Monday 15 October 2018

ماں بولی۔ پنجابی

(آن آلی کتاب توں اِک باب)
ماں بولی
 لیکھک
ٹیپو سلمان مخدوم

اسُو تے کتّے دا موسم، جینہُوں اُردُو وِچ خِزاں تے انگریزی اِچ فَول کیہندے آں، اوہناں ای ودھیا ہوندا اے جیہناں چِتر تے وِساکھ دا ہوندا اے، جیہنُوں اُردُو اِچ بہار تے انگریزی اِچ سپرِنگ کیہی دا اے۔ سخت موسم بدل جاندا اے، درجائے حرارت سوکھا ہو جاندا اے تے سُورج دی روشنی ہولی ہو جاندی اے جِستوں ہر شے دا رنگ نِکھر آندا اے۔ طبیعت اِچ خُشی جیہی وڑ آوندی اے۔ ہر شے چنگی چنگی لگن لگ پیندی اے۔ پنجاب دی رِیت اے کہ جدوں وی موسم بدلدا اے، اسی میلا ٹھیلا لا کے نچدے گاؤندے آں۔ پنجاب دِیاں رِیتاں پنجاب دی بھوئیں تو پُنگردِیاں نیں کیُونجے ایہہ ایتھوں دے موسماں، رُکھاں، جنوراں، دریاواں تے مٹّی نال جُڑِیاں نیں۔

Monday 17 September 2018

کینوس۔ کہانی

کینوس
از
شہزاد اسلم



جلال حیدر اپنے کمرے میں بستر پر دبا بیٹھا تھا۔ کچھ کہہ نہیں سکتے، سردی کی شدت کا اثر تھا کہ خوف کا۔ خوف جو کمرے کے اندر بسی خاموشی اور تنہائی کے بیچ برف کی طرح جم گیا تھا۔ جلال کی سانسوں کی تھکی آواز اس کے کانوں میں شور برپا کر رہی تھی۔ کان تو کچھ سننا نہیں چاہ رہے تھے۔ جلال کے جسم کے حصوں کا الگ الگ خوف مل کر جلال پر حاوی ہو رہا تھا۔ الگ الگ کیوں، خوف تو صرف دماغ میںپیدا ہوتا ہے۔ تو پھر دماغ نے اپنا خوف جسم کے اعضائ میں تقسیم کر دیا ہو گا۔

کتوں کی لڑائی۔ کہانی

کتوں کی لڑائی
از
شہزاد اسلم


ابھی سورج افق سے نمودار ہوکر گندم کے لہلہاتے پتوں پر جمی ہوئی اوس کو جزب کرنے کیلئے فاتحانہ انداز میں بل سے باہر آرہا تھا کہ شمال سے کالے بادلوں نے گرج کر اپنی آمدکی اطلاع دی ۔ گائوں کے لوگوں کو جہاں بادلوں سے، ستے ہوئے پانی کا ہوا میں تیرتے ہوئے مین پر ڈنکے کی مانند گر کر پیرا کرنے والی موسیقی کا شوق تھا وہاں انہیں اس بات کا فکر بھی تھا کہ اگر بارش ہو گی تو چوہدری اختر کے کتوں کی لڑائی کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ان دنوں گائوں کے لوگوں کی زبانوں پر کتوں اور ان کے مالکوں کے نام پر لی ورد ہو رہا تھا۔ پچھلے کئی سالوں کے مقابلوں کی کہانیاں تاریخ کے اسباق کی طرح دہرائی جاری تجھیں ہر شخص نے اپنی اپنی پسند کے کتے کو ہیرو کا درجہ دے کر صورت و سیرت کے قصیعے تخلیق کرلئے تھے۔

Sunday 9 September 2018

طلسماتی بیوی۔ مزاحیہ سرگزشت

طلسماتی بیوی
از
صدف سلمان مخدوم



کل جب مجازی خدا گھر تشریف لائے تو میں نے شوہرِ نامراد سے پوچھا ’جانو آپ کو دنبے کا گوشت بنا دوں؟‘ تو آگے سے بھُنا ہوا جواب آیا ’تو بڑی جادوگرنی ہے جو مجھے دنبہ بنائے گی۔‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کیا اب شوہر نامراد کو بس میں کرنے کے لئے جادوگرنی ہونا اتنا ضروری ہے؟ دِل میں آیا کہ ’پنکی‘ باجی کو کوسوں۔ کیا ٹرینڈ سیٹ کر دیا ہے ان نامراد خاوندوں کے لئے۔

