از
ٹیپو سلمان مخدوم
م اور ع کمرے میں داخل ہوئے اور آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
دونوں نے سگریٹ سلگا لئے۔ م نے دونوں پاوں میز پر رکھ دیئے۔ ع نے اپنے پاوں م کی
رانوں پر رکھ لئے۔
م بولا: ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ میں اپنا زکام ٹھیک کرنےکے
لئے بے بانگے چوزے کی یخنی پیوں؟
ع بولی: حکیم کہتے ہیں، اور میرے خیال سے ٹھیک ہی کہتے ہیں۔
دیسی چوزے کی یخنی میں بڑی گرمی اور طاقت ہوتی ہے۔ زکام ٹھیک کر دے گی۔
م نے غصہ سے ع کو گھورا: تمہیں پتا ہے تم کیا کہ رہی ہو؟
اپنی ایک وقتی اور معمولی سی بیماری ٹھیک کرنے کےلئے میں ایک بچے، ایک چھوٹے بچے
کی گردن پر چھری پھیروں تاکہ اس کا سارا خون بہہ جائے اور پھر اس کے بدن سے کھال
کھینچ کر، اس کی انتڑیاں نکال کر اس کے مردہ جسم کو آگ پر رکھے پانی میں ابالوں؟
میں انسان ہوں کہ وحشی درندہ؟
ع ذرا سنبھل کر بولی: اب تم عجیب و غریب باتیں نہ کرو۔ مرغی
کے چوزے اور بچے کو مت ملاو۔
م: کیوں، بچے صرف انسانوں کے ہوتے ہیں؟
ع آہستہ سے بولی: نہیں، مگر جانوروں میں جذبات نہیں ہوتے۔
ان کو اپنے بچے مرنے پر دکھ نہیں ہوتا۔
م: تم نے کبھی کسی جانور کو اپنے بچے کے لئے روتے نہیں دیکھا؟
ع پریشان ہو کر کسمسائی۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی اس نے اپنے
محلے کی آوارہ بلی کو اپنے مردہ بچے کو منہ میں پکڑے ادھر سے ادھر بھٹکتے دیکھا
تھا۔ بچہ گاڑی کے نیچے آ کر ادھڑا پڑا تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے اپنا دو سالہ
بیٹا آگیا۔ اسے جھرجھری آ گئی۔ اس رات جب بلی ع کی کھڑکی میں بیٹھ کر روئی تھی
تو ع کا دل بیٹھ گیا تھا۔ اس رات وہ م کے ساتھ ہمبستری بھی نہ کر پائی تھی۔
ع یک دم اداس ہو کر بولی: اچھا نہ پیو یخنی، مگر پلیز ایسی
باتیں تو نہ کرو۔
م: مجھے وہسکی تو لا دو۔
ع جا کر وہسکی کی بوتل، گلاس، پانی، برف اور کاجو لے آئی
اور ایک پیگ بنا کر م کو دے دیا۔ م نے اپنی رانوں پر رکھے ع کے گورے اور خوبصورت
پاوں سہلاتے ہوئے وہسکی کی چسکیاں لینی شروع کر دیں۔ اس کی شکل سے لگتا تھا وہ
اپنے کسی عزیز کے جنازے پر آیا ہوا ہے۔ پیگ ختم کر کہ اس نے خالی گلاس ع کو دیا۔
ع بڑی عاجزی سے بولی: اور نہ پیو۔ پھر تم آدھی رات تک روتے
رہو گے۔
م نے ذرا ڈھلکتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اداسی سے
مسکرا کر بولا: یار پیر تو پکڑوا رکھے ہیں
تم نے، اب کیا سر رکھ دوں ان حسین قدموں میں؟
جب ع چپ چاپ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی تو اس نے
خالی گلاس ع کی رانوں کے بیچ رکھ کر ہاتھ سر کے پیچھے رکھ لئے اور آنکھیں بھینچ
کر بولا: دے دو یار۔ کچھ تو سہارا دو مجھے زندہ رہنے کا۔
ع نے ایک اور پیگ بنا کر اسے تھما دیا۔
دو چسکیا ں لے کر م بولا: تمہیں پتا ہے ہڑپہ کی تہذیب میں
جو سب سے بڑی دیوی تھی، جس کے مجسمے بناتے وقت پستان اور کولہے خاص طور پر بڑے بڑے
بنائے جاتے تھے، وہ کس چیز کی دیوی تھی؟
ع ہاتھ اٹھا کر دور کا اشارہ کرتے ہوئے: وہ مہنجوڈارو کے
لوگ؟
م: وہ نہیں ہم لوگ۔ ہم ہڑپہ کے، ہم مہنجوڈارو کے، ہم وادی
سندھ کی مٹی کے لوگ۔ ہم لوگ۔
ع: ہم؟ ہم تو ہڑپہ کے لوگ نہیں!
م: اچھا، تو ہم کون ہیں؟
ع: ہم تو مسلم قوم کے لوگ ہیں۔
م: میں مٹی کی بات کر رہا ہوں، ریت کی نہیں۔
ع: تمہیں نشہ ہو رہا ہے۔ کیا اول فول بک رہے ہو؟
م: انسان مٹی سے پیدا ہوتا ہے اور مٹی میں گندھا ہوتا ہے۔
وہ جتنی بھی کوشش کر لے، اپنی مٹی کی خوشبو سے بھاگ نہیں سکتا۔ جس مٹی کا اناج کھا
کر اس کی ماں اس کے لئے دودھ پیدا کرتی ہے اور جس مٹی سے اگا اناج وہ ساری عمر
کھاتا رہتا ہے وہ مٹی اس کے روئیں روئیں میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں۔ نہ صرف انسان
کا جسم بلکہ اس کی سوچ بھی اس کی مٹی سے تعمیر ہوتی ہے۔ تم نے دیکھا نہیں کہ انسان
اپنے اختتام تک اپنی ابتدا کو ہی کھوجتا رہتا ہے۔
ع، ذرا تذبذب سے: اختتام تک ابتدا کو کھوجتا رہتا ہے، مطلب؟
م: جیسے انسان اندام نہانی سے جنم لیتا ہے اور پہلی خوراک
ماں کے پستان چوس کر حاصل کرتا ہے، پھر وہ ساری عمر ہی اندام نہانی اور پستانوں کو
کھوجتا رہتا ہے۔
ع: تم مردوں کی بات کر رہے ہو!
م: کیا کروں، مرد ہوں۔ پر اپنی مرضی سےتو نہیں بنا ایسا۔
ع: اچھا چھوڑو، اس ہڑپہ کی دیوی کی کیا بات بتا رہے تھے؟
م: وہ میں چوزے کی یخنی پی کر نئی زندگی حاصل کرنے کے پس
منظر میں کہہ رہا تھا۔ وہ دیوی بیک وقت زندگی اور موت کی دیوی تھی۔
ع: تو اس میں کیا خاص بات ہے، سارے مذاہب میں خدا ہی زندگی
اور موت پر اختیار رکھتا ہے۔ جو زندگی دیتا ہے وہی واپس لے لیتا ہے۔
م: یہ مذہب کی نہیں سوچ کی بات ہے۔ تم واحدانی مذاہب کی بات
کر رہی ہو۔ جس مذہب میں خدا ہی ایک ہو تو ظاہر ہے کہ ہر چیز پر قادر وہی ہو گا۔
مگر ہمارے پرکھوں پر تو یہ قدغن نہیں تھی۔ وہ تو ہر چیز کے لئے علیحدہ دیوی دیوتا
بناتے تھے۔ انہوں نے زندگی اور موت کے لئے ایک ہی دیوی کیوں بنائی؟ جبکہ واحدانی
مذاہب میں بھی پیدائش اور موت سے متعلق فرشتے مختلف ہوتے ہیں۔
ع: تم بتاو۔
م: کیونکہ مردہ جسم جس مٹی میں جاتا ہے، اسی مٹی سے اناج
اگتا ہے جسے انسان اور حیوان، سب کھا کر جیتے ہیں۔ انہیں احساس تھا کہ جنم اور مرن
ایک ہی چکر کے دو حصے ہیں۔ زندگی سے موت جنم لیتی ہے اور موت ہی زندگی کو جنتی ہے۔
ع: بس کرو یہ فضول فلسفہ۔
م ہنس کر: ہاں، چھوڑو، مٹی ڈالو۔ مجھے ایک اور پیگ بنا دو۔
No comments:
Post a Comment