Thursday 16 March 2017

خبیث عورت : کہانی

از
ٹیپو سلمان مخدوم




اس کے پاوں دودھ کی طرح گورے اور ملائی کی طرح ملائم تھے۔ بھرے بھرے، رس ملائی جیسے۔ وہ  روزانہ رات کو کریمیں لگا کر انہیں مزید ملائم کیا کرتی۔ اس پر ہمیشہ نیل پالش سے آویزاں اور پازیبوں سے میّزن۔  دیکھتے ہی جی چاہتا کہ لمس ہاتھ پر اور  ذائقہ زبان میں  لیا جائے۔ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے والا محاورہ اس پر صادق آتا تھا۔ 


جب شلوار پہنتی تو الف لیلہ کی مرجینا کے ڈیزائن کی جس میں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے شیشے جیسی شفاف پنڈلیاں نیم عریاں ہو کر بجلیاں گراتی رہتیں۔ اور اگر تنگ پائجامہ پہنتی تو ایسا چست کہ گول ران اور مٹول کولہے کا ستاری زاویہ جگہ جگہ گیت چھیڑنے لگتا۔ کرتی اتنی تنگ کہ گداز سینہ اس کی بل کھاتی نازک کمر سے آدھا قدم آگے چلتا دکھائی دیتا۔ مردوں میں البتہ سب گھر کی عورتوں کی طرح پورے جسم پر دوپٹہ لپیٹ کر رکھتی۔  ہاتھ، گردن، رخسار، ہونٹ، آنکھیں، بال۔ ہر چیز قیامت کی غماز تھی۔ وینا ایک حسین، ہنس مکھ اور زندگی سے بھرپور الہڑ دوشیزہ تھی۔

سترہ کے سن تک پہنچتے پہنچتے وینا نے جتنے خواب دیکھ لئے تھے تقریباً اتنے ہی اسے دیکھائےبھی جا چکے تھے۔ اس بات کا اسے خوب اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ خوبصورتی اور نسوانیت کا ایک حسین امتزاج ہے۔  متوسط  طبقے میں خوبصورت بیٹی کا پیدا ہونا بھی غریب  کے ہاتھ لعل لگنے کے مترادف ہوتا ہے۔ گھر کی عورتیں اسے دیکھتے ہی   شادی کا راگ چھیڑ دیا کرتیں۔
"یہ تو محلوں میں  رہنے کے لائق ہے" ایک کہتی۔
"اسے تو کوئی شہزادہ  ہی لے کر جائے گا" دوسری کہتی۔
"یہ تو جس گھر میں جائے گی اجالا کر دے گی" تیسری کہتی "ہماری بیٹی کے تو ناز اٹھاتے اٹھاتے نہیں تھکیں گے اس کے سسرال والے"۔  اور وینا ہواوں میں اڑنے لگتی۔ دن میں بھی محلوں اور شہزادوں ہی   کے خواب دیکھا کرتی۔

  جب گھر کی اکلوتی گاڑی میں سارے خاندان کے ساتھ پھنسی پھنسی بیٹھ کر وہ انارکلی بازار جاتی تو اسے اپنے اوپر ملال سے زیادہ اپنے گھر والوں پر ترس آیا کرتا۔ وہ سارا رستہ خوابوں میں اپنے آپ کو اپنے حسین اور خوبرو شوہر کے پہلو میں بیٹھی ایک بڑی سی نئی نکور گاڑی میں جاتی دیکھا کرتی۔  اپنے  بی-اے پاس   بینک اوفیسر باپ کو وہ حقیر تو نہیں البتہ سادہ لوح اور بدقسمت ضرور سمجھتی تھی۔

