ہوا کرتا تھا جتنا ضروری تھا۔ یعنی مذھب پر اِتنا عمل کر لیا کرتا تھا اور اِتنی مذھبی باتیں کر لیا کرتا تھا کہ معاشرے میں اوپرا نہ لگوں۔ کسی کو مذھب کی وجہ سے میری طرف متوجہ ہونے کا موقعہ نہ ملے۔ کسی کو مجھے ہدف بنانے کا بہانہ نہ مل جائے۔

Friday 24 February 2017

دو "و" اور دو "ح" : زبانِ اُردوُ

از 
ٹیپو سلمان مخدوم
و اور و
لفظ "ایڈووکیٹ" میں حرف "و" دو مرتبہ آتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں انگریزی کے حروف 'v' اور 'o' کے مقابلہ میں ایک ہی حرف ہے "و"۔ لہٰذا ایڈووکیٹ میں پہلا "و" انگریزی حرف v کی آواز کے لئے ہے جبکہ دوسرا "و" انگریزی حرف o کی آواز کے لئے۔ 

ہ اور ھ
حرف "ھ" جب کسی دوسرے حرف کے ساتھ لگتا ہے تو اس حرف کی آواز بدل دیتا ہے۔ جیسے کہ لفظ "کھانا" میں ک اور ھ مل کر "کھ" کی ایک نئی آواز بناتے ہیں۔ دوسری طرف جب حرف "ہ" کسی دوسرے حرف کے ساتھ لگتا ہے تو دونوں حروف اپنی اپنی آوازیں قائم رکھتے ہیں۔ مثلاً لفظ "کہانی" میں ک اور ہ اپنی علیحدہ آوازیں قائم رکھتے ہیں۔ 

Wednesday 22 February 2017

بے غیرت کا بچہ-کہانی


از 

ٹیپو سلمان مخدوم





احسن اپنے کمرے میں بیٹھا مرِنڈا کی چُسکیاں لیتے ہوئے فیس بُک پر مصروف تھا۔ ایک دوست نے گندا لطیفہ بِما گندی تصویر شائع کیا تھا  جس کا چَسکا ابھی جاری تھا کہ اگلی پوسٹ میں دوسرے دوست کی پوسٹ سامنے آ گئی جس میں اس  نے خانہ کعبہ کی بے حد عمدہ تصویر کی اشاعت کر رکھی تھی۔ احسن نے جلدی سے  اسلامی تصویر پسند کر کہ پروفائل آگے کیا۔ پھر اُس کو وہ عریاں تصویر والا فحش لطیفہ یاد آیا اور اُس کو اپنی ٹانگوں کے بیچ گدگدی کرتی کمزوری سی محسوس ہوئی۔ احسن نے فیس بُک پروفائل واپس گُھمایا اور کعبہ کی تصویر پار کر کہ واپس عُریاں پوسٹ پر جا پہنچا۔ اُس کا کون کون سا دوست اسے دیکھ کر کیسے کیسے قہقہے مارے گا، یہ سوچتے ہوئے احسن نے اپنے مختلف دوستوں کو ٹیگ کرنا شروع کیا۔

راجہ گدھ۔: ایک مختصر تبصرہ

 از
شیراز  احمد



بانو قدسیہ اور راجہ گدھ پر جو تحریر کیا کچھ دوستوں نے اس پر گِلا کیا  ۔ کچھ نے پوسٹ پر ہی اور کچھ نے مل کر "خبر گیری" کی___ صاحبوں میں نے کبھی اپنی رائے کو آخری نہیں سمجھا ۔ ہر تحریر کو خیال کہا نہ کہ "مستند ہے میرا ہی فرمایا ہوا"۔  ہر جو بات دل کو لگی اٹھا لی گمشدہ میراث سمجھ کر___ 

Tuesday 21 February 2017

ایک مہربان سے مکالمہ: صوفی اور مولوی

از
شیراز احمد



مہربان: ویسے تو بڑی پوسٹیں لگاتا ہے محبت, بھائی چارے, اور مذہبی رواداری کی____ اور اب یہ مولوی پر تنقید___ بہت افسوس ہوا

میں: میرے بھائی مولوی کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے مولوی تو ایک سوچ کا نام ہے اسے لغوی معنوں میں مت لیں__

قانون اور ادب

از
شہزاد اسلم



انسانی زندگی کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے کے لئیے ادب کے مختلف ذرائع ہمیشہ سے اسلوب کا حصہ رہے ہیں۔ انسانوں کے لطیف جذبات سے لے کر نفسیاتی مسائل تک، تاریخی واقعات، مذھب، سماج، فلسفہ، سائنس، قدرتی حسن بھی ادب کے موضوعات میں شامل ہیں۔ 

Friday 10 February 2017

انسان جنتی تھا یا بندر؟


از 

ٹیپو سلمان مخدوم



قرآن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا۔ سائنس کہتی ہے کہ انسان بندر کی ارتقائی شکل ہے۔ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کا قرآن سچ کہتا ہے جبکہ فرنگی کی سائنس جھوٹ بولتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سائنس فرنگی کی مخلوق ہے؟

Thursday 2 February 2017

جائیداد، ملکیت اور قبضہ - اصول قانون

از 

ٹیپو سلمان مخدوم





جائیداد کا تصور ملکیت سے جڑا ہوا ہے۔ ملکیت کا مطلب ہے کہ قانون آپ کے چند مخصوص حقوق تسلیم کرتا ہے۔ ان حقوقِ ملکیت میں قبضے کا حق، فائدہ اٹھانے کا حق اور فروخت کرنے کا حق سرِ فہرست ہیں۔ یعنی قانونی طور پر مالک ہونے کا مطلب ہے کہ قانون آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ اپنی مِلک کو اپنے تک مقّید رکھ سکتے ہیں، صرف اور صرف اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اور جب چاہے، جس کو چاہے اور جس قیمت پر جی چاہے فروخت کر سکتے ہیں۔ 

Tuesday 31 January 2017

قانون کی حکمرانی - اصول قانون

از 
ٹیپو سلمان مخدوم





قانون کی حکمرانی کسی بھی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لئے ناگزیر ہے۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب ہے کہ ریاست میں ہر کام قانون کے تحت اور قانون کی مرضی کا ہو گا۔ نظامِ سلطنت قانون کے مطابق چلے گا۔ اور ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا۔ یعنی انصاف کا معیار یہ ہو گا کہ فیصلہ قانون کی منشا کے مطابق ہو۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں اور کیونکر کیا جاتا ہے؟ 

قانون کی حکمرانی کی دو بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔ قوانین کا وجود اور قوانین کی برتری۔