از
ٹیپو سلمان مخدوم
اولیور وینڈل ہومز
کے مشہورِ زمانہ مضمون دی پاتھ آف لاء
سے ماخوذ
کچھ
ہومز کے بارے میں:
اولیور
وینڈل ہومز جونیئر (۱۸۴۱ سے ۱۹۳۵) بیسویں
صدی کے شاید سب سے اہم امریکی فلسفیٔ
قانون تھے۔ اُن کا مضمون دہ پاتھ آف لاء، جو کہ ۱۸۹۸ میں چھپا، امریکی
فلسفۂ قانون میں مرکزی اہمیت کی حامل تحریر سمجھا جاتا ہے۔ اِس تحریر میں ہی ہومز
نے پرانےتمام برطانوی نژاد نظریوں سے تعلق توڑ کر نئی جہتوں میں سفر کا آغاز کیا
اور اِس طرح سے جدید امریکی فلسفۂ قانون کی بنیاد رکھی۔
ہومز
ایک فلسفیٔ قانون تھے جنھوں نے ۱۹۰۲ سے لے کر ۱۹۳۲ تک امریکی عدالتِ
اُعظمیٰ کے ایسوسی ایٹ جج کے طور پر فرائض
سر انجام دیئے۔ اِسی دوران ۱۹۳۰ سے ۱۹۳۲ تک اُنہوں نے امریکی عدالتِ اُعظمیٰ کے قائم مقام چیف جسٹس
کے طور پر بھی کام کیا۔ جسٹس ہومز کے طویل
تجربے، اُن کے فلسفۂ قانون سے لبریز فیصلوں اور پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کی وجہ سے وہ اپنی زندگی ہی میں نہ صرف امریکہ
بلکہ برطانیہ میں بھی ایک مقبول شخصیت بن چُکے تھے۔ عدالتی
فیصلوں اور فلسفۂ قانون کی کتابوں میں وہ تاریخ میں سب سے زیادہ حوالہ دیئے گئے امریکی جج اور فلسفی بن چُکے ہیں۔ ہومز ۹۰
سال کی عُمر تک امریکی عدالتِ اُعظمیٰ کے جج کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے۔
اِس سے پہلے وہ امریکی ریاست میسیچیوسٹ کے
جج رہ چُکے تھے۔ جج کے علاوہ وہ امریکہ کے مشہور ہارورڈ لاء سکول ، جہاں کے وہ
خود بھی فارغ التحصیل تھے، میں پروفیسر آف لاء کے طور پر پڑھاتے رہے۔
ہومز
نے امریکی خانہ جنگی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے خیالات
امکانی اور مثالی سے زیادہ عملی تھے۔ اُن
کا فلسفہ عملی تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ کے مشہور قانونی حقانیت یعنی لیگل
ریئل ازم سکول کی بنیاد بنا۔ اُن کے بہت سارے مشہور اقوال میں سے ایک یہ بھی تھا
کہ قانون کی جان تجربہ ہوتا ہے، منطق نہیں!
مضمون:
جب
ہم قانون کو جاننے کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب ایک معروف پیشہ کا مطالعہ ہوتا ہے، کسی
راز کا کھوج نہیں۔ وکلاء کے طور پر اس مطالعہ سے ہمارا مقصد وہ
معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے جس سے یا تو ہم
عدالت میں پیش ہو کر جج صاحبان کو اپنے مقدمات میں پیش کردہ موقف پر قائل کر سکیں یا
پھر شہریوں کو ایسے مشورے دے سکیں کہ انہیں عدالتوں سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی نہ
پیش آئے۔ ہمارے معاشرے میں ریاست کی طاقت
عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق، مقدمہ جیتنے والے
شہری کے حق میں اور مقدمہ ہارنے والے شہری کے خلاف بروئے
کار لائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون
ایک پیشے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور لوگ وکلاء کو معاوضہ ادا کرتے ہیں کہ وہ
ان کے مقدموں کی پیروی کریں یا پھر انہیں قانونی مشورے فراہم کریں۔ وکلاء کو یہ
مُعاوضہ ادا کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شہری
معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کن حالات میں ان کے برتاؤ کا قانون سے ٹکراؤ کا کتنا
اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں عدالتوں کے حکم پر ریاستی قوت اُن کے خلاف عمل میں آ
سکتی ہے۔ اور اس طرح اس خطرے کا حساب لگانا ایک کاروبار بن جاتا ہے۔ لہٰذا قانون
کے مطالعہ کا اصل مقصد یہ پیشن گوئی کرنا ہے کہ کب عدالتیں سرکاری قوت کو ہمارے حق
یا ہمارے خلاف استعمال کرنے کا حکم دے سکتی ہیں۔
قانون
کا مطالعہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں، قانون کےفلسفیوں کی کتابوں اور پارلیمان کے
بنائے ضابطوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان ذریعوں میں وہ تمام اشارے موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی مقدمہ کے بارے میں پیشن گوئی
فراہم کرتے ہیں۔ اسی لئے انہیں قانون کے الہٰامی مندر کہا جاتا ہے۔ قانونی فکر کا
اصل مقصد ہمیشہ سے ہی یہ رہا ہے کہ مقدمات کے بارے میں پیشن گوئیاں کرنے کا ایک
مربوط نظام وضع کیا جائے جس کے ذریعے درست ترین پیشن گوئیاں کی جا سکیں۔
وکلاء
جب عدالت میں ایک معاہدہ توڑے جانے کا مقدمہ لڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ عدالت کو یہ
نہیں بتاتے کہ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ان کے مؤکل نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے
تھے۔ وہ جاتنے ہیں کہ کپڑوں کا رنگ کسی بھی طرح مقدمہ کے فیصلے پر اثر انداز نہ ہو
گا کیونکہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز صرف اور صرف قوانین اور اُن کی عدالتی
تشریحات ہوتی ہیں۔ لہٰذا عدالتوں کے متوکہ فیصلوں کے بارے میں بہتریں پیشن گوئیاں
کرنے کے قابل بننے کے لئے ضروری ہے کہ
قوانین اور اُن پر عدالتی تشریحات کی زیادہ سے زیادہ اور صحیح ترین معلومات
حاصل کی جائیں۔ قانونی پیشن گوئیوں کو عام فہم بنانے کی غرض سے قانون کے فلسفی
اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے لب لباب اور تجزیے فلسفۂ قانون کی کتابوں میں درج
کرتے ہیں۔ پارلیمانی ضابطوں کے عالمگیری اصطلاحوں میں جاری کئے جانے کی بھی یہی
وجہ ہے۔ غور کیا جائے تو فلسفۂ قانون کے اولین حقوق و فرائض بھی محض پیشن گوئیاں
ہی ہیں۔ قانون اور اخلاقیات کو خلط ملط کرنے کا سہرا بھی ان نظریات کے سر ہے جن کے
مطابق حقوق اور فرائض کا وجود ان کو پامال کرنے کے نتائج سے ہٹ کر ہے۔ دراصل قانونی فرض محض ایک پیشن گوئی ہے کہ اگر
شہری نے کچھ خاص طرزِ عمل اختیار کیا، یا
نہ کیا، تو اسے عدالت کے حکم کے مطابق ایک خاص سزا ملے گی۔ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو قانونی حق کا وجود
بھی ایسی ہی ایک پیشن گوئی پر منحصر ہے۔
کسی
بھی تہذیب کا نظام قانون چند بنیادی اصولوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ گو کہ اعلیٰ
عدالتوں کے پرانے فیصلے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں، مگر ان سے بنیادی
اصول اخذ کر کہ انہیں ایک منطقی نظام میں مربوط کرنے سے یہ قابل استعمال حالت میں
آجاتے ہیں۔قانون کا پیشہ اختیار کرنے کے لئے ایسا منطقی نظام اور اُس پر دسترس
ضروری ہے۔ پیشہ ور قانون دان بننے کے لئے ہمیں چند باتوں
کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
سب
سے پہلے تو ہر سطح پر قانون اور اخلاقیات
میں واضح فرق قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ جب
کہ اخلاقیات میں صرف ایک اچھا شہری ہی دلچسپی رکھتا ہے، قانون میں شریف اور بد
معاش یکساں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیونکہ اچھے لوگوں کی طرح برے لوگ بھی جیل کی سلاخوں
کے اِس ہی طرف زندگی بتانا چاہتے ہیں۔ مطالعہ قانون میں یہ فرق ملحوظ خاطر رکھنے
کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اخلاقیات لوگوں کو اچھا شہری نہیں بناتی یا یہ کہ اس کی
معاشرتی افادیت نہیں۔ یہاں پر یہ فرق اتنی
سختی سے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قانون کا مطالعہ اس کی خالص ترین حالت میں کیا
جائے۔
قانون
حقوق و فرائض اور بدنیتی اور ارادہ وغیرہ کی بات کرتا ہے۔ ان سب اصطلاحوں کا
استعمال اخلاقیات میں بھی ہوتا ہے۔ اگر ہم قانونی فکر میں ان اصطلاحات کو اسی
تناظر میں دیکھنے لگیں جس میں اخلاقیات
انہیں دیکھتی ہے تو ہم کبھی بھی قانون کو صحیح طور پر نہ سمجھ پائیں گے۔ مثال کے
طور پر جب ہم شہری کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس کے معنی ہیں کہ یہ اخلاقی تقاضہ
ہے کہ شہری کی شخصی آزادی کسی طور پر سلب نہ کی جائے۔ لیکن ایسے کئی قوانین دنیا
میں نافض ہیں جو شہری کی شخصی آزادی سلب کرتے ہیں۔ ان دو باتوں میں ہمیں کوئی بھی منطقی تضاد نظرنہیں آئے گا
جب ہم قانونی حقوق کو اخلاقی حقوق
سے صاف طور پر جدا کر کہ دیکھیں گے۔ یہ درست ہے کہ ایک حد سے زیادہ اخلاقیات کو
پامال کرنے والے قوانین نہیں بن سکتے کیونکہ ایسا ہونے پر معاشرے میں بغاوت پھیل
جائے اور قانون نافض العمل ہی نہ رہے گا۔ مگر اس کا صرف یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقیات قانون پر ایک حد تک قدغن لگاسکتا ہے ، یہ نہیں کہ قانون اخلاقیات کا
حصہ ہے۔
اپنی
سوچ کے دھارے کو اسطرح خالص قانون پر مرتکز کرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ قانون
اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں سے کوئی فرق چیز ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ قانون منطق کا ایک
نظام ہے جبکہ کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ اخلاقی اصولوں کا ایک نظام ہے۔ ان سب
لوگوں کی رائے کا احترام اپنی جگہ پر لیکن
اگر ہم کسی عام شہری بلکہ ایک مجرم کی بھی بات کریں تو وہ نہ تو منطق میں دلچسپی
رکھتا ہے اور نہ اخلاقی اصولوں سے کچھ شغف
رکھنا چاہتا ہے۔ لوگ جب بھی کسی معاملے کے
بارے میں قانون جاننا چاہتے ہیں تو ان کی دلچسپی صرف اور صرف اس بات میں ہوتی ہے
کہ اس معاملے میں عدالتیں کیا حکم یا فیصلہ صادر کریں گی۔ اور قصہ بھی دراصل یہی
ہے۔ قانون ان پیشن گوئیوں پر ہی مشتمل ہے کہ عدالتیں کیا فیصلے کریں گی۔
اسی
نظر سے دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ معاہدے کی پاسداری کا
فریضہ محض اس لیے ایک قانونی فریضہ ہے کیونکہ اگر معاہدے کو توڑا گیا تو عدالتیں
توڑنے والے پر حرجانہ عائد کریں گی۔ اخلاقیات انسان کی سوچ اور اس کے ارادے سے
تعلق رکھتی ہے۔ رومن دور سے قانون معاہدہ میں اخلاقی اصطلاحیں استعمال کرنے کا
رواج پڑ گیا تھا اور اس کی وجہ سے قانون معاہدہ میں بہت سے ابہام پیدا ہوئے۔ مثال
کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ معاہدہ اس وقت
مکمل اور قانونی طور پر لازم ہو جاتا ہے جب دونوں فریقین کے ذہن مل جاتے ہیں یعنی
جب دونوں فریقین معاہدے کے بارے میں یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ مگر یہ بات صرف کہنے کی
حد تک ہی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک کالج اور پروفیسر صاحب میں معاہدہ طے پا جاتا ہے کہ
پروفیسر صاحب کالج میں لیکچر دیں گے۔ مگر اس تحریر میں یہ نہیں لکھا کہ وہ لیکچر
کب دیں گے۔ کالج کہتا ہے کہ معاہدہ کے
مطابق لیکچر فوراً دینا چاہیے جبکہ پروفیسر صاحب کے مطابق وہ جب چاہیں لیکچر دے
سکتے ہیں۔ جب یہ جھگڑا عدالت میں جائے گا تو عدالت کہے گی کہ معاہدہ کے مطابق
پروفیسر صاحب کو معقول وقت میں لیکچر دینا ہوگا۔ اب معاہدہ فریقین کے ذہن کے ملاپ
کے مطابق نہیں بلکہ عدالت کے فیصلے کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔ ہمیں اس حقیقت کا
ادراک کرنا ہو گاکہ معاہدات فریقین کے ذہنی ملاپ سے معرض وجود میں نہیں آتے بلکہ
ان کے اظہار کے ملاپ سے تشکیل پاتے ہیں۔ اس لئے نئے زمانے کا تقاضہ یہی ہے کہ قانون کی زبان سے اخلاقی معنویت کے الفاظ حذف
کر دیئے جائیں تا کہ یہ قانونی فکر کو پراگندہ نہ کریں۔ قانون کے حدود و قیود کے بارے میں کافی بات ہو چکی آیئے اب