ایک روز وہ کولِج سے گھر آنے کے لئے بس سٹوپْ کی طرف جا رہی تھی کہ پیچھے سے ثانیہ نے آواز دی۔ دونوں سہیلیاں اکھٹی چلنے لگیں۔ 
"تم نے باز نہیں آنا اپنی حرکتوں سے؟" وینا نے غصّے سے پوچھا۔
"ہاۓ کیا کروں یار" ثانیہ نے اپنا بستہ لہراتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری "میرا دل آ گیا ہے اپنے ٹونی پرنس پر"۔
"ہونہہ، موٹر سائیکل والا پھٹیچر پرنس" وینا نے حقارت سے کہا۔
"ہاۓ میری جان تجھے کیا پتہ جب وہ اپنے فولادی ہاتھوں سے جگہ جگہ ہاتھ بھر بھر کہ چٹکیاں لیتا ہے تو سارے بدن میں کیسی میٹھی میٹھی درد ہوتی ہے۔" ثانیہ نے کھلکھلا کر دوہری ہوتے ہوئے کہا۔
"اری الّو سختی تو محل میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسی جھونپڑی میں، مگر مخمل میں لپٹے فولاد کا اپنا ہی مزا ہے" وینا نے شرارت سے ہنستے ہوۓ ثانیہ کے کندھے پر ہاتھ مارا اور دونوں ہمجولیاں ہنستے کھیلتے اپنے اپنے مستقبل کے خوابوں میں گُمْ بس سٹوپ پر پہنچ کر اپنی اپنی بس کا انتظار کرنے لگیں۔

 دو سال بعد ہی وینا کا کولج چھڑوا دیا گیا اور اُس کا اکیلے گھر سے باہر نکلنا بند ہو گیا۔ سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔ وینا سے ہر گھڑی اُبٹن کی بھینی بھینی مہک آنے لگی۔ شادی کی تاریخ قریب تھی اور گھر میں مہمانوں کی بھیڑ تھی۔ رونق میں وینا کا احتجاج بھی گُم ہو گیا۔ کام والے کپڑے، نئے نئے گہنے اور جہیز کا سامان۔ شادی کی چمک دمک نے محلوں کے شہزادے کے خواب میں موبائلوں کی دکان والے عرفان کو فٹ کر ہی دیا۔ 

عرفان کو وینا بہت پسند آئی۔ وہ حسین بھی تھی اور بھرپور جوان بھی۔ اب دکان پر اس کے دن بے صبری سے کٹنے لگے۔ وینا کے انتظار میں۔ اور رات کے انتظار میں۔ چند سال وینا کے بھی اچھے گزر گٰئے۔  نئے نئے زیور کپڑے، نیا نیا گرم بستر، نئے نئے رشتے اور پھر نئے نئے بچے۔  عرفان کی تھوڑی کمائی، عرفان کی کنجوسی، عرفان کے ہمہ وقت موجود رشتہ دار  اور عرفان کے دوست۔ کچھ سال تو قابلِ برداشت رہے مگر آہستہ آہستہ چُبھنے لگے۔ 

چودھویں پاس کرنے سے پہلے ہی وینا کی شادی ہو گئی تھی۔ عرفان نے مگر  بارھویں بھی پاس نہ کی تھی۔ اس کا باپ  کاغذ کا ایک چھوٹا سا بیوپاری اور چِٹّا اَن پڑھ تھا۔ عرفان کا دسویں پاس کر کہ کولج پہنچ جانا اور چھوٹی سی ہی سہی مگر اپنی دکان ڈال لینا اُسے اپنے خاندان میں ایک ممتاز مقام دلوا چکا تھا۔ رشتے داروں میں وہ رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

عرفان کو وینا پسند تو آئی تھی مگر اس پسند کا محوریا تو   وینا کی جوانی کے زِیر و بَم تھے یا پھر  فتح کا یہ  احساس کہ اپنی معاشی کامیابی کے بل پر وہ اپنے سے زیادہ امیر اور پڑھے لکھے گھرانے کی لڑکی بیاہ لایا تھا۔ دونوں ہی باتوں پر خاندان میں اُس کی بڑی واہ واہ ہوتی اور فخر سے اُس کا سینہ پھول جاتا۔ پہلے چند  ماہ  تو وہ وینا کے جسم کی سیاحت میں کھویا رہا۔ جب اِس سرزمین سے اچھی طرح مانوس ہو گیا اور وینا کے بدن کی کوئی بھی چٹان، میدان اور کھائی پہلے جیسی ولولہ انگیز نہ رہی تو اُس پر فتح کا عنصر غالب آنے لگا۔ رات جب اُس کا جی چاہتا وہ وینا کو جگا دیتا۔ دن میں اُس سے بلا وجہ ناشتے میں ہریسے، پوریاں اور  پراٹھے وغیرہ  بنوا کر کھاتا، محض اِس لئے کہ وینا کو صبح صُبح اُٹھ کر عرفان کے لئے ہانڈی روٹی کرنی پڑے۔ کھانے میں بھی مشکل مشکل پکوانوں کی فرمائشیں کرتا اور وینا کو مجبور کرتا کہ وہ کھانا اُس کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے بجائے اُسے ساتھ ساتھ تازہ روٹی پکا کر دے۔ آئے دِن اپنے دوستوں کو بھی گھر بُلا لیا کرتا۔ نہ صرف اِس لئے کہ وینا کو اُن کے لئے بھی کھانا پکانا پڑے بلکہ اِس لئے بھی  کہ وہ دوستوں کے ساتھ  بیٹھ کر گپیں مارا کرے اور وینا رات دیر تک اُس کا انتظار کیا کرے۔ اِن سب باتوں سے عرفان کو بڑا سکون ملتا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ عرفان کو وینا سے پیار ہو گیا تھا مگر وہ اُس سے ناخوش بھی نہ تھا۔ اُس نے وینا پر تقریباً کبھی ہاتھ نہ اُٹھایا تھا۔ کبھی کبھار جب وہ بہت زیادہ ہی بدزبانی پر اُتر آتی تو مجبوراً دو ایک لگا دیا کرتا۔ بچے بھی ماشااللہ دو بیٹے تھے، پیارے اور صحت مند۔ کاروبار بھی مناسب چل رہا تھا۔ عرفان زندگی سے مطمئن تھا۔

جینز اور بلاؤز پہن کر باہر جانے کی اجازت وینا کو شادی سے پہلے  بھی کبھی نہ ملی تھی مگر شلوار قمیض میں کسی بھی قسم کے فیشن پر کبھی کوئی پابندی نہ لگی تھی۔ دوپٹہ لینا ضروری تھا مگر نہ تو اِس کی لمبائی چوڑائی کی کوئی قید تھی نہ چادر لینے کی مجبوری۔ سُسْرال میں البتہ سختیاں زیادہ تھیں۔ عرفان دکان میں بیٹھا اپنے دوستوں کے ساتھ بازار میں آنے جانے والی ہر خاتون پر بے لاگ تبصرے کیا کرتا۔ کِس عورت کے پُستان کتنے بڑے ہیں، وہ کون سے سائز کی بْراَ پہنتی ہو گی ۔  یہ پستان  کتنے کَسّے ہوئے یا ڈھلکے ہوں گے،  ان تمام معاملات  پر عورت دیکھتے ہی تبصرے شروع ہو جاتے اور شرطیں تک بَد لی جاتیں۔ کون سی عورت کولہے کتنے مٹکاتی ہے اور اِس مٹکا مٹکی سے اُس کے سونے کی کن عادات کا پتا ملتا ہے اِس پر بھی سیر حاصل گُفتگو ہوا کرتی۔ اِس کے علاوہ کمر کے ناپ سے اندامِ نہانی کی پکڑ کا اندازہ کرنا اور ہونٹوں کی بناوٹ اور موٹائی سے اُن کے رسیلے پَن پر روشنی ڈالنا بھی روز کا معمول تھا۔ چونکہ ان تمام تبصروں میں عرفان خود بھی پیش پیش ہوتا، لہٰذا اُسے اچھی  طرح  علم تھا کہ بازار میں آئی عورت کسی کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہو ہی نا سکتی تھی۔ بازار کے باسیوں کے لئے بازار میں آئی عورت ایک بازاری عورت ہوتی تھی  اور رنگ، نسل اور عُمر کی قید کے بغیر اِن بازاری عورتوں پر ننگے تبصرے کرنا بازار کی رِیت تھی۔ چنانچہ عرفان اِس بات کا سخت مخالف تھا کہ وینا کہیں بھی باہر آئے جائے۔ اور اگر کہیں جانا ناگزیر ہی ہو تو کالے رنگ کے موٹے کپڑے کے عبایا کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔

بازار میں تو خیر وینا کا بھی جا کر اکثر دَم ہی گُٹھتا۔ اپنے گھروں میں بہن، بیٹیوں والے شریف لوگ بازار میں ایسی گندی بھوکی نظروں سے وینا کے عبایا سے ڈھکے بدن  کو  گھورتے،  اُن اُن حصّوں کو گھورتے، اور مسلسل  ایسے گُھورے جاتے کہ اُسے متلی سی ہونے لگتی۔ مگر کچھ جگہوں پر وہ اپنے الہڑ پن کی تسکین کر پاتی۔ مثلاً بچوں کے سکول میں کچھ آدمی ایسے تھے جو بڑی بڑی گاڑیوں میں اپنے بچوں کو لینے آتے اور وینا یا کسی بھی عورت کو نہ گھورتے۔ ہاں البتہ جب کوئی ماں کسی بہانے سے اپنے حسن کی جھلک دکھاتی تو کَن اَکِھیوں سے ضرور دیکھتے۔ ایسے ہی کچھ باپوں کو وینا نے تاڑ رکھا تھا۔ جو جوان بھی تھے، حسین بھی اور امیر بھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جس وقت وینا اپنے بچوں کو سکول لینے جاتی تو اُن میں سے بھی کوئی آیا ہوتا۔ اور وینا صرف اور صرف یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آیا کہ اُس کے حسن میں مردوں کو رِجھانے کی کَشِش ابھی باقی ہے یا نہیں، کبھی اپنا سکارف اُتار کر بال باندھنا شروع کر دیتی، کبھی عبایا کے بٹن کھول بند کر کہ اپنے سینے کے اُبھاروں کے نظارے کا موقع فراہم کرتی تو کبھی عبایا کہ نچلے سِروں کو زمین سے بچانے کہ بہانے اپنی گوری گوری گودا بھری پنڈلیوں کے کچھ حصوں کا نظارہ کروا دیا کرتی۔ اور ہر بار اِس احساس سے اُس کا دِل خوشی سے جھوم اُٹھتا کہ اب بھی وہ جس مَرد کو چاہے اپنے اِشاروں پر نچا سکتی تھی۔ اپنے نسوانی حسن اور پُر کشش کَسے ہوئے جسم کے بارے میں اُس کے اندازے بالکل سہی تھے۔ پھر اُسے عرفان جیسے واجبی شکل و صورت، کم پڑھے لکھے اور سفید پوش آدمی کے پَلّے کیوں باندھ دیا گیا تھا؟ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا اور بچے بڑے ہو رہے تھے، وینا کے اندر ایک احساسِ محرومی جڑ پکڑتا جا رہا تھا۔

