Tuesday 31 January 2017

آئین آخر ہوتا کیا ہے؟ - اصول قانون

از 
ٹیپو سلمان مخدوم




آئین دراصل ریاست کا ڈھانچہ یا نقشہ ہوتا ہے۔ آئین میں ہی درج ہوتا ہے کہ کس طور ریاست میں حکومت تشکیل دی جائے گی اور ریاست کو کون کون سے ادارے کس کس طور چلائیں گے؟  اور یہ بھی کہ ان اداروں میں کون کون سے لوگ کس طور تعینات کیے جائیں گے؟


آئین بھی دراصل ایک قانون ہی ہوتا ہے۔ البتہ آئین اور قانون میں فرق یہ ہوتا ہے کہ عام قانون کی نسبت آئین زیادہ مقدس ہوتا ہے۔ اس تقدس کے دو ستون ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آئین کو تبدیل کرنے کا طریقہِ کار عام قوانین کو تبدیل کرنے کے طریقے سے مختلف اور مشکل ہوتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آئین کی خلاف ورزی کے لئے عمومی طور پر خاص عدالتی ضوابط وضع کئے جاتے ہیں۔ 

آئین بنانے کے لئے آئین سازی کا اختیار ہونا ضروری ہے۔ یہ اختیار یا تو بندوق کے زور سے آتا ہے، جیسے کہ ہمارا 1962 کا آئین ایک فوجی آمر نے بنایا تھا۔ یا پھر یہ اختیار عوام کی نمائندگی سے آتا ہے، جیسے کہ ہمارا 1973 کا آئین عوام کے منتخب کردہ نمائندوں نے بنایا تھا۔



آئین بنانے کا مقصد یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ آئندہ سے ریاست کس طور چلائی جائے گی اور یہ کہ حکومت  کے مقابلے میں شہری کے کس قسم کے حقوق ہوں گے۔ ہمارے آئین کے مطابق ریاست جمہوری طریقے سے چلائی جائے گی۔ یعنی ریاست ویسے چلائی جائے گی جیسے کہ زیادہ تر پاکستانی اسے چلانا چاہتے ہیں اور زیادہ پاکستانی کیا چاہتے ہیں یہ عام انتخابات کے ذریعے معلوم کیا جائے گا۔ہمارا آئین یہ بھی کہتا ہے کہ عوام کے اختیارات عوام کی طرف سے پارلیمان استعمال کرے گی اور نظامِ حکومت وفاقی ہو گا، یعنی حکومتیں دو سطح پر ہوں گیں۔ کچھ اختیارات وفاقی پارلیمان اور وفاقی حکومت کے پاس ہوں گے جو وہ سارے پاکستان کے لئے ایک ہی طرح استعمال کرے گی۔ جبکہ باقی اختیارات صوبائی پارلیمان اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبے کے لئے استعمال کریں گی اور ہر پارلیمان اور حکومت اپنے صوبے کے لئے دوسرے صوبوں سے مختلف فیصلے کر سکتی ہے۔ جو شہریوں کے حقوق ہمارے آئین میں درج ہیں وہ بنیادی حقوق کہلاتے ہیں۔ آئین کے مطابق یہ حقوق نہ تو حکومت شہری سے چھین سکتی ہے نہ ہی مقننہ ان حقوق کے خلاف کوئی قانون بنا سکتی ہے۔ 

اگر تو کوئی آمر آئین بنائے تو وہ اپنی مرضی سے یہ ڈھانچہ بنا کر عوام پر ٹھونس دے گا۔ جبکہ اگر منتخب نمائندے آئین بنائیں تو اس کا طریقہِ کار یہ ہوتا ہے کہ انتخاب کا مقصد ہی یہ رکھا جاتا ہے کہ آئین بنانے والی اسمبلی منتخب کی جائے گی۔ لہٰذا تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں واضع کرتی ہیں کہ وہ منتخب ہو کر کس قسم کا آئین بنایں گی۔ جس قسم کا آئین عوام چاہتے ہیں وہ اس قسم کے منشور والی جماعت کو منتخب کر لیتے ہیں۔ اور پھر منتخب جماعتیں عوامی خواہشات پر مبنی آئین تشکیل دیتی ہیں۔ عام طور سے یہی منتخب آئین ساز اسمبلی اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے تحت پہلی قانون ساز اسمبلی کے طور پر کام کرنے لگتی ہے۔ 



