Monday 17 September 2018

کتوں کی لڑائی۔ کہانی

کتوں کی لڑائی
از
شہزاد اسلم


ابھی سورج افق سے نمودار ہوکر گندم کے لہلہاتے پتوں پر جمی ہوئی اوس کو جزب کرنے کیلئے فاتحانہ انداز میں بل سے باہر آرہا تھا کہ شمال سے کالے بادلوں نے گرج کر اپنی آمدکی اطلاع دی ۔ گائوں کے لوگوں کو جہاں بادلوں سے، ستے ہوئے پانی کا ہوا میں تیرتے ہوئے مین پر ڈنکے کی مانند گر کر پیرا کرنے والی موسیقی کا شوق تھا وہاں انہیں اس بات کا فکر بھی تھا کہ اگر بارش ہو گی تو چوہدری اختر کے کتوں کی لڑائی کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ان دنوں گائوں کے لوگوں کی زبانوں پر کتوں اور ان کے مالکوں کے نام پر لی ورد ہو رہا تھا۔ پچھلے کئی سالوں کے مقابلوں کی کہانیاں تاریخ کے اسباق کی طرح دہرائی جاری تجھیں ہر شخص نے اپنی اپنی پسند کے کتے کو ہیرو کا درجہ دے کر صورت و سیرت کے قصیعے تخلیق کرلئے تھے۔

 ان ھالات میں بارش تو گویا بے سے تال کی طرح تھی ۔ گاؤں میں بکھرے ہوئے لوگوں کی دھڑکنوں کے ساتھ نکلتی ہوئی واحد دعا نے بادلوں کا رخ تیز ہوائوں کی بدولت کنوب کی طرف پھیر دیا اور چند باغی قطروں نے البتہ زمین سے اپنی محبت کا اظہار کرکے خوشگوار سما ند ھ دیا سورج نے بادلوں سے نکل کر حیا کا پردہ چک کیا اور لوگ گھروں سے نکل کر ٹولیوں کی شکل میں مختلف جگہوں پر اکٹھا ہونا شروع ہوگئے۔ لوگ ایک دوسرے سے لڑائی کا وقت اور کتوں کی آمد کے متعلق دریافت کررہے تھے۔ کانوں اور زبانوں کے باہمی اشتراق سے یہ بات ہر خاص و عام کو عیاں ہوگئی کہ کچھ کتے بمعہ مارلکان پچھلی رات کو ہی پہنچ گئے تھے۔ اور چوہدری اختر کے ڈیرہ پر علیحدہ علیحدہ آرام کررہے ہیں۔ بغیر قافلوں کی آمد کا سلسلہ صبح سے جاری ہے۔ دوپہر تک لوگ اپنی یک سری مصروفیات سے عہیدہ براء ہو کر کتوں کے مقابلوں سے محفوظ ہونے کیلئے تیار تھے۔ لوگ آہستہ آہستہ اس میران کی طرف چل پڑے جہاں لڑائی کا میدان سمجنا تھا۔ یہ میدان گائوں سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی جانب شہر کی طرف جانے والی آثار قدیم کی پکی سڑک کے قریب تھا۔ سائیکل ، موٹر سائیکل گدھا گاڑیاں ، پیدل چلنے والوں سے سبقت لے جانے کی خاطر بے ہموار سڑک پر ہچکولے کھا رہی تھیں ۔ آس پاس کے گائوں کے نوجوان ، بوڈھے اور بچے ٹریکٹر لڑالیوں پر بیٹھے بے الفاظ آوازیں نکال کر پیدل چلنے والوں پر اپنے جوش اور ولولے کا رعب ڈال رہے تھے اور جواب میں وہ بھی اپنے ہاتھ اٹھا کر پیلوں دانتوں کو مونچوں کے دبائو سے آنے والی ٹیوٹا اور ہنڈا کی بڑی بڑی گاڑیوں مختلف سلوں اور رنگوں کے کتوں کو بٹھائے اس لرکے ایسے چل رہے تھےجیسے کوئی مینتری سیاحوں کو لیے ابھرتی ہوئی لہروں کے برخلاف چل رہی ہو۔