وینا کے والد اُس کی شادی عرفان سے کر کہ بہت خوش تھے۔ شریف تو تھے، لیکن جہاندیدہ آدمی تھے۔ جانتے تھے کہ اس معاشرے میں  عورت کے جسم کی خوبصورتی کا مول لوگ صرف اُس وقت لگاتے ہیں جب یہ جسم بازار میں بکنے آتا ہے ۔ شخصیت عورت کی بھی ہوتی ہے،  اس معاشرے میں  یہ ایک انہونی سی بات ہے۔  اور جو عورت اپنے خاوند کی پوری طرح سے وفادار اور وفا شعار نہ ہو وہ بازاروُ عورت ہوتی ہے چنانچہ وفاداری ایک شرطِ لازم ہے  کوئی خوبی نہیں۔ لہٰذا لڑکی کی شادی کا دارومدار اُس کے باپ کی معاشی حیثیت پر ہی ہوتا ہے۔ اپنی اوقات کے بارے میں وینا کے والد کو کوئی خوش فہمی نہ تھی۔ چنانچہ جِن چند گھروں میں  رشتہ کی بات ذرا آگے بڑھی اُس میں سب سے بہتر جوڑ  اُنہیں عرفان کا ہی لگا۔
ایک دن  سکول کے باہر وینا کو ثانیہ مل گئی۔
"اری وینا یہ تو ہے؟" اسے اپنے پیچھے سے ایک کراری آواز آئی۔
مڑ کر دیکھا تو ثانیہ تھی۔  ایک گاڑی کی ڈرایئونگ سیٹ پر بیٹھی جوش و خروش سے اسے ہاتھ ہلا ہلا کر بلا رہی تھی۔ وینا بھی کِھل اٹھی۔ کولج کی ساری یادیں عود آئیں اور رنگین خوابوں سے میّزن بے فکری کی زندگی نظروں کے سامنے ناچنے لگی۔ جب تک وینا گاڑی تک پہنچی پیچھے سے ہارن بجنے شروع ہو گئے تھے۔ وہ اُچک کر گاڑی میں جا بیٹھی۔
"واہ جی، پھٹیچر پرنس نے گاڑی لے لی ؟" وینا نے ہنستے ہوئے اسے چھیڑا۔
"جی نہیں یہ میری ہے" ثانیہ نے گاڑی سڑک کے کنارے لگاتے ہوئے کہا۔
"دو دو گاڑیاں؟ واہ " وینا نے کسی نرتکی کی طرح ہاتھ نچاتے ہوئے تعریف کی۔
"جی نہیں۔ اس پھٹیچر پرنس سے میں نے جان چھڑا لی۔ کمبخت نری ٹنشن ہی تھا۔" گاڑی پارک کر کہ ثانیہ تھوڑا سا مڑ کر وینا سے باتیں کرنے لگی۔
"طلاق؟  چچ چچ چچ۔" وینا نے  افسوس کا اظہار کیا۔
"طلاق نہیں خلع۔ میں نے چھٹی کروا دی سالے کی" ثانیہ نے  ہنس کر کہا۔
"کیا؟ کیا ہوا؟ تیری تو اتنی فلمی شادی تھی۔ پیار، محبت، عشق۔ پھر یہ سب  کیسے ہوا؟" وینا نے پریشان ہو کر کہا۔
پھر ثانیہ نے اسے اپنی کہانی سنائی کہ اس کا پڑھائی میں زیادہ جی تو نہیں لگتا تھا مگر چوں کہ ٹونی پرنس سے اس کی شادی نہ ہو رہی تھی لہٰذا وہ پڑھتی رہی  اور اسی طرح معاشیات میں ایم-اے کر گئی۔  پھر آخر کار اس کی شادی ٹونی پرنس سے ہو ہی گئی۔ ایک بیٹا بھی ہو گیا۔ مگر شادی اچھی طرح نہ چل رہی تھی۔ ٹونی کوئی خاص کام بھی نہ کرتا تھا اور اسے مارتا پیٹتا بھی تھا۔  تھا بھی صرف میٹرک۔  شادی کے چند ہی سالوں میں ثانیہ  کو اندازہ ہو گیا کہ جوانی کے جوش میں  اس نے ٹونی  کو اپنے خوابوں کا شہزادہ بنا تو لیا تھا مگر ان دونوں کی طبعیتیں کسی طرح نہ ملتی تھی۔  ایک روز ٹونی نے اسے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔  غصے میں آ کر ثانیہ نے نوکری کر لی۔ اور پھر اس کی آنکھیں   کھل گئیں۔ کمپنی ملٹی نیشنل تھی۔ کام کیا تو  ثانیہ کو مزہ آنے لگا۔ کچھ ہی مہینوں میں کمپنی نے اسے گاڑی بھی دے دی۔ پیسے بھی آنے لگے، گاڑی بھی مل گئی، کام میں بھی قدر شناسی ہورہی تھی۔ ثانیہ کے لئے زندگی غبارے کی طرح پھولتی گئی اور ٹونی سے صلح کے امکانات  معدوم ہوتے گئے۔  نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ مرد  بڑے  پڑھے لکھے اور  مہذب  بھی ہوتے ہیں۔  پھر جب تک وہ اتنی ترقی کر گئی کہ کمپنی  کے وظیفہ  پر  امریکہ سے کورس کر آئی تو آتے ہی اس نے ٹونی سے خلع لے لیا ۔  اور اب کمپنی اسے علیحدہ فلیٹ بھی لے کر دے رہی تھی۔ ثانیہ اپنی زندگی سے بہت خوش تھی۔
بچوں کو لے کر جب وینا  گھر جانے کے لئے رکشے پر بیٹھی تو اس کی نظروں میں کولج اور کمپنی والی  دو ثانیہ ناچ رہیں تھیں۔ بچوں کو کپڑے بدلنے بھیج کر وینا باورچی خانے سے کھانا لانے گئی تو  دیگچی دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ اس کی نند نے پھر کھانے میں سے بوٹیاں نکال لیں ہیں۔ اس نے اسی لئے دیگچی کا ڈھکنا ایک خاص انداز سے رکھا تھا جو کہ صاف ہلا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس نے بوٹیاں گنیں تو شک یقین میں بدل گیا۔  
آج  اس حرامزادی کی خیر نہیں، وینا نے سوچا۔ عرفان کو  آنے دو۔ آج تو میں اس سارے خاندان کی ماں بہن ایک کر دوں گی۔  مارتا ہے تو مارے ۔ آج نہیں چھوڑوں گی !

1 comment: