Wednesday 26 July 2017

سندھوستان: کہانی

از
ٹیپو سلمان مخدوم

دبئی کے ایئرپورٹ پر تلاشیاں وغیرہ دے کر فارغ ہوا تو بوریت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کنکٹنگ فلائٹ چار گھنٹے بعد تھی۔ دن کے دو بج رہے تھے، ہر طرف ہڑبونگ اور شور شرابا مچا ہوا تھا۔ اچانک میری نظر اس پرکشش عورت پر پڑی جسے میں جہاز میں بھی دیکھ چکا تھا۔ وہ اکیلی بیٹھی تھی۔ اچھا تو وہ جو گنجا موٹا اس کے ساتھ بیٹھا تھا وہ اس کے ساتھ نہیں تھا۔ تیس سال کی متناسب بدن کی یہ سانولی عورت جینز پہنے اور بندی لگائےبیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ آس پاس کی کرسیاں خالی دیکھ کر میں نے ہمت کی اور ایک کرسی چھوڑ کر ساتھ بیٹھ گیا۔

Monday 24 July 2017

قیمت: کہانی


 از
ٹیپو سلمان مخدوم



یوں تو پاکستان میں بھی اب جہاز ٹنل سے لگ جاتے ہیں مگر اس کے امریکی  جہاز کو ٹنل مہیا نہ کی گئی۔ ایسا کچھ اگر امریکہ میں ہوا ہوتا  تو وہ  آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ اب اسے امریکی شہری ہوئے بیس برس ہو چکے تھے، امریکہ اب اس کے روم روم میں تھا۔ مگر پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں یہ سب وہ معمول سمجھتا تھا، گو کہ پچیس برس بعد لوٹ رہا تھا۔ آنے کا اس کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا مگر نوجوان بھتیجے کی ناگہانی موت نے اسے کچھ دنوں کے لئے ہی سہی، بھائی کا سہارا بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنازے پر نا بھی پہنچ سکا تو کوئی بات نہیں، چار دن بعد ہی سہی۔ اوپر  سے جہاز صبح کے چار بجے ہی لاہور اتر آیا تھا۔

Friday 21 July 2017

مٹی: کہانی


از
ٹیپو سلمان مخدوم



م اور ع کمرے میں داخل ہوئے اور آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ دونوں نے سگریٹ سلگا لئے۔ م نے دونوں پاوں میز پر رکھ دیئے۔ ع نے اپنے پاوں م کی رانوں پر رکھ لئے۔

م بولا: ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ میں اپنا زکام ٹھیک کرنےکے لئے بے بانگے چوزے کی یخنی پیوں؟
ع بولی: حکیم کہتے ہیں، اور میرے خیال سے ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ دیسی چوزے کی یخنی میں بڑی گرمی اور طاقت ہوتی ہے۔ زکام ٹھیک کر دے گی۔

م نے غصہ سے ع کو گھورا: تمہیں پتا ہے تم کیا کہ رہی ہو؟ اپنی ایک وقتی اور معمولی سی بیماری ٹھیک کرنے کےلئے میں ایک بچے، ایک چھوٹے بچے کی گردن پر چھری پھیروں تاکہ اس کا سارا خون بہہ جائے اور پھر اس کے بدن سے کھال کھینچ کر، اس کی انتڑیاں نکال کر اس کے مردہ جسم کو آگ پر رکھے پانی میں ابالوں؟ میں انسان ہوں کہ وحشی درندہ؟

ع ذرا سنبھل کر بولی: اب تم عجیب و غریب باتیں نہ کرو۔ مرغی کے چوزے اور بچے کو مت ملاو۔

Monday 3 July 2017

بے غیرت کتے : کہانی


از

ٹیپو سلمان مخدوم




وہ ایک کتا تھا۔ بے غیرت اس لئے تھا کہ اپنی بہن کے ساتھ سوتا تھا۔ کیا کہا جا سکتا ہے، جانور تھا کوئی ذات دھرم کو ماننے والا تو تھا نہیں۔ نہ کوئی اصول نہ شرم و حیا۔ اسے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بھائی یہ بے غیرتیاں تمہارے جنگل میں بے شک معمول ہوں گی مگر یہ جنگل نہیں مہذب معاشرہ ہے۔ نہ ہی اسے سائنس کی منطق سے قائل کیا جا سکتا تھا کہ ایسے عمل سے اجتناب کرو ورنہ اگلی نسلوں میں موروثی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، ہماری کزن میرج نہیں دیکھتے؟