از
ٹیپو سلمان مخدوم
ٹیپو سلمان مخدوم
کھانے میں ڈاکٹر کو ران اور
سینہ پسند تھا۔ اور ہولے ہولے چبانے میں بھی۔ اس کے علاوہ اسے زندگی میں کچھ خاص
پسند نہ تھا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ زندگی سے اوا زار تھا، یا مردم بیزار
تھا۔ اسے بس ایک غیر دلچسپ انسان کہا جا سکتا تھا۔ ایسا شخص جو ایک مجمعے کا حصہءِ
کامل تو ہو سکتا تھا لیکن اگر آپ اس کی ذات میں دلچسپی لینا چاہیں تو جلد ہی اوا زار
ہوں جائیں گے۔ بات کرنے کے لئے اس کے پاس چند گنے چنے ہی مضامین تھے۔ اگرچہ دولت
کا اسے شوق نہ تھا لیکن یہ بات جان سکنے کے لئے جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے وہ اس سے
عاری تھا۔ زندگی کس چڑیا کا نام ہے؟ وہ دنیا میں کیا جھک مار رہا ہے؟ یا وہ کون
ہے؟ یہ سوال کبھی اس کے ذہن میں ابھرنے نہ پائے تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو
گا کہ اس نے کبھی ابھرنے نہ دئیے تھے۔ بچپن سے لڑکپن کا سفر تو اس نے بڑی کامیابی
سے طے کر لیا تھا مگر لڑکپن سے جوانی تک
کا فاصلہ پینتیس سال کی عمر تک طے ہونے نہ پایا تھا ۔ بغیر کسی مبالغے کے آپ اسے
ایک پینتیس سالہ لڑکا کہہ سکتے تھے۔
کالج میں جب وہ امیر
ماں باپ کے لڑکوں کو پیسے اجاڑتے دیکھتا تو بجائے ان کے اوچھے پن پر ہنسنے یا ان
کی گھٹیا تربیت پر کڑھنے کے ، ان سے شدید مرعوب ہو جاتا۔ انہی سے دوستیاں گانٹھتا
اور ان کے ساتھ میں پورا اترنے کی سر توڑ کوششیں کرتا۔ اس کوشش میں جو تھوڑی بہت
تربیت گھر سے ملی تھی یا جو کچھ اچھے دوستوں کا اثر تھا وہ بھی جاتا رہتا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ امیروں کے لچھن
اپنانے کے لئے جو روپیہ درکار ہوتا ہے وہ باپ سے نکلواتا۔ اس کا باپ بذاتِ خود ایک
نا سمجھ سا آدمی تھا جس کے لئے کامیابی کا میعار دولت، اچھی تعلیم کا مطلب مہنگا
کالج اور اچھی صحبت کے معنی بڑے لوگوں کے بچوں سے دوستیاں تھا۔ چنانچہ اس کا باپ
بلا چوں چرا اسے منہ مانگی رقوم مہیا کر دیا کرتا گو کہ ایسا کرنے کےلئے اسے اپنے
مالی وسائل پر خاطر خواہ بوجھ ڈالنا پڑتا۔ مگر بیٹے کی اچھی زندگی کے لئے وہ ایک
اچھے باپ کی طرح یہ قربانیاں چپ چاپ دیا کرتا۔
ایک دن ایک شادی میں وہ
اکیلا بیٹھا تھا۔ اس کی بیوی نے اسے ایسے اداس اور تنہا پایا تو اچانک اس پر بڑا
پیار آگیا۔ اور بیگم صاحبہ نے بڑی تگ و دو سے انتظام کیا کہ ان کی ایک سہیلی کا
خاوند اس کے ساتھ بیٹھ جائے۔ ایک نو وارد سے تقریباً زبردستی تعارف کروائے
جانے پر اس نے کچھ خاص ردِعمل کا اظہار نہ کیا۔ سلام دعا اور رسمی حال احوال
دریافت کرنے کے بعد اس نے نو وارد سے دریافت کیا کہ وہ کیا کرتا ہے۔ نووارد نے زرا
جھینپ کر کہا کہ وہ وکالت کے پیشے سے منسلک ہے۔ نووارد میں خود اعتمادی کا فقدان
دیکھ کر اس میں بجلی سی دوڑ گئی۔ بڑی مہارت سے اس نے تین سوالوں میں ہی بوجھ لیا
کہ وکیل صاحب کی وکالت بہت زیادہ نہیں چلتی۔ اس راز کے فاش ہونے کے ساتھ ہی، جس کو
قائم رکھنے کی وکیل صاحب نے اپنے تئیں کافی سعی کی تھی، اس نے عجیب سی خوشی اور
آزادی محسوس کی۔ اس نے مسکرا کر وکیل صاحب کو دیکھا اور اور دریافت کیا کہ وہ کہاں
رہتے ہیں۔ یہ سوال اس نے محض اپنی معاشی برتری پر مہر ثبت کرنے کے لئے پوچھا تھا۔
