Thursday, 15 December 2016

ہونہار بیٹا: کہانی

از 
ٹیپو سلمان مخدوم


اشتہار میں ایک معصوم سی شکل والا بچہ چوکلیٹ کھا  رہا تھا اور  ساتھ ہی ساتھ  زور دار انداز سے مسکرا بھی رہا تھا۔ 
معصوم سی شکل والا میں نے اس لئے کہہ دیا ہے کہ تمام بچے معصوم شکل کے نہیں ہوتے۔ حقیقت میں کئی بچے بڑی پختہ شکل کے ہوتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے گویا ایک بڑے سے آدمی کو اُبال کر چھوٹا کر دیا گیا ہو۔ جیسا کہ میں نے کسی ناول میں پڑھا تھا کہ کئی افریقی قبائل اپنے دشمنوں کو مارنے کے بعد ان کے سر کاٹ کر انہیں اُبال اُبال کر سُکیڑ لیتے ہیں اور پھر اپنے گھروں میں ٹرافیوں کی طرح سجا رکھتے ہیں۔ 

اسی طرح کئی لوگ حالات میں اُبل اُبل کر سکڑ جاتے ہیں۔ اور ان کے بچے انہیں کی پرچھائیں بن جاتے ہیں۔ سکڑے سُکڑے، پختہ پختہ۔ ایسے بچے کبھی زور دار طریقے سے نہیں مسکراتے۔ جس کی عام طور پر دو  وجوہات ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جس مقدار اور جس معیار کا کھانا وہ عموماً کھاتے ہیں اس سے ان میں مشکل سے اِتنا ہی زور پیدا ہوتا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکیں۔  اور دوسری یہ کہ یہ سکڑے بچے اُس بانچھیں پھاڑ مسکراہٹ سے نفرت کرتے ہیں جس کا مظاہرہ غلیظ ذہنیت کے لوگ انہیں سڑکوں پر اکیلا پا کر کرتے ہیں۔ 
معصوم شکل والے بچے کا اشتہار دیکھ کر ٹیلیویژن کے سامنے بت بنے بچے کا جی للچایا اور اُس نے باپ سے چوکلیٹ کی ضد شروع کر دی۔ باپ سمجھتا تھا  کہ چوکلیٹ  بیچنے والی کمپنی بیچنا تو چوکلیٹ چاہتی ہے مگر اشتہار خوشی کے بناتی ہے۔ اشتہار دیکھ کر بچے کے ذہن میں میٹھاس نہیں بلکہ خوشی کی تصویر جاگی ہے۔ اور بلا وجہ بچے نے چوکلیٹ کھانے کو خوشی سے نتھی کر لیا ہے۔ جب چوکلیٹ کھا کر بھی اسے خوشی نہ ملی تو اس نے مایوسی اور غصے میں مزید چوکلیٹ کھانی ہے اور کھاتے چلے جانا ہے۔ اور یوں چوکلیٹ کے اشتہار نے خوب خوب چوکلیٹ بیچنی ہے۔  لہٰذا باپ نے   ٹال مٹول سے کام لے کر بچے کو بہلانا چاہا مگر جب بچے نے اپنی بھونڈی مگر اونچی تان میں رونا شروع کر دیا تو ماں   باورچی خانے سے کھچی چلی آئی۔ 
"کیوں بچے کو رلا رہے ہیں، لے دیجئے نہ چوکلیٹ" ماں نے زرا تیز لہجے میں کہا۔
"یار اب تم تو شروع نہ ہو جاؤ، ابھی تو تھکا ہارا دفتر سے آیا ہوں۔ کل لے دوں گا۔" باپ نے التجائی  انداز میں بیوی کو دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے  بچے نے رک کر حالات کا بغور جائزہ لیا اور فضاء موافق پا کر پھر رونا شروع کر دیا۔ 
"بس رہنے دیں، مجھے پتا ہے کتنا کام کرتے ہیں آپ دفتروں میں۔ بس دو چار فائلیں ادھر اُدھر کر لیں اور پھر  سارا دن بیٹھ کر گپیں ہانکیں۔ جائیے اسے بازار لے جائیے، ذرہ اس کا بھی دل بہل جائے گا۔ کب سے ٹی وی کے آگے بیٹھا ہے۔ آپ کا فرض صرف کمانا ہی نہیں ہے۔ بچے کو پیسے سے زیادہ باپ کا پیار اور توجہ چاہئیے ہوتی ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں۔" ماں نے بیویوں کی طرح کہا۔