عمومی طور پر آئین میں جو معاملات درج کئے جاتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں: ریاست کا نام کیا ہو گا۔ ریاست کی بناوٹ کیا ہو گی، مثلاً واحدانی یا وفاقی یا کنفیڈریشن وغیرہ۔ ریاست میں سیاسی نظام کونسا رائج ہو گا، مثلاً جمہوری، کمیونسٹ، شہنشاہی، وغیرہ۔ ریاست میں قانون بنانے کا حق کِسے ہو گا۔ ریاست میں حکمران کیسے تعینات کئے جائیں گے۔ ریاست میں عدلیہ کس طرح تشکیل دی جائے گی اور اس کا دائرہِ اختیار کیا ہو گا۔ ریاست میں شہری کے کون کون سے حقوق بنیادی ہوں گے جنہیں ریاست بھی ان سے چھین نہ سکے گی، وغیرہ۔

آئین کو تبدیل کرنا عام قوانین کو تبدیل کرنے سے دو طرح سے مختلف ہوتا ہے۔ پہلے تو آئین خود وضاحت کرتا ہے کہ اس میں تبدیلیاں کرنے کا کیا طریقہ ہو گا۔ یہ طریقہ عام قوانین کو تبدیل کرنے کے مقابلے میں بہت مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً ایک عام قانون میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے آئین کے مطابق قانون کی تبدیلی کو اسمبلی کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونا پڑتا ہے۔ پاس ہونے کے لئے قانون کو ایوان سے اکثریتی ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے آئین کے مطابق ہی آئین میں تبدیلی کے لئے دونوں ایوانوں سے دو تہائی ووٹ حاصل کرنے ضروری ہیں، جو عام طور پر حکومتی جماعت کے لئے بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔



ہماری عدالتِ اعظمٰی نے آئین کی تبدیلی پر بنیادی ڈھانچے کی ایک اور قدغن لگا کر اسے مزید مقدس بنا دیا ہے۔ عدالت نے فیصلہ دے رکھا ہے کہ جب بھی آئین بنایا جاتا ہے، اسے ایک بنیادی آئینی ڈھانچے کے تحت بنایا جاتا ہے۔ یہ بنیادی ڈھانچہ آئین سے بھی مقدس ہے۔ ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں پارلیمانی جمہوریت، وفاقی نظام حکومت، بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی اسلامی شقیں شامل ہیں۔ آئین کو تو دو تہائی اکثریت سے قانون ساز اسمبلی تبدیل کر سکتی ہے مگر آئین کے بنیادی ڈھانچے کو قانون ساز اسمبلی کبھی بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنا ایسے ہی ہے جیسے نیا آئین بنانا۔ لہٰذا جیسے نیا آئین بنانے کے لئے ایک نئی آئین ساز اسمبلی منتخب کرنا پڑتی ہے بالکل اسی طرح آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے لئے بھی ایک نئی آئین ساز اسمبلی ہی منتخب کرنا پڑے گی۔ قانون ساز اسمبلی، جس نے انتخابات میں اپنے منشور میں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی کوئی شق نہ رکھی تھی آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہ کر سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو عدالت ایسی تبدیلی کو کالعدم اور غیر موئثر قرار دے دے گی۔ 


آئین کی خلاف ورزی ہونے پر عدالتوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ دیوانی عدالت، عدالتِ عالیہ حتٰی کہ براہِ راست عدالتِ اعظمٰی میں بھی آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ جب جب فوجی آمر عوام کی منتخب حکومتیں گرا کر ریاست کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں انہیں پاکستان کے آئین کو معطل کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ آئین کے مطابق کوئی بھی ادارہ یا شخص زبردستی عنان حکومت نہیں سنبھال سکتا۔ 

6 comments:

  1. ما شاء اللہ بہت اچھی معلومات ہیں۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ختم_ نبوت والے قانون کا تعلق چونکہ آئین سے ہے اور اسے بدلنے کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے جو کہ نہیں ہوئی۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اپکا کیا مطلب ہے جناب۔

      Delete
  2. پلیز آئیں کی اقسام بتادیں

    ReplyDelete
  3. آپکی معلومات بہت اہم ہیں بہت بہت شکریہ

    ReplyDelete