از
ٹیپو سلمان مخدوم
جب
دو فریقین کے درمیان ایک تیسرے فریق نے
انصاف کرنا ہو تو انصاف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور ہوتا نظر آنا بھی۔ عدالت میں بیٹھے قاضی صاحب بہت دفعہ دونوں
فریقین کی کہانیاں سن کر ہی سمجھ جاتے ہیں کہ کون سا فریق حق پر ہے اور کونسا فریق
جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر پھر بھی قاضی صاحبان اپنی سمجھ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے
بجائے شہادت طلب کرتے ہیں اور شہادت ہی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔
یوں تو یہ
اصول روز حشر بھی لاگو ہو گا جب باوجود اس کے کہ عدالت پروردگار کی ہو گی، جو حاضر
بھی ہے اور ناظر بھی، اور سب کے دلوں کے حال بھی جانتا ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے
ہاتھوں پیروں اور مختلف اعضاء سے گواہی لینے کے بعد ہی ہمارا فیصلہ سنایا جائے گا۔ تو ایسے مقدمات میں بھی
کہ جہاں قاضی صاحبان کو شہادت آنے سے پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ انصاف پر مبنی
فیصلہ کیا ہو گا، وہ فیصلہ شہادت سن کر ہی اس لئے کرتے ہیں کہ انصاف صرف ہونا ہی
نہیں چاہئے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے۔ اس اصول کو لاگو کرنےبہت سے فوائد ہیں۔
ہمارا
نظام انصاف اس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے کہ معاشرہ
سیاسی بنیادوں پر فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے میں سے ہی چند اشخاص کو عدالتوں کے
قاضی بنا دیا جائے جو ما بین فریقین انصاف کریں۔ اس سیاسی فیصلہ کی بنیاد پر سیاسی
طور پر منتخب حکومتیں قوانین وضع کرتی ہیں جن کے تحت عدالتیں وجود میں آتی ہیں اور
قاضی صاحبان تعینات کئے جاتے ہیں۔ آئین و قانون کے تحت ان قاضی صاحبان کو لوگوں کی
جائیدادوں کی ملکیت کے فیصلے کرنے سے لے کر زندہ انسانوں کو پھانسی پر لٹکانے تک
کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
اب
مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جج صاحبان کو یہ اختیارات دے تو دیئے جاتے ہیں مگر ان پر نظر
رکھنے کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ کیونکہ لوگوں کی جان و مال کے فیصلے اتنے
بڑے ہوتے ہیں کہ یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا کہ کوئی قاضی فیصلہ کرنے میں غلطی
کر دے یا بے ایمانی سے غلط فیصلہ کرے جس
کے نتیجے میں حقدار سے اس کا حق چھن جائے یا کسی معصوم کی زندگی چلی جائے
یا اسے اپنی زندگی کے کئی سال قید میں کاٹنے پڑیں۔ چنانچہ ہر عدالتی فیصلے کے خلاف
اعلیٰ عدالتوں میں داد رسی کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ اکثر ایسے مقدمات کہ جن میں لوگوں کی جان و مال کے
بارے میں فیصلے کئے جاتے ہیں ، کے خلاف قانون میں ایک سے زیادہ اپیلوں کی گنجائش
رکھی دی جاتی ہے۔
اپیل
کا مطلب ہے کہ پہلے قاضی صاحب کے فیصلہ کی دوسرے
قاضی صاحب جانچ پڑتال کریں گے۔ اس طور جانچ کرنے کا یہ طریقہ ہو سکتا تھا
