نہیں نقش گر
از
ٹیپو سلمان مخدوم
کئی سیکنڈ تک وہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اُس کی آنکھ کس چیز سے
کھلی ہے۔ بچی کے رونے سے یا پیشاب کے پریشر سے۔ ایک طرف سوئی اُس کی منجھلی بیٹی نے ٹانگیں
مار مار کر کمبل پائنتی میں اکٹھا کر رکھا تھا۔ دوسری طرف بیوی بیٹھی چھوٹی بیٹی
کو چُپ کروا رہی تھی۔ کیا ٹائم ہوا ہے؟ اُس نے بیوی سے پوچھا۔ پونے سات۔ چلو، ابھی
الارم بجنے میں پندرہ منٹ ہیں، اُس نے سوچا۔ اور ساتھ ہی کشمکش میں مبتلا ہو گیا
کہ پندرہ منٹ لیٹا رہے اور ایک ہی بار اُٹھے یا پھر پیشاب کر کہ آجائے اور پندرہ
منٹ لیٹ جائے؟ اُٹھا جا تو نہیں رہا تھا مگر اِس طرح تکلیف میں ٹانگیں اکٹھی کر
کہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر کروٹیں لینے کا کیا فائدہ تھا۔
ایک ہی غسلخانے میں وہ تینوں کیسے تیار ہوئے؟ لڑتے جھگڑتے، ٹکراتے کھٹکھٹاتے، چیختے چلاتے۔
آخر کار تینوں یونیفارم پہن کر تیار ہو گئے۔ تیسری کو نوکرانی کو پکڑا کر بڑی
دونوں کو اُن کی ماں سکول چھوڑنے لے چلی۔ دونوں جب اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے
ہنستے مسکراتے اُسے ٹا ٹا کرتی جا رہی تھیں تو ہمیشہ کی طرح اُس کا دِل بیٹھنے
لگا۔ کل رات دیر سے گھر آیا تھا۔ تھکا ہوا تھا۔ ناول بھی ختم کرنا تھا۔ اُنہیں
کہانی نہ سنائی۔ اُن کی ضد کے جواب میں بس چوم کر لِٹا دیا اور کل کہانی سنانے کا
وعدہ کر کہ ناول پکڑ لیا۔ جب وہ سو گئیں تو اُداس ہو گیا۔ اب وہ دروازے سے غائب ہو
گئیں تو اُس کے دِل میں روز جیسے وہم آنے لگے۔ اگر آج وہ مر گیا تو؟ اُس نے تو
اُنہیں اچھی طرح پیار بھی نہ کیا تھا۔ گھبرا کے اُس نے سَر جھٹک دیا ۔ وقت دیکھا،
پونے آٹھ بج رہے تھے۔
شہزاد کو فون کیا۔ پتا چلا فورٹرس سٹیڈیئم کی ٹریفک میں
پھنسا ہے، پندرہ بیس منٹ میں پہنچے گا۔ آدھا گھنٹہ، اُس نے سوچا اور ٹی وی لگا
لیا۔ رات کا ایک پروگرام نشرِ مکرّر میں چل رہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ سکرین کے
نیچے تازہ ترین پٹیا ں بھی چلی جا رہی تھیں۔ موٹر وے دُھندْ کی وجہ سے بند کر دی
گئی۔ اچانک اُس کی نظر پڑی۔ مَر گئے۔ اُس نے سوچا۔ اب ایک بجے تک اِسلام آباد
کیسے پہنچیں گے؟ وہ بھی سپریم کورٹ کے اندر۔ کمرۂِ عدالت میں۔ جہاں فل بنچ کے سامنے شہزاد کا کیس لگا تھا۔ پورے
ایک بجے۔ اور وہ اُس کا وکیل تھا۔ اُس نے گھبرا کر دوبارہ شہزاد
کو فون کیا۔ شہزاد پٹی چل رہی ہے کہ موٹروے دُھند کی وجہ سے بند ہے۔ اُس کی سنسنی خیزی کے
جواب میں آگے سے ٹھنڈا سا جواب آیا،
کوئی نہیں، یہاں تو دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ وہ گڑبڑا سا گیا۔ باہر تو ابھی تک اُس نے
