Monday, 5 December 2016

سکول: کہانی

از ٹیپو سلمان مخدوم




روزانہ کی طرح آج بھی اس  کی آنکھ الارم کی منحوس آواز سے ہی کھلی۔ جب رات دیر گئے تک ٹیبلٹ پر فلمیں دیکھنے کے بعد جوانی کی بھرپور نیند پوری ہونے سے پہلے ہی الارم بج اٹھے تو اس کی آواز منحوس ہی لگتی ہے۔
"جانے یہ  بچوں کے سکول صبح صبح کیوں لگتے ہیں۔" اس نے گرم رضائی سے نکلتے ہوئے تعلیمی نظام کی بے وجہ سختیوں کو کوسا۔

رضائی ہٹاتے ہی بند کمرے کی یخ فضا اس کے چاروں طرف ایسے جم گئی گویا وہ برف کے بلاک میں بند ہو۔ ٹھٹھر کر اس نے  سوچا کہ دو منٹ جاگتے میں بھی گرم  بھی گرم بستر  کے مزے لوٹ لے۔ بڑی مشکل سے اٹھ کر اس نے بجلی کا ہیٹر جلایا اور واپس بستر میں آکر لیٹ گئی۔ اذیت ناک حد تک سرد کمرے میں گرم بستر نے نشہ طاری کر دیا اور لمحوں میں اس کی آنکھ لگ گئی۔
اب کے اس کی آنکھ الارم کے بغیر کھلی، مگر ایک اندرونی جھٹکے سے۔  دوبارہ سونے کے احساسِ گناہ نے اسے چین نہ لینے دیا تھا۔  ہڑبڑا کر اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو وقت کی سوئیاں بیس منٹ کا چکر کاٹ چکی تھیں۔ تقریباً اچھل کی وہ بستر سے نکلی اور اپنے بالوں کا جوڑہ باندھتے ہوئے چیخی، "عائشہ اٹھو، دیر ہو گئی ہے"۔ چھ سالہ عائشہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ماں کو ایسے محسوس ہونے لگا جیسے  سکول تیزی سے پھسلتا  ہوا   دور جا رہا ہے۔ اس نے پیٹ پر چڑھی قمیض نیچے کو کھینچی اور ایک ہی جھٹکے میں رضائی کو  پلنگ کی پائنتی میں پھینک کر ننھی عائشہ کا بازو اس زور سے کھینچا کہ بچی سیدھی ٹانگوں کے ساتھ ہی کمر تک اٹھ بیٹھی۔ چونکہ بچی سوئی سوئی بٹھا دی گئی تھی لہٰذا اپنے ہی وزن سے جھول کر پھر سے لیٹ گئی۔ ماں نے دونوں پاوں پکڑ کر باہر کھینچے اور اب کی بار دونوں بازووں سے پکڑ کر بچی کو کھڑا کر دیا۔ اس سے پہلے کہ عائشہ زمین پر ہی لیٹ جاتی، ماں نے ایک ہاتھ اس کی بغل میں ڈالا اور دوسرے ہاتھ سے بچی کی کمر پر زور دار دھپ رسید کی۔ یہ نسخہ کارآمد ثابت ہوا اور عائشہ جاگ اٹھی۔ ساتھ ہی اس نے بھوں بھوں کر کہ رونا شروع کر دیا۔
ماں نے جلدی جلدی عائشہ کا ہاتھ منہ دھلایا اور کپڑے بدلنے لگی۔ اس دوران جب بھی ماں کی نظر گھڑی پر پڑتی تو اسے یوں محسوس ہوتا گویا وہ وقت کی مسلسل چکر کاٹتی سوئیوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہو۔ اور ہر دفعہ وہ اور زیادہ وحشیانہ طریقے سے بچی کو تیار کرنے لگتی۔
