Tuesday 21 February 2017

قانون اور ادب

از
شہزاد اسلم



انسانی زندگی کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے کے لئیے ادب کے مختلف ذرائع ہمیشہ سے اسلوب کا حصہ رہے ہیں۔ انسانوں کے لطیف جذبات سے لے کر نفسیاتی مسائل تک، تاریخی واقعات، مذھب، سماج، فلسفہ، سائنس، قدرتی حسن بھی ادب کے موضوعات میں شامل ہیں۔ 

ظلم، جبر، ناانصافی، ناہمواری چاہے وہ سماجی ہو یا معاشی، نے بھی ادب میں اپنا اثر قائم رکھا ہے۔ قانون اور انصاف کا چونکہ براہ راست تعلق سماج کی بہتری اور امن سے ہے اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ موضوع ادب کے دائرہ کار میں نہ ہوتا۔ قانون کا مناسب استعمال، زبان و ادب کی سمجھ اور تشریح کے بغیر نا ممکن ہے اور شاید اسی وجہ سے لارڈ ڈیننگ نے کہا تھا کہ ہر قانون کے طالبعلم اور قانون کو بطور پروفیشن اپنانے کے لئیے ضروری ہے  کہ کم از کم شیکسپئیر ، چارلز ڈکنز اور حینسرڈ سے استفادہ کیا جائے۔ اگرچہ شیکسپئیر کے اکثر ڈراموں میں قانون اور عدالتی نظام عدل کا حوالہ موجود ہوتا ہے لیکن دو ڈرامے مئییر فور مئییر اور مرچنٹ اوف وینس خصوصی طور پر اس حوالے سے توجہ کے طالب ہیں اور اہمیت کے حامل بھی ہیں۔   مئیر فور مئییر ایک کرپٹ جج کی نا انصافی اور ضابطہ اخلاق سے دوری کی روئیداد ہے۔ یہ ڈرامہ ایک ایسے سماج کا عکاس ہے جہاں قوانین صرف دکھاوے کے لئے ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کو ڈرانا ہے  نہ کہ ان پر عملدرآمد کروانا۔

ہارپر لی کے ناول ٹو کِل اے موکنگ برڈ میں عدالتی مقدمہ کی پوری عکاسی کی گئی ہے جس میں جج اور جیوری قانون سے زیادہ معاشرتی ناہمواری اور نسلی تعصب کو بروئے خاطر لاتے ہوئے ایک بے گناہ کو سزا دے دیتے ہیں اور نسلی تعصب، ایک کالے کو اس کے حقوق کی پامالی تک نہیں چھوڑتا۔ بیلی بڈ میں بھی بیلی کو وقتی ضرورت کی خاطر قربان کر دیا جاتا ہے اور قانون کو سمندر کی لہروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اگر جدید دور میں کسی مصنف نے عدالتی مقدمہ کی کاروائی کو حقیقت کے قریب تر کیا ہے تو وہ سکوٹ ٹرو نے اپنے ناول پری زیومڈ انوسنٹ میں کیا ہے۔ یہ ناول عدالت کے اندر اور باہر، وکلاء کے طریقہ کار اور انداز کی وضاحت کرتا ہے۔ ان شاہکار ناول سے ایک بات طے ہے کہ فوجداری مقدمات عموما" بناوٹی و جعلی حقائق اور ثبوتوں کے بل پر انجام کو پہنچتے ہیں اور حقیقی واقعات ہمیشہ پردے کے پیچھے چھپے رہتے ہیں۔ پولیس اور تفتیشی ادارے تشدد کے ذریعے اعتراف کرواتے ہیں اور ملزم کا تشخص ختم کر کے اسے اسکے خلاف ہی استعمال کرتے ہیں۔ ناول ۱۹۸۴ میں تشدد، جھوٹ اور سچ کا فرق مٹا دیتا ہے اور ملزم اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی سزا تحریر کرتا ہے۔ دوستووسکی کے ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ اور برودرز کراموزوف ملزم کی نفسیات اور اس پر جرم کے اثرات کو فلسفیانہ انداز سے قاری کے سامنے رکھتے ہیں۔

بون فائر اوف وینی ٹیز ایک ایسا ناول ہے جو وکلاء اور عام آدمی دونوں کے لئے دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ یہ ناول دکھاتا ہے کہ کیسے فوجداری نظام عدل کے ضابطہ کو سیاسی اور پیشہ ورانہ مقاصد کے لیئے غلط استعمال کیا جاتا ہے اور یہی طریقہ کیسے لوگوں  کوذلیل کرتے ہوئےزندگیاں بدلنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ قانونی موشگافیاں انصاف کا گلا دبا دیتی ہیں۔ قانونی کاروائی نہ ختم ہونے والا ایک  عمل ہے جو انتہائی  مہنگا بھی ہے۔ یہ ناول جج صاحبان اور وکلاء کی اخلاقی اور عقلی کمیوں کی طرف واضع اشارہ کرتا ہے اور یہ بھی دکھاتا ہے کہ کیسے سیاسی اور ذاتی مقاصد قانونی نظام کو مزید زنگ آلود کرتے ہیں۔ وہ جج جو اپنی آزادانہ سوچ کا اظہار کرتے ہیں وہ سزا کے طور پر عدل کی بارہ دریوں میں آگے جانے کے راستے سے ہٹا  دئیے جاتے ہیں۔

اے فرولک اوف ہز اون۔ یہ ناول دیوانی مقدمہ بازی کے متعلق ہے۔ یہ قانون کے پیشہ کو خود نگراں سازش قرار دیتا ہے اور مقدمہ بازی کو ایسا عمل قرار دیتا ہے جس میں جب کوئی خنزیر داخل کیا جائے تو  وہ باہر چٹنی بن کر نکلتا ہے۔ یہ ناول ان تمام قارئین کے لئے پڑھنا مشکل ہے جو وکیل نہیں ہیں۔

فرم از گرھشم۔ یہ ناول بھی ایک قانونی دماغ کی پیداوار ہے اور قانونی لحاظ سے اس کے حقائق حقیقت کے قریب ہیں۔
یہ تینوں ناول قانون کو ایک بدنیت منصوبہ قرار دیتے ہیں جس میں وکلاء غیر پیشہ وارانہ ، مشکوک اورقابلِ اعتراض طریقے  استعمال کرتے ہیں اور اس دھند میں اچھے اور باکردار وکیل اور جج  ہی امید کی روشنی ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہمیشہ انہیں دیوار سے لگایا جاتا ہے۔ عوامی رائے عامہ میں ایک منصف اور وکیل کو یا تو خدا رسیدہ بزرگ تصور کیا جاتا ہے یا پھر دھوکہ باز اور یہ بعد والی اصطلاح زیادہ پختہ متصور ہوتی ہے۔ بالکل ایسے جس طرح ایک عورت یا تو پاکیزہ ہوتی ہے یا پھر طوائف۔

دہ سٹرینجر از قامیو۔ اس ناول میں فوجداری ٹرائل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ کس طرح وہ حقائق جن کا جرم کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے مجرم کو قابل نفرت بنا دیا جاتا ہے اور ملزم کے عقائد اور کردار کو اس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ فوجداری مقدمہ  میں ملزم کو بے شکل، غیر معلوم اور غیر اہم اکائی تصور کیا جاتا ہے اور ملزم ایک اجنبی کی طرح اپنی یہ موت کے ڈرامے کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور بالکل ایسے ہی کافکا کے ناول دہ ٹرائل میں ملزم کو پوری فوجداری کاروائی میں بے رحمانہ حقائق سے لاعلم رکھا جاتا ہے اور غیر یقینی صورتحال میں ملزم کے دماغ کو اسکے جسم سے ملانے والی شریانوں سے کاٹ دیا جاتا ہے اور یہ بے نشان قوت ریاستی جبر اور طاقت کا مظہر ہے۔

ریڈ اینڈ بلیک کے ہیرو جولین سوریل کو بھی غلط وجوہات کی بنا پر سزا دی جاتی ہے جو کہ اس کے جرم کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سوریل کو اس کے جرم سے زیادہ اس کی ذات سے نفرت کو بنیاد بنایا گیا ہے اور قانونی عمل کے مضحکہ خیز ہونے کو ناول کا المیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سینٹ جون اور ایلس ایڈونچرز ان ونڈرلینڈ میں مقدمہ کے عمل کے بے ہودہ ہونے کی دلیل ملتی ہے۔ دونوں میں سزا پہلے اور فیصلہ بعد میں ہونے کا ذکر موجود ہے۔

جسٹس اولیور ونڈل ہومز نے کہا تھا کہ قانون بدلہ کی پیداوار ہے۔ ماضی کی تمام سزائیں اور موجودہ دور کی اکثر سزائیں اس سوچ کی عکاس ہیں۔ ایلیڈ، اوڈیسی، انٹی گون، جولییس سیزر، ہیملٹ، میکبیتھ اور مائیکل کوہلاحاس اسی بدلہ کی بازگشت ہیں جو قانون کی پیداوار ہیں۔ بدلہ میں ظلم، غیر مناسب سزا اور ضروری طریقہ کار سے انحراف ہونا قدرتی عمل ہے اور کافکا کی کہانی ان دہ پینل کولونی استغاثہ، جج اور ریاستی طاقت کے حامل افسر کی ملی بھگت اور ظلم کے نتیجے میں قانون اور اس کے عمل سے روگردانی کا شاہکار ہے۔

چارلس ڈکنز کے دو ناول بلیک ہاوس اور پک وک پیپرز، عدالتی طریقہ کار، وکلاء کے چیمبر کی زندگی، لالچ کی اندھا دھند پیروی، موکل کے حقوق سے لاپرواہی اور سب سے بڑھ کر عدالتی لامتناہی تاخیر پر کڑی تنقید ہیں۔ ڈکنز کے مطابق ایک سول مقدمہ کے فیصلہ تک سائل کی زندگی اور ذرائع دونوں ختم ہو جاتے ہیں  اور انصاف تو شاید اگلی نسل کو ہی ملتا ہے۔ فیصلوں میں تاخیر لوگوں کی امیدوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ یہی حال آج ہم اپنی عدالتوں میں دیکھ سکتے ہیں جہاں زندگی اور فیصلہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔

عدالتی فیصلوں میں جہاں منطق کا عمل دخل ہوتا ہے وہاں زبان پر عبور، سٹائل اور لفاضی بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر جج کا اپنا ایک سٹائل ہے جو اس کی شناخت ہوتا ہے۔ ایک اچھا قاری ہی ایک اچھا لکھاری ہو سکتا ہے اور اچھے ادب سے جہاں شعور کی آگاہی حاصل ہوتی ہے وہاں اظہار کے ذریعے میں عمدہ سلیقہ بھی آتا ہے۔ آج تک مشہور زمانہ جج صاحبان نے اپنے فیصلوں میں ادبی محاوروں کا استعمال کر کہ فیصلوں کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔ قوانین کی تشریح کے لیے ادب نے اپنے اصول و ضوابط قانون دانوں کی جھولی میں رکھ دیے۔ ادب اور قانون کا رشتہ اس لحاظ سے صدیوں پر محیط ہےاور مستقبل میں بھی یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہیں گے۔ جہاں ادب میں سادگی نے اپنا راستہ بنایا وہاں قوانین اور فیصلوں میں بھی سادہ اور آسان زبان کا استعمال عروج پر ہے۔

قاضی/جسٹس لرنڈ ہینڈ نے کہا تھا کہ میرا یہ یقین ہے کہ اگر کوئی جج کسی آئینی سوال پر کوئی رائے دینا چاہتا ہے تو جہاں اسے لارڈ ایکٹن و میٹلینڈ کی جانکاری ہونی چاہیئے وہاں اسے گبن، کارلائل، ہومر، دانتے، شیکسپیئر، ملٹن، میکاولی، ربیلے، افلاطون، بیکن، ہیوم، کانٹ سے بھی علم کی روشنی لینے کی ضرورت ہے۔

شیکسپیئر کا ڈرامہ مئییر فور میئیر اور کلیست کا ناولٹ مائیکل کولحاس ادب کے وہ شاہکار ہیں جن میں ایک عام شہری ناانصافی اور ظلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ کولحاس اپنے حقوق کی خاطر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا اور انصاف لینے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ قانون کی سربلندی صرف ان لوگوں کی وجہ سے قائم ہے جو انصاف حاصل کرنے کے لیئے تگ و دو کرتے رہے۔

اپنے حقوق کی پامالی کے باوجود کھڑے نہ ہونے والے لوگ ہمیشہ قانون کے سفر کو روک دیتے ہیں۔ حقوق کی جنگ ہی قانون کے علم کو مضبوطی سے گڑھے رہنے میں مدد کرتی ہے۔ مائیکل کولحاس جیسے ناولٹ سے متاثر ہو کر جھیئرنگ نے سٹرگل فور لاء جیسی کتاب تحریر کر کے فلسفہ قانون کو ایک نئی جہت عطا کی۔ مئییر فور مئییر کا مرکزی سبق یہ ہے کہ "ایک دیو کی طرح طاقت کا ہونا اچھی بات ہے لیکن اسے دیو کی طرح استعمال کرنا جابرانہ ہے۔" روبس پیئر نے بھی انقلاب فرانس کے دوران یہی کیا اور عدالتی کاروائی کے ذریعےڈونٹن کو سزائے موت دلوائی اور پھر اپنے ہی "دہشت کے تسلط" کا شکار ہو گیا۔ ان سارے حالات و واقعات کو جارج بکنر نے ڈرامہ ڈانٹنز ڈیتھ میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

قانون کی کتابیں حق اور سچ کو ایک بند گلی میں مقّید کرتی ہیں جہاں روشنی ماضی کی تہ در تہ روایات اور نظائر سے اخذ کی جاتی ہے۔ مضمون کی چوری اور نقل ہی قانون کا پہناوا ہے۔ دوسری طرف ادب غلط کی نہ صرف نشاندہی کرتا ہے بلکہ جو ہونا چاہئیے اس کی طرف مائل کرتا ہے۔ قانون، ادب کے گھوڑے پر سوار ہو کر ہی انسانی عظمت، برابری، آزادی اور سالمیت کی منزل کو تسخیر کر سکتا ہے۔

2 comments:

  1. Inherit the Wind is a fictional version of the 1925 Scopes Trial. Scopes was convicted for teaching evolution to a high school class. In Tennessee, state law prohibited teaching evolution. The play is meant to criticize the anti-Communist investigations that took place in the U.S. The authors used the Scope's trial as a platform to explore threats to learning and intellectual freedom.

    Read more: http://stageagent.com/shows/play/1925/inherit-the-wind#ixzz4as37DFi3

    ReplyDelete
  2. اس تحریر کو پڑھ کر بہت کچھ حاصل کیا اور اپنے تحقیقی مقالے میں مددگار بھی ثابت ہوا۔۔

    ReplyDelete