دیکھا ہی نہ تھا۔ کمرے کی کھڑکی پر موٹا پردہ تھا اور غسلخانے کی کھڑکی پر بھی
جالی دار پردہ سا پڑا رہتا تھا۔ اُس نے
غور نہ کیا تھا کہ باہر دھوپ ہے یا دھند۔ اچھا؟ اں۔ چلو ٹھیک ہے، کہ کر اُس نے پھر
فون بند کر دیا۔ پردہ ہٹا
کر دیکھا دھوپ تو نہیں تھی مگر
دھند بھی نہیں تھی۔ دوسرا چینل لگا کر دیکھا۔ اُدھر بھی اِسی قسم کی دُھندلی پٹیاں
چل رہی تھیں۔ وہ چپ چاپ دیکھتا رہا۔ سوا آٹھ کے لگ بھگ شہزاد کا فون آگیا کہ وہ
باہر ہے۔ فائل اور لنڈے سے ساڑھے تین سو روپے میں خریدا ہوا اصلی چمڑے کا اٹلی کا بنا ہوا بیگ اٹھا کر وہ
باہر نکلا۔ گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔ چل پڑے۔
اُس نے موٹر وے کی ویب سائٹ پر جا کر بھی چیک کر لیا تھا کہ
دُھند کی وجہ سے لاہور سے لے کر پنڈی بھٹیاں
تک سڑک بند ہے۔پنڈی بھٹیاں، اُس نے سوچا۔ دُلّا بھٹی کا علاقہ۔ وہ دُلّا
بھٹی جس کو پہلا چوتھائی پنجاب ہیرو سمجھتا ہے، دوسرا چوتھائی پنجاب ڈاکو جبکہ
باقی کے دو چوتھائی اُسے کچھ بھی سمجھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں کہ دلا بھٹی
پنجابی رابن ہُڈ تھا۔ رات میں امیروں کو لوٹتا اور دن میں یہ لُوٹ مار کا مال
غریبوں میں بانٹ دیتا۔ مُغل شہنشاہ اکبرِ اَعظم کا زمانہ تھا۔ اُس نے فوج بھیج کر
گرفتار کروا لیا۔ بادشاہ کے سامنے پیش ہوا۔ بادشاہ نے سرزِنش کی تو دلا بھٹی نے
شرمندگی کا اظہار کیا، مُعافی کا طلبگار ہوا اور اطاعت کا وعدہ کیا۔ پادشاہ نے خوش
ہو کر مُعاف کر دیا۔ اپنے علاقے میں جا کر دُلّے نے پھر وہی قتل و غارت اور لوٹ
مار کا بازار گرم کر دیا۔ بادشاہ نے پھر فوج بھیج کر گرفتار کروا لیا ۔ پھر مُعافی
مانگ کر چھُوٹ گیا اور واپس جا کر پھر لُوٹ مار شروع کر دی۔ داستاں گو بتاتے ہیں
کہ اِس بار بادشاہ بڑا پریشان ہوا اور اپنے رتن بیربل کو بلا بھیجا۔ بیربل نے
بادشاہ سے کہا کہ اِس بار جب دُلّے کو گرفتار کر کہ لایا جائے تو پنڈی بھٹیاں کی
مِٹّی بھی لائی جائے۔ بادشاہ نے ایسا ہی کِیا۔ جب دُلّا بادشاہ کے سامنے حاضر کیا
گیا تو اُس نے حسبِ سابق مُعافی مانگ کر اطاعت کی قسمیں کھانا شروع کر دیں۔ بیربل
نے حُکم دیا کہ پنڈی بھٹیاں سے لائی گئی مٹی زمین پر بچھائی جائے اور اُس پر دلے
کو کھڑا کیا جائے۔ ایسا کیا گیا تو دلا
بھٹی نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ بادشاہ نے حیران ہو کر بیربل سے
ماجرا دریافت کیا تو اُس نے ہنس کر کہا ، بادشاہ سلامت، پنڈی بھٹیاں کی مٹی ہی
ایسی ہے۔
اور اِسی مِٹّی تک سڑک بند تھی۔
اُس نے شہزاد سے نہ کہا کہ ویب سائٹ کے مطابق بھی سڑک بند
ہے۔ وہ دُھوپ دیکھ کر ڈر گیا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ خبریں پرانی ہوں اور اُن کے
ٹول پلازہ تک پہنچتے پہنچتے دھند چَھٹ چکی ہو اور سڑک کھل جائے۔ اور اگر وہ شہزاد
کو زور دے کر جی ٹی روڈ پر لے جائے تو کہیں وہ لیٹ نہ ہو جائیں۔ کیس کا وقت دوپہر
ایک بجے تھا۔ اِس طلسماتی دور میں جب عدالتِ اعظمیٰ نے ہفتہ اور اتوار والے دِن
بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا کچھ بھی ممکن لگتا تھا۔ یہ بھی کہ آپ کے مقدمہ کی
تاریخ کے ساتھ ساتھ وقت بھی مقرر ہو۔
اُس نے فائل کھول کر سر اُس میں کھوب لیا۔ درخواست، ساتھ میں
لَف ڈھیر سارے دستاویزات، عدالتِ عالیہ اور عدالتِ اُعظمیٰ کے نئے پرانے اور بھانت
بھانت کے ایشوز پر رِپورٹڈ کیسز۔ اِلفاظ اُس کی نظروں کے سامنے کیڑے مکوڑوں کی طرح ناچنے لگے۔ اُسے عامِر
خان کی اِنڈین فلم تارے زمین پر یاد
آگئی۔
ٹول پلازہ پر پہنچ کر اُسے عجیب سا احساس ہوا۔ خوشی اور دُکھ کا مِلا جُلا احساس۔ خُوشی اِس
بات کی کہ اُس کی معلومات مُستند ثابت ہوئی تھیں۔ موٹر وے بند تھی۔ اور دُکھ اِس
بات کا کہ اب کیس میں پہنچنا مُشکل لگ رہا تھا۔ ضروُر شہزاد پریشان ہوگا۔ اُس نے
شہزاد کی طرف دیکھے بغیر سوچا۔ اُسی لمحے شہزاد کی کراری لوچ سے بھر پُور آواز
آئی، یہ تو واقعی بند ہے، لگتا ہے آج جج صاحبان کے دیدار سے محروم رہ جائیں گے۔
شہزاد کی آواز میں کھنک نمایاں تھی۔ وہ
دِل میں ہنسا۔ شہزاد کا کیس اُس کے لئے بہت اہم تھا۔ اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو
کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ مگر مرد تھا۔ عورتوں کی طرح پریشانی کا اِظہار تھُوڑی کر
سکتا تھا۔ اُسے تو ہر حالت میں اپنا فولادی کردار نبھانا سِکھایا گیا تھا۔ شہزاد
مَرتا مَر جائے گا مگر آہ و زاری نہ کرے گا۔ اُسے انگریزی کی فِلم ریڈرز آف دی
لوسٹ آرک کا ایک سِین یاد آگیا۔ نیپال (یا شاید تبت تھا، اُسے سہی یاد نہ آیا)
میں ایک موٹے نیپالی (یا تبتی) مرد اور ہیروئین کے بیچ شراب پینے کا مُقابلہ ہو
رہا تھا۔ ہیروئین کی حالت ہر گُھونٹ پر خراب ہوتی جا رہی تھی جبکہ موٹا نیپالی
مسلسل مسکرا رہا ہوتا ہے اور بڑے سکوُن سے
گھونٹ پر گھونٹ بھرے جا رہا ہوتا ہے۔ آخر ایک گھونٹ پر ہیروئین جان جاتی ہے کہ
اگر نیپالی اگلا گھونٹ برداشت کر گیا تو
تو وہ اگلے گھونٹ کے بعد ہوش و حواس برقرار نہ رکھ پائے گی۔ نیپالی نے مُسکراتے
ہوئے ایک اور گُھونٹ بھرا اور مسکراتا رہا۔ اُس کی مُسکراہٹ دیکھ کر ہیروئین کا
دِل بیٹھ گیا۔ لیکن ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اگلا گُھونٹ بھرنے کا رِسک لے یا
ہار مان جائے کہ نیپالی مرد اپنی مردانگی اپنی مُسکراہٹ پر بِٹھائے، مُسکراتا
مُسکراتا گِر گیا۔ ہم مَرد ایسے ہی ہوتے ہیں، اُس نے سوچا، ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ
کر مسکراتے رہتے اور اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ مِٹّی میں مِٹّی ہو
جاتے ہیں۔
شہزاد نے فیصلہ کیا کہ جی ٹی روڈ پکڑنے کے بجائے شیخوپورہ
چلتے ہیں، وہاں سے موٹر وے پر چڑھ جائیں گے۔ وہاں سے ضرورکھلی ہوگی۔ معلوم نہیں
اِس شہر کا نام مُغل شہنشاہ جہانگیر کے نِک نیم شیخو پر پڑا تھا؟ وہ جو ہرن مینار
ہے وہاں وہ جہانگیر کے پالتو ہرن کا مقبرہ ہے؟ اُس نے شہزاد سے نہ پوچھا حالانکہ اُسے پکّا یقین تھا کہ شہزاد کو یہ ساری باتیں معلوم ہوں
گی۔ وہ فائل میں سر کھپاتا رہا۔ جو تیاری اُس نے پہلے بھی کئی بار کی تھی اُسی کو یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ کافی کچھ
یاد آگیا۔ اور اِتنے میں شیخوپورہ بھی آگیا۔ اِس بار جیت شہزاد کی ہوئی تھی۔
یہاں سے موٹر وے کھلی تھی۔ گاڑی موٹر وے
کی ہواؤں سے باتیں کرنے لگی۔
اُس نے فائل بند کر دی۔ یہ بینچ کوئی اِتنا اچھا نہیں ہمارے
کیس کے لئے، اُس نے شہزاد سے پوچھا، اِس بار تاریخ لینے کی کوشش نہ کریں؟ شہزاد نے
کہا اُس نے اِس بارے میں سوچا تھا، مگر ہر وقت سر پر تلوار لٹکتے رہنے سے وہ تنگ
آچکا ہے۔ جو بھی ہونا ہے بس ہو جائے۔ ٹھیک ہے، اُس نے بھی سوچا۔ ہر چہ بادا باد۔
ان دونوں کا خیال تھا کہ شہزاد کے کیس کا فیصلہ اتنا غلط
تھا کہ اس پر صرف دو ہی کام کئے جا سکتے تھے۔ ہنسا جا سکتا تھا یا پھر رویا ۔ پھر
بھی انہوں نے تیسرا کام کرنے کا فیصلہ کیا، یعنی اپیل۔ شہزاد کا ماننا تھا کہ جج
اس لئے غلط فیصلے کرتے ہیں کہ وہ رشتہ داریوں اور دوستیوں، عرفِ عام میں کتکشن کی
وجہ سے جج لگتے ہیں اور انہیں دوستیوں اور رشتہ داریوں کو نبھانے میں فیصلے تھوڑے
بہت ادھر ادھر کرنے پڑتے ہیں۔ جبکہ اس کا کہنا تھا کہ کنکشن کی دوڑ میں اکثر نالائق اور گھٹیا لوگ اول آجاتے ہیں۔
اس بات پر شہزاد بہت ہنسا کرتا تھا۔ کہتا
تم وکیل کس کے ہو؟
اتنے میں ایک بڑی
سی کالے شیشوں والی کالی جیپ زوں کر کہ انہیں اوور ٹیک کر گئی۔ اس کے پیچھے دو ڈالوں پر
سوار آٹھ مسلح مشٹنڈے گارڈ بھی تھے۔ وہ اس موٹے نیپالی کی طرح مسکراتا رہا۔ مگر
اس کا دل ایک دھڑکن بھول گیا۔ یہ طاقتور لوگ ان وحشی درندوں کی طرح تھے جن کے لئے
قانون مکڑی کا جالا ثابت ہوتا تھا۔ وہی
جالا جس میں وہ لوگ چھوٹے چھوٹے حقیر کیڑے
مکوڑوں کی طرح جکڑے ہوئے تھے۔
قیام و طعام آ گیا۔ وہ رک گئے۔ الائچی والی میٹھی چائے پی
جو پتی، دودھ اور چینی کے بغیر ایک بھورے پاوڈر کو گرم پانی میں گھولنے سے بنتی
تھی۔
وہاں دو طرح کے غسلخانے تھے۔ ایک وہ جو گندے تھے، جہاں مائع
صابن ایک پیالی میں کھلا رکھا تھا جسے چمچی سے ہاتھ پر ڈال کر مل مل کر جھاگ بنانی
پڑتی تھی اور پیشاب کرنے کے لئے قطار اور انتظار تھا، مگر یہ مفت تھا۔ دوسرا