جوتوں کی باری آنے تک آیا ناشتے کا ٹرے لے آئی جسے دیکھ کر عائشہ نے پھر ٹسوے بہانے شروع کر دیئے۔ لیکن ماں کی کرخت آواز میں دی جانے والی دھمکیوں سے سہم کر ناشتہ زہر مار کرنے لگی۔ آیا نے جوتے پہنانے شروع کیئے اور ماں نے ٹوسٹ پر مکھن لگا کر دیا جسے عائشہ نے جیم سے لگا لگا کر کھانا شروع کر دیا اور ساتھ چاکلیٹ ملے دودھ کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے شروع کر دیئے۔ جب ماں نے تلے ہوئے انڈے کی طشتری آگے کی تو بچی نے برا سا منہ بنا کر التجائی نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے جھاڑ پلائی کہ یہ دیسی مرغی کا انڈہ ہے جو بڑے مہنگے دیسی گھی میں تلا گیا ہے اور جسے کھانا سردیوں میں بہت ضروری ہے ورنہ بچوں کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے اور پھر ٹیکا لگوا نا پڑتا ہے۔ اس دہشت ناک انجام سے روزانہ کی طرح خوفزدہ ہو کر بچی نے بادل نخواستہ انڈہ کھانا شروع کر دیا۔ ناشتہ ختم ہوتے ہوتے آیا نے اسے جوتے پہنا کر اس کے  بالوں میں کلپ بھی لگا دیئے تھے اور اس کا بستہ بھی تیار کر دیا تھا۔ اب کے ماں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو اس کے بدن کا تناو ڈھیلا پڑ گیا۔ عائشہ وقت پر تیار ہو چکی تھی۔ ماں نے آیا سے کہا کہ ڈرائیور کو بلا لائے۔ آیا کے جانے کے بعد ماں نے بچی کو چوما  ،  گلے سے لگایا اور باہر لے آئی۔ ڈرائیور تیار کھٹرا تھا۔ آیا اور عائشہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ماں نے ہاتھ ہلا کر عائشہ کو الوداع کہا اور اپنی بقیہ نیند پوری کرنے کمرے کی طرف چل پڑی۔
گیٹ سے نکل کر گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی سکول کی طرف بھاگی۔ ماں کے حصار سے نکل کر عائشہ پر پھر نیند کا غلبہ طاری ہوگیا۔ اور وہ آیا کی گود میں سر رکھ کر، سیٹ پر ٹانگیں سمیت کر لیٹ گئی۔ آیا نے پچکار کر عائشہ کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا مگر اس کی آنکھیں کھڑکی سے باہر سڑک پر مرکوز تھیں۔ اچانک آیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ  پھیل گئی۔
سڑک کنارے چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا علی تھا۔ بستہ اس کی کمر پر ایسے لٹک رہا تھا جیسے وہ شام کو اپنے باپ کی گردن میں ہاتھ اور بغلوں میں ٹانگیں ڈالے لٹکا کرتا تھا۔ کتابوں کے بوجھ سے وہ آگے کو جھکا جھکا چل رہا تھا۔ اس کے کالے یونیفارم کے جوتے آیا نے گیلے کپڑے سے اچھی  طرح صاف کئے تھے مگر خستہ حال جوتوں پر سے کالک کے چھینٹے اڑ چکے تھے اور نیچے سے دراز عمر جوتوں کی چتکبری چاندی جھلک رہی تھی۔ اس کی صاف ستھری سلیقے سے استری شدہ سلیٹی رنگ کی پینٹ ٹخنوں تک تھی جس کے نیچے دھلی ہوئی مگر ڈھیلی ڈھالی ہلکی نیلی جرابیں نظر آ رہی تھیں۔ یہ سوچ کر کہ آج اس نے علی کو بناسپتی گھی میں تلا ہوا پراٹھا پلاسٹک کے لفافے میں احتیاط سے باندھ کر دیا تھا جسے وہ آدھی چھٹی میں بڑی رغبت سے کھائے گا، آیا کا دل پیار سےبھر آیا اور اس نے بے اختیار ہو کر عائشہ کا سر چوم لیا۔

No comments:

Post a Comment