Wednesday 20 June 2018

میں ہاں گندم دا اک دانہ۔ پنجابی کہانی

میں ہاں گَندَم دا اِکّ دانہ
لیکھَک
ٹِیپُو سَلمان مخدُوم


’آئے ہائے۔ ایہہ کیہ اے سِیاپا جیا؟ چار چفیرے سِیمنٹ دِیاں کَندھاں۔ بورے ای بورے۔ دانے ای دانے۔ تے اُتّوں بھُوسے دی جگہ ایہہ  چُوہے مار گُولِیاں  جئیاں۔ میرا تے ساہ ای گھُٹِیا پیئا جاندا اے۔‘
اِک اواز آئی، تے فیر دُوجی۔
’تُسی تے جاپدا اے کِسے کارپُوریٹ فارم تھانی آئے ہو۔ وڈّے نازک مِزاج پئے دِسدے او۔‘
اواج  میرے سجّے پاسیوں آئی سِی۔  میں  اودھر تکیا تے اِک نواں نکور دانہ دند پئا کڈھدا سی۔

Tuesday 19 June 2018

روٹی۔ پنجابی کہانی

روٹی
لیکھک
ٹیپو سلمان مخدوم



لوکی کہندے نیں روٹی ہُن مسئلا نہیں ریہا۔ روٹی داتا صاب تے دِن رات لبھدی اے۔ ایس زمانے اِچ کوئی وی بھُکّھا نہیں مرَن لگّا۔ ایس بارے اوہ اِک لطیفہ وی سُناندے نیں۔ اِک آدمی نے نوکر رکھِیا تے اوہنُوں کیہا میں تینوں پیہے نہیں دواں گا، بس دو وقَت دی روٹی دواں گا۔ نوکر من گیا تے پُچھّن لگا بئی اوہدا کم کی ہووے گا۔ مالک بولیا تُوں سویرے شامی داتا دربار جانا ہووے گا۔ آپ کھا آیا کرِیں تے میرے لئی لے آیا کرِیں۔

Monday 4 June 2018

کافی دا دُوجا کپ ۔ پنجابی کہانی

کافی  دا   دُوجا   کپ
لیکھک
ٹیپو سلمان مخدوم


جہاز دا کپتان چنگا نہیں سی۔ اوہنُوں  پہلاں ای پتا لگ گیا سی۔ جدوں جہاز اُڈِیا سی تے کپتان نے کھلوتے جہاز نُوں ریس دے کے اِکّ دَم دوڑایا تے فیر فٹا فٹ ای  اِک جھٹکے نال ہوا اِچ چُک لیا سی۔  اوسے ویلے اوہنے جاپ لیا سی بئی اے کپتان اونترا جیہا اے۔ تے فیر جدوں اوہنے جہاز تھَلّے لاہیا تے ٹھاہ کر کے زوئیں تے مارِیا سی، جِسراں جہاز آپنے کھَمباں تے نہیں پَیرا شُوٹ تے اُڈدا آیا سی۔ خیر اوہنے رَبّ دا شُکر کِیتا کہ خیر خیرِیت نال لینڈِنگ ہو گئی سی۔ جہاز ٹیکسی کَردا کَردا جدوں کھلو گیا تے ادّھے مُسافِر کھلو کے سِیٹاں دے اُتّے لگّے خانیاں توں آپنے بکسے تے برِیف کیس کڈھن لگ پئے۔ تے نال ای ائر ہوسٹساں اوہنا دے دوالے ہو گئیاں تے عربی لہجے دی انگریزی اِچ بہہ جاؤ بہہ جاؤ چِیکَن لگ پئیاں۔ اوہ خموشی نال بیٹھا اے تماشا ویکھدا ریہا۔ مُسکاندا ریہا۔ اے تماشا ہر لینڈِنگ تے ہوندا سی۔ اوہدی اگلی فلائٹ چھ گھَینٹے بعد سی ایس لئی اوہنوُں کوئی چھیتی وی نہیں سی۔ جہاز ٹَنَل نال جُڑ گیا تے بُوا کھُل گیا۔ پہلاں بِزنَس کلاس دے مُسافِر نِکلے تے فیر اِکونومی کلاس دے۔ اوہ جہاز دی پُونچھَل دی سِیٹاں تے سی ایس لئی سب توں اخِیر اِچ نِکلیا۔  مِٹھیائی ونگرا آپنا پہئیاں آلا بیگ نال ریھڑدا، رِمکے رِمکے ٹُردا اوہ دُبئی دے ہوائی اڈّے اِچ اَپڑ گیا۔ ہوائی اڈّا کی سی نِکّا جِنّا شہر ای سی۔ اِک ٹرمِینَل توں دُوجے ٹرمِینَل جان واسطے میٹرو ٹرین ہوائی اڈّے دی آپنی سی۔ وِچ ای دُکاناں وی سَن، ریسٹورینٹ وی تے بِیوُٹی پارلر تک  سَن۔ ہور تے ہور سَون لئی نِکّے نِکّے کمرے وی سَن۔ چھ چھ گھَینٹے دے حِساب نال کرائے تے لَبھدے سَن۔

