از
ٹیپو سلمان مخدوم
میں نے روح وغیر کے وجود پر کبھی زیادہ توجہ نہ کی تھی۔
مذہبی
میں
اتنا
ہی
ہوا
کرتا
تھا
جتنا
ضروری
تھا۔
یعنی
مذھب
پر
اِتنا
عمل
کر
لیا
کرتا
تھا
اور
اِتنی
مذھبی
باتیں
کر
لیا
کرتا
تھا
کہ
معاشرے
میں
اوپرا
نہ
لگوں۔
کسی
کو
مذھب
کی
وجہ
سے
میری
طرف
متوجہ
ہونے
کا
موقعہ
نہ
ملے۔
کسی
کو
مجھے
ہدف
بنانے
کا
بہانہ
نہ
مل
جائے۔
اس
طرزِ
عمل
کا
ایک
اور
فائدہ
بھی
تھا۔
سب
کی
ہاں
میں
ہاں
ملاتے
ملاتے
ایک
جھوٹی
سی
تسلی
ہو
جایا
کرتی
تھی
کہ
میں
بھی
خدا
کا
قریبی
بندہ
ہوں
جس
سے
وہ
بے
حد
محبت
کرتا
ہے۔
اِتنی
محبت
کہ
وہ
ہر
لمحہ
میری
طرف
متوجہ
رہتا
ہے۔
میری
ہر
ہر
حرکت
پر
نظر
رکھتا
ہے۔
ہر
ہر
بات
پر
کان
دھرتا
ہے۔
لہٰذا
جب
میں
اُسے
حاضر
جان
کر
کہتا
ہوں
کہ
میں
تو
صرف
اُسّی
پر
بھروسہ
کرتا
ہوں
تو
یہ سُن
کر وہ
خوشی
سے
پھولا
نہیں
سماتا۔
اُسے
یکدم
مجھ
پر
بے
انتہا
پیار
آتا
ہے
اور
وہ
مجھے
جنت
میں
داخل
کرنے
کو
بے
قرار
ہو
جاتا
ہے۔
اور
جب
میں
اُسے
ناظر
جان
کر
کسی
فقیر
کو
چند
ٹَکے
دیتا
ہوں،
وہ
بھی
اِس سوچ کے
ساتھ
کہ
حاتم
طائی
کی
قبر
پر
یہ
لات
میں
صرف
اور
صرف
اُس
کے
احکام
کی
بجاآوری
میں
کر
رہا
ہوں
تو
وہ
یہ
بھی
دیکھ
رہا
ہوتا
ہے۔
اور
میری
اِس
بے
پایاں
بندگی
پر
اُس
کا
سینہ
چوڑا
ہو
جاتا
ہے
اور
وہ
کہتا
ہے
کہ
میرے
اس
بندے
کو
سات
خون
معاف۔
یہ
سوچ
تھی
تو
میری
نادانی،
پر
تھی
بڑی
کارآمد۔
خدا
سے
قربت
کا یہ جھوٹا احساس زندگی بڑی
آسان
کر
دیا کرتا
تھا۔
فیصلوں کے نتائج
کا
ڈر رہتا تھا
نہ
زندگی
ختم
ہونے
کا
غم۔
بس
ایسا
محسوس ہوتا
تھا
کہ
میں
ایک
چھوٹا
سا
معصوم
بچہ
ہوں
جس
کی
ہر
حرکت
بس
ایک
شرارت
ہی
تو
ہے۔
نہ
میرا
کوئی
اختیار،
نہ
ذمہ
داری۔
زندگی
آسان۔
اس
لئے
روح
وغیرہ
پر
میں
نے
کبھی
زیادہ
توجہ
نہ
کی
تھی۔
مجھے
ایسا
ہی
لگتا
تھا
کہ
زندگی
بس
جسم
ہی
ہے۔
مگر
جب
سے
مجھ
پر
فالج
کا
حملہ
ہوا
ہے
مجھے
کچھ
عجیب
سا
احساس
ہونے
لگا
ہے۔
اب
مجھے
احساس
ہو
رہا
ہے کہ جسم
تو
ایک
الگ
ہی
مخلوق
ہے۔
کمر
پر
خارش
ہوا
کرتی
تھی
تو
ہاتھ
خودبخود
پہنچ
کر
خارش
کر
دیا
کرتا
تھا۔
مجھے
تو
تکلیف
فقط
اس لئے ہوا
کرتی
تھی
کہ
میں
اس
میں
مقّید
تھا۔
جو
اب بھی ہوں۔
مگر
اب
حالات
فرق
ہیں۔
کبھی
کبھار
جب
انہیں
کسی
طرح
پتہ
چل
جاتا
ہے
کہ
میں
پیاسا
ہوں
تو
ایک
ہاتھ
میں
پانی کا گلاس
پکڑ
کر
اور دوسرا ہاتھ
میری کمر میں
ڈال
کر
مجھے
نیم
دراز
حالت
میں
اُٹھاتے ہیں۔ چونکہ میرا
جسم
اب
بے
جان
ہے
… بلکہ بے جان
تو
یہ
نہیں
ہے۔
کھاتا
ہے،
پیتا
ہے،
بیمار
ہوتا
ہے،
اپنے
زخم
بھی
بھرتا
ہے۔
زندہ
تو
ہے۔
بس
بے
حس
ہو
گیا
ہے۔
اور
جب
سے
بے
حِس
ہوا
ہے
میرے
قابو
میں
نہیں
رہا۔
تو
جب
یہ
مجھے
بیک
وقت
بڑی
مشکل
اور
بڑی
احتیاط
سے
سہارا
دے
کر
پانی
پلانے
کی
خاطر
نیم
دراز
کرنے
کی
کوشش
کرتےہیں
تو
اکثر
میرا
جسم
توازن
کھو
بیٹھتاہے۔ اُس جاندار
اور
تابعدار
ہاتھ
پر
جھول
جاتا
ہے۔
پیٹ
سے
سر
تک
جسم
ایک
خمیدہ
پُل
کی
شکل
اختیار
کر
لیتا
ہے۔
جسم
تو
خَم
کھا
جاتا
ہے
مگر
میں
اندر
سیدھا
ہی
رہ
جاتا
ہوں۔
اچانک
جھٹکے
سے
مجھے
ڈر
لگتا
ہے
کہ
میں
اس
بے
حس
اور
لجلجے
وجود
کہ
اندر
ٹوٹ
ہی
نہ
جاؤں۔
میں
سیدھا
ہونے
کی
کوشش
کرتا
ہوں
مگر
بے
سود۔
پھر
میرے
اس
جسم
کا
سر
لڑکھتے
ہوئے
دائیں
بائیں
جھولتا
ہے
تو
میری
نظر
پڑتی
ہے
کہ
میرا
جسم
کو
سنبھالنے
کی
جستجو
میں
میرا
ایک
ہاتھ
تیماردار
کے
اُس
گھٹنے
تلے
کچلا
جا
رہا
ہے
جو
اس
نے
میرے
پلنگ
پر
رکھا
ہوا
ہے۔
ایک
عجیب
احساس
ہوتا
ہے۔
مجھے
میرے
ہاتھ
کی
چوٹ
کی
تو
کوئی
درد
محسوس
نہیں
ہوتی
مگر
درد
بہرحال
محسوس
ہوتی
ہے۔
کہاں
محسوس
ہوتی
ہے
میں
بتا
نہ
سکتا
ہوں۔
نہ
ہی
یہ
بتا
سکتا
ہوں
کہ
محسوس
کیسی
ہوتی
ہے۔
ہاں
البتہ
دیر
تک
ہوتی
رہتی
ہے۔
روشن
دن
تھا۔
موسم
ایسا
جیسا
لاہور
کی
بہار۔
سامنے
بے
کراں
سمندر۔
گہرے
نیلے
ٹھاٹھیں
مارتے
سمندر
پر
آب
و
تاب
سے
دمکتے
آفتاب
کی اْجلی
زرد
کرنیں۔
ٹھنڈی
ہوا
کے
تھپیڑوں
کے
ساتھ
نیم
گرم
کرنوں
کی
گرمی۔
میں
نے
سمندر
میں
غوطہ
لگایا
اور
پانی
میں
نیچے
ہی
نیچے
تیرنا
شروع
کر
دیا۔
ٹھنڈے
پانی
نے
ایک
دفعہ
تو
جسم
کو
کرنٹ
سا
مارا،
مگر
اگلے
ہی
لمحے
چاروں
طرف
سے
لپٹے
نرم
ملائم
پانی
کے
مسلسل
لمس
نے
عجیب
سی
فرحت
کا
احساس
دینا
شروع
کیا۔
میں
نے
کسی
ماہر
جمناسٹ
کی
طرح
ملائم
پانی
کی
فضاء
میں
قلابازیاں کھانی شروع
کر
دیں۔
اچانک
یہ
ہلکا
گیلا
پانی
گاڑھا
ہونے
لگا۔
میں
نے
گھبرا