کچھ بات قانون کے مواد اور افزائش کے بارے میں ہو جائے۔
آپ
چاہے قانون کو فرماں روا کا حکم سمجھیں، روح عصر کا اعلان یا کچھ اور، بنیادی بات
وہیں رہتی ہے۔ اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہر معاشرے میں قوانین کسی اصول کے تحت اک
نظام میں مربوط ہوتے ہیں۔ اور یہی بات قانونی فکر کی ایک دوسری غلط فہمی کا سبب
بنتی ہے۔ وہ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ
قانون کی تعمیر و ترقی کے پیچھے واحد قوت منطق ہے۔ عام طور سے تو یہ بات سہی ہے کہ
نظام کائنات سبب و اثر کے منطقی اصول کے تحت ہی چل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم منطقی
اصولوں کے تحت اپنے علم میں اضافہ کرتے ہوئے کائنات کی دریافت میں دن دگنی رات
چوگنی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ۔ اسی مطابقت سے یہ بات بھی سہی ہے کہ نظام قانون
بھی منطقی اصولوں کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ لیکن یہ بات اس غلط فہمی کو جنم دیتی
ہے کہ منطق کے مروجہ اصول لاگو کرنے سے نظام قانون کو صحیح طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ اسی ضمن
میں کسی جج صاحب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک فیصلہ نہیں سناتے جب تک کہ انہیں یقین
نہ ہو جائے کہ وہ سو فیصد صحیح قانونی فیصلے پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی غلط فہمی کی بنا پر ہی عدالتوں کے اختلافی
فیصلوں کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا
جاتا ہے۔ گویا کہ قانونی فیصلہ کرنا کوئی دو جمع دو جیسا حساب کا سوال ہے جس پر اگر درست منطق کا
اطلاق کیا جائے تو صرف اور صرف ایک ہی نتیجہ نکل سکتا ہے۔
سوچ
کا یہ انداز اس وجہ سے فطری معلوم ہوتا ہے کہ قانون کی تعلیم بنیادی طور پر منطق
کی تربیت ہوتی ہے۔ عدالتوں میں قانونی بحثیں بھی منطق کی بنیادوں پر کی جاتی ہیں
اور عدالتوں کے فیصلے بھی منطق کی زبان میں لکھے جاتے ہیں۔ لیکن فیصلوں کے انداز
تحریر سے دھوکہ کھا کر ہم بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی بیانیہ کو منطقی شکل دینا کوئی مشکل کام
نہیں۔ عدالتوں کے منطقی شکل و صورت والے
فیصلوں کی بنیاد ہمیشہ اس بات پر ہوتی ہے کہ مقدمہ میں قابلِ لاگو دو قانونی
اصولوں میں سے کونسے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ اور اس ترجیح کی بنیاد کبھی بھی منطق
پر نہیں ہوتی۔ کیونکہ منطقی طور پر یہ دونوں اصول لاگو ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ایک اصول کو
دوسرے پر ترجیح دے کر لاگو کرنے کی وجہ یا تو معاشرتی اقدار ہوتی ہیں ، کسی حکمت
عملی پر رائے یا پھر ایسی ہی کوئی دوسری وجہ جس کو منطقی اصولوں پر صحیح یا غلط
میں نہ پرکھا جا سکتا ہے۔ منطق کے دھوکے میں ہم یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ
معاشرے کی عمومی رائے عامہ میں ذرا سی بھی تبدیلی ہمارے نظام میں کتنی بڑی اور دور
رس تبدیلیاں رونما کر سکتی ہے۔
منطقی
مغالطہ پر کافی بحث ہو چکی۔ آیئے اب قانون کی موجودہ اور مثالی صورت حال کے بارے
میں کچھ بات ہو جائے۔ موجودہ صورت حال مثالی صورت حال سے بہت دور ہے۔ ہم نے ابھی
صدیوں سے لاگو قانونی عقائد پر منطقی اصولوں کے تحت غور و فکر کا آغاز کیا ہے۔
کامن لاء قریباً ایک ہزار سال سے ترقی پذیر ہے۔ مگر اس کی ترقی عقلی سے زیادہ فطری
رہی ہے۔ یعنی کہ ہر نسل نے قانون میں اتنی اور وہی تبدیلیاں کیں جو حالات کے پیش
نظر ناگزیر تھیں۔ ان چند تبدیلیوں کے علاوہ قانون اور اس کے اصول صدیوں تک منجمد
ہی رہے۔ اس عمل کی وجہ عمومی معاشرتی رجحانات ہیں جن کے تحت ہم سوچے سمجھے بغیر
زیادہ تر ویسے ہی عمل کرتے اور ویسے ہی