Tuesday 29 May 2018

ایمان ۔ کہانی

ایمان
از
شہزاد اسلم


رات کا اندھیرا اپنے اندر آسمان کی وسعت لئے تہہ در تہہ پھیلا ہوا ہے۔ کرشنا نگر گاؤں کی تاریک گلیوں کی گہری خاموشی سے پرے ندی کا پانی سانپ کی پھنکار جیسی آواز کے ہمدم بہہ رہا ہے۔ گاؤں میں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کے چند گھروں کے گرد پھیلی ہوئی ہے جیسے ان کی حفاظتی فصیل ہو۔ مسلمانوں کے گھروں سے جڑے ہوئے امام باڑہ اور گاؤں کے باہر واقع مندر نے اپنی حیثیت اور پاک بازی کا دوسرے کو علم نہ ہونے دیا تھا۔ دونوں عمارتیں ایک دوسرے سے لاعلم اور بے پرواہ امام حسینؓ کے گھوڑے اور گاؤ ماتا کے تقدس سے ہمکنار تھیں۔  دونوں کے جسموں سے گاؤں کی ندی کے پانی کو پوتر کیا جاتا تھا۔ محرم کے دنوں میں جب دور دور سے لوگ مجلس میں شرکت کرنے آتے تو گاؤں کے ہندو بھی امام حسینؓ کی شہادت کے بیان کو سنتے اور اپنی مرادیں پوری کرنے کیلئے گھوڑے کے نیچے سے جھک کر گزرتے اور روضہ کو بوسہ دیتے۔ بیساکھی کا میلہ ہو یا رنگولی ہو، مٹی اور رنگوں کی تہہ مسلمان اور ہندو کے چہروں پر یکساں جمتی۔ گیہوں کی فصل کی خوشبو کو، ہوا بلا امتیازِ مذہب گلیوں اور گھروں کے اندر بکھیرتی۔ کشادہ  گھروں کو مسلمانوں کے نوجوانوں نے ہی آزادی کی جنگ کے بعد  تعمیر کیا تھا۔ ہندو سرپنچ مسلمانوں کے گھریلو جھگڑوں کے تصفیہ کیلئے پنچایت لگا تے۔ چند ایک موقعوں پر تو مسلمان لڑکوں نے مندر کی خستہ دیواروں کو مرمت بھی کیا تھا۔

چیل گوشت ۔ کہانی

چیل  گوشت
از
شہزاد  اسلم


رمضان لاہور کی سول عدالت میں بطور اہلمد (ریکارڈ کیپر) تعینات ہے۔ وہ پندرہ سال قبل اپنے چچا زاد بھائی جو ہائی کورٹ میں ملازم تھا، کی کوششوں سے نوکر ہوا۔ نوکری ملنے سے تعلیم کا سلسلہ ایف اے تک منقطع ہو گیا۔ شادی کے بعد، بیوی اور تین بچوں کا بوجھ فائلوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔ زندگی اسی بوجھ سے لرزہ براندام تھی۔ تقریباً بیس مختلف سول ججوں کے ساتھ کام کرتے کرتے طبعیت کرختگی اور الجھن نے افسانہ برپا کر دیا تھا۔

Saturday 26 May 2018

زمین کی قیمت ۔ کہانی

زمین کی قیمت
از
شہزاد اسلم


اشرف نے اپنی ساری زندگی ایمانداری سے گزاری تھی۔ لیکن وقت شاید ایماندار نہیں رہا تھا۔ پیشے سے وہ موچی تھا اور نسل در نسل جوتوں  کی مرمت کا ہنر اس تک پہنچ کر اٹک گیا تھا۔ نائی، موچی، کمہار اور دوسرے کم ذات لوگوں کے پیشے اپنی موت آپ ہی مر رہے تھے۔ گاؤں کی زندگی اتنی تیزی سے بدلی کہ پرانے جوتوں کی مرمت قصہ پارنیہ بن گیا۔ جب جوتوں کی مرمت نہیں ہوتی تو گاؤں کے لوگ کاتک اور بیساکھ کی فصل کا حصہ کیوں کر اشرف کو دیتے۔

Friday 25 May 2018

دیسی شراب۔ کہانی

دیسی شراب
از
شہزاد اسلم

جون کے مہینے کی سخت گرمی میں افق پر گرد کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ شام نے  سورج کو اپنے اندھیروں کے پیٹ میں جذب کرنے کیلئے منہ کھول لیا تھا۔ پیاس اور بھوک  سے لاغر اجسام مغرب کے کناروں پر نئے چاند کی آمد سے مایوس ہو کر گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ اس دفع بھی روزے تیس ہوں گے۔ گلیوں اور بازاروں میں رویت ہلال کمیٹی کے چاند نظر نہ آنے کے اس اعلان کو گرد آلود فضا، کمیٹی کے ارکان کی ناقص بیتی اور حکومتی سازش سے تعبیر کیا گیا۔

Monday 30 April 2018

گناہ ۔ پنجابی کہانی

گُناہ
لیکھک
ٹیپو سلمان مخدوم


شراب پیِندے پیِندے اوہدا دِل کیِتا بئی اوہ نماز پڑھے۔ اوہنوں کھِج جئی  چَڑھی۔ ایستوں پہلاں نشے اِچ اوہنوُں بس دو ای طرحاں دے خیال آندے سَن۔