کر
اوپر
کی
طرف
تیرنا
شروع
کیا۔
بالکل
سطح
آب
پر
پہنچ
کر
جس
لمحے
میں
نے
سر
باہر
نکال
کر
ایک
لمبا
اور
فرحت
بخش
گہرا
سانس
لینا
تھا
سارا
سمندر
جیلی
کی
طرح
گاڑھا
ہو
گیا
اور
میرا
سر
پانی
سے
اْبھر
نہ
سکا۔
یکا یک
مجھے
سینے
میں
شدید
درد
اٹھا
اورگھبرا
کر
میں
نے
بے
اختیار
لمبا
سانس
کھینچا
جس
سے
جیلی
سمندر
میرے
پھیپھڑوں
میں
بھر
گیا۔
ہڑبڑاہٹ
میں
میری
آنکھ
کھلی
اور
میں
نے
ایک
ساتھ
کئی
لمبے
لمبے
سانس
بھرے۔
پہلے
جب
رات
میں
کسی
بھیانک
خواب
سے
میری
آنکھ
کھل
جایا
کرتی
تھی
تو
میں
اپنی
ٹانگیں
سمیٹ
کر
اپنے
دھڑ
کو
اٹھایا
کرتا
تھا
اور
اپنے
کولہوں
پر
گھوم
کر
ٹانگیں
پلنگ
سے
نیچے
لٹکا
کر
پاوں
زمین
پر
ٹکا
لیا
کرتا
تھا۔
چشم
زدن
میں۔
بلا
کچھ
سوچے
سمجھے۔
بغیر
فاصلوں
یا
زاویوں
کا
کوئی
حساب
کتاب
کیے۔
اور
اٹھ
کر
پانی
پی
لیا
کرتا
تھا۔
بے
خیالی
میں
میں
نے
اب
کہ
بھی
جھٹکے
سے
اٹھنے
کی
کوشش
کی۔
مگر
ناکام
رہا۔
یہ
جسم
جو
بڑا
جانا
پہچانا
ہے،
اب
میرے
اختیار
میں
نہیں
ہے۔
ایک
دفعہ
مجھے
یاد
ہے
کہ
میں
گاڑی
چلا
رہا
تھا۔
گاڑی
فراٹے
بھرتی
جا
رہی
تھی۔
اچانک
انجن
بند
ہو
گیا۔
گاڑی
رک
گئی۔
میں
اپنے
گھر
اور
اپنی
منزل
دونوں
سے
دس
دس
کلومیٹر
دور
تھا۔
نہ
میں
گاڑی
کو
اْٹھا
کر
لے
جا
سکتا
تھا
نہ
گاڑی
چھوڑ
کر
جا
سکتا
تھا۔
اب
میری
سواری
میرا
بوجھ
بن
چکی
تھی۔
میں
اس
میں
مقید ہو
چکا
تھا۔
بالکل
ویسے
ہی جیسے
اب
میں
اس
جسم
میں
قید
ہو
چکا
ہوں۔
اب میں
اِس
جسم
کو
اچھی
طرح
پہچانتا
تو
ہوں
مگر
یہ میرا
نہیں رہا۔
گردن
اب
پوری
نہیں
گُھومتی۔
جتنی
گُھومتی
ہے
اُتنی
گُھوما
کر
دیکھا
قالین
پر
ملازم
پڑا
خراٹے
لے
رہا
ہے۔
آواز
بھی
تو
نہیں
نکال
سکتا
اب۔
اِس
بھاری
بے
حِس
جِسم
میں
پھڑ
پھڑا
کر
رہ
گیا۔
ایسے
لگ
رہا
ہے
کہ
جسم
و
جاں
کا
رشتہ
ٹوٹ
گیا
ہے۔
میری
جان
جو
میرے
جسم
کے
رویں
رویں
میں
پیوست
تھی
اب
سْکڑ کر میرے
ذہن
میں
سمٹ
آئی
ہے۔
جیسے
میری
جان
کی
چھوٹی
چھوٹی
جڑیں
جو
میرے
جسم
کے
روم
روم
میں
سورج
کی
کرنوں
کی
طرح
پیوست
تھیں
اب
واپس
میرے
ذہن
میں
سمٹ
آئیں
ہوں۔
جس طرح
مغرب
کے
وقت
سورج
کی
کرنیں
دنیا
سے
رشتہ
توڑ
کر
واپس
اپنے
ماخذ
سورج
میں
سمٹ
آتی
ہیں۔
وہ
خواب
والی
جیلی
جیسے
اب
بھی
میرے
پھیپھڑوں
میں
بھری
ہوئی
تھی۔
میں
نے
زور
زور
سے
سانس
کھینچے
اور
اُٹھ
بیٹھنے
کی
شدید
خواہش
میرے
اندر
جاگی۔
مگر
اِس
نیم
مردہ
جسم
کے
اندر
میں
کسمسا
کر
رہ
گیا۔
یا
میرے
خدا،
یہ
کِس
حالتِ
برزخ
میں
ہوں
میں۔
نہ
جیتوں
میں
نہ
مُردوں
میں۔
کافی
دیر
سے
اپنی
حالت
کو
کوسنے کے بعد اب آخرِ کار
دِل
ہی
دِل
میں
چُپ
کر
رہا ہوں۔
تھک
چکا
ہوں۔
جانے
کیوں
مجھے
لگ
رہا
ہے
کہ
میرے
آنسو
بہہ
نکلے
ہیں۔
یہ
حال
ہے
کہ
نہ
تو
دیکھ
کر
بتا
سکتا
ہوں
نہ
گالوں
پر
نمی
محسوس
کر
کے،
کہ
کیا
میں
رو
رہا
ہوں؟
یہ
لوگ
آخر
مجھے
مار
کیوں
نہیں
دیتے؟
نہیں
مار
سکتے
تو
ایسے
ہی
قبر
میں
اُتار
آئیں۔
میری
اِس
اذیت
ناک
زندگی
سے
جان
تو
چھڑوائیں۔
ہاں،
اذیت
ناک
ہی
سہی
پر
زندگی
تو
ہے۔
جسم
کے
بغیر
زندگی۔
یہ
کیا
ہے؟
یہ
میں
کون
ہوں؟ کیا یہ
میری
روح
ہے؟
عجیب
سی
روح
ہے
جو
دو
جمع
دو
چار
بھی
کر
سکتی
ہے۔
جو
اپنے
آپ
سے
باتیں
بھی
کر
رہی
ہے۔
جو
طلوعِ
آفتاب
پر
کمرے
کی
سیاہ
اندھیری
دیواروں
میں
سے
اُجلے
اُجلے
رنگ
بھی
پھوٹتے
دیکھتی
ہے۔
کیا
یہی
وہ
روح
ہے
جو
خدا
نے
مجھ
میں
پھونکی
تھی؟
کیا
یہی
ہے
اُس
کُل
کا
جُز؟
ہے
یا
نہیں
اب
مروں
گا
تو
معلوم
ہو
ہی
جائے
گا۔
کیوں
نہیں
مرتا
میں؟
یہ
لوگ
مجھے
مار کیوں
نہیں
دیتے؟
مار
نہیں
سکتے
تو
کم
از
کم
مرنے
ہی
دیں۔
اِنہیں
مجھ
پر
ترس
بھی
نہیں
آتا؟
یہ
میرے
بچے،
جو
مجھ
سے
اِتنا
پیار
کیا
کرتے
تھے،
اب
اتنے
ظالم
کیسے
ہو
گئے
ہیں؟
میری
اذیت
کا
بھی
فائدہ
اُٹھا
رہے
ہیں؟
میری
اِس
بے
کار
اور
بے
مصرف
زندگی
کو
تُول
دینے
کے
بدلے
ثواب
اکھٹا
کر
رہے
ہیں؟
ظالم،
بے
حس،
سفاک
کہیں
کے۔
کیسے
خشوع
و
خضوع
سے
میری
خدمتیں
کرتے
ہیں۔
ثوابوں
کے
بیوپاری۔
میں
تو
خودکُشی
بھی
نہیں
کر
سکتا۔
لگتا
ہے
میں
امَر
ہوں۔
اِس
جسم
سے
نجات
پاؤں
گا
تو
شاید
اصل
اور
ابدی
زندگی
پاؤں۔
کوئی
ایسی
زندگی
جس
میں
دولت
کی
دوڑ
کے
علاوہ
بھی
کچھ
ہو۔
اور
اگر
امَر
نہیں
بھی
تو
بہت
ہو
چکا۔
تھک
چُکا
ہوں
میں
اِس
اذیت
ناک
زندگی
سے۔
خالق
و
مخلوق
کچھ
تو
رحم
کرو
مجھ
پر۔
کوئی
تو
مار
دو
مجھے۔
کوئی
تو
میرے
قتل
کے
گناہ
کا
مرتکب
ہو
کر
مجھ پر احسان کرے۔
Excellent! :/
ReplyDelete