Saturday 3 December 2016

ایک وکیل صاحب کی کہانی

از ٹیپو سلمان مخدوم




خزاں کی دوپہر کا وقت تھا جب وکیل صاحب نے گاڑی دفتر کے باہر کھڑی کرکہ چابی ہشیار کھڑے ملازم کو دی کہ گاڑی کو مناسب جگہ لگا دے اور دفتر میں آ گئے۔ اندر منشی نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ ہی ان کے کمرے میں آ گیا۔ اندر آتے ہی منشی نے فر فر اگلے دن کے مقدموں کی تفصیل بتانی شروع کر دی۔ وکیل صاحب عدالتوں میں سارا دن کھجل ہو کر آ رہے تھے۔ کسی عدالت میں گواہوں پر جرح کرتے ہوئے سوال پر سوال کرنے پڑے کہ گواہ سچ بولنے کو تیار ہی نہ تھے اور ان کے منہ سے سچ اگلوانا ایک معرکہ بنا کھڑا تھا۔ کسی عدالت میں ایک ہی قانونی شق کی مختلف طریقوں سے تفسیر کرنی پڑی، ایک کے بعد ایک پرانے عدالتی فیصلے جج صاحب کو پڑھانے پڑے مگر جج صاحب کسی اور ہی منطق پر چل رہے تھے۔ جھنجلا کر وکیل صاحب نے تاریخ کی درخواست کر دی جسے جج صاحب نے بخوشی قبول کر لیا۔ اگلے مقدمے میں ایک بحث بر درخواست تھی، یعنی ایک درخواست پر بحث کرنی تھی، جو جب شروع ہوئی تو وکیل صاحب کو احساس ہوا کہ ایک دستاویز تو وہ مثل یعنی فائل میں داخل کرنا بھول ہی گئے تھے۔ بڑی مشکل سے اس مقدمے میں بھی انھیں تاریخ ہی لینی پڑی۔ ان کے علاوہ بھی گیارہ مقدمات تھے جن میں سے کچھ میں کاروائی ہوئی اور کچھ میں کسی نہ کسی وجہ سے تاریخ پڑ گئی۔

جس مقدمہ میں تاریخ پڑی وکیل صاحب نے شکر کر کہ لے لی کیوں کہ روزانہ مختلف عدالتوں میں ان کے پندرہ سے بیس مقدمات لگے ہوتے ہیں اور ایک دن میں پندرہ مقدمات میں صیح معنوں میں کاروائی کرنا ایک وکیل کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ یہ بات کہ انہیں کم مقدمات میں وکیل ہونا چاہیے تاکہ ایک دن میں ان کے کم کیس لگیں اور وہ ہر تاریخ پر ہر مقدمے پر خصوصی توجہ دے سکیں ان کے نزدیک ظلم تھی۔وہ اس لئے کہ ان کے زیادہ تر مقدمات ایسے لوگوں کے تھے جو یا تو چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرتے تھے یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ بہت زیادہ فیس ادا نہ کر سکتے تھے، ان کے اکثر مسائل تھے تو چھوٹے چھوٹے مگر ظاہر ہے کہ ان بچاروں کے لئے یہ جینے مرنے کے معاملے تھے۔ یہ سب سفید پوش لوگ چاہتے تھے کہ ان کے مقدمات کوئی اچھا اور تجربہ کار وکیل لڑے۔ مگر اچھے اور تجربہ کار وکلاء فیس اتنی مانگتے جو ان سائلین کے بس سے باہر ہوتی۔ لیکن وکیل صاحب ایسے لوگوں کے مقدمات لے لیا کرتے تھے۔ فیس بھی کم لیتے اور مقدمات بھی اچھی طرح لڑتے۔ لیکن اپنے تین بچوں کو کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے اور دوسرے خرچے پورے کرنے کے لئے انہیں یہ سمجھوتہ کرنا پڑا کہ وہ کم قیمت پر مقدمات بْک تو کر لیتے مگر پھر انہیں کافی زیادہ مقدمات جمع کرنے پڑتے تاکہ تھوڑا معاوضہ لینے کے باوجود وہ اپنے خرچے بھی پورے کر سکیں۔