کہ پورا مقدمہ دوسرے قاضی صاحب کے سامنے دوہرایا جائے اور اب وہ فیصلہ کریں کہ
پہلے قاضی صاحب کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ مگر اس میں دو قباحتیں تھیں۔ پہلی یہ
کہ اس میں دیر بہت لگتی کہ پورا مقدمہ ہر
نئی عدالت میں شروع سے آخر تک دہرایا جاتا اور دوسرے یہ کہ اگر پہلے قاضی صاحب کو
لگتا کہ مدعی سچا ہے جبکہ دوسرے قاضی صاحب کو لگتا کہ مدعا علیہ سچا ہے تو یہ
فیصلہ کیسے ہو کہ کونسے قاضی صاحب کا فیصلہ صحیح تھا۔ اگر ہر ہارنے والا فریق یہ
دعویٰ کرے کہ جس قاضی نے اس کے خلاف فیصلہ کیا وہ نالائق یا بے ایمان تھا تو عوام
کو کیسے یہ اعتماد ہو کہ ایسی بات نہیں اور جب کل کو ان کے اپنے مقدمات ان ججوں کی
عدالتوں میں پیش کئے جائیں گے تو وہ فیصلے صحیح ہوں گے؟
ان
دونوں قباحتوں کا حل نکلا شہادت۔
یہ
طریقہ وضع کیا گیا کہ قاضی صاحبان دونوں فریقین کی کہانیاں سن کر اپنی سمجھ کے
مطابق فیصلے نہ کریں گے بلکہ دونوں فریقین اپنی اپنی کہانی کی تائید میں شہادتیں
لائیں گے اور قاضی صاحبان مقدمات کے فیصلے ان شہادتوں کی بنا پر کریں گے۔
اس
سے دو فوائد ہوئے۔ پہلا تو یہ کہ شہادت کی وجہ سے اپیل میں مقدمہ کو دوہرانے کی
ضرورت نہ رہی۔ دوسری عدالت بس پہلی عدالت کا فیصلہ اور شہادت کا معائنہ کرے گی اور
یہ فیصلہ کرے گی کہ پہلا فیصلہ صحیح تھا یا نہیں۔
دوسرا
فائدہ یہ ہوا کہ اب چونکہ کوئی بھی قاضی دونوں فریقین کی کہانیاں سن کر اپنی سمجھ کے مطابق
فیصلہ نہ کرے گا بلکہ شہادت کی بنیاد پر کرے گا۔ لہٰذا اب کسی بھی فیصلے کی صحت پر
سوال اٹھانا آسان نہ رہا۔ کیونکہ اعلیٰ عدالت کے علاوہ بھی اب کوئی بھی عدالت میں پیش کروہ شہادت کو پرکھ کر دیکھ سکتا
ہے کہ اگر قاضی صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا اس شہادت کو دیکھتا تو عقلی طور پر یہی
فیصلہ کرتا یا نہیں؟ اصول یہ ہے کہ شہادت کی بنیاد پر قاضی صاحب نے منطقی فیصلہ
کرنا ہے۔ چنانچہ شہادت نے فیصلہ پرکھنا ممکن بھی کر دیا اور آسان بھی۔
شہادت
کے طریقہ کار کو منطقی بنانے کے لیئے شہادت کا قانون بنا۔ شہادت کا قانون قوائد و
ضوابط وضع کرتا ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ کس قسم کے امور شہادت کے طور پر عدالت میں
پیش کئے جا سکتے ہیں اور جو امور بطور شہادت قابل قبول ہیں ان میں سے کس قسم کے
امور کی امکانی قوت کتنی ہو گی۔
شہادت
کئی اقسام کی ہوتی ہے۔ مثلاً شہادت اصل یا ثانوی نوعیت کی ہو سکتی ہے۔ اصل شہادت کا مطلب یہ ہے کہ شہادتی امر بذات خود
عدالت کے معائنے کے لئے پیش کیا گیا۔ جبکہ ثانوی شہادت کا مطلب ہے کہ ایک ایسا امر
عدالت میں پیش کیا گیا جو شہادتی امر کے ہونے کی شہادت ہو۔ مثلاً زید اور بکر میں
معاہدہ ثابت کرنے کے لئے اصل شہادت یہ ہو گی کہ معاہدے کی اصل دستاویز عدالت کے
معائنے کے لئے پیش کی جائے جبکہ اس امر کی ثانوی شہادت یہ ہو گی کہ معاہدہ کی فوٹو
کوپی عدالت میں پیش کی جائے۔ قانون چاہتا ہے کہ فیصلہ ہمیشہ اصل شہادت کی بنیاد پر
کیا جائے۔
شہادت