پھر اس نے زرا گھما پھرا کر پوچھا کہ وکیل صاحب نے گاڑی کون سی رکھی ہوئی ہے۔ جب
گاڑی بھی اپنے سے بہت چھوٹی اور پرانی نکلی تو اس نے اترا کر اپنی گاڑی کی چند
تعریفیں کیں اور وکیل صاحب کو باور کروایا کہ ہر سال گاڑی بدلنا اس کا شوق ہے۔ اس
کے بعد کوئی ضرورت تو نہ تھی مگر مدِمقابل کی شکست سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے
اس نے بچوں کے سکول کا ذکر چھیڑ دیا اور اپنے بچوں کے بڑے سکول کی چند باتیں کیں
اور پھر وکیل صاحب کو سنانے کے لئے کہ وہ اپنے بچوں کو کتنے مہنگے سکول میں پڑھاتا
ہے اس نے جھوٹ موٹ گلہ کیا کہ دیکھیں نہ وکیل صاحب تعلیم کتنی مہنگی ہو گئی ہے اب
میرے بچوں کا سکول ہی لیجئے ان کی فیس اتنی ہے، اب ایک عام آدمی اتنی فیس کیسے ادا
کر سکتا ہے؟ کتنی نا انصافی ہے نہ وکیل صاحب؟ اور وکیل صاحب نے مدقوق سے انداز میں
ہلکے سے سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
جب اسے احساس ہوگیا کہ
مدِمقابل پر اس کی برتری ثبت ہو چکی ہے اور اسے مزید اپنا بڑا پن ثابت کرنے کی
ضرورت نہیں تو اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اسے یوں محسوس ہوا گویا کہ ابھی تک وہ ایک دوڑ میں حصہ لے رہا تھا جس کا
اچانک اختتام ہو گیا ہو۔ اس نے فاتحانہ سے انداز میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور پہلی دفع نو وارد کو دوستانہ نگاہوں سے
دیکھا۔" یار تمہیں کھانا کس قسم کا پسند ہے؟ " اس نے بڑی بے تکلفی سے پوچھا۔
"مجھے تو سر جی نہاری بہت پسند ہے" وکیل صاحب نے کچھ شرمندہ سا ہو کر
کہا۔ "نہاری؟" اس نے اچھل کر
کہا۔ "نہاری کا تو میں دیوانہ ہوں۔ اور بار بی کیو میری کمزوری ہے۔" اس کے بعد اس نے لاہور کے چھوٹے بڑے اور اچھے
بُرے ریستوران ان کے گُنوں کے ساتھ گنوانے شروع کر دئے۔ کچھ دیر یہ ذکر اذکار کرنے
کے بعد اس نے محسوس کیا کہ وکیل صاحب ہوں ہاں ہی کر رہے ہیں۔ وہ سمجھ گیا کہ وکیل
صاحب کو کھانے پینے سے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی۔ چونکہ ان کے جاننے والے مشترکہ نہ
تھے لہٰذا وہ کسی کی چغلی بھی نہ کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے سیاست کی بات شروع کر دی۔
کچھ ہی دیر بات کرنے پر اُسے اندازہ ہو
گیا کہ وکیل صاحب اس میدان میں اس سے کوسوں آگے تھے۔ وہ ان معاملات میں معلومات
بھی رکھتے تھے اور ہر بات پر کتابوں کے حوالے بھی دیتے تھے۔ لہٰذا جلد ہی اِس
مضمون پر بھی بات ختم ہو گئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اب کیا بات کرے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ
آیا۔ کچھ دیر اسی طرح خاموشی چھائی رہی جس کے بعد وکیل صاحب نے آہستہ سے کہا کہ وہ
شاعری بھی کرتے ہیں۔ یہ سن کر اُس نے ایسی
عجیب ہوّنق نگاہوں سے وکیل صاحب کو دیکھا کہ وہ شرمندہ سے ہو گئے۔ اس کے بعد وہ
دونوں کھانے کے اعلان تک چپ چاپ بیٹھے
رہے۔
اگلے دن ڈاکٹر کے کلینک میں ایک ادھیڑ عمر آدمی داخل ہوا۔ گھبرایا
ہوا، بال الجھے، بٹن کھلے ، قمیض پینٹ سے باہر نکلی ہوئی۔ مریض کو الٹیاں آ رہی تھیں۔
ڈاکٹر کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ مریض کی حالت کافی خراب ہے اور وہ فوراً پزیرائی چاہتا تھا۔ اس نے برا سا منہ بنا لیا۔ منع کرنے ہی والا تھا کہ اس نے سوچا کہ جو چار
مریض اس سے مشورہ حاصل کرنے کا انتظار کر رہے وہ سب پرانے لوگ ہیں اور کوئی بھی
زیادہ بیمار نہ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ نیا مریض کسی موذی مرض میں مبتلا ہو اور لمبا علاج مانگتا ہو۔ کچھ اشتیاق بھرے انداز
میں اس نے اپنے کمپاونڈر کو اشارہ کیا کے نو وارد مریض کو اندر بھیج دے۔ مریض کے
کپڑے دیکھ کر اس نے پھر برا سا منہ بنا لیا اور اس کی حالت سن کر اس کے ارمانوں پر
گویا اوس ہی پڑ گئی۔ یہ تو عام سا بد ہضمی کا مرض تھا۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا۔ اس
نے مریض کو ٹیکہ لگا کر پاس ہی پڑے بستر پر لیٹا دیا اور دوسرے مریضوں کو دیکھنے
لگا۔ جب تک اس نے باقی چار مریضوں کو دیکھا آدھا گھنٹا گزر چکا تھا۔ اب وہ پھر نو
وارد مریض کی طرف متوجہ ہوا جس کی حالت اب سنبھل چکی تھی۔ مریض نے اب کے جب منہ
ٹیڑھا کر کہ انگریزی میں اس کا شکریہ ادا کیا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ ساتھ ہی مریض نے جیب سے مہنگا فون اور مہنگی گاڑی کی
چابی نکال کر دوسری جیب میں ڈالی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اب اس نے
اچانک بڑی مستعدی سے مریض کا دوبارہ طبی معاینہ شروع کیا جو پہلے کی طرح واجبی سا
نہ تھا بلکہ بڑا طفصیلی تھا۔ مریض کی حالت بھی بہتر تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی اتنی
توجہ دے رہے تھے، مریض کا خوش ہونا تو بنتا ہی تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے معلوم
کر لیا کہ مریض ایک بڑا افسر ہے۔ بڑا افسر اوپر سے امیر و کبیر، اس کے بڑے بڑے
لوگوں سے روابط ہونا تو لازمی تھا۔ اس کی توجہ ہلکی پھلکی چاپلوسی میں بدلتی گئی۔ مریض
بھی پھولے نہ سمایا۔ جب تک مریض اپنے کپڑے
وغیرہ ٹھیک کر کہ اس کے کلینک سے نکلا دونوں گہرے دوست بن چکے تھے۔ وہ بھی اب ایک
مشہور اور کامیاب ڈاکٹر تھا، افسر صاحب کی بھی اس سے دوستی کی خواہش کوئی انہونی
بات نہ تھی۔ افسران بھی تو بیمار ہوتے ہیں اور صحت یاب ہو کر انہوں نے بھی تو لوگوں کو بتانا ہوتا ہے کہ وہ
کس کس پائے کے ڈاکٹروں سے علاج کرواتے ہیں جو دوسروں کو چھوڑ کی پہلے ان کا علاج
کرتے ہیں۔ آخر کہ وہ افسر ہوتے ہیں کوئی ایرے غیرے نتھو خیرے تو نہیں۔
ایک دن ہسپتال میں ڈاکٹر کو نرس بلانے آئی۔ ایمرجنسی کیس تھا۔ کسی خاتون پر کڑاھی سے اُبلتا تیل گر گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ڈاکٹر کو جھٹکا سا لگا۔ چادر اس
طرح سے ہٹی ہوئی تھی کہ ایک پوری ٹانگ عریاں تھی۔ گوری چٹی بھری بھری جوان عورت کی
صحت مند اور خوبصورت ٹانگ۔ جس پر ران کے اندرونی حصے پر ایک بڑا سا لال دھبہ مزید قیامت ڈھا رہا تھا۔ ڈاکٹر مذہبی آدمی تو نہیں تھا مگر اخلاقیات کا بڑا قائل تھا۔ بڑوں کی عزت کرنا، مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا اور خواتین کی عزت وغیرہ کرنے پر وہ بڑی سختی سے عمل کرتا تھا۔ ڈاکٹر نے غصے سے نرس
کی طرف دیکھا اور بولا "نرس، آپ کو معلوم نہیں کہ اسلام میں پردے کے کیا احکامات
ہیں؟ جا ئیے اور کسی ڈیوٹی لیڈی ڈاکٹر کو بلائیے۔"
No comments:
Post a Comment