Tuesday 29 May 2018

ایمان ۔ کہانی

ایمان
از
شہزاد اسلم


رات کا اندھیرا اپنے اندر آسمان کی وسعت لئے تہہ در تہہ پھیلا ہوا ہے۔ کرشنا نگر گاؤں کی تاریک گلیوں کی گہری خاموشی سے پرے ندی کا پانی سانپ کی پھنکار جیسی آواز کے ہمدم بہہ رہا ہے۔ گاؤں میں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کے چند گھروں کے گرد پھیلی ہوئی ہے جیسے ان کی حفاظتی فصیل ہو۔ مسلمانوں کے گھروں سے جڑے ہوئے امام باڑہ اور گاؤں کے باہر واقع مندر نے اپنی حیثیت اور پاک بازی کا دوسرے کو علم نہ ہونے دیا تھا۔ دونوں عمارتیں ایک دوسرے سے لاعلم اور بے پرواہ امام حسینؓ کے گھوڑے اور گاؤ ماتا کے تقدس سے ہمکنار تھیں۔  دونوں کے جسموں سے گاؤں کی ندی کے پانی کو پوتر کیا جاتا تھا۔ محرم کے دنوں میں جب دور دور سے لوگ مجلس میں شرکت کرنے آتے تو گاؤں کے ہندو بھی امام حسینؓ کی شہادت کے بیان کو سنتے اور اپنی مرادیں پوری کرنے کیلئے گھوڑے کے نیچے سے جھک کر گزرتے اور روضہ کو بوسہ دیتے۔ بیساکھی کا میلہ ہو یا رنگولی ہو، مٹی اور رنگوں کی تہہ مسلمان اور ہندو کے چہروں پر یکساں جمتی۔ گیہوں کی فصل کی خوشبو کو، ہوا بلا امتیازِ مذہب گلیوں اور گھروں کے اندر بکھیرتی۔ کشادہ  گھروں کو مسلمانوں کے نوجوانوں نے ہی آزادی کی جنگ کے بعد  تعمیر کیا تھا۔ ہندو سرپنچ مسلمانوں کے گھریلو جھگڑوں کے تصفیہ کیلئے پنچایت لگا تے۔ چند ایک موقعوں پر تو مسلمان لڑکوں نے مندر کی خستہ دیواروں کو مرمت بھی کیا تھا۔

چیل گوشت ۔ کہانی

چیل  گوشت
از
شہزاد  اسلم


رمضان لاہور کی سول عدالت میں بطور اہلمد (ریکارڈ کیپر) تعینات ہے۔ وہ پندرہ سال قبل اپنے چچا زاد بھائی جو ہائی کورٹ میں ملازم تھا، کی کوششوں سے نوکر ہوا۔ نوکری ملنے سے تعلیم کا سلسلہ ایف اے تک منقطع ہو گیا۔ شادی کے بعد، بیوی اور تین بچوں کا بوجھ فائلوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔ زندگی اسی بوجھ سے لرزہ براندام تھی۔ تقریباً بیس مختلف سول ججوں کے ساتھ کام کرتے کرتے طبعیت کرختگی اور الجھن نے افسانہ برپا کر دیا تھا۔

Saturday 26 May 2018

زمین کی قیمت ۔ کہانی

زمین کی قیمت
از
شہزاد اسلم


اشرف نے اپنی ساری زندگی ایمانداری سے گزاری تھی۔ لیکن وقت شاید ایماندار نہیں رہا تھا۔ پیشے سے وہ موچی تھا اور نسل در نسل جوتوں  کی مرمت کا ہنر اس تک پہنچ کر اٹک گیا تھا۔ نائی، موچی، کمہار اور دوسرے کم ذات لوگوں کے پیشے اپنی موت آپ ہی مر رہے تھے۔ گاؤں کی زندگی اتنی تیزی سے بدلی کہ پرانے جوتوں کی مرمت قصہ پارنیہ بن گیا۔ جب جوتوں کی مرمت نہیں ہوتی تو گاؤں کے لوگ کاتک اور بیساکھ کی فصل کا حصہ کیوں کر اشرف کو دیتے۔

Friday 25 May 2018

دیسی شراب۔ کہانی

دیسی شراب
از
شہزاد اسلم

جون کے مہینے کی سخت گرمی میں افق پر گرد کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ شام نے  سورج کو اپنے اندھیروں کے پیٹ میں جذب کرنے کیلئے منہ کھول لیا تھا۔ پیاس اور بھوک  سے لاغر اجسام مغرب کے کناروں پر نئے چاند کی آمد سے مایوس ہو کر گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ اس دفع بھی روزے تیس ہوں گے۔ گلیوں اور بازاروں میں رویت ہلال کمیٹی کے چاند نظر نہ آنے کے اس اعلان کو گرد آلود فضا، کمیٹی کے ارکان کی ناقص بیتی اور حکومتی سازش سے تعبیر کیا گیا۔