اب کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہ بچی تھی۔ باپ سُستی سے اٹھا اور ایک لمبی انگڑائی لے کر جھپٹ کر بچے کو اٹھایا اور ہوا میں اچھال دیا۔ بچے کا رونا آناً فاناً کلکاریوں میں بدل گیا اور وہ باپ کی گود میں ایسے تن کر بیٹھ گیا گویا محاذِ جنگ پر حملہ آور سوار گھوڑے کی ایڑ لگا کر بیٹھا ہے۔ 
گاڑی کی چابی پکڑ کر باپ کو خیال آیا کہ موسم اچھا ہے، جلدی بھی کوئی نہیں اور وزن بھی بڑھتا جا رہا ہے، کیوں نا پیدل ہی بازار چلا جاۓ؟ بازار کچھ ایسا دور بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے بچے کو گود سے اتار کر اپنی کمر پر لٹکایا اور نکل کھڑا ہوا۔ 
چند قدم تو خراماں خراماں چلا، پھر سفر طبیعت پر گراں گزرنے لگا۔ ہر دو قدم بعد فٹ پاتھ پر یا تو بجلی،  نہیں تو ٹیلی فون کا کھمبا آجاتا یا پھر کوئی قد آدم اشتہاری بورڈ۔ مجبوراً اتر کر سڑک پر آنا پڑتا۔ جوں ہی سڑک پر قدم دھرتا،  شُوں کر کے کوئی نہ کوئی تیز رفتار گاڑی اتنے قریب سے گزر جاتی کہ اس کی پینٹ کے پائنچے ہوا کے جھونکے سے لہرا جاتے۔ کبھی کبھی گاڑی والا غصے کا اظہار کرنے کے لئے ہارن بھی بجاتا جاتا جس کی آواز  ایک طوفانی لہر کی طرح دور سے اٹھتی آتی  اور پھر گرتی  ہوئی  دور تک گاڑی کے ساتھ دوڑتی  سنائی دیتی۔ سنبھل کر اس نے بچے کو پیٹھ پر سے اتار کر گود میں اٹھا لیا اور دھیان سے چلنے لگا۔ بجلی کے کھمبوں سے لمبی لمبی اور بے ھنگم بجلی کی تاریں اس طرح گچھوں کی صورت میں لٹک رہی تھیں کہ انہیں دیکھ کر ہی اسے جھُرجھُری  آجاتی۔ جھُرجھُری  اسے تاروں سے نہیں بلکہ آنکھوں میں گھومتے ایک منظر کی وجہ سے آتی۔ تاروں میں جھولتی ایک مسخ شدہ لاش۔ جو اسے بھی ایک بجلی کے جھٹکے کی طرح لگی تھی۔
ایک دن گھر میں خبر آئی تھی کہ خانساماں کا چوبیس سالہ بیٹا ارشد علی، جو پچھلے ہی ماہ  بجلی کے محکمے میں ملازم ہوا تھا، تاروں کی مرمت کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے مارا گیا تھا۔ ایک کہرام سا مچ گیا تھا۔ اُس دن وہ گھر پر ہی تھا لہٰذا  خانساماں کو گاڑی میں جائے حادثہ پر لے گیا۔ وہاں سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا مجمع لگا تھا۔ گاڑی روکتے ہوئے تاروں پر اُس کی نظر پڑی تو اُس کو زور کا جھٹکا لگا۔
ارشد علی بچوں کے ساتھ گیند کھیلا کرتا تھا۔ اکثر بچوں کو کھلاتے کھلاتے خود بھی بچہ بن کر روٹھ جاتا۔ مگر نوکروں کے بچوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اور ان کے والدین کی اوقات کیا ہے۔ لہٰذا   ناراض ہونے پر وہ دانت پیس کر صرف اتنا ہی کہتا کہ " جاو میں نہیں کھیلتا"۔ اور جیسے ہی مالک بچے تان لگا کر رونا شروع کرتے وہ اچھا اچھا اچھا کی گردان میں منت سماجت کرتا دوبارہ کھیلنے پر آمادہ ہو جاتا۔ ارشد علی کا سکڑا ہوا چہرا دیکھ کر اُسے ترس آیا کرتا تھا۔ مگر تاروں کے منظر نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا۔ تاروں پر لٹکے ارشد علی کا چہرہ محض سکڑا ہوا ہی نہیں، مسخ شدہ بھی تھا۔ پہلی نظر میں لگتا تھا وہ دھان پان سا لڑکا تماشا دکھاتے ہوئے  تماش بینوں کو ہنسانے کے لئے منہ چڑھا رہا ہے۔ مگر جیسے ہی ہنسی منہ میں بھرتی، یہ تلخ حقیقت واضح ہو جاتی کہ وہ ایک مردہ  شکل ہے۔  اور منہ کا مزہ اچانک خراب ہو جاتا۔ وہ سکڑا ہوا چہرہ اس طرح کھچا ہوا تھا گویا اس کے سارے خواب اور ارمان کالی تاروں میں چھپی بجلی کھینچ کر لے جا رہی ہو اور وہ اپنا سب کچھ لٹنے کے کرب سے گزرتے ہوئے امر ہو گیا ہو۔ 
اگر آج سے بیس سال پہلے ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کسی عہدیدار کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ اخباروں کے پاس ویسے ہی سیاسی خبروں کا انبار لگا ہوتا ہے، بس ایک دن کے لئے چار بڑے اخباروں کو سنبھال لو، اللہ اللہ خیر صلّہ۔ اندر کے صفحات میں ایک چھوٹی سی خبر لگ جاتی تو بس، بات دب گئی سمجھو۔ مگر آج کے زمانے میں  ایک تو ٹی وی چینلوں کی بھر مار اُوپر سے چوبیس گھنٹے چلتے رہنے کی پابندی۔ ایسی خبریں تو ان کے لئے گویا قارون کا خزانہ ہوتیں ہیں۔ بس پھر کیا تھا،  دن رات ارشد علی کی تاروں میں لٹکی لاش ٹی وی سکرین پر جھپکنے لگی۔ کیوں ایک کمسن لڑکے کو بغیر حفاظتی اقدامات کے بجلی بھری تاروں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا؟ کیا محکمے کے پاس حفاظتی آلات اور لباس ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارشد علی کے قل پر ہی اعلٰی افسران نے حکومت کی طرف سے دس لاکھ روپے کا چیک ارشد علی کے خانساماں والد کو پیش کر دیا۔ اس موقع پر کافی چینلوں کے کیمرے بھی موجود تھے۔ اگلے چوبیس گھنٹے دس لاکھ کے چیک کی تصویریں سکرینوں پر چلتی رہی اور قوم اور میڈیا حکومت کے انصاف سے مطمئن ہو کر اب دوسرے اہم معاملات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
اُس کو حکومت، میڈیا اور قوم کا یہ بازاری سا رویہ دیکھ کر دُکھ ہوا۔ مگر اگلے دن اس نے خانساماں کو موبائل فون پر بات کرتے سنا۔ "وہ بڑا رحیم ہے۔ میرے بیٹے کی شہادت قبول فرمائے۔ ہاں ہاں، سارے بڑے افسر آئے تھے قُلوں پر۔ ہاں ہاں ارشد علی کے چھوٹے بھائی کو اس کی جگہ نوکری پر رکھ لیا ہے۔ ہاں ہاں اللہ کے فضل سے پکی نوکری پر۔ ہاں ہاں پورے دس لاکھ روپے۔ نہیں نہیں۔ کوئی مسلۂ نہیں بھائی، افسروں نے خود مجھے چیک دیا تھا۔ میرے اکاؤنٹ میں پیسے آ بھی چکے ہیں۔"
