Monday 17 September 2018

کینوس۔ کہانی

کینوس
از
شہزاد اسلم



جلال حیدر اپنے کمرے میں بستر پر دبا بیٹھا تھا۔ کچھ کہہ نہیں سکتے، سردی کی شدت کا اثر تھا کہ خوف کا۔ خوف جو کمرے کے اندر بسی خاموشی اور تنہائی کے بیچ برف کی طرح جم گیا تھا۔ جلال کی سانسوں کی تھکی آواز اس کے کانوں میں شور برپا کر رہی تھی۔ کان تو کچھ سننا نہیں چاہ رہے تھے۔ جلال کے جسم کے حصوں کا الگ الگ خوف مل کر جلال پر حاوی ہو رہا تھا۔ الگ الگ کیوں، خوف تو صرف دماغ میںپیدا ہوتا ہے۔ تو پھر دماغ نے اپنا خوف جسم کے اعضائ میں تقسیم کر دیا ہو گا۔

جلال کا پیشہ اور شوق ایک دوسرے میں پیوست تھے۔ وہ آرٹسٹ تھا۔ زندہ رہنے اور زندگی کاٹنے کا واحد سہارا اس کی وہ تصیوریں تھی جو روزی کے ساتھ، خوشی اور مقصد کا سامان مہیا کرتی تھیں۔ کیسنوس، برش، پینٹ کے ساتھ کپڑے ادھر ادھر بکھرے رہتے تھے۔ پرانی کتابوں کے اوراق اور کپڑوں میں بسی اس کے اپنے جسم کی مہک نے مل کر کمرے کی آب و ہوا کو باہر سے بالکل جدا کر دیا تھا۔ اس کی زندگی کے پینتالیس سال اسے ایسے لگ رہے تھے جیسے آنکھ کے چھپکنے کے بعد منظر ہی نیا بن گیا ہو۔ ماں باپ اور ایک بہن تو کب کے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ خون کے رشتہ دار ایک غلاف تھے، جو اترنے کے بعد جلال کو ایسا لگتا تھا جیسے وہ واقعی آسمان سے نیچے گرا ہے یا پھر کسی درخت سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے اپنی بچپن کی کہانیوں میں یہ سنا تھا۔ یہ پچپن کی کہانیاں تو بعض اوقات حقیقت بن جاتی ہیں اور ہماری اصل زندگی محض خواب اور کینوس پر نقش تصویر محسوس ہوتی ہے۔
جلال اپنی زندگی میں تنہا تھا اور یہ تنہائی اس کے لئے راحت مہیا کرنے والی گڑیا تھی۔ وہ سب کچھ دیکھتا اور رنگوں میں بہا دیتا جیسے عقل اور شعور سے محروم عمل سے اپنے آپ کو نچانا چاہ رہا ہو۔ وہ اپنی ساری شدت، غصہ اور معاشرے کی ناانصافی و بے رحمی کو رنگوں کے حوالے کر کے خود مسکرا دیتا۔ وہ کبھی کبھار تو اپنی بنائی ہوئی تصویروں سے خود ڈر جاتا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا کہ  رنگوں میں لتھڑے ہوئے اجام اور اشیا خود زندہ روپ دھار سکتے ہیں۔ یہ اس کے احساسات تھے جو کینوس پر تیررہے تھے۔ احساس زندگی کی علامت ہے چاہے آسمان پر قوس قزح کی طرح چک رہا ہو یا کسی سیاہ کوٹھڑی کے اندر ٹھٹھک رہا ہو۔ یہ خوف اور تاریکی کی حدوں سے باہر نکلنا چاہتا ہے اور تاریکی تو خود اس سے خوفزدہ ہے۔
پچیس دسمبر کی یہ رات جلال کی تنہائی کو دیو بنا رہی تھی جس کی خوفناک بدصورت شکل وقت کے خمار سے آہستہ آہستہ نکل کر مکل ہو رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے صبح ہونے تک یہ دیو اس کمرے سے نکل کر باہر کی فضاوں پر قبضہ کر لے گا اور ہر زی روح خوف سے اتنا ہلکا ہو جائے گی کہ ہوا میں تیرنے لگے گا۔ جلال بت بنے اپنے بستر پر بیٹھا رہا۔ رات کی تاریکی کا رنگ جب مدھم ہونے لگا تو جلال کی آنکھوں کے کواڑ بند ہو گئے اور وہ بیٹھے بیٹھے بیڈ کی ٹیک لگائے سو گیا۔ کھلی آنکھوں نے دماغ میں رنگ بدلتے خوف کو اگرچہ پلکوں کی گانٹھ کے پیچھے چھپا دیا تھا لیکن نیند نے چوری چھپے وہ گانٹھیں کھول دیں اور دیو خواب کے اندر سراہیت کر گیا۔ جلال نے خواب میں دیکھا کہ اجلے ٹھنڈے دن میں مختلف رنگوں، نسلوں اور مذہبوں کے چھوٹے بڑے لوگ سر سبز زمین پر اگے ہوئے مختلف رنگوں کے پھولوں کی خوشی کو اپنے چہروں پر سجائے گھوم رہے ہیں اور اچانک کچھ سر ہوا میں تیرنے لگتے ہیں جیسے آتش بازی ہو رہی ہو۔ ان اڑتے سروں میں موجود دماغوں نے بازووں کو سہارے کے لئے پھیلنے کا حکم دیا لیکن بازو تو نیچے پڑے ساکن دھڑ کے ساتھ تھے۔ خوف سے لدی ان سروں پرموجود آنکھوں نے اچانک غصے سے ایک اڑتے سر کی طرف دیکھا جو مسرائے بھی جا رہا تھا اور ساتھ کہے جا رہا تھا کہ اب بھی راہ راست پر آجاو بچ جاو گے۔ پھر یہ سارے سرزمین پر آگرے اور ادھر ادھر لڑھک گئے۔ جلال کی آنکھ اچانک کھل گئی۔ اس کے دونوں ہاتھ کھڑکی سے بہتی روشنی کو روکنے کے لئے کھڑے تھے۔ ہاتھوں کے اٹھنے کا تعلق البتہ خوف سے تھا کیونکہ یہ جاگنے سے پہلے اس حالت میںتھے اور ان کا براہ راست تعلق جمال کے ماتھے پر لرزتےشبنم کے قطروں سے تھا جو اس کے جسم کے اندر سے پھوٹ پڑے تھے۔
جلال کا کمرہ مارکیٹ کی مغربی سمت موجود دکانوں کے اوپر تھا۔ ان دوکانوں کے مزید مغرب کی طرف کچھ فاصلے پر وہ مشہور گراونڈ تھا جس کے گھاس کا رنگ پچھلے دن ہی دھماکےکے بعد سرخ ہو گیا تھا۔ ا س سرخ رنگ اور اس کے اوپر سوکھی لکڑی کی طرح بکھرے جسموں کے ٹکڑوں نے جمال کے ذہن پر وہ تصویریں بنا دی تھیں جو اسے نہ سونے دیتی تھیں، نہ جاگنے دیتی تھیں۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ باہر زندگی، خوف سے تسبیح کے دانوں کی طرح سکڑ گئی ہو گی۔ وہ ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر نکلا اور مشرق کی طرف مارکیٹ کے دوسرے کونے کی طرف چل پڑا۔ باہر سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم ہمیشہ کی طرح موجود تھا۔ دوکانیں کھلی ہوئی تھیں اور گاہکوں کی چہل پہل بھی برقرار تھی۔ تقریباً 300 فٹ پیدل چلنے کے بعد جمال ایک چائے کی دکان کے سامنے رک گیا۔ اسے سلطنت نیوز کے نیوز بلیٹن کے ساتھ چلنے والےمیوزک کی آواز آئی تو وہ دکان کے اندر چلا گیا اور ایک میزکے اطراف پھیلی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر خبریں سننے لگا۔ دھماکے میں مرنے والے اور ذخمیوں کی تعداد گنوانے کے بعد نیوز کاسٹر نے کچھ سیاسی حالات و واقعات کا تذکرہ کیا۔ چائے والی اس دکان مین تقریباً نو دس افراد موجود تھے جو خبریں کم سن رہے تھے لیکن اپنے تبصرے میں زیادہ مگن تھے۔اچانک ٹی وی پر ایک رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق ایک ملکی انجینئر نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ پٹرول کی درآمد کی کوئی ضرورت نہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سے قبل نیو کلئیر سائنس دان محمد بشیر نے جن سے بجلی پیدا کرنے کا فارمولا پیش کیا تھا اور اس کے مطابق اتنی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے کہ دوسرے ملکوں کو بھی برآمد ہو سکتی ہے ۔ چائے خانے میں موجود تمام افراد نے غور سے یہ رپورٹ سنی اور دعوی کرنے لگے کہ یہ ممکن ہے لیکن ہماری حکومت کبھی بھی اجازت نہیں دے گی۔ اسی دوران چائے خانے میں موجود دو بھاری بھرکم حضرات جو زیادہ بول رہے تھے نے باری باری پارنا شروع کر دیا۔ جلال چائے پئے بغیر وہاں سے اٹھ کر مارکیٹ کے درمیان چھوٹے سے لان میں پڑے بینچ پر بیٹھ گیا ۔ دھوپ کی گرماہت سے اس کے جسم کو مزہ آنے لگا، لیکن اس کا دماغ اب بھی دھماکے کے اثرات سے آزاد نہیں ہو رہا تھا۔ دوسرے لوگ میری طرح کیوں نہیں محسوس کر رہے، یا میں ان کی طرح کیوں محسوس نہیں کر پا رہا اس کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ چیخ کر اپنی اس تکلیف سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا تھا، لیکن آنکھیں بند کر کے اس نے ایک لمبی سانس کھینچی اور منہ کے ذریعے فضا میں لوٹا دی۔
جمال کی بے چینی اسے کہیں بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ وہ بنچ سے اٹھا اور تھوڑی دیر کے لئے لان کے اندر ٹہلتا رہا۔ وہ بےخوف مارکیٹ سے باہر نکلتی سڑک پر چلنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جلے سڑے جسموں کے ٹکڑے گھوم رہے تھے اور وہ اپنے وجود سے بے پرواہ خیال کے بد کے گھوڑے پر سوار تھا۔ مارکیٹ کی حد سے باہر نکل کر اسے اپنے وجود کا احساس ہوا جب مارکیٹ کی بیرونی دوکانوں کی چھتوں پر سیاہ اور ٹوٹی پھوٹی اینٹوں نے اسے ایک سال قبل کے دھماکے کی یاد دلا دی جس میں تقریباً دو سو لوگوں کی جانیں لقمہ اجل بن گئیں اور ان کی چیخوں کی سیاہی اب بھی عمارت پر رنگ جمائے خاموش عکس پیدا کر رہی تھی۔
جمال تین چار روز اسی کشمکش میں جکڑا رہا وہ کیسے دوسروں کی طرح ذہنی تکلیف سے چھٹکارا حاصل کرے۔ آخر ایک رات اس نے تدارک کر لی لیا۔ روح اور ذہن کی جلن کو کینوس کے حوالے کر کے وہ اس تکلیف سے آزاد ہو جائے گا جو اس کے وجود پر آسمانی آفت کی طرح نازل ہوئی تھی۔ جلال نے ایک صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی کینوس کو سٹینڈ پر لگایا اور برش سے کینوس کے اوپر والے حصے پر روشن نیلے آسمان کی اس طرح تعمیر کی جیسے آسمان کے ایک ٹکڑے کو کاٹ کر اس کینوس پر جوڑ دیا ہو۔ نیچے زمین گہرے سبز رنگ کے پردے میں لپٹی ہوئی بنائی گئی جس کے مختلف سوراخوں سے خون کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔ زمین اور آسمان کے درمیان، جلال نے ہوا میں اچھلتے ہوئے دھڑ سے جدا سر بنائے جن کی آنکھوں میں خوف کا سورج چمک رہا تھا اور وہ سب ایک مسکراتے ہوئے سر کی طرف دیکھ رہے تھے۔