کئی دفعہ وکیل صاحب نے سوچا کہ وہ کیوں زیادہ مقدمات لیں؟ بس اتنے مقدمات لیں جنھیں وہ ہر پیشی پر آسانی سے کر سکیں۔ خود بھی پرسکون زندگی گزاریں، مقدمات بھی اچھے طریقے سے لڑیں اور سائلین کو بھی خوش رکھیں۔ مگر ایسا کرنے کہ لئے انھیں دو میں سے ایک کام کرنا پڑتا۔ یا تو وہ اپنی فیس بڑھاتے تاکہ تھوڑے مقدمات میں سے ہی اپنے خرچے پورے کر سکیں یا پھر وہ اپنے خرچے کم کرتے۔ فیس بڑھاتے تو متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو جاتے، جس کا ان کو کم اور سفید پوش سائلین کو زیادہ نقصان ہوتا کہ قابلیت کی وجہ سے انہیں تو امراء کے پھر بھی کچھ مقدمات مل جاتے مگر ان مجبور لوگوں کو شاید اس معاوضے پر عمدہ وکلاء اتنی آسانی سے نہ مل پاتے۔ دوسری طرف اپنے خرچے کم کرتے تو بیوی اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے بچے شور مچاتے اور ان کے اعتراضات کچھ اتنے ناجائز بھی نہ ہوتے کہ اوّل تو وہ کوئی بہت شاہانہ زندگی نہیں گزار رہے تھے اور پھر جب وہ بازار میں بیٹھے اپنے ہنر کا معاوضہ ہی لے رہے تھے تو بازاری اصول کے مطابق سب سے اونچی بولی لگانے والے کو کیوں مال نہ اٹھواتے؟ سو انھوں نے سمجھوتا کر لیا۔ مقدمات زیادہ مگر معاوضہ تھوڑا۔
منشی کی فر فر سے وکیل صاحب اوازار تو ہو رہے تھے مگر یہ روز کا وطیرہ تھا اور مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے ضروری بھی۔ کس مقدمہ میں گواہوں پر جرح کرنی تھی اور کس میں بحث۔ کس میں انھیں آخری موقع تھا اور کس میں مخالف فریق کو۔ سنتے رہے اور حساب لگاتے رہے کہ کون کون سے مقدمات میں اب تاریخ ملنی مشکل ہے اور وقت آگیا ہے کہ انہیں تیار کر کہ کل کاروائی کر دی جائے۔ روز کی طرح یہ حساب کچھ خاص مشکل ثابت نہ ہوا اور انہوں نے تین مقدمات کو اگلے روز کے لئے تیار کرنے کا فیصلہ کر کہ منشی کو فائلیں لانے کا کہا۔ فائلیں آنے پر وکیل صاحب نے ایک گہرا سانس بھرا اور کام میں جت گئے۔
ابھی ایک گھنٹا ہی کام کر پائے ہوں گے کہ منشی نے پیغام دیا کہ ایک خاتون اپنے مقدمے کے سلسلے میں ملنا چاہتی ہیں۔ چونکہ منشی کو تنخواہ برائے نام ہی ملتی اور اس کی اصل روزی بھی مقدمات کی فیسوں سے ملنے والے منشیانے ہی تھے لہٰذا وہ بڑا خیال رکھتا کہ کوئی پرانا سائل ناراض نہ ہو اور کوئی نیا آنے والا سائل مقدمہ دیے بغیر جانے نہ پائے۔ منشی نے وکیل صاحب کو زور دے کر بتایا کہ یہ خاتون ایک بڑی گاڑی میں تشریف لائی تھیں جبکہ ڈرائیور اور ایک ملازمہ ہمراہ تھیں۔ سائل کی امارت کا ذکر سن کر کام میں منشی کے مخل ہونے سے وکیل صاحب کو جو احساسِ جھنجلاھٹ ہوا تھا وہ جاتا رہا اور انہوں نے سائلہ کو اندر بھیجنے کا عندیہ دیا۔ جب سائلہ اندر داخل ہوئی تو وکیل صاحب کی سارے دن کی تھکن کافور ہو گئی۔ وکیل صاحب نہ تو خراب کردار کے مالک تھے نہ ہی اخلاق سے گری ہوئی سوچ رکھتے تھے۔ پھر بھی ایک خوبصورت خاتون کو دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ 
