از
ٹیپو سلمان مخدوم
میری تو بات کرنے کی ہمت نہ پڑی مگر تھوڑی دیر بعد اسی نے کتاب
سے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور ہائے کہا۔ میری ہمت بڑھی اور میں نے بات چیت
شروع کر دی۔ پتا چلا کہ وہ امریکہ میں تقابلی مذاہب پر پی۔ایچ۔ڈی کر رہی تھی۔ ایک
تو ہندو اوپر سے تقابلی مذاہب پڑھ رہی اور سونے پہ سہاگا یہ کہ پُر کشش عورت؛ میری
دلچسپی یکدم بڑھ گئی۔
میں نے کہا: آپ کے ماتھے کی بندی بتا رہی ہے کہ آپ ہندو
ہیں۔
وہ ذرا مسکرائی: آپ کہہ سکتے ہیں۔
میں نے ذرا حیرانی سے پوچھا: مطلب؟
وہ بولی: میں روایتی ہندو ہوں، مگر مذہبی نہیں۔
میں اس کی طرف گھوم کر بیٹھ گیا: اس کا کیا مطلب ہوا؟
وہ کتاب چھوڑ کر میری طرف گھوم گئی: آپ پاکستانی مسلمان
ہیں نا؟
میں نے فوراً سیدھا ہو کر اپنا سینہ پُھلا لیا: شکر ہے اللہ
کا۔
اب وہ بھی مجھ میں دلچسپی لینے لگی: آپ کا تو ایمان ہے
اپنے مذہب کی دیو مالائی داستانوں پر مگر میں انہیں تاریخی سائنس کے طور پر دیکھتی
ہوں۔ اب چوں کہ میں ہندو گھرانے کی پیدائش ہوں لہٰذا سمجھ لیں کے میں روائتی طور
پر اپنے آپ کو ہندو کہتی ہوں۔
میں نے ذرا تذبذب سے کہا: میں سب مذاہب کی بڑی عزت کرتا ہوں
مگر دیو مالائی داستانیں آپ کے مذہب میں ہیں، ہمارے مذہب میں ہر بات حق پر مبنی
ہے۔
وہ بغیر کسی جذبات کا اظہار کئے بولی: آپ تو خاصے مہذب
انسان لگتے ہیں، آپ سے بات چیت میں تو اچھی طرح وقت کٹ سکتا ہے۔
میرا حوصلہ اور بڑھا: تو آپ مانتی ہیں کہ ہندو مذہب میں
دیو مالائی داستانیں شامل ہیں۔
وہ بولی: ہاں۔
کچھ دیر خاموشی چھا گئی پھر اچانک مجھے اس کی تاریخی سائنس
والی بات یاد آئی۔
میں نے پوچھا: وہ آپ نے کیا بات کی تھی کہ مذہب تاریخی
سائنس ہوتا ہے۔
وہ ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گئی: انسان ہمیشہ کھوجنا چاہتا
ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اس کے ارد گرد کی دنیا کا نظام کیسے چلتا ہے۔ اب تو
یہ باتیں انسان سائنس کے ذریعے کھوجتا ہے مگر پرانے زمانوں میں وہ کہانیاں گھڑ لیا
کرتا تھا کہ بارش کا دیوتا بارش برساتا ہے اور موت کی دیوی موت دیتی ہے، وغیرہ۔
بات مجھے لگی تو عجیب، مگر ساتھ ہی ساتھ دلچسپ بھی لگی: تو
پھر ہر مذہب میں ایک جیسے دیوی دیوتا کیوں نہیں ہوتے تھے؟
وہ بولی: دیو مالائی کہانیاں انسانی سوچ سے ہی جنم لیتی
ہیں۔ جس طرح سے کوئی لوگ اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو دیکھتے ہیں ویسی ہی وہ
داستانیں گھڑ لیتے ہیں۔
بے اختیار میرے منہ سے نکلا: پھر تو آپ ہندو لوگ بڑے جنسی
ہوتے ہیں۔
فوراً ہی مجھے احساس ہوا کہ میں نے بڑی نازیبا بات کر دی
تھی۔
شرمندہ ہو کر میں نے معذرت کی: معافی چاہتا ہوں۔ میرا یہ
مطلب نہیں تھا۔
