Saturday 25 March 2017

عدالتی کارروائی کی ماہیت- اصول قانون

از
ٹیپو سلمان مخدوم
Benjamin Nathan Cardozo


بینجامِن ناتھن کورڈوذو، 1880-1938، امریکہ کی سپریم کورٹ کے یہودی جج تھے۔ یئل یونیورسٹی میں انہوں نے لیکچر دیئے جو نیچر آف جوڈیشل پروسیس کے نام سے کتابی شکل میں چھپے اور بہت مشہور ہوئے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس کارروائی پر اظہارِ خیال کیا ہے جو منصف کی کرسی پر بیٹھ کر قاضی کیا کرتا ہے۔ اپنے ایک لیکچر میں جج صاحب کچھ اس طرح فرماتے ہیں:


ملک میں بے شمار عدالتیں روزانہ سینکڑوں مقدمات نمٹاتیں ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہوں کہ اگر آپ کسی جج سے دریافت کریں گے کہ عدالتی کارروائی کی ماہیت کیا ہوتی ہے تو ہزاروں دفعہ اس کارروائی کو سرانجام دینے والا یہ شخص آپ کو فر فر جواب دے گا۔ میری بات کا یقین کیجیے آپ کا یہ گمان کسی خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ 

اگر کسی وقت کوئی عام آدمی کسی ایسے ہی تجربہ کار جج صاحب سے پوچھ ہی بیٹھے کہ عدالتی کارروائی کی ماہیت کیا ہوتی ہے تو جج صاحب آئیں بائیں شائیں کر کہ بات ٹال دیں گے۔ یہ کہہ کر جان چھڑوا لیں گے کہ یہ بڑی تکنیکی کارروائی ہے قانون سے نابلد کسی انسان کو سمجھانی مشکل ہے۔ لیکن بعد میں تنہائی کے لمحات میں جج صاحب کا ضمیر ضرور اُن کی ملامت کرے گا۔ وہ سوچیں گے کہ یہ عدالتی کارروائی، جسے وہ ہزار ہا بار سرانجام دے چکے ہیں اور روزانہ دیتے ہیں، اس کی ماہیت آخر ہے کیا؟ مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ کیا کرتے ہیں؟  فیصلے کے لیے میں معلومات کے کن ماخذوں سے استفادہ کرتے ہیں؟  ان معلومات کو کس حد تک اپنے مقدمہ کے فیصلے پر اثر انداز ہونے دیتے ہیں؟ اور  اصل میں انہیں کس حد تک اثر انداز ہونا چاہیے؟ اگر مقدمہ پر کوئی فتویٰ سابق یعنی پریسیڈینٹ لاگو ہوتا ہے تو کب وہ  اُس کی پیروی کرنے سے انکار کرتے ہیں؟  اگر مقدمہ پر کوئی بھی فتویٰ سابق لاگو نہ ہوتا ہو تو وہ کس طرح وہ ضابطہ دریافت کرتے ہیں  جس پر پیشِ نظر مقدمہ بھی حل کر لیں اور جو آنے والے مقدمات کے لئے بھی فتویٰٰء سابق کی حیثیت اختیار کر سکے؟ کب ان کا  نظریہء انصاف ان کے  فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اور کس حد تک؟

یہ سب ایک طلسماتی سی کارروائی لگتی ہے جسے سمجھنے کے لئے ہمیں ذرا غور کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے ہمیں معلوم کرنا ہو گا کہ ایک جج پیش کردہ مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لئے جن قوانین کو استعمال کرتا ہے وہ کیسے تلاش کرتا ہے؟ بہت دفعہ یہ تلاش آسان ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً یہ ناگزیر قانون ،آئین یا کسی ضابطہء قانون کی شق میں مل جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جج کا کام آسان ہوتا ہے۔ کئی دفعہ البتہ قانون کو پیش کردہ مقدمہ پر لاگو کرنے کے لئے اُس کی تشریح کرنا پڑتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مقننہ کی زبان کچھ مبہم ہوتی ہے لہٰذا عدالتی تشریح کے ذریعے اس کے معنی واضح کئے جاتے ہیں۔ مگر متعدد بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو قانونی شق مقدمہ پر لاگو ہو سکتی ہے اس سے متعلق مقننہ کا کوئی مطلب ہوتا ہی نہیں کیونکہ کسی ایسے مقدمہ کا گمان بھی قانون تشکیل دیتے ہوئے مقننہ کے زیرِ غور نہیں ہوتا۔ ایسے مقدمات میں جج کا کام مقننہ کی منشا دریافت کرنا نہیں بلکہ یہ قیاس کرنا ہوتا ہے کہ اگر یہ معاملہ مقننہ کے سامنے ہوتا تو وہ اس شِق کی کیونکر تشکیل کرتی؟ یہ ایک طرح کی قانون سازی ہے۔ اس طرح کی قانون سازی عدالتی نظام میں ناگزیر ہے۔ یہ عدالتی قانون سازی جج صاحبان معاشرتی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے  کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمات کے فیصلوں میں جج صاحب کی اقدار کا بڑا عمل دخل نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا  انصاف کی فراہمی کا دارومدار آخرِ کار جج کے کردار پر جا کر منتہج ہو جاتا ہے۔ 

کئی بار البتہ ایسا ہوتا ہے کہ پیش کردہ مقدمہ کے بارے میں کوئی بھی آئینی یا قانونی شق  سرے سے لاگو ہی  نہیں ہوتی۔ ایسے مقدمات میں جج کو کسی فتویٰء سابق پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں اکثر معاملہ فتاوائے سابقہ کا تنقیدی جائزہ لے کر سب سے ہم پلہ فتوے کے مطابق مقدمہ کا فیصلہ کرنے سے حل ہو جاتا ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اکثر جج صاحبان اس سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے۔ جب کہ دراصل عدالتی کارروائی کی معراج اس سے آگے  ہی واقع ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب کہ جج صاحب کی راہنمائی کے لیئے کوئی بھی قانونی ضابطہ یا فتویٰء سابق موجود نہیں ہوتا اور انہیں معاشرتی اقدار اور فلسفہء قانون کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ دینا ہوتا ہے۔

اشتراکی نظامِ قانون یا کومَن لاء سِسٹَم میں قانون کا اِرتقاء ججوں کے کسی حد تک عدالتی فیصلے کرنے میں آزادی پر ہی منحصرہے۔ مگر اس آزادی کی دو شرائط ہیں۔ پہلی یہ کہ نیا فیصلہ اصولی طور پر پچھلے فیصلوں کی منطقی توضیح ہو۔ اور دوسری یہ کہ پیش کردہ مقدمہ میں یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہو۔

No comments:

Post a Comment