Friday 27 April 2018

صحرائے دل ۔ کہانی

صحرائے دل
از
 شیراز احمد

اس سے قبل میں نے صحراؤں سے متعلق بہت سی کہانیاں سن رکھیں تھیں کہ صحرا میں ایک انجانا خوف اور اداسی ہوتی ہےجو بعض اوقات اپنے مسافر کو کلاوے میں لے لیتے ہیں مسافر ایک نامعلوم سی اداسی اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اس بار بہاولپور میں یہ تجربہ ہوا رات میں ہوا کی شُوکریں اور آہ و زاریاں جب سینہ بوجھل کرنے لگیں تو میں کمرے میں دبک گیا ایک بے وجہ سی اکتاہٹ اور ویرانی نے دل کو جکڑ لیا لاکھ دامن ٹٹولا لیکن کچھ نہ ملا ۔۔۔۔۔۔   ماسوائے اداسی و ویرانی کے جو میری تنہائی سے ہی دست و گریباں تھے.

Monday 16 April 2018

Uchi Suth-than. Punjabi Short Story


ਉੱਚੀ ਸੁਥੱਣ
ਲੇਖਕ
ਟੀਪੂ ਸਲਮਾਨ ਮਖ਼ਦੂਮ


ਟੀ  ਵੀ ੲਚੱ ਡਰਾਮਾ ਵੇਖਦਿਆਂ ਉਹਨੇ ਵੋਹਟੀ ਨੂੰ ਆਖਿਆ ਬਈ ਓ ਏਸ ਹੀਰੋੲਨ  ਵੰਗਰਾ ਸੂਟ ਕਿਉਂ ਨਹੀਂ ਪਾਂਦੀ?  ਏਸ ਤਰ੍ਹਾਂ ਦਾ? ਵੋਹਟੀ  ਨੇ ਹਰੀਆਨ ਹੋ ਕਿ ਪੁੱਛਿਆ? ਹਾਂ ਬਈ, ਚੰਗਾ ਸੋਹਣਾ ਡਜ਼ਾੲਨ ਏ ਤੇ ਤੇਰੇ ਤੇ ਚੋਖਾ ਫਬੇਗਾ। ਪਰ ਏ ਤੇ ਬਾਂਹਵਾਂ ਬਗ਼ੈਰ ਦੀ ਕਮੀਜ਼ ਏ। ਵੋਹਟੀ ਨੇ ਜ਼ਰਾ ਕ ਝਕਦੇ ਕਿਹਾ। ਹਾਂ ਤੇ ਕੋਈ ਗੱਲ ਨਹੀਂ, ਤੁੰ ਬਾਂਹਵਾਂ ਨਾਲ਼ ਸਿਲਵਾ ਲਈਂ। ਉਹਨੇ ਅਰਮਾਨ ਨਾਲ਼ ਕੈਹ ਦਿੱਤਾ। ਏ ਸੁਣਦੇ ਈ ਵੋਹਟੀ  ਨੂੰ ਤੇ ਜਿਵੇਂ  ਸੱਪ ਲੜ ਗਿਆ। ਬਾਂਹਵਾਂ ਨਾਲ਼? ਲਓ, ਬਾਂਹਵਾਂ ਨਾਲ਼ ਤੇ ਐਸ ਸੂਟ ਦਾ ਸਤਿਆਨਾਸ ਨਈ ਮਾਰਿਆ ਜਾਣਾ? ਇਹਦੀ ਤੇ ਸ਼ੋ ਈ ਕਾਈ ਨਹੀਂ ਰਹਣੀ। ਫ਼ਿਰ ਫ਼ਾਇਦਾ ਕੀ ਈਨੂੰ ਸਵਾਣ ਦਾ।  ਰਹਿਣ ਦਿਓ ਤੁਸੀ। ਉਹ ਮਾੜਾ  ਜਿਆ ਮੁਸਕਾਇਆ।  ਏ ਬਾਂਹਵਾਂ ਬਗ਼ੈਰ ਕਮੀਜ਼ ਦੀ ਗੱਲ ਪਹਿਲਾਂ ਵੀ ਕਈ ਵਾਰ ਹੋ ਚੁੱਕੀ ਸੀ।  ਤੇ ਓਨ੍ਹੋਂ  ਚੰਗਾ ਅੰਦਾਜ਼ਾ ਸੀ ਕੇ ਕੀ ਹੋਵੇਗਾ। ਲੈ ਤੂੰ ਕਮੀਜ਼ ਸਵਾਂਣਿ ਏਂ ਕੇ ਨਾਇਟੀ

