از
ٹیپو سلمان مخدوم
مصر میں حسن کی وہ
گرمئ بازار کہاں
جنس تو ہے پہ زلیخا سا خریدار کہاں
گو کہ ہم دونوں قاہرہ میں قریب ہوئے مگر نہ تو میں مصری
تھا اور نہ یہ گوری خاتون۔ ابھی مجھے اندر داخل ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ میری
ہمت جواب دینے لگی۔ دسمبر کی سردی میں بھی ابرو پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ دل کی دھڑکن اس قدر وحشی ہو گئی کہ گھبرا کر میں نے
آنکھیں کھول دیں۔ نیم اندھیرے میں اس کی عریاں ٹانگوں کے بیچ سے اس کے نیم وا
ہونٹوں اور دھونکنی کی طرح چلتی سانس نظر آ رہی تھی۔ مگر وہ رکنے کا کوئی اشارہ نہ
دے رہی تھی۔ اس طرح رک جانا میری مردانہ انا پر ضرب کاری ہوتی۔ مگر میں بری طرح
تھک چکا تھا۔ رک گیا۔ اس تین فٹ کی سرنگ میں رکوع کے انداز میں چلتے چلتے میرا برا
حشر ہو چکا تھا۔
اور قاہرہ کے اہرام کے دہانے پر پانچ منٹ پہلے میرے قریب ہوئی وہ گوری خاتون مجھ سے دور ہوتی گئی۔ سکرٹ اور بلاوز زیب تن کرنے کے باوجود وہ بڑی مہارت سے چڑھتی جا رہی تھی۔ اس کا گورا ساتھی اس سے مسلسل باتیں کئے جا رہا تھا اور شاید اس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔ معلوم نہیں یہ جوڑا جرمن تھا یا فرانسیسی یا کوئی اور یورپی قوم۔ ایک منٹ کے اندر اندر میں اس تین فٹ قطر کی تنگ غار میں اکیلا رہ گیا تھا۔ حد نگاہ نیم اندھیرے کی وجہ سے بہت محدود تھی۔ اور تا حد نگاہ غار کے اوپر والے اندھیرے سرے سے لے کر نیچے والے اندھیرے سرے تک میں تنہا تھا۔
قاہرہ کے بلکل ساتھ واقع تین اہراموں میں سے صرف ایک اہرام سیاحوں کے لئیے کھلا تھا۔ یہ "خوفو" کا عظیم اہرام کہلاتا ہے۔قد آدم تراشے گئے چٹانی پتھروں سے تعمیر کیا گیا یہ تکونہ پہاڑ دراصل ساڑھے چار ہزار سال پرانا فرعون کا مقبرہ ہے۔ مینار پاکستان سے دگنی اونچائی کے حامل اس اہرام کے بیچوں بیچ ایک پنج ستارہ ہوٹل کے رہائشی کمرے جتنا بڑا کمرہ ہے۔ یہاں فرعون کی حنوط شدہ لاش کے ساتھ اس کا خزانہ اور اس کی خدمت کے لئے زندہ غلام اور کنیزیں بھی بند کر دی جاتیں تھیں۔ اس کمرے تک جانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، یہ تنگ و تاریک سرنگ جس میں رکوع کی حالت میں چلنا پڑتا ہے اور تمام راستہ چڑھائی ہے۔ نہ روشنی کے لئے کوئی کھڑکی ہے نہ ہوا کے لئے کوئی درز۔ مجھے اندر داخل ہوتے ہی اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔ جی چاہا کہ واپس مڑ جاوں مگر اس یورپی خاتون کی ہمت دیکھ کر شرمسار سا ہوگیا۔ سوچا اگر ایک خاتون جا سکتی ہے تو میں کیوں نہیں؟ مگر اب سانس لینے کی خاطر رکنا پڑا۔
کمرے میں صرف ایک پتھر کا بنا ٹب تھا۔ یہ فرعون کا تابوت رکھنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ فرعون کی ممی یعنی حنوط شدہ لاش، اس کا تابوت، خزانہ اور کنیزوں اور غلاموں کے ڈھانچے میرے پہنچنے سے کئی دہائیاں پہلے ہی دنیا کے مختلف عجائب گھروں میں پہنچائے جا چکے تھے۔
