Thursday 15 December 2016

ہونہار بیٹا: کہانی

از 
ٹیپو سلمان مخدوم


اشتہار میں ایک معصوم سی شکل والا بچہ چوکلیٹ کھا  رہا تھا اور  ساتھ ہی ساتھ  زور دار انداز سے مسکرا بھی رہا تھا۔ 
معصوم سی شکل والا میں نے اس لئے کہہ دیا ہے کہ تمام بچے معصوم شکل کے نہیں ہوتے۔ حقیقت میں کئی بچے بڑی پختہ شکل کے ہوتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے گویا ایک بڑے سے آدمی کو اُبال کر چھوٹا کر دیا گیا ہو۔ جیسا کہ میں نے کسی ناول میں پڑھا تھا کہ کئی افریقی قبائل اپنے دشمنوں کو مارنے کے بعد ان کے سر کاٹ کر انہیں اُبال اُبال کر سُکیڑ لیتے ہیں اور پھر اپنے گھروں میں ٹرافیوں کی طرح سجا رکھتے ہیں۔ 

Tuesday 13 December 2016

عریاں ٹانگ: کہانی


از 
ٹیپو سلمان مخدوم



کھانے میں ڈاکٹر  کو ران اور سینہ پسند تھا۔ اور ہولے ہولے چبانے میں بھی۔ اس کے علاوہ اسے زندگی میں کچھ خاص پسند نہ تھا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ زندگی سے اوا زار تھا، یا مردم بیزار تھا۔ اسے بس ایک غیر دلچسپ انسان کہا جا سکتا تھا۔ ایسا شخص جو ایک مجمعے کا حصہءِ کامل تو ہو سکتا تھا لیکن اگر آپ اس کی ذات میں دلچسپی لینا چاہیں تو جلد ہی اوا زار ہوں جائیں گے۔ بات کرنے کے لئے اس کے پاس چند گنے چنے ہی مضامین تھے۔ اگرچہ دولت کا اسے شوق نہ تھا لیکن یہ بات جان سکنے کے لئے جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے وہ اس سے عاری تھا۔ زندگی کس چڑیا کا نام ہے؟ وہ دنیا میں کیا جھک مار رہا ہے؟ یا وہ کون ہے؟ یہ سوال کبھی اس کے ذہن میں ابھرنے نہ پائے تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس نے کبھی ابھرنے نہ دئیے تھے۔ بچپن سے لڑکپن کا سفر تو اس نے بڑی کامیابی سے طے کر لیا  تھا مگر لڑکپن سے جوانی تک کا فاصلہ پینتیس سال کی عمر تک طے ہونے نہ پایا تھا ۔ بغیر کسی مبالغے کے آپ اسے ایک پینتیس سالہ لڑکا کہہ سکتے تھے۔ 

Monday 5 December 2016

سکول: کہانی

از ٹیپو سلمان مخدوم




روزانہ کی طرح آج بھی اس  کی آنکھ الارم کی منحوس آواز سے ہی کھلی۔ جب رات دیر گئے تک ٹیبلٹ پر فلمیں دیکھنے کے بعد جوانی کی بھرپور نیند پوری ہونے سے پہلے ہی الارم بج اٹھے تو اس کی آواز منحوس ہی لگتی ہے۔
"جانے یہ  بچوں کے سکول صبح صبح کیوں لگتے ہیں۔" اس نے گرم رضائی سے نکلتے ہوئے تعلیمی نظام کی بے وجہ سختیوں کو کوسا۔

جیکی: کہانی


 از ٹیپو سلمان مخدوم





مجھے دیکھتے ہی وہ والہانہ محبت سے سرشار میری طرف دوڑتا آیا اور شفقت پدرانہ کے لئے میری گود میں چڑھنے کے لئے اچھلنے لگا۔ میں نے بھی بے اختیار ہو کر اسے گود میں اٹھا لیا مگر کجھ جھجھکتے ہوئے کہ وہ میرا نہیں کسی کتے کا بچہ تھا۔ ہم نے اس کا نام جیکی رکھا تھا۔ مجھے کتوں کا شوق نہیں تھا۔ یہ کہنا دراصل مشکل ہے کہ کیا واقعی مجھے کتوں کا شوق نہیں تھا۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ مجھے کتوں میں سب سے نمایاں چیز ان کے لمبے لمبے اور نوکیلے دانت نظر آتے تھے۔ اس پہ غضب یہ کہ وہ ظالم چبانے کے ساتھ ساتھ دانتوں سے وہ کام بھی لیا کرتے جو ہماری نسل کے جانور اپنی نازک انگلیوں سے لیتے ہیں، یعنی چیزوں کو اپنی گرفت میں لینا۔ چنانچہ ڈر کے مارے میں نے کبھی کتا پالنے کی کوشش نہ کی تھی۔ مگر اب چوروں اور ڈاکووں نے شہر میں بارش کی طرح برسنا شروع کر دیا تھا۔ سو بادل نخواستہ ایک دوست کی معرفت عمدہ نسل کا ایک کتے کا بچہ حاصل کیا۔ 

