از
ٹیپو سلمان مخدوم
ٹیپو سلمان مخدوم
جائیداد کا تصور ملکیت
سے جڑا ہوا ہے۔ ملکیت کا مطلب ہے کہ قانون آپ کے چند مخصوص حقوق تسلیم کرتا ہے۔ ان
حقوقِ ملکیت میں قبضے کا حق، فائدہ اٹھانے کا حق اور فروخت کرنے کا حق سرِ فہرست
ہیں۔ یعنی قانونی طور پر مالک ہونے کا مطلب ہے کہ قانون آپ کو اس بات کی اجازت دیتا
ہے کہ آپ اپنی مِلک کو اپنے تک مقّید رکھ سکتے ہیں، صرف اور صرف اپنے فائدے کے لئے
استعمال کر سکتے ہیں۔ اور جب چاہے، جس کو چاہے اور جس قیمت پر جی چاہے فروخت کر
سکتے ہیں۔
جن جن چیزوں پر آپ اپنا
حقِ ملکیت استعمال کر سکتے ہیں وہ آپ کی جائداد متصور ہوں گی۔ مثلاً آپ کی گاڑی،
آپ کا گھر، آپ کی کتب، وغیرہ۔ کیونکہ ان سب چیزوں کو آپ اپنی حد تک محدود کر کہ
رکھ سکتے ہیں، صرف اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور مشروط یا غیر
مشروط کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف آپ کا اپنا بچہ آپ کی جائیداد نہیں۔
قانون آپ کو ہر گز یہ اجازت نہیں دیتا کہ آپ اپنے بچے کو کمرے میں بند کر کہ رکھیں
یا اسے کسی کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ کسی زمانے میں کنیزیں
اور غلامان جائیداد ہوا کرتے تھے اور ان کو نا صرف فروخت کیا جا سکتا تھا بلکہ
مالک ان کی جان بھی لے سکتا تھا۔ بلکل اسی طرح جس طرح آج کل ہم ایک مرغا خرید بھی
سکتے ہیں اور بیچ بھی سکتے ہیں اور جب چاہیں اس کی جان بھی لے سکتے ہیں۔
دوسری طرف کچھ ایسی
چیزیں بھی قانوناً آپ کی جائیداد ہو سکتی ہیں جن کا کوئی طبعیاتی وجود نہیں۔ مثلاً
آپ کے کاروبار کی نیک نامی آپ کی جائیداد ہے جسے آپ اپنے لئے مخصوص رکھ سکتے ہیں
اور چاہیں تو فروخت بھی کر سکتے ہیں۔ ایسی جائیدادیں ناقابلِ گرفت جائیدادیں بھی
کہلاتی ہیں۔
ملکیت سوائے اس کہ کچھ
بھی نہیں کہ قانون یہ تسلیم کرتا ہے کہ کسی خاص چیز پر آپ کے حقوق باقی ساری دنیا
سے افضل ہیں۔ اور ساتھ ہی قانون ان افضل حقوق کی حفاظت کا بیڑہ بھی اُٹھاتا
ہے۔
اسی طرح جائیداد بھی
مختلف حقوق کے ایک گلدستے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کسی چیز کا آپ کی جائیداد ہونے کا
مطلب ہے کہ اس چیز سے متعلق آپ کے کچھ حقوق قانون تسلیم کرتا ہے۔ جیسے کہ ایک فون
آپ کی جائیداد ہونے کا مطلب ہے کہ قانون اس فون پر آپ کے جملہ حقوق تسلیم کرتا ہے۔
اسی طرح اگر قانون نے یہ فون آپ کی جگہ میری ملکیت میں دینا ہو گا تو وہ صرف اتنا
کرے گا کہ اس فون سے متعلق آپ کے حقوق تسلیم کرنا بند کر دے گا اور اس فون سے
متعلق یہ تمام کے تمام حقوق اب میرے لئیے تسلیم کرنا شروع کر دے گا۔
ملکیت چونکہ قانون عطا
کرتا ہے لہٰذا اُس کی منشا ہے کہ وہ آپ کو ملکیت مشروط دے یا غیر مشروط۔ چنانچہ کئ
جائیدادیں ہماری غیر مشروط طور پر ملکیت ہوتی ہیں، مثلاً آپ کے کپڑے آپ کی غیر
مشروط جائیداد ہیں۔ آپ چاہیں تو انہیں پہنیں، چاہے الماری میں بند پڑے رہنے دیں،
کسی کو تحفے میں دے دیں یا آگ لگا دیں۔ آپ پر کوئی روک ٹوک نہ ہو گی۔ دوسری طرف آپ
کی خرید کردہ زمین آپ کی مشروط ملکیت ہوتی ہے۔ کیونکہ نہ تو زمین کے نیچے موجود
معدنیات آپ نکال سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر اپنی مرضی سے تعمیرات کر سکتے ہیں، جس
کے لئے نقشہ پاس کرتے ہوئے قانون بہت سے قدغن لگا دیتا ہے۔ جیسے کسی علاقے میں
اپنی رہائشی زمین پر آپ دکان تعمیر نہیں کر سکتے یا کئی علاقوں میں آپ اپنا مکان
دس منزلہ نہیں بنا سکتے، وغیرہ۔
قانون نے حقوقِ ملکیت
کے ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں۔ ملکیت تبدیل کرنے کے لئیے متعلقہ ریکارڈ میں صرف یہ
درج کرنا ضروری ہے کہ آج سے قانون نے فلاں جائیداد پر فلاں کی جگہ فلاں کے حقوق
تسلیم کر لئیے ہیں۔ اور بس، چشم زدن میں جائیداد کی ملکیت تبدیل ہو گئی۔
قبضہ کی منتقلی البتہ
فرق چیز ہے۔ حقوق قانونی ریکارڈ کے مطابق ہی تسلیم کئے جاتے ہیں جو ریکارڈ قانون
کے اپنے اداروں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا قانون اور اُس کے اداروں کو ہر وقت خبر
رہتی ہے کہ کون سی چیز کس کی ملکیت ہے۔ قبضہ کی منتقلی کا قانونی ریکارڈ میں
اندراج کروانا البتہ ضروری نہیں۔ جیسے کے اگر میں اپنی گاڑی اپنے دوست کو بیچ دوں
تو اس فروخت کا اندراج متعلقہ محکمے کے ریکارڈ میں کروانا ضروری ہے ورنہ قانوناً
وہ گاڑی میری ہی رہے گی۔ لیکن اگر میں اپنی گاڑی اپنے دوست کو کچھ دنوں کے لئے
مستعار دے دوں، تو اس کا اندراج کروانا ضروری نہیں۔ اسی طرح عام طور پر منقولہ
جائیداد کی خرید و فروخت کا اندراج کروانا لازم نہیں ہوتا۔ ان مُعاملات میں قانون
سمجھتا ہے کہ جس کا قبضہ اسی کی ملکیت۔
اس اصول کی وجہ سے کئی
قباحتیں بھی جنم لیتی ہیں۔ جیسے کہ لوگ کوئی چیز کسی سے مستعار لے کر واپس نہیں
کرتے اور ریکارڈ میں اندراج نہ ہونے کی وجہ سے قانوناً یہ ثابت کرنا کہ اصل مالک
کون ہے خاصہ مشکل اور طویل کام بن جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود قانون منقولہ جائیداد
کی ملکیت اور غیر منقولہ جائیداد کے قبضہ کی منتقلی کا ریکارڈ لازم قرار نہیں
دیتا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے لوگوں کو روز مرہ زندگی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا
پڑے گا۔ اور ہر چھوٹی سے چھوٹی فروخت اور ہر قبضہ کی منتقلی کا اندراج لازم ہونے
کی صورت میں کاروبار کرنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا قانون کی پالیسی یہی ہوتی ہے
کہ جائیدادوں سے متعلق کچھ منتقلیوں کا اندراج لازمی کر دیا جائے جبکہ باقی
منتقلیوں کو لوگوں کی اخلاقی اقدار پر موقوف کر دیا جائے۔ کجا کوئی معاملہ ہو جائے
گا تو عدالتیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لئے موجود ہوتی ہی
ہیں۔
No comments:
Post a Comment