غسلخانہ وہ تھا جس پر تالہ پڑا تھا۔ دروازے پر ایک آدمی کھڑا تھا۔ اگر اسے پچاس
روپے سکہ رائج الوقت دے دئے جائیں تو وہ
پہلے آپ پر سلامتی بھیجتا تھا، آپ کو ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا تھا اور پھر آپ کے
لئے ایک صاف شفاف اور خوشبودار غسلخانے کا دروازہ کھول دیتا تھا۔ نہ قطار نہ
انتظار۔ اندر جگہ جگہ ٹشو پیپر اور پھولوں کے گلدستے سجے ہوتے تھے۔
وہ مفت والے غسلخانے میں گیا۔ شہزاد اس میں بھی نہ گیا۔
بھاگتے دوڑتے وہ عدالت میں پہنچ ہی گئے۔ تقریباً بھاگتے
بھاگتے جب وہ کمرہ عدالت میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کا مقدمہ پکارا جا چکا تھا
اور جج صاحب حکم بدبدا رہے تھے۔ وہ ہانپتے
کانپتے روسٹرم پر پہنچے۔ عدالت سے دیر سے آنے کی معافی چاہی۔ بڑے جج صاحب
نے حکم لکھوانا چھوڑ کر ان کو ڈانٹنا شروع
کر دیا۔ شہزاد کو تو خیر اتنا کچھ نہیں کہا جا رہا تھا کہ وہ تو سائل تھا۔ حالانکہ
سب کچھ اسی کو کہا جانا چاہیئے تھا کہ دیر اسی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ توپوں کے دھانے کا رخ اس کی
طرف تھا کہ وکیل کی حیثیت سے وہ عدالت کا افسر تھا، اور ذمہ دار بھی ۔ اس نے بڑی
منتیں کیں کہ جناب والا تین سال سے مقدمہ کی باری نہیں آ رہی تھی، بڑی مشکل سے
تاریخ نکلی ہے۔ وہ لاہور سے آئے ہیں۔
مقدمہ چل ہی رہا تھا تو وہ حاضر خدمت ہو چکے تھے۔ وہ ہر طرح سے بحث کے لئے تیار
تھے۔ مہربانی کر کہ ان کی بنتی سن لیں اور
مقدمہ کا فیصلہ سنا دیں۔ مگر معزز عدالت نے ان کی عزتوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ انہوں
نے دیر کر دی تھی، عدالت ان کا انتظار نہیں کر سکتی تھی، اب اگلی دفعہ فیصلہ ہو گا۔
اور ان کے مقدمہ کی فائل اٹھا کر اپنے
سامنے حقارت سے پھینکی۔ ان دونوں کو لگا گویا ان کے منہ پر ماری تھی۔
وہ مڑے تو بھری عدالت میں بہت سے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ انہیں اپنے
وجود دو دو من کے محسوس ہو رہے تھے۔ ابھی وہ روسٹرم سے پوری طرح ہٹے بھی نہ تھے کہ
جج صاحب کی آواز آئی، ارے شیخ صاحب آ گئے آپ؟ آج بحث کریں گے آپ؟
اسلام آباد کے ٹول پلازہ تک وہ تقریباً خاموش رہے۔ موٹر وے
پر گاڑی پڑی تو اس نے شہزاد سے پوچھا آج کل وہ کیا پڑھ رہا ہے؟ شہزاد اسے بتانے
لگا کہ اس نے مارسل پراوسٹ شروع کیا ہے۔ واقعی؟ وہ کھل اٹھا۔ وہ تو بڑا شاندار لکھاری ہے۔ میلان کندیرا کے بارے
میں شہزاد کا کیا خیال ہے؟
باقی کا راستہ کتابوں، نظریوں، فلسفوں اور ادیبوں کی باتوں
میں کس طرح کٹا ان دونوں کو پتہ ہی نہ چلا۔ دل ہی دل میں وہ دونوں خوش تھے کہ اب
کچھ مہینوں تک مقدمہ کی تاریخ نہیں لگے گی۔
No comments:
Post a Comment