وہ ذرا زور سے مسکرائی: میں کوئی بنیاد پرست ہندو نہیں ہوں۔
مگر دنیا کے تمام مذاہب کی طرح ہندو مت بھی بڑا پوتر مذہب ہے۔
میں نے کہا: کیا بات کر رہی ہیں آپ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ہندنی نے کہا: کیوں، کیا واہیاتی ہے ہندو مت میں؟
میں نے کہا: میں ہندوستان گیا تو نہیں، مگر میں نے تصاویر
دیکھیں ہیں اس ہندو دیس کے مندروں کی۔ ایسے بیہودہ اور ننگے بت بناتے ہیں یہ لوگ
اپنے دیوی دیوتاوں کے کہ کیا بتاوں۔ اور آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ پوتر ہیں؟ معافی
چاہتا ہوں لیکن اگر آپ کی بات سچ مان لی جائے کہ لوگ اپنی سوچ کے مطابق ہی دیو
مالائی داستانیں بناتے ہیں تو پھر تو ہندوستان کے لوگ بڑی گندی سوچ کے مالک ہیں۔
ہندنی نے کہا: پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ یہ خطہ جس کو آپ نے
ہندو مت سے منسوب کر رکھا ہے دراصل کس کا ہے۔ لفظ سندھو کا مطلب ہے دریا۔ پانچ
ہزار سال پہلے جب ہڑپہ کی تہذیب عروج حاصل کر رہی تھی تو اس کا مرکز دریائے سندھ
کی سرزمین تھا۔ اسی نسبت سے یہ سندھو دیس کہلانے لگا۔ جب ایرانی یہاں آئے تو لفظ
سندھو سے بگڑ کر ہندو بن گیا۔ اب یہ علاقہ ہندو دیس اور بعد میں ہندوستان کہلانے
لگا اور یہاں کے باسی ہندو۔
میں نے کہا: تو انگریز اسے انڈیا کیوں کہنے لگے۔
وہ ہنس پڑی: یہ نام اس وقت پڑا جب سکندر اعظم یونانی نے
یہاں حملہ آور ہو کر تباہی مچائی۔ ہندو کو وہ لوگ منہ ٹیڑھا کر کہ انڈو بولتے اور
پھر اسی نسبت سے یہ دیس انہوں نے انڈیا
بنا دیا۔
میں نے کہا: اچھا، تو یہ بات ہے۔ مگر واہیات عقیدے تو ہیں
نا ان کے؟
وہ بولی: واہیات آپ ننگےبتوں کی وجہ سے کہہ رہے ہیں؟
میں بولا: جو مذہب اپنے دیوی اور دیوتاوں کے بت ننگے اور جنسی
اختلاط کی حالتوں میں بناتے ہوں اس میں کیا اچھائی ہو سکتی ہے؟
اس نے کہا: کیوں، جنسی اختلاط میں کیا برائی ہے؟ کیا میں،
آپ اور اس دنیا میں بسنے والے سب انسان اسی اختلاط کا نتیجہ نہیں ہیں؟ میرے خیال
میں تو یہ بہت ہی پوتر چیز ہے۔ کوئی بری یا گندی چیز تو نہیں۔
میں ذرا گڑبڑا گیا: نہیں بری تو نہیں، مگر اس کے کرنے کے
کچھ اصول کچھ ضابطے ہوتے ہیں، ایسے ہی تھوڑی ہے کہ ہر کوئی گلیوں بازاروں میں یہ
عمل کرتا پھرے۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں: یہ اصول اور ضابطے تو اب کہ ہیں،
جس زمانے کی یہ داستانیں ہیں اس وقت تو اقدار کچھ اور ہی تھیں۔
مجھے لگا کہ میں نے ہندنی کو اقبال جرم پر مجبور کر ہی لیا
تھا: کونسے ضابطے تھے اس وقت جو کھلم کھلا جنسی اختلاط کو بڑا قابل ستائش عمل
بناتے تھے۔
اس نے آنکھیں کھول کر میری آنکھوں میں ڈال دیں: وادی گنگا
کی تہذیب بنانے والے جنگجو آریاوں کی آمد سے پہلے، جن کی زندگی کا زیادہ انحصار