ریاض اور اللہ رکھا پیدل چلنے والوں کی صف میں شامل تھے۔ ریاض اگرچہ ، ان مقابلوں سے محفوظ ہوتا تھا۔ لیکن اسے لڑنے والے کتوں کے جسم سے نکلنے والے خون کو دیکھ کر کراہت بھی محسوس ہوتی تھی۔ ہم کتوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں ، ریاض نے اسر رکھا کو مخاطب ہو کر کہا ۔ یاد مقابلے تو انسانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ اور یہ صرف کھیل ہے کبڈی اور باکسنگ وغیرہ کی طرح ، اور کھانے جواز پیش کیا انسانوں نے تو اپنے کھیلوں میں اصول وضع کیے ہیں تاکہ کھیل، کھیل ہی رہے اور جنگ کی ایس صورت اختیار نہ کرے جس سے نقصان کا خدشہ ہو۔ اورکھانے ریاض کی اس بات پر کچھ لمحوں کیلئے سوچا اور پھر بالا کہ جنگوں مین بھی انسان ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیںَ اور وہاں تو کوئی اصول نہیں ہو کےریاض نےاللہ رکھا کے کندہے پر ہاتھ رکھا اور بولا کہ ہر جنگ کے پیھچے یا تو کوئی مقصد کی خاطر جان دینا بہادری کی علامت ہے۔ کتوں کی لڑائی کھیل نہین، ظلم ہے اور اس میں ظالم صرف انسان ہیں۔
ابھی وہ باتیں کرتے جارہے تھے کہ سامنےسےپولیس کی گاڑی آتی دکھائی دی ۔ ریاض کو محسوس ہوا جیسے پولیس اس مقابلے کو روکنے آئی ہے۔ اللہ رکھا کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑنے لگا ریاض نے اسے تسلی دی کہ اگر پولیس آئی ہے۔ تو ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ رکھا نے خوف میں لپتی ہوئی آواز میں کہاتم نہیں جانتے جب جواکھیلنے والوں پر چھاپہ پڑتا ہے تو سب سے پہلے کھڑے ہو کر دیکھنے والے ہی پکڑے جاتے ہیں۔ اگر پولیس نے لوگوں کو پکڑا تو سب سے پہلے میں ہی پکڑا جائوں گا۔ ان دونوں کے آگے چلتے ہوئے شخص نے اپنی گردن پیچھے موڑ کر چلتے ہوئے انہیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی ضرورت نہیں ، چوہدری اختر نے پہلے ہی ڈی سی اور ایس پی سے بات کر لی ہے اور ایس ایچ او تو خود بھی لڑائی دیکھنے آرہا ہے۔ اتنے میں پولیس کی گاڑی قریب آگئ تھی اور اللہ رکھا کی جان میں جان آئی ۔ سامنے لڑائی کا میدان ایسے نظر آرہا تھا جیسے کرکشیت کا میدان ہو اور پانڈ و اور کوروکی فوجیں خمزن ہوں۔
بے ہنگم ہجوم کے پائوں سے اٹھنے والی گردسے ہوا میں الیسا ٹیٹرھا گول دائرہ بنا دیا جیسے اس کی لکھیریں تین سال کے بچے نے کودے کاغذ پر پنسل سے کھینچی ہوں کچھ لوگ تو کتوں کا نظارہ کرنے کیلئے اس گول دائرے کا طواف کررہے تھے۔ کچھ پھیری والے بھی اپنی اپنی سائیکلوں پر شکر قندی ، مکئی کے سٹے اور کینوں سجائے دائرے میں رختہ انداز تھے۔ کچھ معززین کیلئے پنڈال کے ایک طرف کرسیاں بھی لگئی گئی تھیں جن کے نام پپکا رنے کیلئے لائوڈ سپیکر کا بھی انتظام کیا گیا تھا تبصرہ نگار مسلسل چکوال ، بہاولپور ، کشمیر ، اٹک ، سندھ ، کوہاٹ سے آئے ہوئے کتوں اور ان کے مالکان کا شجرہ نسب پکار تا جا رہا تھا اور جب تھکر جاتا تو پھر میڈم نور جہاں کے پنجابی گیستوں کو ہوائوں کے سپرد کردیتا لوگوں میں اب لڑائی شروع نہ ہونے سے بے چینی بڑھ رہی تھی۔ کچھ بوہلی اور گلیٹر کتے جب گاڑیون سے نکال کر پنڈال کی طرف لائے گئے تو ہجوم میں ہل چل مچ گئی کتوں کو دیکھ کر پیدا ہونے والے خوف سے انسانوں سے جڑا ہوا دائرہ ٹوٹا تو کچھ کتے پنڈال کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے جن کے پیچھے اس کے نگار نے لڑائی کے باقاعدہ آغاز کا غلام دیا ۔ میدان کی پیلی اندرونی صف زمین پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی تھی اور اس کے پیچھے لوگ کھڑے ہو کر داد عیش دینے کو تیار تھے ۔ میدان کے ایک طرف سے بہاد لپور سے آئے ہوئے سندھی بوہلی نسل کے کتے کو ایک آدمی میدان کے بیچ میں اس جگہ پر لارہا تھا جیہاں دو ریفری کھڑے تھے دوسرے طرف سے کشمیر سے آئے ہوئے بوہلی کتے کو بی میدان میں لایا گیا ۔ جب دونوں کتوں کو فٹ کے فاصلے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کیاگیا تو دونوں کتے ایک دوسرے پر چھٹنے کیلئے ایسے زور لگا رہے تھے جیسے کئی نسلوں کی دسشمنی کا فیصلہ آج ہی کرنا ہو۔ دونوں کے گلے کے پٹے کیا اترے کہ بیس فٹ کا فاصلہ ایک ساعت میں طے ہوگیا۔ جبڑے کھلے اور پھر طاقت کی آزمائش شروع ہوئی۔ دنوں کی گردن اور ان کا نگسفید ی سے سرخ ہونے لگا ۔ اوپر کھٹرے مالکان کتوں کی پشتوں پر مسلسل یا تو پھیر کر ان کے نام پکار رہے تھے۔ ان کی عزت تو گویا آج ان کتوں کے ہاتھ ہی تھی۔ بہاولپور کا سندھی بوہلی تو ماک کے ہر دفعہ ہاتھ پھیرنے پر کشمیر کے کتے کو جنجھوڑتا تو اب تھک کر زبان نکالے کانپ رہا تھا کشمیری کتے نے تو ہار فیول کر لی تھی لیکن مالک اب بھی تیار نہ تھا ۔ پھر اچانک ریفریوں نے بہاول پور کی فتح کا اعلان کیا تو ڈھول کی آواز کے ساتھ گولیوں کی گونج میں پس کردہ گئی ادھر لاوڈسپیکر پر نعمتوں کی لے نے ہجوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اس طرح کئی لڑائیاں ہو ئیں جن میں کچھ کتے تو دم دبا کر بھاگے اور کونے دانت دکھا کر مزید لڑائی سے انکار کیا ۔ آخر میں چوہدری اختر کے کتے کو میدان میں لایا گیا ۔ پچھلے تن سال کا فاتح اپنی بھرتی میں بے مثال ۔ طاقت اور مہارت میں یکتا ۔ خوف کی علامت مائک پر تبصرہ نگار اختر کے کتے زینو کے گن گاریا تھا۔ میدان کے اس حصے میں جہاں کرسیاں رکھی وہئی تھیں وہاں سے نصیر بھٹی اپنے کوہاٹی نسل کے گل ٹیریٹر کو میدان کا ایک چکر لگوا کر درمیان میں لے آیا جنگو نام کے اس کتے کے کان کھڑے تھے۔ جن کا آدھے سے زیادہ حصہ شاید بچپن میں ہی کاٹ دیا گیا تھا۔ جسم جیسے برف کا تو وہ ناک کے نیچے ایک کالا نشان قدرت نے نظر بد سے بچانے کیلئے لگا دیا تھا۔ زینونے جنگو کو دیکھ کر دم پلائی اور اپنی جگر پر کھڑا رہا جنگو کی آنکھوں میں البتہ خون اترا ہوا تھا۔ جب دونوں کو ایک دوسرے کا ماس نوچنے کیلئے چھوڑا گیا ترو تماشائیوں کی نظریں میدان کے مرکز پر مرتکز تھیں ۔ یکہ لمحہ لوگوں کے انتظار اور شوق کی انتہا کا نقطہ انجمار تھا۔ نصیر بھٹی نے جنگو کی دم کو سہسلا کر زینوکی طرف چھوڑ دیا ۔ دونوں کے پنجے ہوا میں اٹھے اور جنگو رینو سے ٹکرا کر زمین پر گرا ۔ زینوں نے اپنے جبڑوں سے زبان نکال کر جنگو کی گردن پر پھیری ۔ جنگو نے نیچے سے کبھی رنیو کی گردن پر دانت گاڑؑے اور کبھی ان کو دانتون میں دبایا زینوں کو تو گویا لڑائی کے آداب ہی بھول گئے تھے اس نے جنگو سے لڑنے سے انکار کر دیا اور صرف لبونک کر ایک طرف ہو جانا پر آخری دفعہ رینو نے دم پیچھے ٹانگوں میں دبا کر دانت دکھائے تو نصیر بھٹی نے فتح کا نعہ لگا یا ۔ مجمع کی صفیں درہم برہم ہوئیں اور لوگ چاروں اطراف سے میدان کے درمیان میں پہنچ گئے ۔ چاروں طرف شور مچ گیا کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ کون جیتا ہے۔ چوہدری اختر ہار ماننے پر تیار نہ تھا کچھ معززین اور ریفری نے مل کر جنگو کی جیت کا اعلان کیا لوگوں میں مایوسی پھیل گئی ایسی لرائی اور نتیجے کی کس کو توقع ہی نہ تجھی۔
لڑائی ختم ہوئی وصول اپنی جگہ پر بیٹھ گئی لوگ اپنی اپنی مصروفیات میں جت گئے میدان پہلے کی طرح سنسان ہوگیا۔ سب کچھ پہلے کی طرح تھا زینو کی زندگی یکسر بدل گئی چوہدری اختر نے لڑائی کے اگلے دن ہی زینو کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔ کئی سالوں کی الفت ایک شکست کی نظر ہوگئی ۔ چوہدری اختر کی گاڑی کو دیکھ کر زینونے دم ہلائی اور بھاگ کر گاڑی سے نکلے چوہدری اختر کے جوتوں کو چاٹا اور اپنے سر کو چوہدری اختر کے ہاتھوں کے لمس کی جستجومیں انکھیں بند کرلیں لیکن چوہدری اختر نے دھکا کر لات رسید کی پہلے دودھ اور گوشت کی بندش اور پھر روٹی کے لالے ۔ زینوکی روزی اس کی فتح سے جڑی تھی ، اور کس ذریعہ کا تو اسے علم ہی نہ تھا ۔ چند ہی دنوں مین گردش ایام نے اسے گلی لڑی چیزوں کے ایثار پر لاکھڑا کیا پیٹ کی آگ نے کچرے پر پلنے والا کتا بنا دیا۔
اللہ رکھا کو جب علم ہوا کہ چوہدری اختر نے زینوکو آوارہ چھوڑ دیا ہے تو ہو اسے اپنی ھویلی میں لے گیا اور بھینسوں کے  پاس اسے باند ھ دیا ۔ دودھ اور روٹی سے اب اس کا ضیافت ہونے  لگی ۔ اب وہ ھویلی کا راکھا تھا وہی زینو جس نے ہزاروں لگون کو گردیدہ بنایا تھا اور بیسٹ آف ایسٹ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ آج ایک کونے میں بند ھا ہوا تھا۔ رات کے روشن ستارے نے اس کونے کو دیکو کر تبسم کیا اور اپنا رخ بیسٹ ہیلنا کی طرف موڑدیا۔
اگلے دن کے اخبار میں لڑائی کا احوال یوں درج تھا۔ گزشتہ روز مریدکے کے قریب کتوں کی سالانہ لڑائی سے محفوظ ہونے کیلئے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ملک کے طول و عرض سے مختلف نسلوں کے کتے یہاں لائے گئے جانورون کے حقوق کی تنظیم اے۔آر۔سی نے پرزور الفاظ میں کتوں کی لڑائی کی مزمت کی ہے اور ایس پی سے ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق ایس پی نے ملوث افراد کو جلد گرفتار کرنے کیلئے متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او کو کاروائی کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔


No comments:

Post a Comment