آج سے جتنی صدیاں پہلے حضرت عیٰسی علیہ السلام مصلوب ہوئے تھے ان سے اتنی ہی صدیاں پہلے فرعون یہ اہرام تعمیر کر رہے تھے۔ جانے بادشاہوں کو عظیم قبروں کا کیا خبط ہوتا ہے؟ نہ تو عظیم قبر میں جانے سے کوئی مرنے والا زندہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی عظیم قبر کے صدیوں تک قائم رہنے سے اس میں مدفون مردے کو کوئی فرق پڑتا ہے۔ جانے بادشاہ لوگ مرنے کے بعد بھی عوام کو ہیبت زدہ رکھنے پر کیوں مُصِر رہتے ہیں؟
دریائے نیل پر تیرتی بڑی کشتی میں تقریبا" ایک صد افراد سوار تھے۔ عمارتوں کی روشنیوں سے تحفہ ہائے مصر کا پانی جھلملا رہا تھا۔ کشتی کی اوپری منزل کے ہال میں میز اور کرسیاں اس طرح لگائی گئیں تھیں کہ بیچ میں بارہ کرسیوں والے کھانے کی میز جتنی جگہ خالی تھی۔ جیسے ہی کھانا ختم ہوا ایک نہایت حسین، لامبی، گوری اور متناسب بدن حسینہ نے آ کر روائتی عربی "رقصِ شکم" شروع کر دیا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مصری تہذیب تو ایک افریقی تہذیب ہے یہ کیوں عربی بولتے اور عربی ناچ ناچتے ہیں کہ ناچ اپنے جوبن پر آ گیا۔ اور میرے سوچ کے دھارے کا رخ اس بات پر مرتکز ہو گیا کہ مجھے تو یہ نیم عریاں رقص خاصا شہوت انگیز محسوس ہو رہا ہے پھر یہ مصری لوگ یہاں اپنی بیگمات، بچوں اور بچیوں کو ساتھ کیوں لائے ہیں؟
یا تو یہ ساری قوم بےغیرت ہے یا پھر ہم من حیث القوم جنسی درندے بن چکے ہیں جنہیں عصمت دری کی شکار خاتون بھی شکار ہی نظر آتی ہے۔ ایسی فضول باتیں سوچتے سوچتے مجھے خیال آیا کہ کیا اس خاتون کو یوں نیم عریاں ہو کر اپنا بدن انجان لوگوں کے سامنے تھرکاتے شرم یا کم از کم گھبراہٹ محسوس نہ ہوتی ہو گی۔ ساتھ ہی یہ خیال بجلی کی طرح میرے ذہن میں کو ندہ کہ اگر مجھے اس طرح ناچنا پڑے تو مجھ پر کیا بیتے گی۔ یہ پراگندہ خیالات اتنے بھیانک تھے کہ میں نے خوف زدہ ہو کر انہیں جھٹک دیا اور دیدمِ محوِ رقص ہو گیا۔
رقص ختم ہوا تو ایک فوٹو گرافر آگے آیا۔ اب رقاصہ ناظرین میں مختلف لوگوں کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی اور یہ صاحب بڑی سرعت سے ان کی تصویر کھینچ لیتے۔ بعد میں یہ تصاویر ان لوگوں کو برائے فروخت پیش کی جاتیں۔ اگر وہ چاہتے تو خرید کرتے ورنہ منع کر دیتے۔ ایسے تصاویر کھنچتی رہیں، یہاں تک کہ وہ نیم عریاں رقاص حسینہ ہمارے ایک پاکستانی بھائی کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔ یہ نیک آدمی جو پیسے خرچ کر کہ یہ کافرانہ رقص دیکھنے آیا تھا اور تمام وقت اس سے بدرجہِ اُتم محظوظ بھی ہوتا رہا تھا اس بدبخت رقاصہ کے اپنے پاک کردار پر اس حملے کو برداشت نہ کر سکا اور اس مردِ آہن نے نہایت کراہت انگیز شکل بنا کر یوں ہاتھ نچا نچا کر اسے دور رہنے کا اندیا دیا گویا کہ وہ ایک صاف ستھری انسان نہیں بلکہ کوئی غلیظ خارش زدہ کتیا ہو۔ یہ تصویر نہ کھنچ سکی۔ اور اس کے بعد بھی کوئی تصویر نہ کھنچ سکی۔ گو کہ ابھی کافی سارے قابلِ تصویر کش ناظرین باقی تھے مگر رقاصہ سیدھی اس دروازے کی طرف بڑھی جہاں سے نمودار ہوئی تھی، اور چشم زدن میں وہیں غائب ہو گئی۔ باقی سب تو خاموش رہے مگر ایک گورا اٹھ کر فوٹوگرافر سے گٹ مٹ کرنے لگا۔ میں بھی پاس جا کھڑا ہوا۔ گورا فوٹوگرافر سے اس نیکی کی معذرت کر رہا تھا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ رقاصہ کو واپس بلائے تاکہ گورا اس سے بھی معذرت کرے۔ مزید براں وہ رقاصہ کے فن کو خراج تحسین بھی پیش کرنا چاہتا تھا اور اس کے ساتھ تصویر بھی بنوانا چاہتا تھا۔ فوٹوگرافر پہلے تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے ٹالتا رہا مگر جب اصرار حد سے تجاوز کر گیا تو اس نے آہستہ سے کہا کہ رقاصہ کو ویسے بھی اپنے بچوں کے پاس جانا ہے جو چھوٹے بھی ہیں اور یتیم بھی۔ میں واپس آکر بیٹھ گیا اور دریائے نیل کے کالے کالے اندھیرے پانی میں ٹمٹماتی چھوٹی چھوٹی روشنیاں دیکھنے لگا۔
سرخ رنگ میں صحرائے سینا۔ سبز رنگ میں نہر سوئز
دنیا کے نقشے پر دیکھیں تو خال خال ہی کوئی ریاست ایسی نظر آتی ہے جو ستادوستیی یعنی جیومیٹریکل خطوط کے مطابق ہوں۔ مصر بہرحال اسی قسم کی ایک ریاست ہے۔ مصر، جس کی پہچان تکونی شکل کے اہرام ہیں ایک مربع جیسا ہے۔ اس کی شمالی سرحدیں بحرِ روم سے ملتی ہیں جبکہ مشرقی سرحدیں بحرِ احمر سے دھلتی ہیں۔ اس کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جو برِاعظم افریقہ کو برِاعظم ایشیا سے ملاتی ہے۔ دو عظیم برِاعظموں کا یہ سنگم جو خطہ کرواتا ہے اسے کہتے ہیں سینا۔۔۔ صحرائے سینا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سینا۔ کوہِ طور کا سینا۔ مصر اسرائیل کی چھ روزہ جنگ کا سینا۔ مصر اسرائیل کی یومِ کپور کی جنگ کا سینا۔ اور تیسری مزیدار بات یہ ہے کہ حضرتِ انسان نے نہر سوئز کھود کر یہی قدرتی زمینی رابطہ منقطہ کر دیا ہے۔ بہرحال ہماری بس نہر سوئز کے نیچے بنی سرنگ سے گزر کر صحرائے سینا میں داخل ہو گئی۔
نہر سوئز کے قریب-صحرائے سینا
چاروں طرف بھورا بھورا لق و دق صحرا حد نگاہ تک پھیلا ہوا تھا۔ یہی وہ صحرا تھا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رہنمائی میں فرعون کو بحرِ احمر میں غرق کر کہ یہودیوں نے واپس اسرائیل کی جانب سفر شروع کیا تھا۔ مشیئتِ ایزدی سے قومِ یہودہ اس صحرا میں چالیس سال تک بھٹکتے رہےتھی۔ اور جب آسمانی دعوت کے ایک جیسے مینو سے تنگ آگئے تو من و سلوٰی رد کر کہ دال اور پیاز کی فرمائش کر دی تھی۔ اتنی گرمی تو نہ تھی مگر مجھے صحرا دیکھ دیکھ کر ہی پیاس لگ گئی تھی۔ بس میں پانی نہ تھا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیسا ظالم ریگستان ہے، تین ہزار سال بعد بھی وہی تیور دکھا رہا ہے، کہ بس رک گئی۔ عیونِ موسٰی یعنی موسیٰ کے کنویں آچُکے تھے۔ یہ وہ بارہ کنویں تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے بارہ قبائل کی باہمی لڑائیوں کے پیش نظر عصاء زمین پر مار کر جاری کیئے تھے۔ اب کنوؤں کے کنارے کھڑے ہو کر نہر سوئز دیکھائی دیتی تھی۔ ہماری منزل ابھی دور تھی۔ شہرِ شرم الشیخ۔
حضرت موسٰی علیہ السلام کے کنویں-صحرائے سینا
شرم الشیخ کا شہر قاہرہ اور اسکندریہ کے مقابلے میں ایسا ہی تھا جیسے قصہ خوانی بازار کے مقابلے میں باڑا مارکیٹ۔ بزرگ شہروں کے مقابل ایک نیا شہر۔ الہڑ جوان۔ نئی نویلی دلہن کی طرح سجا ہوا۔ یہ ایک بین الاقوامی معیار کا سیاحتی مقام تھا۔ بحر احمر کا لامتناہی ساحل، بے شمار ہوٹل، بازار، شراب خانے،سیاحوں کے ناچنے کے لئے ناچ گھر، عظیم الشان جوا خانے، رقصِ شکم کے مختلف پروگرام، ڈولفن مچھلی کے تماشے، سمندر کی سیر، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں سے کوہِ طور قدرے نزدیک تھا۔