یہ ایک سرو قد خاتون تھیں۔ عمر چالیس کے پیٹے میں ہو گی۔ جسم بھرا بھرا مگر ملائم۔ رنگ تازے دودھ سے زیادہ سفید اور جلد گویا صبحِ پُرنور کی مانند اُجلی۔ ستواں ناک، موٹے موٹے ہونٹ جن پر یاقوتی سرخی گویا قیامت تھی۔ صراحی دار گردن۔ وکیل صاحب نے اٹھ کر خاتون کا استقبال کیا، انھیں اپنے میز کے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور منشی سے چائے لانے کا کہہ کر خود بھی بیٹھ گئے۔ بجھے ہوئے سنہری رنگ کی شلوار قمیض کے اوپر ہلکے مٹیالے رنگ کی چادر اجلی رنگت پر غضب ڈھا رہی تھی۔ بیٹھتے ہوئے چادر سر سے ڈھل کر کندھوں پر آگری تو وکیل صاحب نے دیکھا کہ بال کالے سیاہ اور لانبے تھے۔ چال ڈھال، سلام کہنے اور سونے کے کنگنوں کو کلائیوں پر درست کرنے کے طریقے سے وکیل صاحب نے اندازہ لگایا کہ سائلہ تہذیب یافتہ اور سلجھی ہوئی خاتون تھی۔ 
حال چال پوچھنے اور چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد وکیل صاحب نے آنے کا مقصد دریافت کیا۔ خاتون نے بتایا کہ وہ ایک تھیٹر میں گائکہ  ہیں اور تھیٹر کے مالک نے پچھلے ایک سال میں ان کی ادائیگی قسطوں میں شروع کر رکھی ہے۔ واجب الادا رقم بڑھتے بڑھتے اب ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پہلے کام اچھا چل رہا تھا اِس لئے انہوں نے تقاضے پر زور نہ دیا۔ اب جب کہ اس تھیٹر میں کام کم ہوتا جا رہا ہے تو وہ ایک دوسرے تھیٹر میں کام کرنا چاہتی ہیں لیکن اگر انہوں نے اپنی رقم وصول کیے بغیر یہ تھیٹر چھوڑا تو مالک انہیں ان کی بقایا رقم کبھی نہ دے گا۔ اس سلسلے میں ان کے قانونی حقوق کیا ہیں وہ معلوم کرنا چاہتی تھیں۔ وکیل صاحب نے تحریری معاہدے کی موجودگی اور تھیٹر کی آمدنی کی دستاویزات سے متعلق ضروری سوالات پوچھ کر جب انہیں بتانا شروع کیا کہ ان کا مقدمہ قانون کی کون سی شق کے تحت ہو گا اور اس کے فیصلے میں کتنے سال لگیں گے تو خاتون نے مسکرا کر ان کی بات کاٹ دی۔ وکیل صاحب پر واضع کیا کہ مقدمہ دائر کرنے کا ان کا قطعا" کوئی ارادہ نہیں۔ وہ تو صرف اپنے قانونی حقوق سے آگاہی چاہتی تھیں۔ وکیل صاحب نے کچھ حیران ہو کر پوچھا کہ اگر وہ اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکٹائیں گی تو قانونی مشورہ کس کام کا؟ اِس پر وہ غزالی آنکھیں پھیل کر مزید بڑی ہو گئیں۔ 
کہنے لگیں "وکیل صاحب، آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ میں کس قماش کی عورت ہوں۔ آپ کے معاشرے میں میں طوائف کہلاتی ہوں۔ ایک بےعزت بازاری عورت جو بکاؤ مال ہوتی ہے۔ جسے پیسہ پھینک کر کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ میں اگر آپ کی عدالت میں اپنی محنت کا حق مانگنے بھی جاؤں گی تو جواب میں مجھ پر صرف کیچڑ ہی اچھالا جائے گا۔ آپ کی عدالت مفت میں میرے حسن کی تماش بینی تو کر لے گی، مگر میرا حق مجھے نہ دلوائے گی۔" وکیل صاحب نے سگریٹ سلگا لیا اور کچھ اداس ہو کر بولے "خاتون آپ کی بات میں بڑی حد تک سچائی ہے۔ مگر آپ کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ضرور ہے لیکن اب بھی یہاں بہت سے نیک دل لوگ بستے ہیں۔ آپ کے مقدمہ میں بلاشبہ مشکلات دوسرے مقدمات سے زیادہ ہوں گی لیکن اگر آپ ہمت نہ ہاریں تو مقدمے کا فیصلہ انشااللہ آپ کے حق میں ہی ہو گا۔" خاتون نے کرسی پر اپنا پہلو بدلا مگر اس کی وجہ سے جو ان کی چادر نے سرک کر ان کی قمیض کے بڑے گلے کو آشکار کیا اس کی کوئی پروا نہ کی۔ "وکیل صاحب میں بازاری ضرور ہوں مگر انسان ہوں کھلونا نہیں۔ میں اپنا حسن و جمال اور جسم بیچتی ضرور ہوں مگر آپ کے اس گھٹیا معاشرے کے مردوں کے گندے جسموں کو گدگدانے والا مشینی آلا نہیں ہوں۔ آپ جیسے چند باوقار مردوں کو چھوڑ کر اس معاشرے کے ہر عزت دار مرد سے مل کر میرے دل سے یہی صدا آئی کہ صہ-  اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے، جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔ جہاں جاتی ہوں گندی نظروں سے چھلنی کی جاتی ہوں۔ ہر مرد مجھے ایسے دیکھتا ہے گویا انسان نہیں نسوانی عضوِ مخصوصہ پہ جَڑا  ہوا جسم ہوں جسے محض ہر مرد کی عیاشی کا سامان بہم پہنچانے کے لئے پیدا کیا گیا ہو ۔" اتنا کہہ کر خاتون کے منہ سے ایک آہ سی نکلی اور باقی الفاظ حلق میں اٹک سے گئے۔ چند لمحے کے لئے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ اسی دوران چاۓ بھی آگئی۔ خاموش وقفے کے دوران خاتون نے اپنے آپ کو ذرا سنبھالا اور ملازم کے ہاتھ سے چاۓ کی پیالی لے کر وکیل صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوے بولیں "معافی چاہتی ہوں وکیل صاحب، چھوٹا منہ اور بڑی بات والا حساب ہے۔ طوائف میں ہوں اور منہ بھر کر گالیاں معاشرے کو دے رہی ہوں۔ مگر کیا کروں جو بھی ہوں انسان ہوں، اس آرزو میں کہ کبھی تو کوئی مجھے بھی انسان سمجھے سلگتی رہتی ہوں۔ کبھی کبھار ہی آپ جیسے لوگ ملتے ہیں جن کے لئے میرا وجود میری نسوانیت سے بڑھ کر بھی کچھ ہوتا ہے۔ بس ایسے لمحوں میں جی بھر سا آتا ہے اور بے اختیار ہو کر دل کی بھڑاس نکلنے لگتی ہے۔" 
وکیل صاحب نے ایک اور سگریٹ سلگا لیا اور بولے "خاتون، میری آپ سے ہمدردی انسانی نہیں پیشہ وارانہ ہے۔ آپ روزی کی خاطر اپنا جسم بیچتی ہیں اور میں اپنا دماغ۔ جو میرے آگے پیسہ پھینکتا ہے میں اس کے جھوٹے سچے مقدمے کے لئے ہر قسم کی تاویلیں گھڑ کر اسے جتوانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بولی میری بھی آپ کی طرح بازار ہی میں لگتی ہے، آپ کے جسم کی اور میری ذہانت کی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میرا کاروبار معاشرے کو قبول ہے مگر آپ کا نہیں۔" خاتون چند لمحے وکیل صاحب کو حیرت زدہ تکتی رہی پھر ایک پاکیزہ آنسو بے قابو ہو کر بہ نکلا۔ 

1 comment: