Monday, 24 July 2017

قیمت: کہانی


 از
ٹیپو سلمان مخدوم



یوں تو پاکستان میں بھی اب جہاز ٹنل سے لگ جاتے ہیں مگر اس کے امریکی  جہاز کو ٹنل مہیا نہ کی گئی۔ ایسا کچھ اگر امریکہ میں ہوا ہوتا  تو وہ  آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ اب اسے امریکی شہری ہوئے بیس برس ہو چکے تھے، امریکہ اب اس کے روم روم میں تھا۔ مگر پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں یہ سب وہ معمول سمجھتا تھا، گو کہ پچیس برس بعد لوٹ رہا تھا۔ آنے کا اس کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا مگر نوجوان بھتیجے کی ناگہانی موت نے اسے کچھ دنوں کے لئے ہی سہی، بھائی کا سہارا بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنازے پر نا بھی پہنچ سکا تو کوئی بات نہیں، چار دن بعد ہی سہی۔ اوپر  سے جہاز صبح کے چار بجے ہی لاہور اتر آیا تھا۔


تو جہاز کے ساتھ آکر ٹنل نہیں بلکہ سیڑھی لگی۔ جہاز کے دروازے سے نکل کر سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اسے جولائی کی صبح کی ڈھنڈی ہوا کا جھونکہ بہت اچھا لگا۔ لوہے کی سیڑھی اسے دقیانوسی تو لگی، مگر یہ اسے اچھی ان معنوں میں لگی کہ اس میں اپنائیت کی مہک تھی۔ پاکستان میں میکڈونلڈ وہ کھاتے ہیں جو امریکہ جا نہیں سکتے۔ امریکہ سے آنے والوں کو اپنی مٹی کی خوشبو میکڈونلڈ میں نہیں بلکہ چنے کی دال گوشت اور ساگ میں آتی ہے۔ 

تو کینٹ کے بعد مال روڈ سے گزرتی اس کی گاڑی ہندووں کے بسائے کرشن نگر کی گلیوں میں داخل ہو گئی۔ اس نگر نے اب اسلام قبول کر کہ اپنا نام اسلام پورہ رکھ لیا تھا۔ اس کے بھانجے نے گاڑی ایک گلی میں لگا دی اور دونوں لڑکوں نے اس کا سامان اور وجود تقسیم سے پہلے کے تعمیر شدہ تین منزلہ مکان میں پہنچا دیا۔ بھائی پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی طرف بڑھا۔ بھائی جان بھی اٹھ کر اس کی جانب بڑھے اور دونوں بھائی بغل گیر ہو گئے۔ بڑا افسوس ہوا بھائی جان اور اللہ آپ کو صبر اور متوفی کو جنت میں جگہ دے جیسے دو چار جملے بول کو اور بس اللہ کی مرضی تھی جیسے چند جملے سن کر دونوں سامنے کے صوفے پر جا بیٹھے۔ فاتح پڑھنے کے بعد چند لمحے کی خاموشی چھا گئی۔


کیا ہوا تھا بھائی جان۔ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ آخر اس نے لاہور کی کڑک چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پوچھا۔ کیا بتاؤں چھوٹے، بھائی نے کہا، چھ مہینے پہلے تک تو بھلا چنگا تھا منا، پھر اچانک ایک دن پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ ہسپتال داخل کروانا پڑا۔ وہ جس کمپنی میں ایڈمن اوفیسر تھا اس کا پینل ہسپتال تھا۔ وہاں منے کے بہت سارے ٹیسٹ ہوئے۔ بلکہ تمام کے تمام ٹیسٹ ہوئے۔ جو ٹیسٹ بھی میڈیکل کی کتابوں میں لکھے ہیں ان میں سے کوئی بھی ٹیسٹ نہ چھوڑا ان ہسپتال والوں نے۔ یہ سب ٹیسٹ کمپنی کی طرف سے مفت تھے۔ ان ٹیسٹوں سے پتا چلا کہ منے کے پیٹ میں رسولی تھی۔ اس رسولی کے نمونے لے کر ان کے بھی بہت سارے ٹیسٹ کئے گئے جس سے پتا چلا کہ رسولی کینسر زدہ ہے۔ بس پھر کیا تھا، فورا" ہی ہم نے منے کی کمپنی کو درخواست لکھی۔ کمپنی نے نا صرف منے کو بمع تنخواہ کے چھے ماہ کی چھٹی دے دی بلکہ اس کی کیمو تھیراپی اور تینوں آپریشنوں کے تمام اخراجات بھی اپنے ذمے لے لئے۔ کسی بھی چیز کمی نہ ہونے دی کمپنی نے میرے بیٹے کو۔ کیا کسی امیر کے بچے کا علاج ہونا تھا جو میرے منے کا ہوا۔ چھوٹے جب وہ درد سے تڑپتا تھا تو ایسے ایسے مہنگے ٹیکے اسے لگاتے تھے کہ ایک دم بڑا پرسکون ہو کر سو جاتا تھا۔ بے دریغ لگاتے تھے وہ ٹیکے۔ ہر ہفتے کمپنی کا ایچ آر اوفیسر آکر تمام کا تمام بل ادا کر جاتا، ہسپتال والوں سے پوچھتا بھی نہ کہ اتنا بل کیسے بنا۔ ایک دن منے کا جنرل مینیجر بھی اس کی مزاج پرسی کو آیا تھا۔ دو آپریشن یہاں ہوئے اور ایک کراچی میں۔ مگر ہمیں تو کچھ کرنا ہی نا پڑا۔ کمپنی کے خرچے پر منے کو کراچی لے کر گئے اور اوپریشن کیا، پھر واپس لے آئے۔


تھوڑی دیر کے لئے پھر خاموشی چھا گئی۔ پھر ایک لڑکا بولا ماموں جی کے لئے ناشتہ لے آوں؟ ہاں ہاں جا، پوریاں اور لسی بھی لا چھوٹے کے لئے، بھائی نے کہا، پھر قبرستان لے کر چلیں گے اسے فاتح کے لئے۔ لڑکا چلا گیا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ مجھے تو اپنی موٹر سائیکل بھی نہیں بیچنی پڑی چھوٹے۔ بھائی جان پھر بولے۔ میں تو دعائیں دیتا ہوں کمپنی کو۔ اللہ ہمیشہ سلامت رکھے اس کمپنی اور اس کے مالکوں کو۔ 


بھائی جان کی یہ باتیں سن کر کونے میں بیٹھے لڑکے کی نظروں میں پچھلے سال کا محلے کا جنازہ  گھوم گیا جس میں جوان بیٹے کی موت پر باپ کو بار بار غش پڑ رہے تھے اور کئی ہفتے تک وہ روتا اور اپنے بیٹے کی باتیں کرتا نا تھکتا تھا ۔ لڑکا سوچ رہا تھا کہ پچھلے سال والا باپ کتنا پیار کرنے والا تھا اور بھائی جان کتنے لالچی اور دولت پرست والد ہیں کہ بیٹے کی موت سے زیادہ انہیں کمپنی کی دولت اور علاج پر ہونے والے خرچ کی پڑی ہے۔

 دوسری طرف بھائی جان  کی یہی باتیں سن کر چھوٹے  کی نظروں میں ان کا بوڑھا باپ گھوم رہا تھا جو کومے میں جانے تک ہر رات اس بات پر رو کر سوتا تھا کہ اس کا پہلا بیٹا دو سال کا تھا جب اس کا اپینڈکس کا اوپریشن ہونا تھا مگر لوگوں سے ادھار جمع کرتے کرتے دن گزر گیا اور بچے کا اپینڈکس پھٹ گیا۔ لوگ ہمیشہ انہیں بتاتے تھے کہ بچے کو دفنانے تک ان کا باپ چھوٹی سی میت کے پاوں چومتا اور دھاڑیں مار مار کر روتا تھا۔ چھوٹا بس یہ سوچ رہا تھا کہ انسان اپنے جانے والوں کو زیادہ روتا ہے یا اپنی بے بسی کو؟


پوریاں اور لسی آگئی تو دونوں بھائی ناشتہ کرنے لگے۔



No comments:

Post a Comment