            اگرچہ جلال کھڑے کھڑے پینٹنگ کرتے ہوئے تھگ گیا تھا لیکن اس نے ذہن کے ہیجان نے اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اضطراب اور ہمت کو قائم رکھا۔ اس نے دوسرے کینوس پر اپنے ذہن کے ابلتے ہوئے خیالات اور احساسات کو انڈیلنا شروع کر دیا۔ اس کے ہاتھوں میں تھما ہوا برش کینوس پر ایسے چل رہا تھا جیسے پیانو پر موسیقی پیدا کرنے والی انگلیاں دم بخود چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کینوس پر گول دائرے کی شکل میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں اور منظر شاید کسی بادشاہ کے دربار کا ہے۔ دائرے کے درمیان میں ایک شخص کے دائیں ہاتھ میں تلوار ہے جبکہ دوسرے ہاتھ نے ایک کٹے ہوئے سرکو بالوں سے تھام رکھا ہے۔ تلوار والےآدمی کے سامنے ایک کٹے سر والا آدمی کتھک ناچ ناچ رہا ہے اور دائرے میں بیٹھے لوگ کٹے سر والے شخص کی طرف ہاتھوں سے اشارے کرتے ہوئے ہنسی سے لوٹ پوٹ رہے ہیں۔ اس تصویر کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ جلال زیر لب گنگنا رہا تھا۔
پہلے وہ کمیونسٹ کو لینے آئے، میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا۔
پھر وہ ٹریڈ یونین والوں کو لینے آئے، میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں ٹریڈ یونین والا نہ تھا۔
پھر وہ یہودی کو لینے آئے، میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں یہودی نہ تھا۔
پھر وہ مجھے لینے آئے ! اور میرے لئے بولنے والا کوئی بچا نہ تھا۔
تصویریں بنتی رہیں اور جلال کا کرب کم ہوتا رہا، جیسے دکھ کے اظہار کے بعد دل میں ابلتالاوا آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جلا ل نے رفتہ رفتہ کٹے ہوئے سروں کی کئی تصویریں بنا ڈالیں۔ ہر کٹائی اتنی اعلی جیسے کاٹنے والے کی زندگی بھر کے تجربے کا امتحان ہو۔ ایسے لگتا تھا جیسے جلال کٹے ہوئے سروں کا پہاڑ بنانا چاہ رہا ہو۔
جلال نے اپنے چھوٹے سے کمرے کے اندر سمائی تنہائی میں کائنات کی وسعت کو اپنے رنگوں کےذریعے قید کر رہا تھا۔ کائینات کی وسعت تو خیال کے سفر کا ایک سٹیشن ہے۔ جلال اپنی سوچ میں الجھا ہوا تھا کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھالا تو آگے اس کا دوست پروفیسر شاکر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائےکھڑا تھا۔ پروفیسر شاکر لاہور آرٹ کالج میں استاد تھا اور جلال کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ گاہے بگاہے جلال کو ملنے آجاتا تھا۔ جلال نے اسے کمرے میں داخل کیا اور دروازہ بند کر کے کرسی پر پڑا ہوا تولیا اٹھایا اور پروفیسر شاکر بیٹھ گیا۔ کمرے کی کھڑکی کھول کر نیچے چائے والے کو آواز دی اور چائے کے ہمراہ بسکٹ لانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ حال احوال دریافت ہوا اور پھر آرٹ پر مباحثہ شروع ہو گیا۔ جلال نے مایوسی کے عالم میں یہ کہتے ہوئے کہ جہان موسیقی محض شور، ڈانس کلاسیکل سے بچھڑ کر حرف کو دین  سنسر ہو کر ننگا ہو جائے artistic ritual of sexجائے اور  