Saturday 14 April 2018

Qrardad e Maqasid - Punjabi Short Story


ਕਰਾਰਦਾਦ-ਏ- ਮਕਾਸਿਦ
ਲੇਖਕ
ਟੀਪੂ ਸਲਮਾਨ ਮਖ਼ਦੂਮ


ਜਦੋਂ ਲੋਕੀ ਚੀਕ ਚੀਕ ਕਿ ਕਹਿੰਦੇ ਨੇਂ ਕਿ ਮੇਰਾ ਬੀ 712 ਈਸਵੀ ੲਚੱ ਪਿਆ ਸੀ ਤੇ ਮੈਨੂੰ ਦੰਦਲ ਜਏ ਪੇ ਜਾਂਦੇ ਨੇਂ। ਮੈਂ ਤੇ ੧੯੪੯ ੲਚੱ   ਬਹਿਰ-ਏ-ਅਰਬ ਦੇ  ਕੰਢੇ ਜੰਮੀ  ਸਾਂ, ਏ ਮੈਨੂੰ ਇੱਕ ਹਜ਼ਾਰ  ਦੋ ਸੌ ਵਰ੍ਹੇ ਪਹਿਲਾਂ  ਕਿੱਥੇ  ਧਰੂਕੀ ਫਿਰਦੇ ਨੇਂ? ਪਰ ਲੋਕੀ ਲਾਲ਼ ਪੀਲੇ ਹੁੰਦੇ ਨੇਂ,  ਰਾਲ਼ਾਂ ਵਗਾਂਦੇ ਨੇਂ। ਇਹੋ ਜਿਹਾਂ ਲਾਲ਼ ਲਾਲ਼ ਤੇ ਗੋਲ ਗੋਲ ਅੱਖਾਂ ਕਢਦੇ ਨੇਂ ਕਿ ਮੈਂ ਆਪ ਘਾਬਰ ਜਾਨੀ ਆਂ। ਮੈਨੂੰ ਤੇ ਉਹਦੋਂ ਦੇ ਬਾਦ ਦਾ ਈ ਪਤਾ ਏ ਨਾ ਜਦੋਂ ਦੀ ਮੇਰੀ ਅੱਖ ਨੇ ਵੇਖਣਾ ਸ਼ੁਰੂ ਕੀਤਾ ਏ। ਪਹਿਲਾਂ ਦੀ ਤੇ ਮੈਂ ਬੱਸ ਗੱਲਾਂ ਈ ਸੁਣੀਆਂ ਨੇ। ਤੇ ਸਾਡਾ ਇਨਸਾਨਾਂ ਆਲ਼ਾ ਹਿਸਾਬ ਤੇ ਹੁੰਦਾ ਨਹੀਂ ਕਿ ਵੱਡੇ ਛੋਟੀਆਂ ਨੂੰ ਦੱਸਣ ਬਈ ਤੁਹਾਡੋਂ ਪਹਿਲਾਂ ਕੀ ਹੋਇਆ ਸੀ। ਮੈਨੂੰ ਤੇ ਲੋਕ ਈ ਦੱਸਦੇ ਨੇਂ ਬਈ ਮੇਰਾ ਸ਼ਜਰਾ ਕਿੱਥੇ ਤੀਕਰ ਜਾਂਦਾ ਏ। ਏ ਕਹਿੰਦੇ ਨੇਂ ਕਿ ਮੈਂ 12  ਮਾਰਚ 1949 ਨੂੰ ਤੇ ਬੱਸ ਆਪਣੀ ਅਜੋਕੀ ਸ਼ਕਲ ੲਚੱ ਜੰਮੀ ਸਾਂ। ਕਰਾਚੀ ਦੇ ਅਸੰਬਲੀ ਚੈਂਬਰ ੲਚੱਮੇਰਾ ਬੀ ਦੇਬਲ ਦੇ ਸਾਹਿਲ ਤੇ ਓਸ ਵੇਲੇ ਈ ਪੇ ਗਿਆ ਸੀ ਜਦੋਂ 712 ੲਚੱ ਮੁਹੰਮਦ ਬਿਨ ਕਾਸਿਮ ਅਰਬੀ ਨੇ ਹਮਲਾ ਕਰ ਕਿ ਇਥੋਂ ਦੇ ਸਿੰਧੀ ਰਾਜੇ ਦਾਹਿਰ ਨੂੰ ਢਾਇਆ ਤੇ ਫ਼ਿਰ ਸਿੰਧੀ ਲੋਕੀ ਹਿਨਦੋਵੋਂ ਮੁਸਲਮਾਨ ਹੋਣ ਲੱਗ ਪਏ। ਉਹ ਕਹਿੰਦੇ ਨੇਂ ਬਈ ਕਬੀਲੇ ਖ਼ੂਨ ਨਾਲ਼ ਬੰਦੇ ਨੇਂ ਪਰ ਕੌਮਾਂ ਖ਼ਿਆਲ ਨਾਲ਼ ਬੰਦਿਆਂ ਨੇਂ। ਸੋ ਜਦੋਂ ਸਿੰਧੀਆਂ ਨੇ ਇਸਲਾਮ ਕਬੂਲ ਕਰ ਲਿਆ ਤੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਦਾ ਕਬੀਲਾ ਸਿੰਧੀ ਈ ਰਿਹਾ ਪਰ ਕੌਮ ਸਿੰਧਿਓਂ ਬਦਲ ਕਿ ਮੁਸਲਮਾਨ ਹੋ ਗਈ। ਤੇ ਫ਼ਿਰ ਸਿੰਧੀ ਕੌਮ ਖ਼ਿਆਲ ਦੀ ਤਾਕਤ ਨਾਲ਼ ਵੰਡੀ ਗਈ।।।। ਵੱਡੀ ਗਈ। ਹੁਣ ਸਿੰਧ ੲਚੱ ਸੰਧੀ ਤੇ ਅਰਬੀ ਕੌਮਾਂ ਨਹੀਂ ਸਨ। ਬੁੱਧ, ਜੈਨ, ਹਿੰਦੂ ਤੇ ਮੁਸਲਮਾਨ ਕੌਮਾਂ ਵੀ ਨਹੀਂ ਸਨ। ਬੱਸ ਦੋ ਕੌਮਾਂ ਸਨ ਬਣ ਗਈਆਂ। ਮੁਸਲਮਾਨ ਕੌਮ ਤੇ ਕਾਫ਼ਰ ਕੌਮ।