اسے عجیب سا لگا۔ افسوس تو اُسے میڈیا اور قوم کی بازاری ذہنیت سے ہوا تھا مگر خانساماں کی باتیں سن کر اسے دکھ ہوا ۔ کیا پیسہ اتنا اہم ہو چکا تھا کہ بیٹے کی کمی بھی پوری کر رہا تھا؟  پہلے تو اس نے سوچا کہ اس کا کیا لینا دینا۔ مگر وہ بھی باپ تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے بار بار ایک جوان لاش اور چیک کا شکریہ ادا کرتا ہوا باپ گھوم رہا تھا۔ اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے خانساماں سے پوچھ ہی لیا۔ "بابا، ارشد علی کا غم تو ہلکا ہو گیا نا؟" اس نے طنزیہ ہونے کا ارادہ تو نہ کیا تھا مگر بجلی کی تاروں میں لٹکی ایک نوجوان سکڑی  لاش نے شاید اس کے لہجے میں ضرورت سے زیادہ کڑواہٹ بھر دی تھی۔ خانساماں نے نظر بھر کہ اس کی طرف دیکھا اور ذرا توقف  بولا۔ " بیٹا ایک دفع ایک انگریز افسر نے کہانی سنائی تھی۔ ایک بوڑھے مزدور کے گھر کوئی شخص  ایک بندر کا پنجہ چھوڑ گیا۔ وہ  پنجہ جادو کا تھا۔ وہ آپ کی کوئی بھی تین خواہشیں پوری کرسکتا تھا مگر قیمت اپنی مرضی کی لیتا تھا۔ مزدور اور اس کی بیوی نے  پنجے سے خواہش کی کہ ان کا دس لاکھ کا قرض اتر جائے۔ اگلے دن دوپہر کو فیکٹری سے کچھ لوگ اطلاع لے کر آئے کہ کام کے دوران حادثے میں ان کا اکلوتا جوان بیٹا ہلاک ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ان کے بیٹے کی لاش اور فیکٹری مالک کی طرف سے دس لاکھ کا چیک ان کے گھر چھوڑ گئے۔" اتنا کہہ کر ایک لمحے کے لئے بوڑھے باپ کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ "بڑا ہی تابعدار بچہ تھا میرا صاب جی۔ میرا ہر حکم مانتا تھا۔ پورے گاوں میں وہی تھا جو بارہویں تک پڑھا تھا۔ صاب جی میرا۔۔۔۔"۔ اس سے پہلے کے وہ بیٹے کی موت پر بین ڈالنے لگ جاتا، بڈھا اچانک سنبھل گیا۔ آنسوں پونچھ کر بڑے اعتماد سے  بولا " جس کی امانت تھی وہی لے گیا جی۔ اپنے پیاروں کو وہ جلدی بلا لیتا ہے اپنے پاس۔ شہادت پائی ہے میرے بچے نے، اللہ قبول کرے۔" کچھ دیر خاموشی چھائی رہی،  پھر خانساماں نے ہولے سے بولنا شروع کیا "میرا سب سے ہونہار بچہ تھا جی۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا یہی میرا سہارا بنے گا۔ چھوٹے بھائی کو نوکری بھی لگوا گیا اور چھوٹی بہنوں کی شادی کا بھی بندوبست کر گیا۔ بڑا ہونہار بچہ تھا صاب۔ بڑا لائق بچہ تھا میرا۔ میری سب پریشانیاں اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ میرا بچہ۔۔۔۔" بوڑھے کا صبر آخر ٹوٹ ہی گیا اور اس نے ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کر دیا۔ وہ بت کی طرح بیٹھاسُن رہا تھا ۔ اس کا دل پھٹنے لگا۔ دکھ سے یا غصے سے، اس کا تعین وہ آج تک نہیں کر سکا تھا۔
بچے کو چوکلیٹ دلا کر وہ بوجھل قدموں سے، بجلی کے کھمبوں سے بچتا بچاتا گھر لوٹ آیا۔

1 comment: