Tuesday 21 February 2017

ایک مہربان سے مکالمہ: صوفی اور مولوی

از
شیراز احمد



مہربان: ویسے تو بڑی پوسٹیں لگاتا ہے محبت, بھائی چارے, اور مذہبی رواداری کی____ اور اب یہ مولوی پر تنقید___ بہت افسوس ہوا

میں: میرے بھائی مولوی کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے مولوی تو ایک سوچ کا نام ہے اسے لغوی معنوں میں مت لیں__




مہربان: بس کرو جانتا ہوں تمہاری لفاظی کو دراصل مذہب کے خلاف تمہاری نفرت ہے جو اُبل اُبل پڑتی ہے__

میں: میرے بھائی مذہب میرے اور میرے خدا کا معاملہ ہے میں اپنے اعمال اور عبادات میں صرف اسی کو جوابدہ ہوں

مہربان: او جانے دو تم مادر پدر آزاد ہو___ بے دین ہو تم__

میں: میرے بھائی مجھے یہ بتانے میں کوئی دلچسپی ہے نہ ہی میرا کوئی مقصد کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر میرا یہ کسی پر احسان نہیں جو میں منادی کرتا پھروں اور نہ ہی داڑھی رکھ کر مذہبی ٹھیکیداری کا لائسنس لیا ہے میں نے____

مہربان: تم نے مولوی کی توہین کی ہے

میں: میں نے تو ایک سوچ پر چوٹ کی ہے کسی کی داڑھی میں تنکا ہے تو وہ جانے اور اسکی داڑھی

مہربان: ویسے تم سے یہ امید نہ تھی

میں: اور مجھے مرتے دم تک آپ سے امید رہے گی

یارو! یہ تو صُوفیاء کی دھرتی تھی یہاں عشق, رواداری, تحمل, ایثار تھے___ وہ کیا ہوئے؟

ان عظمت کے میناروں کو کون ڈھا گیا؟

مری مٹی کی خوشبو کو کون لُوٹ گیا؟

مرے شہر کی روشنیوں کو کون چاٹ گیا؟ کون؟

مذہبی شدت پسندی کا جھنڈا اٹھا کر تم صرف اپنے احساسِ گناہ کو مٹا رہے ہو لیکن یہ ایسے نہیں مٹے گا مٹانا چاہتے ہو تو تحمل, برداشت اور رواداری ہی واحد راستہ ہے ورنہ بھٹکتے رہو

No comments:

Post a Comment