Friday 13 April 2018

قراردادِ مقاصِد۔ پنجابی کہانی

قرار دادِ  مقاصِد
از
ٹیپو سلمان مخدوم


جدوں لوکی چِیک چِیک کہ کہندے نیں کہ میرا بی 712 عیسوی اِچ پیا سِی تے مینوں دَندَل جئے پے جاندے نیں۔ میں تے 1949 ء اِچ   بحرِ عرَب دے  کَنڈے جمّی  ساں، اے مینوں اِک ہزار  دوُنہہ سوَ وَرھے پہلاں  کِتھے  دھروُکی پھِردے نیں؟ پر لوکی لال پیلے ہوندے نیں،  رالاں وگاندے نیں۔ ایہو جئاں لال لال تے گول گول اکھاں کَڈ دے نیں کہ میں آپ گھابَر جانی آں۔ مینوُں تے اوہدوں دے بعد دا اِی پتا اے نا جدوں دی میری اکھ نے ویکھنا شروع کیِتا اے۔ پہلاں دی تے میں بس گّلاں اِی سُنِیاں نے۔

Wednesday 11 April 2018

Vegetables. Punjabi Short Story


ਸਬਜ਼ੀਆਂ
ਲੇਖਕ
ਟੀਪੂ ਸਲਮਾਨ ਮਖ਼ਦੂਮ



ਓਹਦੀ ਸੱਤ ਵਰ੍ਹਿਆਂ ਦੀ ਧੀ ਓਹਦੇ ਮੋਢਿਆਂ ਤੇ ਚੜ੍ਹੀ ਓਹਦੇ ਬੋਦੇ ਪੁੱਟ ਰਹੀ ਸੀ ਜਦੋਂ ਓਹਦੀ ਵੋਹਟੀ ਨੇ ਓਹਦੇ ਹੱਥ ਸਬਜ਼ੀਆਂ ਦੀ ਇਕ ਲੰਮੀ  ਲਿਸਟ ਫੜਾਈ। ਇਤਵਾਰ ਦੀ ਸਵੇਰ ਸੀ, ਕੈਲਸਟਰੋਲ ਵੀ ਕਾਬੂ ਇੱਚ ਨਹੀਂ ਸੀ, ਓਹਨੇ ਸੋਚਿਆ ਚਲੋ ਪੈਦਲ ਈ ਜਾਣਾ ਹਾਂ, ਕੁਝ ਵਰਜ਼ਿਸ਼ ਈ ਹੋ ਜਾਵੇਗੀ। ਓਹਦੀ ਧੀ ਵੀ ਓਹਦੇ ਦੁਆਲੇ ਹੋ ਗਈ ਕੇ ਉਹ ਵੀ ਨਾਲ਼ ਚੱਲੇਗੀ।  ਉਹ ਫ਼ੱਟਾ ਫਟ  ਆਪਣੀ ਨਿੱਕੀ ਜਈ ਸੈਕਲ ਵੀ ਫੜ ਲਿਆਈ ਜਦੇ ਪਿਛਲੇ  ਪਹੀਏ ਨਾਲ਼ ਦੋ ਨਿੱਕੇ ਨਿੱਕੇ ਪਹੀਏ ਲੱਗੇ ਹੁੰਦੇ ਨੇ ਤਾਂ ਬਾਲ ਡਿੱਗਣ ਨਾ।

Saturday 7 April 2018

تصویر غم ۔ کہانی


تصویرِ غم
از
شیراز احمد



اتوار کا روز تھا میں ناشتہ لینے کے لیے مٹھائی کی دکان پر کھڑا پوڑیاں تیل میں سُڑ سُڑ ہوتے دیکھ رہا تھا لوگ سوسائٹی کی مارکیٹ میں آ جا رہے تھے لاہورئیے آج بھی چھٹی والے دن ناشتہ بہت اہتمام سے کرتے ہیں خاموش گہما گہمی تھی گاہگ تھے تو مگر شور نام کو نہ تھا اتنے میں ایک بوڑھا آدمی شب خوابی کے لباس میں ملبوس دکان پر آیا کوئی ستر کے پیٹے میں ہو گا پہلی نظر میں اس کے سفید بال اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی اس کے تجربے پر دلالت کر رہے تھے دکاندار نے دیکھتے ہی تعظیم  اور ملازم نے پھرتی دکھائی____ وکیل صاحب کے لیے کرسی آ چکی تھی میری توجہ قدرتی طور پر وکیل صاحب کی طرف ہو گئی وہ بھی جیسے میری توجہ بھانپ گئے بولے "آپ اسی سوسائٹی میں رہتے ہیں"

Thursday 5 April 2018

اُچّی سُتّھَن ۔ پنجابی کہانی


اُچّی سُتھَّن
از
ٹیپو سلمان مخدوم


ٹی  وی اِچ ڈرامہ ویکھدیاں اوہنے ووہٹی نوُں آکھِیا بئی او ایس ہیرویِن  ونگرا سُوٹ کیوں نہیں پاندی؟  ایس طرحاں دا؟ ووہٹی  نے حریان ہو کہ پوُچھِیا؟ ہاں بئی، چنگا سوہنا ڈزیَن اے تے تیرے تے چوکھا پھَبّے گا۔ پر اے تے بانہواں بغیر دی قِمیض اے۔ ووہٹی نے ذرا ک جھَکدے کیہا۔ ہاں تے کوئی گَل نہیں، تُو بانہواں نال سِلوا لئیں۔ اوہنے ارمان نال کہہ دِتّا۔ 

Saturday 31 March 2018

سبزیاں ۔ پنجابی کہانی

سبزیاں
از
ٹیپو سلمان مخدوم


اوہْدی سَت ورھیاں دی دِھی اوہْدے موڈھیاں تے چَڑھی اوہْدے بودے پُٹ رَہی سی جَدّوں اوہْدی ووہٹی نے اوہْدے ہتھ سبزیاں دی اَکّ لمّی  لَسٹ پھڑائی۔ اِتوار دی سویر سی، کیلِسٹروَل وی قابوُ اِچ نہیں سی، اوہْنے سوچیا چلو پیدل ای جانا ہاں، کُج ورزِش اِی ہو جاوے گی۔ اوہْدی دِھی وی اوہْدے دوالے ہو گئی کے اوہ وی نال چلّے گی۔  اوہ فٹّا فَٹ  آپنی نَکّی جئی سَیکل وی پھَڑ لیائی جِدّے پَچھلے  پَئہیے نال دو نِکّے نِکّے پَئہیے لگے ہوندے نے تاں بال ڈَگّن نہ۔

Monday 19 March 2018

بغیرت کتے۔ پنجابی کہانی

بغیرت کتے
از
ٹیپو سلمان مخدوم



اوہ اِک کُتّا سِی۔ بغیرت اَیس لَئی سِی کہ  آپنی بَھین نال سوَندا سِی۔ کوئی کَہندا    وی کی، جَنور سی ،کوئی جاتی دھرمی تے سی نہیں۔ کیہڑا قنون تے کیہڑی لجّا۔ نہ اوہنوں اے کَیہن جوگے بئی اے تیرے جَنگل وِچ ہوندا اے پَر ابادیاں وِچ ایس طَرحاں نہیں چَلدا۔  ابادیاںِ وچ اے گَل بغیرتی۔ تے اوَنترے نُوں سَینسی حَساب نال وی تے نہیں سی دَس سکدے بئی ایس طَرحاں  کَریں گا تے بال بَماریاں نال جَمن گے، جِسراں مامے مسیَر یاں چاچے پھُوپھی  دیاں  دِھیاں نَال وِیاہ رچاؤن آلے ساڈے ٹَبراں وِچ ہوندا اَے۔ ہُن کُتیاں نوں کی کَیہندے۔   کُج وی نہیں سی کہہ سَکدے۔

Saturday 3 March 2018

تھائی کھسرا ۔ پنجابی کہانی

تھائی کھسرا
از
ٹیپو سلمان مخدوم


اوہ تھائی لینڈ دا کُھسرا سی، پر سی رَج کہ سوہنا۔ مینوں اوہ جدوں وی چیتے آوندا اے میری اکھاں اگے اوہدی دو شیواں جھلدیاں نے۔ اکّ اوہدے رسیلے بُل تے دوجی اوہدیاں روندیاں اکّھاں۔
اخیرلی وارے جدوں ساڈھیاں نظراں ملیاں سن تے اوہدی اکھیاں رون ڈھیاں سَن۔ اوہ اَجّ وی ایہی سمجھدا ہووے گا کہ اوس دنیں صرف اوہی رویا سی۔ جد کہ رو میں وی پیا ساں۔

Monday 26 February 2018

Hello Dad-Story

Hello Dad
By
Tipu Salman Makhdoom



The dumb lying in this grave was my only father. I don’t know if it was because of some kind of hormonal imbalance or what, but he had an abnormal godly passion for creation. I mean he had assumed himself to be a small-scale competitor of God. Used his manly tricks with Mom to produce me. Kept filling his liver with liquor to produce cancer. And did a lot of circus trying to produce wealth and Fame.
Well, to be honest, I am not disrespectful of my father. Its only that he died at 55 and I am now 85 years old. My sons are now older than my father.