براہ راست اور واقعاتی بھی ہو تی ہے۔ براہ راست شہادت وہ ہے جو فیصلہ کن امر کو بلاواسطہ ثابت کرے۔ مثلاً قتل کی براہ راست شہادت یہ ہو گی کہ جس گواہ نے
اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے دیکھا وہ خود آ کر عدالت میں بیان دے۔ اگر الف نے دیکھا
کہ زید نے بکر کو قتل کیا تو الف بذات خود
عدالت میں آکر اس امر کی شہادت دے۔ دوسری طرف واقعاتی شہادت وہ ہے جو فیصلہ کن امر
کو بالواسطہ ثابت کرے۔ مثلاً الف عدالت میں آکر یہ گواہی دے کہ اس نے دیکھا کہ زید
اس کمرے سے خون آلود خنجر پکڑے بھاگ رہا تھا جس کمرے سے بعد میں بکر کی لاش ملی۔
لہٰذا زید نے بکر کو قتل کیا۔
مگر
براہ راست اور واقعاتی شہادت میں سے کونسی
شہادت زیادہ امکانی قوت رکھتی ہے یہ طے نہیں۔ مثلاً ایک مقدمے میں ممکن ہے کہ الف
شہادت دے کہ اس نے زید کو بکر کا قتل کرتے دیکھا جبکہ زید یہ واقعاتی شہادت دے کہ
اس دن اس کے نام پر ایک کمرہ دوسرے شہر کے ہوٹل میں بک تھا اور اس کمرے کے استعمال
کی رسیدات بھی اس کے پاس موجود ہیں۔ مگر عدالت اصل شہادت کو وزن دیتے ہوئے اس کی
بنا پر زید کو قاتل قرار دے دے۔
مگر
دوسری طرف ممکن ہے کہ الف اصل شہادت دے کہ قتل کے روز زید اس کے ساتھ دوسرے شہر
میں تھا جبکہ واقعاتی شہادت یہ ہو کہ آلہ قتل پر زید کی انگلیوں کے نشانات ہوں اور
جائے واردات سے زید کا فون بھی گرا ہوا ملا ہو۔ اور عدالت اس مقدمہ میں واقعاتی شہادت
کو زیادہ وزنی جانتے ہوئے زید کو قاتل قرار دے دے۔
ایک
امر اس وقت شہادت کا درجہ اختیار کر جاتا ہے جب وہ کسی دوسرے امر کو امکانی بنا
دے۔ شہادتی امر میں موجود اس امکانی قوت کو پروبیٹو فورس کہتے ہیں۔
مختلف
شہادتی امور میں موجود یہ امکانی قوت مختلف درجوں کی ہوتی ہے۔ جب کسی شہادتی امر
میں یہ امکانی قوت اتنی زیادہ ہو کہ اس بنا پر ایک ذی شعور انسان کہہ سکے کہ
امکانی امر ضرور ہوا ہو گا، تو کہتے ہیں کہ شہادتی امر نے امکانی امر کو ثابت کر
دیا۔
اکثر
ایسا ہوتا ہے کہ مقدمہ کا دارومدار امر د کے ثابت ہونے پر ہوتا ہے مگر امر د کو ثابت کرنے کے لئے ثبوتوں کی ایک زنجیر کڑی در کڑی بنانی پڑتی ہے۔ امر الف شہادتی امر کے طور پر امر ب کو ثابت کرتا ہے۔ پھر امر ب شہادتی امر کی شکل
اختیار کر کہ امر ج کو ثابت کرتا ہے۔
پھر امر ج شہادتی امر بن کر امر د کو ثابت کرتا ہے۔ لیکن امکان و ثبوت کی یہ
اثباتی زنجیر جتنی لمبی ہوتی جاتی ہے فیصلہ کن امر کا ثبوت اتنا ہی کمزور سمجھا
جاتا ہے کیونکہ ہر کڑی کے اضافے کے ساتھ غلطی کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ الف عدالت میں
گواہی دے کہ مرتے ہوئے ب نے اسے بتایا تھا کہ زید نے بکر اور ب کو خنجر مارے
جس سے بکر اسی وقت مر گیا جبکہ ب شدید زخمی ہو گیا۔ یہاں الف کی گواہی ثابت
کرتی ہے کہ ب نے کیا بیان دیا اور ب کا بیان ثابت کرتا ہے کہ زید نے بکر کو
قتل کیا۔ یا پھر د نے یہ ثابت کرنا ہو کہ جائیداد متدعویہ الف کی نہیں بلکہ اس کی ملکیت ہے تو وہ ثابت کرے کہ الف نے جائیداد ب کو بیچ
دی، ب نے جائیداد ج کو بیچ دی اور ج سے جائیداد د نے خرید لی۔
No comments:
Post a Comment