ہمارے وکلاء گروپ کے کافی لوگ شرم الشیخ کی رونقیں تیاگ کر کوہ طور
روانہ ہوئے۔ یہ بتانا میں بھول گیا کہ جو تیاگئیں وہ دوسرے دن کی رونقیں تھیں۔ کجا
آپ سمجھیں کے پہلے دن اور پہلی رات کی رونقیں بھی تیاگ دی گئیں تھیں۔ پہلے بس کا
تین گھنٹے کا سفر دامنِ کوہِ طُور تک لے کر آتا ہے پھر تین گھنٹے کی پہاڑ پر پیدل
چڑھائی تھی۔ شرم الشیخ میں تو ماہِ دسمبر ایسا تھا گویا لاہور کا بہار کا موسم۔
مگر کوہِ طور پر ٹھنڈ نقطۂ انجماد کو چھو رہی تھی۔ میں کوہِ طُور نہ گیا۔ ڈرتا تھا
اگر برقِ تجلی پھر سے آگری تو کیا کروں گا؟
ؔ یہ چراغِ تہہِ داماں ہی بہت ہے
ہم کو
طاقتِ جلوۂ سینا نہ تجھے ہے نہ مجھے
میں تو ہمیشہ یہ شعر فیض صاحب کا ہی جان کر محظوظ ہوتا رہا مگر
ہمارے بلال حسن منٹو صاحب فرماتے ہیں یہ فیض صاحب نے اقبال کی فارسی غزل کا ترجمہ
کیا ہے۔
بحر احمر-شرم الشیخ
اسکندریہ میں صرف وہ قابلِ دید مقامات شمار کئے جو دیکھے تھے، کیونکہ جو نہ دیکھے وہ بےشمار تھے۔ جو دیکھے یہ دو تھے، اوّل بحرِ روم جو کنارے سے دیکھا اور دوئم اسکندریہ کا عظیم کتب خانہ، جو باہر سے دیکھا۔ کہتے ہیں یہ اس وقت دنیا کا تیسرا بڑا کتب خانہ ہے جو اسکندریہ کے اس عظیم کتب خانے کی یاد میں بنایا گیا ہے جو زمانۂ قدیم کی دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ تھا، جس سے "ہائے پیشی آ" جیسی مایۂ ناز فلسفی منسلک تھی اور جسےظہورِاسلام سے چند صدیاں پہلے سلطنتِ روما کے عیسائی مذہبی شدت پسندوں نے کفر کا اڈا قرار دے کر جلا ڈالا تھا۔
اسکندریہ کا کتب خانہ
اور کچھ کیوں نہ دیکھا؟ کیا بتاؤں۔ بقول شاعر
ؔ محفل اُن کی، ساقی اُن
کا
آنکھیں میری، باقی اُن کا
بحر روم-اسکندریہ
ہاں البتہ واپس آنے سے پہلے قاہرہ میں جامع الاظہر کے پہلو میں بہتا خان خلیلی بازار ضرور دیکھ ڈالا۔ کہتے ہیں یہ وہ بازار ہے جہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو غلام کے طور پر فروخت کیا گیا تھا۔ وہاں سے تین اشیاء ایسی ملیں جن سے یقین آیا کہ یہ قاہرہ کا بازار ہے ہمارا انارکلی بازار نہیں۔ اوّل مصری طرز کے خواتین کے سکارف، دوئم مصری عطر اور سوئم علی بابا چالیس چور کی مرجینا طرز کی جوتیاں۔
تاریخ سے اپنا رشتہ بھی استوار کر لیا تھا، سیاحت بھی ہو چکی تھی اور خریداری بھی۔ اب دیارِ غیر میں رکے رہنے کا کچھ سبب باقی نہ بچا تھا۔ واپسی کے سفر کے لئے بس میں بیٹھا تو غالب یاد آیا
ؔ دم لیا تھا نہ قیامت نے
ہنوز
پھر تیرا وقتِ سفر یاد آیا
Lovely :)wish you had taken me with you :/
ReplyDeleteواہ واہ ٹیپو بھائی کیا کہنے ۔کمال کردیا ایک ایک لفظ ۔ اعلی ایک ایک جملہ بہترین ۔ لیکن تحریر مختصر لگی اور تشنگی رہ گئی ۔اور زیادہ لکھا جا سکنا ھے اور لکھا جانا چاہیے ۔
ReplyDeleteخدا بڑھائے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔؟
A treat for me to read. Pretty captivating.
ReplyDelete