شکار اور لوٹ مار پر تھا، ہندوستان کی تہذیب وادی سندھ کے دراوڑوں کی ہڑپہ اور
مہنجوڈارو کی تہذیب تھی۔ یہ لوگ امن پسند، تخلیقی اور ذہین تھے۔ جنگجو نہ تھے بلکہ
محنتی کسان تھے اور ان کی بقائ کا دارومدار اچھی فصل پر ہوتا تھا۔ جدید سائنس کی
عدم موجودگی میں ان کی فصلوں کا سارا دارومدار بارشوں، سیلابوں اور دھوپ وغیرہ پر
تھا۔ دوسرے لفظوں میں مکمل طور پر قدرت پر تھا۔ ان کو یہی سمجھ آتا تھا کہ قدرت
کا سارا نظام ایک ہی طریقے سے چل رہا ہے۔ لہٰذا وہ انسانی بچہ پیدا ہونے اور پودا
اگنے کے عمل کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔ گویا کہ بیج دھرتی ماں کی کوکھ میں ڈلتا
ہے، اوپر سے آسمان بارش برساتا ہے جس سے فصل پیدا ہوتی ہے۔ وہ دیکھتے تھے کہ ان
کا وجود بھی جنسی عمل کا نتیجہ تھا اور ان کی زندگی کی بقا کرنے والی فصل کا وجود بھی اسی عمل کا نتیجہ تھا۔ اس طرح یہ جنسی
عمل جسے آپ بڑا گندا اور غلیظ جانتے ہیں ان کی نظروں میں بڑا مقدس عمل بن گیا۔ پھر
وہ اس کی پوجا بھی کرنے لگے۔ لیکن اس سے ان کا مقصد کسی واہیات عمل کی پوجا نہیں
بلکہ زندگی کی پوجا تھا۔
بات تو بڑے مزے کی تھی مگر مجھے ہضم نہ ہو رہی تھی: لیکن
پھر یہ عمل تمام دیوی دیوتاوں سے کیوں منسوب نہیں کیا جاتا؟
وہ کتاب اٹھا کر بولی: کیونکہ ہندو مت کوئی الہامی نہیں
بلکہ تاریخی مذہب ہے۔ اس میں مختلف ادوار کی سوچ پنہا ہے۔ جب یہاں جنگجو آریا آ
کر بس گئے تو وہ ساتھ میں اپنی سوچ بھی لے آئے جس کے مطابق عورت اور مویشی
جائیداد تھے جن کو اپنے قبضے میں رکھا جاتا تھا۔ ان کے لئے جنسی اختلاط کا مقصد محض
عیاشی یا جنگجو لڑکے پیدا کرنا تھا۔ ان کی یہ سوچ یہاں کے اصل لوگوں کی سوچ کو ختم
تو نہ کر سکی مگر اس میں شامل ضرور ہو گئی۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ نہ اس نے کتاب پڑھنی شروع کی نہ
میں اس کی آنکھوں سے نظریں ہٹا سکا۔ پھر گویا خودبخود میرے منہ سے نکلا: تو آپ
کا اس عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
وہ دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ وقت گویا تھم سا گیا تھا۔ مجھے
یوں محسوس ہونے لگا جیسے میرے اندر سے سوندھی مٹی کی خوشبو آنے لگی ہے۔
آخر وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولی: تم مہذب آدمی ہو تم سے
بات کی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت مقدس عمل ہے۔ لیکن مقدس یہ شادی سے
نہیں انسان کی سوچ سے بنتا ہے۔
یہ کہہ کر اس نے پھر سے کتاب پڑھنی شروع کر دی۔ میں کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا پھر اٹھ
کر کوفی کی دکان ڈھونڈنے نکل پڑا۔
No comments:
Post a Comment