اور فحاش بن جائے، وہاں آرٹ کا کیا مستقبل ہے۔ بحث کو ٹھکانے لگا دیا۔ اتنے میں چائے آگئی اور چائے پینے کے دوران پروفیسر شاکر کی نظر دھول سے اٹے ایک پورٹریٹ پر پڑی اور اسے کپڑے سے صاف کر کے وہ غور سے دیکھنے لگا۔ تصویر میں ایک نوجوان چند خوبصورت لمبے بالون والے لڑکوں میں گھرا ہوا تھا اور وہ انہیں شہوانی نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ کچھ فاصلے پر باریک پردے کے پیچھے کھڑی ایک عورت مسخرانہ نظروں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس تصویر کے پس منظر میں جلال نے پروفیسر شاکر کو بتایا کہ خلیفہ ہارون الرشید کا بڑا بیٹا امین ہم جنس پرست تھا اور جب اس کی والدہ ملکہ زبیدہ جو بڑی ذہین تھی کو علم ہوا تو اس نے حرم کی خوبصورت دوشیزائوں کے بال کندھوں تک کاٹے اور ان کو مردانہ لباس زیب تن کروائے۔ تصویر میں امین کے ارد گرد جو لڑکے نظر ٓآرہے ہیں وہ دراصل دوشیزائیں ہیں اور پردے کے پیچھے ملکہ زبیدہ ولی عہد امین کی جنسی فعلیت کو کنٹرول کرنے کے تجربے سے مطمئن نظر آتی ہے۔ جلال نے پھر رائے زنی کی کہ پراوسٹ کے فرانس میں ایسا قبول کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ جلال نے پروفیسر کو ہندوستان کی ملکہ نور جہاں کی بھی تصویر دکھائی جس میں وہ کاند ہے پر بندوق تھامے ایک قدم شکار زدہ شیر کے جسم پر رکھے کھڑی ہے۔
جلال کو ہارون اور جہانگیر کے حرم سے خاص لگاو تھا۔ ابوالحسن کی بنائی ہوئے تصویریں اس کے دماغ میں پیوست ہو گئی تھیں۔ پروفیسر شاکر نے جلال کی تصویریں دیکھیں اور فوراً آئندہ ہفتے ہونے والی نمائش میں حصہ لینے کے لئے جلال کو راضی کر لیا۔ جلال کی تصویریں آرٹسٹوں اور صحافت سے منسلک لوگوں نے دیکھیں اور پھر کچھ دنوں بعد لاہور کرانیکلز میں ایک فیچر چھپا جس میں نہ صرف جلال کی تصویروں کو موجودہ حالات سے جوڑا گیا بلکہ عوامی بیزاری کی تصویر کشی قرار دیا گیا۔
جلال اپنی زندگی میں مگن رہا۔ وہ جب بھی مارکیٹ میں کھانا کھانے، خریداری کرنے یا ٹہلنے کے لئے جاتا تو اسے محسوس ہوتا جیسے چند چہرے صرف اس کی طرف متوجہ ہیں اور ہر دفعہ ادھر ادھر نظر آ جاتے۔ کچھ دن بعد وہ باقاعدہ جلال کا پیچا کرنے لگے۔ جلال کو جہاں حیرانی ہوئی وہاں اسے انجانے خوف کا احساس ہونے لگا۔ ایک شام کو جلال اپنے کمرے سے نکلا اور مارکیٹ کے عقب میں اس روڈ پر چلنا شروع ہو گیا جہاں ٹریفک اور لوگوں کی آمدورفت بہت کم تھی۔ اچانک ایک موٹر سائیکل اس کے سامنے رکا جس پر دو آدمی سوار تھے۔ پیچھے شخص نے موٹر سائیکل سے اتر کر جلال کر پکڑا اور موٹر سائیکل پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ جلال نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا کیوں، تھانے جانا ہے تمہارے خلاف شکایت آئی ہے اس آدمی نے جلال کو جھنجھوڑتے ہوئے جواب دیا۔ تھانے میں جلال کو جس کمرے میں لایا گیا وہاں ایک داڑھی والا نوجوان مستغیث اسے دیکھتے ہی بولا اچھا تو یہ صاحب ہیں۔ جلال کو اسی کمرے میں اکیلے دو گھنٹے تک بند رکھا گیا اور پھر اچانک کالی وردی میں جکڑا، سیاہ رنگت چہرے پر ابھری ہوئی مونچھوں کے اوپردو چھوٹی گول آنکھوں میں نفرت اور غصے کا سمندر پھیلائے اندر داخل ہوا جن کے دونوں اطراف دو فرشتے اپنے آقا کا حکم ماننے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کو جلال کی طرف لہراتے ہوئے وہ بولا! تم لوگ صرف ڈنڈے سے ٹھیک ہو سکتے ہو۔ جلال نے سوچا، اس ڈنڈے کے لئے ہمیشہ دوسروں کی گانڈ نظر آتی ہے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تھانہ سے اپنے کمرے میں پہنچا تو چہرے اور پیٹھ پر جمی سرخی سے اٹھتی گرم ٹیس اس احساس کے سمندر میں ڈوبٹی محسوس ہوئی جو جلال کو اپنے عزت نفس کے بکھرنے میں محسوس ہوا۔ غصہ اور بے بسی سے جلال کی زندگی ایک ڈراونا جواب بن گئی۔ باتھ روم میں نہاتے ہوئے اس کے آنسون پانی کے ساتھ ان دیکھی راہوں کی طرف بہہ جاتے۔ وہ کمرے کے اندرمقید ہو گیا۔ وہ باہر جانے سے ڈرتا تھا۔ اسے یقین تھا باہر لوگ مجمع لگائے کھڑے ہیں اور اسے دیکھ کر پیٹھ کی طرف اشارہ کریں گے اور پھر قہقہے لگائیں گے۔ تھانہ میں گرجتی آوازوں سے جلال کو معلوم ہو گیا تھا کہ خون سے ابلتی زمین اور کٹے سروں کی تصویریں اس کے جسم پر پڑے زرد نشانوں کی وجہ تھیں۔
جلال کو خوف، غصہ اور بے چینی کے اظہار کا ایک ہی طریقہ یاد تھا، جو مقدر نے اسے بخشا تھا۔ برش کو اپنے خیالوں کے رنگ میں ڈبو کر کینوس پر لکیریں کھینچتا نشہ کی طرف تھا جس سے اس نے زندگی کی پناہ تلاش کی۔ تھانہ میں بیتے حادثے کے بعد جلال بکھرے، الجھے ، بے ڈھنگ درختوں اور جانوروں کا نقش گر بن گیا۔ ہواوں پر مسلط دیو کے خوف نے جیسے ہر سانس لینے کو بگاڑ دیا تھا۔ اس نے کئی دفعہ خواب میں اپنے آپ کو مچھلی کی صورت بے زبان دیکھا جو پانی کے اندر کسی خوف کے آگے مسلسل بھاگ رہی ہے۔ جلال باہر چکمکتی دھوپ سے لاپرواہ اپنے کمرے کی مدھم روشنی میں کینوس کے سامنے اس طرح برش کو زور سے تھامے ہوا تھا جیسے آج وہ کینوس کو کھود کر تصویر بنائے گا۔ دروازے پر دستک نے اس کے جسم میں جھٹکا پیدا کیا۔ سٹینڈ پر کھڑے کینوس اور دوسری مکمل تصویروں کو جلدی سے مختلف رنگوں مین لپٹے سفید کپڑے کے نیچے چھپانے کے بعد جلال نے دروازہ کھولا۔ سامنے دو نوجوان کھڑے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں ڈائری جبکہ دوسرے کے ہاتھ میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈر تھا۔ ڈائری والے نوجوان نے تعارف کروایا کہ وہ لاہور کرانیکلز اخبار کا رپورٹر ہے اور انٹر ویو کرنے آیا ہے۔ اس نے بغیر کسی وقفہ کے معذرت بھی کی کہ وہ بغیر بتائے اور وقت لئے یہاں آیا ہے کیونکہ اس کے پاس رابطے کا کوئی نمبر نہ تھا۔ جلال نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور بیٹھنے کا کہا۔ جلال ابھی ان کے رپورٹر ہونے کے شک میں گرفتار تھا کہ رپورٹر نے اپنی صحافت کا کارڈ نکال کر دکھایا۔ جلال نے ایک نظر دیکھ کر مسکراتے ہوئے واپس کیا اور تکلف میں کہہ دیا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ انٹرویو کے دوران جلال نے اپنے خاندان، تعلیم اور پیشہ ورانہ مشاغل کی تفصیل بیان کی۔ رپورٹر نے جب پوچھا کہ آخر خون اور جسم سے الگ سروں کو ہی اس نے اپنے آرٹ کا حصہ کیاں بنایا تو جلال نے جواب دیا کہ پھیلی ہوئی تاریکی کو جب آرٹسٹ اپنے اندر محسوس کرتا ہے تو پھر تاریکی کو وہ اپنے رنگوں سے روشن کرتا ہے۔ جلال نے اپنی بات واضح کرنے کے لئے کہ شاعر عبداللہ پیشیو کی نظم "فٹ بال" گنگنانا شروع کر دی۔ اعلان کیا ھبررسان ایجنسیوں نے فت بال میچ کا تیمین کریملین اور وائت ہائوس گیند کرکا سر گول کردستان تماشائی دنیا، قبر کی طرھ کاموش یہ نطم گنگنانے کے بعد جلدل چند لمھون کے لیے کاموش ہو گیا اور پھر کاموشی کو تور تے ہوئے کہنے لگا ہمارے سرون سے تو ورلدکپ گھیلا جا رہا ہے۔
انتر ویو چھپا تو ایک کاپی جلدل کو بزریعہ داک موصول ہوئی جوشی کے ساتھ اعتماد بڑھا ، تو خوف کے سائے چھٹنے لگے۔ جلال نے پھر سے مارکیت میںجانا شروع کردیا ۔ کچھ دنوں بعد ہی کا ایک سائے اسے اپنے پیچھے آتے دکھائی دینے لگا ۔ وہ رک کر ٖغور سے دیکھتا تو اسے وہ سائے وہم لگے ۔ وہ سائے دن بدن قریب آتے رہے اور پھر ایک دن جلال کے کمرے کی تاریکی مستقل ہوگئی۔
پروفیسر شاکر کوئی ایک ماہ بعد جلال کو ملنے آیا تو جلال کے کمرے کے سامنے کمرے کا مالک اور چند پولیس والے کھڑے تھے۔ کمرے کے مالک نے بتایا کہ جلال کافی دنوں سے لاپتہ ہے اور کرایہ بھی ادا نہ کیا ہے۔ کمرے کے مالک کو جلال کے لاپتہ ہونے کے واقعات کا علم تھا لیکن وہ چھپارہا تھا ۔ وہ کمرے کو خالی کروانے کیلئے پولیس ملازمین کو ساتھ لایا تھا ۔ غالباً اس نے کوئی رپورٹ بھی درج کروائی تھی ۔ کمرے کا تالا تو ڑا گیا اور سامان کی لسٹ تیار کرکے سامان مالک دکان کو بطور امانت سونپ دیا گیا۔ پروفیسر شاکر نے جھوٹ بول کر کہ تصویر یں اس نے خریدی ہیں  کمرے کے مالک کے تکرار شروع کردی ۔ مالک نے تصویر وں کو بے مقصد اور نمبر اہم گردانتے ہوئے انہیں پروفیسر کے حوالے کردیا ۔ پروفیسر شاکر نے تصویروں کو اکٹھا کرتے ہوئے پولیس ملازموں اور مالک کو سرگوشی کرتے ہوئے سنا کر کچھ لوگوں کے نقول جلال کو کچھ لوگ اغواء کرکے لے گئےہیں ۔ جلال کی گمشدگی کی رپورٹ پہلے ہی درج ہو چکی تھی اس لیے پروفیسر شاکر نے تھانہ سے رابطہ کرنا مانسب نہ سمجھا ۔ پروفیسر شاکر تصویریں لے کر چلا گیا ۔
پروفیسر شاکر نے کچھ دن تو وہ تصویریں اپنے گھر میں رکھیں لیکن جب جلال کے لوٹنے کی کوئی امیر دکھائی نہ دی تو اس نے وہ تصویریں مال روڈ پر واقع دیال سنگھ بلڈنگ میں اپنی چھوٹی سی آرٹ لیگری میں منتقل کر دیں جہاں پہلے ہی اس کی اپنی بنائی ہوئی تصاویر لیگری کی دیواروں کو ٹکٹکی باندھے اپنی خوبصورتی سے لبھارہی تھیں ۔ ان خوبصورت نظاروں کی تصاویرکے سامنے خالی دیوار پر جلال کی بنائی ہوئی تصاویر کو لٹکا دیا گیا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان تصویروں نے زندگی کا روپ دھار لیا ہے۔ اور ایک دوسرے کو تجربات کی یکسانیت سے باہر نکالنے کیلئے محو سیرت میں مبتلا ہونے کے بعد سرد گفتگو میں الجھی ہوئی ہیں۔
