مجھے دیکھتے ہی وہ والہانہ محبت سے سرشار میری طرف دوڑتا آیا اور
شفقت پدرانہ کے لئے میری گود میں چڑھنے کے لئے اچھلنے لگا۔ میں نے بھی بے اختیار
ہو کر اسے گود میں اٹھا لیا مگر کجھ جھجھکتے ہوئے کہ وہ میرا نہیں کسی کتے کا بچہ
تھا۔ ہم نے اس کا نام جیکی رکھا تھا۔ مجھے کتوں کا شوق نہیں تھا۔ یہ کہنا دراصل
مشکل ہے کہ کیا واقعی مجھے کتوں کا شوق نہیں تھا۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ مجھے کتوں
میں سب سے نمایاں چیز ان کے لمبے لمبے اور نوکیلے دانت نظر آتے تھے۔ اس پہ غضب یہ
کہ وہ ظالم چبانے کے ساتھ ساتھ دانتوں سے وہ کام بھی لیا کرتے جو ہماری نسل کے
جانور اپنی نازک انگلیوں سے لیتے ہیں، یعنی چیزوں کو اپنی گرفت میں لینا۔ چنانچہ
ڈر کے مارے میں نے کبھی کتا پالنے کی کوشش نہ کی تھی۔ مگر اب چوروں اور ڈاکووں نے
شہر میں بارش کی طرح برسنا شروع کر دیا تھا۔ سو بادل نخواستہ ایک دوست کی معرفت
عمدہ نسل کا ایک کتے کا بچہ حاصل کیا۔
جیکی صاحب کے گھر میں آتے ہی ہل چل مچ گئی۔ کہیں جیکی کے کھانے اور
پینے کے برتنوں کا بندوبست ہونے لگا تو کہیں اس کے بستر کا معاملہ زیر بحث تھا۔
اور پھر یہ ہل چل گویا گھر میں رچ بس سی گئی۔ کبھی یہ مسلۂ درپیش تھا کہ آج جیکی
صاحب کو کھانے میں کیا پیش کیا جائے تو کبھی جیکی صاحب کی اچھل کود کی وجہ سے
ٹوٹنے والے گلدان کے گرد گویا اک کہرام سا مچا دکھائی دیتا۔ قصہ مختصر یہ کہ چپ
چاپ سی تنظیم کے تحت چلنے والے گھر میں رونق سی لگ گئی تھی۔ کبھی شور کبھی
شرارتیں۔ کبھی چیخیں کبھی قہقہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بوڑھے لوگوں کے گھر میں
چھوٹا سا بچہ آٹپکا ہو۔
شروع شروع میں تو میں جیکی سے کھچا کھچا رہا۔ کچھ تو مجھے اس سے ڈر
لگتا اور کچھ مجھے اسے ہاتھ لگاتے ہوئے گھن سی آتی۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور
تھا۔ یا تو جیکی نے حساب لگا لیا تھا کہ اس کے لئے چھیچھڑے ہمیشہ میں ہی لاتا ہوں
یا پھر میرے سارا دن گھر سے باہر رہنے پر وہ میرے لئے اداس ہو جایا کرتا تھا۔ جو
بھی تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ چند ہی ہفتوں کی رفاقت میں میں جیکی کی آنکھ کا تارا اور
لاڈلہ ہو گیا۔ مجھے دیکھتے ہی جیکی بھاگا بھاگا میرے پاس آجاتا۔ زور زور سے دم
ہلاتا، میرے جوتے چاٹتا اور میرے قدموں میں لوٹ لوٹ جاتا۔ اور جب میں اسے گود میں
اٹھا لیتا تو گویا پیار میں پاگل سا ہو جاتا اور اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ میرے
لئے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیسے کرے۔ شروع شروع میں میری گود میں آتے ہی وہ
میرا منہ چاٹنے کی کوشش کرتا جس سے مجھے سخت کوفت ہوتی اور میں گھبرا کر اسے نیچے
اتار دیتا۔ مگر آہستہ آہستہ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگے۔ جیکی نے مجھے چاٹنا
چھوڑ دیا اور میں نے اس سے گھن کھانا۔ ویسے بھی کچھ ہی مہینوں میں وہ اس قدر قد
کاٹھ نکال چکا تھا کہ اب ہماری ملاقات میں وہ اٹھ کر میری گود میں نہیں آتا تھا
بلکہ اچھل کر اپنے دونوں اگلے پنجے ہوا میں اٹھا دیتا جنہیں میں کیچ کر لیا کرتا
اور پھر نیچے بیٹھ کر اسے گلے لگا لیتا۔ چند سیکنڈ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح میری
گردن سے اپنی گردن رگڑنے کے بعد وہ دم ہلاتا اچھلتا کودتا میرے چاروں طرف گھومنے
لگتا اور یوں مجھ سے ملاقات پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا۔ میں بھی اس کی ان