Saturday 3 December 2016

ایک وکیل صاحب کی کہانی

از ٹیپو سلمان مخدوم




خزاں کی دوپہر کا وقت تھا جب وکیل صاحب نے گاڑی دفتر کے باہر کھڑی کرکہ چابی ہشیار کھڑے ملازم کو دی کہ گاڑی کو مناسب جگہ لگا دے اور دفتر میں آ گئے۔ اندر منشی نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ ہی ان کے کمرے میں آ گیا۔ اندر آتے ہی منشی نے فر فر اگلے دن کے مقدموں کی تفصیل بتانی شروع کر دی۔ وکیل صاحب عدالتوں میں سارا دن کھجل ہو کر آ رہے تھے۔ کسی عدالت میں گواہوں پر جرح کرتے ہوئے سوال پر سوال کرنے پڑے کہ گواہ سچ بولنے کو تیار ہی نہ تھے اور ان کے منہ سے سچ اگلوانا ایک معرکہ بنا کھڑا تھا۔ کسی عدالت میں ایک ہی قانونی شق کی مختلف طریقوں سے تفسیر کرنی پڑی، ایک کے بعد ایک پرانے عدالتی فیصلے جج صاحب کو پڑھانے پڑے مگر جج صاحب کسی اور ہی منطق پر چل رہے تھے۔ جھنجلا کر وکیل صاحب نے تاریخ کی درخواست کر دی جسے جج صاحب نے بخوشی قبول کر لیا۔ اگلے مقدمے میں ایک بحث بر درخواست تھی، یعنی ایک درخواست پر بحث کرنی تھی، جو جب شروع ہوئی تو وکیل صاحب کو احساس ہوا کہ ایک دستاویز تو وہ مثل یعنی فائل میں داخل کرنا بھول ہی گئے تھے۔ بڑی مشکل سے اس مقدمے میں بھی انھیں تاریخ ہی لینی پڑی۔ ان کے علاوہ بھی گیارہ مقدمات تھے جن میں سے کچھ میں کاروائی ہوئی اور کچھ میں کسی نہ کسی وجہ سے تاریخ پڑ گئی۔

Wednesday 30 November 2016

قانون آخر ہے کس چڑیا کا نام؟ - اصول قانون

از ٹیپو سلمان مخدوم



کہا جاتا ہے کہ سیاست قانون کی ماں ہے۔ یہ بات قانون کی تضحیک کے لیے نہیں کہی جاتی بلکہ ایک اٹل حقیقت کا بیان ہے۔ دراصل  قانون کا احترام کرنے والے معاشروں  میں تمام اہم معاشرتی فیصلے لوگوں  کی اکثریت سے کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے چھوٹے چھوٹے  معاشروں  میں لوگ  مل جل کر کر لیتے ہیں جبکہ بڑے معاشروں میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا نمائندہ مجلس بنا کر یہ فیصلےاس مجلس میں عوام کی جانب   سے کر لیے جاتے ہیں۔  مثال کے طور پر اگر ایک معاشرہ یہ چاہے کہ ان کے ملک میں قاتلوں کو سزاےَ موت دی جاےَ تو وہاں پر انتجابات میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں درج کریں گی کہ آیا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد سزائے موت کا قانون بنایئں گی یا نہیں۔ معاشرہ اس مثال میں سزائے موت کے حق میں ہونے والی جماعت کو چنے گا۔ چنانچہ نمائندہ مجلس میں آ کر یہ جماعت  سزائے موت کے حق میں  قانون بنائے گی۔

Friday 25 November 2016

Honour

چھوٹی سی غیرت 

از صدف سلمان مخدوم 




ٹوٹی ہوئی چارپائی سے اٹھ کر اپنے مخصوص اعضاء کو کھجاتا ہوا وہ دروازے پر آ کھڑا ہوا اور گرجدار آواز میں بولا، "اری او حرامزادی رجو، نہانے کا پانی لا". یہ اس کا خاص محبت بھرا لہجہ اپنی بیوی کے لئے تھا.

Hijra in Saudia

 پاکستان کا ہیجڑا اور عربوں کا سعودیہ 
از صدف سلمان مخدوم 



میں ایک ہیجڑا ہوں. بس اتنا سا تعارف ہے میرا. پیدا ہوا تو ماں باپ کے لئے کلنک، جوان ہوا تو اپنے لئے عذاب. گرو کی سنوں تو جسم فروشی کروں اور اگر انکار کروں تو ٹریفک کے اشاروں پر بھیک مانگوں اور غلیظ باتیں سنوں. ایسے میں آج پتا چلا کہ خدا نے بھی مجھ سے قطع تعلق کر لیا ہے. 

Saturday 30 July 2016

Kamiyab Bandar

 کامیاب بندر 





فرض کریں دس لاکھ بندر اسٹاک ایکسچینج پر سٹہ لگانا شروع کر دیں. بندر  ہیں، جس اسٹاک پر اپنا کیلا رکھ دیں گے وہ ان کے لئے خرید لیا جائے گا. شماریات کے  حساب سے قوی احتمال ہے کہ آدھے بندرمنافع کمائیں گے جبکہ باقی آدھے گھاٹا. ناکام بندروں کو گھر بھیج دیجئے. اگلے دن کامیاب بندر پھر سٹہ لگائیں گے اور ناکام بندروں کو گھر بھیج دیا جائے گا. 

Friday 29 July 2016

Baray Khawab, Bari Kamiyabi

بڑے خواب، بڑی کامیابی 





زندگی ڈر ڈر کر جینے کا نام نہیں. گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں، وہ طفل کیا گرے  گا جو گھٹنوں کے بل چلے. دنیا میں وہی لوگ کامیابی حاصل کرتے ہیں جو خطروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا جانتے ہیں.

Thursday 28 July 2016

قانون کی تشریح - اصول قانون

آئینی تشریح کے نظریے 





از
ٹیپو سلمان مخدوم



Ronald Dworkin (بولنے میں: Ronald رو- نلڈ   Dworkin  ڈو-آر- کن ) متوفی فروری 2013 امریکی پروفیسر تھے جو قانون کو اخلاقی قدروں سے پرکھنے کے نظریے کے لئے مشہور تھے. 


ڈوارکن کے مطابق آئین کی تشریح کرتے ہوۓ تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے.

Wednesday 27 July 2016

فیصلے، حقائق اور اقدار - اصول قانون





از
ٹیپو سلمان مخدوم


Isaiah Berlin (بولنے میں: Isaiah  اس-آ-ای-آہ , Berlin برلن ) روسی نژاد برطانوی فلسفی تھا جو 1997 میں فوت ہوا. مارکسی فلسفہ، آزادی اور باہمی متضاد اقدار برلن کے خاص مضامین تھے.



حقائق (Facts) وہ چیزیں ہیں جنہیں ہم اپنے پانچ حواس خمسہ یعنی آنکھ، ناک،  کان، زبان یا جلد سے پرکھ سکتے ہیں.

Saturday 23 July 2016

چیخوف کی ایک کہانی




از
ٹیپو سلمان مخدوم


چیخوف روس کا ایک مصنف تھا جو 1904 میں فوت ہو گیا. اس نے روس کے سرخ انقلاب سے پہلے وہاں کے حالت پر بے شمار کہانیاں لکھیں جو ہمیں بتاتی ہیں کے روسی معاشرہ کتنا بے حس ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہاں انقلاب آنا پڑا.

Wednesday 20 July 2016

کونسے فیصلے عدالتوں میں پیش کئے جایئں ؟ - اصول قانون






از
ٹیپو سلمان مخدوم


دنیا میں اس وقت دو بڑے نظام عدل رائج ہیں : (١) کامن لا یا مشترکہ نظام عدل (Common Law System)، اور (٢) سول لا یا دیوانی نظام عدل (Civil Law System). 

کامن لا کا نظام انگریزوں کا وضح کردہ ہے، جو ہمارے ہاں بھی رائج ہے. اس نظام کے تحت قانون صرف دو ادارے بنا سکتے ہیں، (١) مجلس شوریٰ، اور (٢) اعلی عدالتیں . 

Sunday 17 July 2016

Eidhi Aur Qandeel

ایدھی اور قندیل : مر گئے مردود 





نیم عریاں قندیل ہماری ضرورت بن چکی تھی. ہمارے غیرت مندر کی داسی. اسے گندی گالیاں دے کر پوترتا کا وہ احساس ہوتا تھا جو شیطان کو کنکریاں مارنے والوں کو بھی نصیب نہ ہوتا ہو گا.

RIP Qandeel (The Honorable Dead)

RIP Qandeel (The Honorable Dead)
by
Sadaf Salman Makhdoom




So being a mother of two daughters and being a woman myself, today I was compelled to share and express my views –my liberal views. This notorious girl “Qandeel”who was killed by her brother because she was a disgrace to her family.

Wednesday 13 July 2016

Hindostani Judge

ہندوستانی جج -- منصفانہ یا شاہانہ 





سنا ہے کہ ھدوستان کی کئی  ریاستوں میں بہت سے جج صاحبان بلکہ کچھ ریاستوں میں تو کئی اعلی عدالتوں کے جج صاحبان بھی منصف کے بجاے  شاہ بنے بیٹھے ہیں. مصاحب آ گیا تو مسکرا کر منہ موتیوں سے بھر دیا. عام وکیل پیش ہوا تو تیوری پر بل ڈال کر دل کیا تو جھولی میں کچھ بھیک ڈال دی نہیں تو جھڑک دیا.