پروفیسر شاکر ایک دن کلاس میں لیکچر سے فارغ ہو کر طلباء کو اپنی آرٹ لیگری دکھانے دیال سنگھ بلڈنگ پہنچا ۔ اپنی بنائی ہوئی تصاویر دکھانے کے ساتھ ساتھ پروفیسر شاکر نے آرٹ اور زندگی کے امتنراج کو لفظوں کا لباس پہنایا اور پھر جلال کی تصاویر دکھانے سے قبل جلال کی زندگی کا اتنا تعارف طلباء کو کروایا جتنا وہ جانتا تھا۔ جلال کی بنائی ہوئی پہلی تصویر ایک درخت کی تھی ۔ جس کا موٹا سا تنا زمین میں گڑا ہوا تھا۔ درخت کے اوپر والے حصے پر ایک خوبصورت دوشیزہ کی تصویر دکھائی دے رہی تھی جو اسکی شاخوں نے  بنائی ہوئی تھی ۔ درخت کے تنے کو ایک طغیلی پودے نے سانپ کی کنڈلی کو صورت اپنے شکنجے میں لے رکھا تھا۔ اور پھر یہی طغیلی پودہ بڑھتے بڑھتے اوپر دوشیزہ کے چہرے تک پہنچ گیا تھا۔ آنکھوں کے عین نیچے طغیلی پودے کے باریک تنے جھالر کی صورت نیچے گرے ہوئے تھے۔ طغیلی پودے نے گویا قبضہ کیا ہوا تھا۔ جس سے درخت کےوسط تک درخت کی اصل صورت آنکھ سے روجعل تھی۔ دوسری تصویر میں بادل نے ایک اژدھا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جس کے پیٹ نے ڈوبتے سرخ سورج کو اپنے پیچھے چھپا رکھا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے آگ کے شعلے نکل رہے ہیںَآسمان پر پھیلے اثر دھانما بادل کے نیچے پرندے خوف سے لرزاں ہیں  اور ان کی جسمانی ساخت بگڑی ہوئی ہے۔ سارس کی گردن چھوٹی ہو کر اس کی لمبی ٹانگوں میں چھپی ہوئی ہے۔ کوے ہوا کی منڈیر پر بیٹھے اپنے منہ کھولے نظر آرہے ہیں جیسے کسی بڑی آفت کی آمد کی اطلاع دے رہے ہوں۔ صرف کرگس فضا میں بادل کے ہمراہ آزاد اور پر جوش نظر آرہے ہیں جن کی نظریں زمین کی طرف لگی ہیں۔ دوسری تصویروں میں بے رنگ اور ٹیڑھے درخت نظر آرہے ہیں جیسے قبر ستان میں اگے جنڈ کے درخت، جو سایہ سے زیادہ خوف کا مظہر ہوتے ہیں۔ آخری تصویر میں خواتین کا ایک جھنڈ ہے جس کے ایک طرف ملک زبیدہ جبکہ دوسری طرف ملکہ نور جہاں ہے۔ خواتین طفیلی پودے سے جکڑے درخت کی طرف گامزن ہیں اور درخت کی شاخوں سےنیا دوشیزہ کا مکمل خوبصورت چہرہ نظر آرہا ہے۔ طفیلی پودے کی جھالر جیسے اتر رہی ہے اور درست کا تنا بھی کنڈلی سے آزاد ہو رہا ہے۔
پروفیسر شاکر اپنے شاگردوں کے ہمراہ آرٹ گیلری سے نکل کر باہر حال روڈ پر آیا تو تیس چالیس خواتین ہاتھوں میں اپنے لاپتہ عزیزوں کی تصاویر تھامے تھرے لگا رہی تھیں۔ اخباری رپورٹ کیمرے لئے ان کے آگے اور پیچھے چل رہے تھے۔ سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر پولیس کے سپاہی ہیلمیٹ پہنے، ہاتھوں میں چھڑیاں لیے ساقط کھڑے تھے، جن کے چہروں پر بے چارگی ٹپک رہی تھی۔ بازار میں خواتین کو کوسنا ابھی معاشرے نے کہاں سیکھا ہے۔ پروفیسر شاکر نے ہوا میں تیرتی لاپتہ افراد کی تصویروں کو غور سے دیکھا لیکن اسے جلال کی تصویر نظر نہ آئی۔ جلال نے اپنےپیچھے تکلیف سہنے کے لئے کوئی وجود نہ چھوڑا تھا۔ خواتین کا جلوس مشرق کی طرف اسمبلی ہال کی طرف گامزن تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ خواتین گھر سے "لسی" کا فیصلہ کر کےنکلی ہیں۔ اکیسویں صدی کی لسی جس میں عورت نے مرد کی خاطر مرنا نہیں بلکہ جینے کا فیصلہ کیا ہو۔ پروفیسر شاکر نے جلوس میں شامل ہونے کا سوچا لیکن پھر اس کے قدم مغرب میں انار کلی بازار کی طرف مڑ گئے۔
  

No comments:

Post a Comment