خرمستیوں سے خوب خوب محظوظ ہوتا۔
آہستہ آہستہ مجھے بھی جیکی کی عادت سی ہو گئی۔ میں جب بھی گھر میں
ہوتا جیکی یا تو مجھ سے کھیل رہا ہوتا یا پھر میرے آس پاس ہی کہیں میرے اشارے کا
منتظر رہتا۔ جیسے ہی میں اسے پکارتا وہ بجلی کی سی تیزی سے چوکڑیاں بھرتا میری طرف
لپکتا اور میرے اشاروں پر ناچتا۔ میری موجودگی میں وہ کسی اور کو خاطر میں نہ لاتا
بلکہ صرف اور صرف میری بات مانتا۔
اور پھر یوں ہوا کہ جیکی بیمار پڑ گیا۔
برق رفتار گاڑی میں ایندھن ختم ہو جانے پر وہ کچھ دیر بھاگتی تو
رہتی ہے مگر اس میں بھاگنے کی قوت نہیں ہوتی۔ جیکی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
بیماری نے جیکی کی زندگی نچوڑکر اسے ایسی ہی ایک بے جان سواری بنا دیا تھا جو اپنی
پچھلی زندگی کے دم پر دوڑتی تو جا رہی تھی مگر جنازے کی طرح آہستہ آہستہ رکتی
ہوئی۔
جیکی کا علاج کروایا۔ جو دوا دارو ہو سکا کیا۔ سرکار کے گھوڑا
ہسپتال بھی لے کر گئے اور مین مارکیٹ میں کھلے جانور دوا خانوں میں بھی۔ مگر افاقہ نہ
ہوا۔ مرض بڑھتا گیا۔ جیکی مرتا گیا۔
جیکی کا کھانا پینا کم ہوتا گیا۔ اب اس میں پہلی سی پھرتی اور شوخی
نہ رہی۔ وہ اب بھی مجھے دیکھتے ہی میری طرف آتا مگر بھاگ کر نہیں بلکہ سستی سے
چلتے ہوئے۔ اس میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ اچھل کر اپنے اگلے پنجے مجھے کیچ
کروانے کے لئے ہوا میں لہراتا۔ بس میرے قدموں میں آکر بیٹھ جاتا۔ اسے ایسے بیٹھا
دیکھ کر میرا دل بیٹھ سا جاتا۔ یوں محسوس ہوتا گویا جسم و روح کے رشتے کی نازکی
میرے قدموں میں آبیٹھی ہے۔
بچپن میں ایک دن شرلا اڑاتے اڑاتے اس کی ڈور اچانک ختم ہو گئی۔
شرلے کے ہوا میں جھولوں سے محفوظ ہوتے ہوئے یک دم ڈور کا آخری سرا میرے ہاتھ سے
نکل گیا۔ یوں لگا کہ ڈور کے سرے سے بندھ کر میری روح بھی ہاتھ سے نکل گئی۔
خالی پن کی ایک وحشی سی لہر سارے بدن میں دوڑ گئی تھی۔ اور پھر میں دیر تک دور
جاتے شرلے کو یوں بے کسی کے عالم میں دیکھتا رہا جیسے اب جیکی کو دیکھا کرتا
تھا۔
جیکی کے علاج معالجے پر میں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ایک پورا دن
دفتر سے چھٹی بھی کی۔ ایک دن آدھی چھٹی کی اور کئی دفعہ پوری پوری شام اسے لے کر
کبھی ڈاکٹر پر، کبھی ٹیکے لگوانے کبھی ڈرپ لگوانے۔
دھیرے دھیرے جیکی نے میری طرف آنا بھی چھوڑ دیا۔ اس میں اب اتنی
ہمت بھی نہ رہ گئی تھی کہ اٹھ کر میرے پاس آتا۔ پہلے پہلے وہ سر اٹھا کر میرا
استقبال کرتا اور پھر صرف آنکھیں کھول کر اپنے پیار کا اظہار کر دیتا۔
آہستہ آہستہ میں بھی اس کی بیماری کا عادی ہونے لگا تھا۔ شروع شروع
میں تو میں خود جا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا اور کچھ دیر اس سے باتیں واتیں کرتا
مگر پھر یہ ملاقاتیں تکلفات بنتے بنتے بالکل ختم ہوتی گئیں۔ اب میں گھر آتا تو
جیکی سستی سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھ لیتا اور میں گزرتے ہوئے گردن گھما کر اسے۔
وہ ہلکی سی دم ہلا کر اظہار محبت کر پاتا اور میں شائستگی سے اسے پکار کر رسم نبھا
دیتا۔
جس طرح مری ہوئی مچھلی کو دریا
دھارے میں سے اچھال کر کنارے پر پھینک دیتا ہے اسی طرح بے بس وجود کو زندگی کا
دھارا بھی کوڑے کرکٹ کی طرح اچھال کر کنارے پر پھینک دیتا ہے۔
جب جیکی نے آنکھیں کھولنی چھوڑ دیں، مگر ابھی سانس لینی نہ
چھوڑی تھی تو میں نے ملازم سے کہا کہ جیکی کو گیٹ کے باہر رکھ دے جب یہ مر جائے تو
مناسب طریقے سے اسے ٹھکانے لگا دے۔
No comments:
Post a Comment