Wednesday 22 February 2017

راجہ گدھ۔: ایک مختصر تبصرہ

 از
شیراز  احمد



بانو قدسیہ اور راجہ گدھ پر جو تحریر کیا کچھ دوستوں نے اس پر گِلا کیا  ۔ کچھ نے پوسٹ پر ہی اور کچھ نے مل کر "خبر گیری" کی___ صاحبوں میں نے کبھی اپنی رائے کو آخری نہیں سمجھا ۔ ہر تحریر کو خیال کہا نہ کہ "مستند ہے میرا ہی فرمایا ہوا"۔  ہر جو بات دل کو لگی اٹھا لی گمشدہ میراث سمجھ کر___ 


احباب گواہ  ہیں اگر اپنی کوئی بات غلط لگی تو فوراََ بغیر کسی عذر کے معذرت اور تصحیح کر لی ____ مگر راجہ گدھ پر ہونے والی تنقید مجھے ادبی سے زیادہ "ازمی" یا "پسندی" لگی۔ صاحبوں ہم ازموں اور پسندوں میں گھرے ہیں۔ کسی نے ترقی پسندی کی عینک پہن رکھی ہے تو کوئی ہر بات سوشلزم کی دوربین سے دیکھنے کا عادی ہے۔ جبکہ بہت سے احباب ہر چیز کو منطق کی خورد بین سے پرکھنے پر مُصر ہیں۔ 

ایک  صاحب نے تو حد کر دی،  یہانتک کہہ گئے کہ راجہ گدھ ضیاء الحقی دور کی دین ہے__ یارو پر جو چیز گراں گزری ہے وہ ممکنا طور پر اس ناول کا روحانی پہلو ہے۔

 مختصراََ عرض ہے کہ ہر سوال کا جواب منطق کے مکتب میں نہیں ملتا۔ سو سال بھی پانی کی خاصیت اور ماہیت کے متعلق پڑھتے رہیئے پانی کا پتہ پانی پینے سے یا غوطہ لگنے سے ہی چلتا ہے۔ بعض اوقات آپ بات کی "تُک" پوچھتے پھرتے ہیں اور اپنے گلے کا طوق محسوس نہیں ہوتا ____ صاحبوں اس ناول کے  تھیسز "حرام حلال" اور "عشقِ لا حاصل" دونوں سے اختلاف آپ کا حق ہے۔  شاید کچھ پہلوؤں پر میں بھی متفق نہ ہوں لیکن ہمورابی, دس الوہی احکامات, انجیلِ مقدس اور قرآنِ پاک سمیت کیا آج بھی تمام ماڈرن قوانین حرام حلال کی تقسیم نہیں کرتے؟؟ کیا آج بھی مجرم کو اسی میں تمیز نہ کرنے کی سزا نہیں دی جاتی؟؟ کیا آج تک انسانی تاریخ اس چکر سے خلاصی پا سکی ہے؟؟ تو یقیناََ یہ بنیادی اور اہم بات ہے
 صاحبوں جو نظر آئے صرف وہی نہیں ہوتا جو آپ کی آنکھ نہ دیکھ سکے وہ بھی ہوتا ہے


No comments:

Post a Comment