پیو۔ پنجابی کہانی

پیو
از
ٹیپو سلمان مخدوم


اکّو اک تے پیو سی میرا، تے او وی مر گیا شوہدا۔ اونوں ہوری لگدا سی او خدا دا نائب نئی مختارِ عام سی۔ سب کُج پیدا کرڻ آلا۔ بےبے چ میرا بی پا کہ مینوں پیدا کیتا۔ آپڻے کلیجے تے شراب دے مینہ ورسا کے سرطان پیدا کیتا تے ساری عمر پُٹھا سِدھا ہو ہو کہ دولت تے عزت پیدا کرڻ دی کوشِشاں کردا ریا۔

Tuesday 30 January 2018

نہیں نقش گر

نہیں نقش گر
 از
ٹیپو سلمان مخدوم

کئی سیکنڈ تک وہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اُس کی آنکھ کس چیز سے کھلی ہے۔ بچی کے رونے سے یا پیشاب کے پریشر سے۔ ایک طرف سوئی اُس کی منجھلی بیٹی نے ٹانگیں مار مار کر کمبل پائنتی میں اکٹھا کر رکھا تھا۔ دوسری طرف بیوی بیٹھی چھوٹی بیٹی کو چُپ کروا رہی تھی۔ کیا ٹائم ہوا ہے؟ اُس نے بیوی سے پوچھا۔ پونے سات۔ چلو، ابھی الارم بجنے میں پندرہ منٹ ہیں، اُس نے سوچا۔ اور ساتھ ہی کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ پندرہ منٹ لیٹا رہے اور ایک ہی بار اُٹھے یا پھر پیشاب کر کہ آجائے اور پندرہ منٹ لیٹ جائے؟ اُٹھا  جا تو نہیں  رہا تھا مگر اِس طرح تکلیف میں ٹانگیں اکٹھی کر کہ کبھی  اِدھر  اور کبھی اُدھر کروٹیں لینے کا کیا فائدہ تھا۔

Wednesday 10 January 2018

گوریاں ڈیݨاں


گورِیاں ڈیݨاں چُڑیلاں دے مقدمے۔ پنجابی
(ݨ= ں + ڑں)
از
ٹیپو سلمان مخدوم
اے مضمون برطانیہ دے مشہور روزوار اخبار گارڈیئن چ  چھپے مضمون توں ماخوذ اے۔ اصل انگریزی مضمون دا ناں تے ویب ایڈریس اے جے:
Why Europe’s wars of religion put 40,000 ‘witches’ to a terrible death۔By Jamie Doward۔Sun 7 Jan 2018


مضمون:
ہندوستان وچ مغل دور دے عروج دے زمانے وِچ اِک پاسے اکبرِ اعظم دا رتن راجہ ٹوڈرمَل صدیاں تیکر چلݨ والا مُعاشی نِظام بݨا رہیا سی تے دوجے پاسے شاجہاں تاج محل بݨوا رہیا سی۔ تے ایسے  دَور وِچ یورپ چ ڈیݨاں تے چُڑیلاں نوں جیوندے جاݨ ساڑن دا کَم عروج تے سی۔ ١٥٥٠ توں لے کے ١٧٠٠ عیسویں دی ڈُوڈھ صدی وِچ یورپ وِچ گھٹو گھٹ اَسی ہزار(٨٠،٠٠٠)  لوکاں نوں جیوندے جاݨ ایس اِلزام وِچ ساڑ دِتا گیا بئی او ڈیݨ نیں یا فیر ڈیݨا دے نال نیں۔ ایس کَم لئی پورا مقدمہ ہوندا تے گواہاں تے ثبوتاں دی روشنی وِچ زنانیاں نوں ڈیݨا کہہ کے عدالت تے حُکم توں پھائے لا دِتا جاندا یا فیر جیوندے جاݨ ای ساڑیاں جاندا۔

Wednesday 3 January 2018

قانون کا طریق کار- اصول قانون

از
ٹیپو سلمان مخدوم 
اولیور وینڈل ہومز کے  مشہورِ زمانہ مضمون دی پاتھ آف لاء سے   ماخوذ

کچھ ہومز کے بارے میں:
اولیور  وینڈل ہومز جونیئر (۱۸۴۱ سے ۱۹۳۵) بیسویں صدی کے شاید سب سے اہم  امریکی فلسفیٔ قانون تھے۔  اُن کا مضمون  دہ پاتھ آف لاء، جو کہ ۱۸۹۸ میں چھپا، امریکی فلسفۂ قانون میں مرکزی اہمیت کی حامل تحریر سمجھا جاتا ہے۔ اِس تحریر میں ہی ہومز نے پرانےتمام برطانوی نژاد نظریوں سے تعلق توڑ کر نئی جہتوں میں سفر کا آغاز کیا اور اِس طرح سے جدید امریکی فلسفۂ قانون کی بنیاد رکھی۔