عقائد پالتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے بزرگوں اور اردگرد کے لوگوں کو کرتے اور پالتے دیکھتے ہیں۔ گو اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ہم
انفرادی اور معاشرتی طور پر عقل کے استعمال سے زندگی کو بہتر نہ بنائیں۔ اب تک
قانون میں جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ نہ تو منطقی رہی ہے اور نہ ہی کسی بڑے اور عظیم
مقصد کے حصول کی راہ میں۔ بلکہ یہ تمام ترقی ایک افراتفری کے عالم میں حادثاتی طور
پر ہوتی رہی ہے۔
آج
اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ کوئی خاص ضابطۂ
قانون کیوںمعرض وجود میں آیا یا کہ وہ جس شکل میں آج موجود ہے وہ شکل کیونکر
ارتقأ پذیر ہوئی تو تمام تحقیق کا اختتام صرف اور صرف روایت پر ہوتا ہے۔ اور جب
یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پرانے زمانے میں جس بھی وجہ سے یہ بنا تھا، اب
تک کیوں موجود ہے تو اس کا جواب سوائے اس کہ کچھ نہیں ملتا کہ لوگوں کو اس قانون کی عادت ہو
چکی ہے اور معاشرے نے اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیا ہے۔
مطالعہ
قانون کے لئے ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا کیونکہ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ایک
ضابطہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ ہمیں منطق کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے
جس کے ذریعے ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کسی ضابطہ کی واقعی ضرورت ہے یا یہ
صرف ایک روایت کے طور پر ہی ہمارے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے؟ گو کہ اپنے روایتی اور
حادثاتی نظام قانون کے مطالعہ کے لئے ہم تاریخ اور منطق کا سہارا لیتے ہیں، مستقبل
میں قانون دان کے لئے سب سے مفید علم معاشیات اور شماریات ہوا کرے گا۔
اب
اسے صرف ہماری خام خیالی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے خیال میں ہمارا فوجداری نظامِ قانون جرائم میں کمی کا باعث ہے۔
اس کی افادیت پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
مثلاً مجرموں کو عادی مجرم بنانے
میں اس نظام کا کردار اور یہ کہ کیا مجرموں کو ملنے والی سزا ان کے بیوی اور بچوں
کے لئے ان سے بھی پڑی سزا نہیں ثابت ہوتی؟ مگر کچھ سوال اس سے بھی بنیادی اور دور
رس ہیں، جیسے کہ کیا سزا امکانی مجرموں کے لئے ڈر اور خوف کا سبب بنتی بھی ہے یا
نہیں؟ مزید یہ کہ کیا ہمارا فوجداری نظامِ
انصاف مجرموں سے صحیح اصولوں کے تحت نمٹتا ہے؟ اگرچہ ہمارے پاس ان سوالوں کے جوابات
نہیں ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ان سوالات کے جوابات سائنسی بنیادوں پر
ڈھونڈنے کی تگ و دو کا آغاز ہو چکا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مجر م ٖفطری طور پر مجرم ہوتا ہے اور سزا کے ذریعے اُسے سدھار کر اچھا
شہری نہیں بنایا جا سکتا۔ جبکہ دوسرے لوگوں کے مطابق جرم ایک معاشرتی رجحان کی سی
صورت ہے جس کو سزا کے ڈر سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ شماریات پر مبنی تحقیق اس امر کی
طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جرم عمومی طور پر ایک معاشرتی رجحان جیسی چیز ہے۔ جو بھی
ہو مگر جدید تحقیق بہرحال اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مجرم سے نمٹنے کی بنیاد مجرم
کی خطرناکی ہونی چاہیے نہ کہ جرم کی نوعیت۔
نظامِ
قانون پر تنقید کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ اِس کی قدر نہیں کرتے۔ اس میں
شک نہیں کہ نظامِ قانون انسانی ذہن کا شاہکار اور ایک عظیم اور قابلِ تکریم ایجاد ہے۔ قانون میں تاریخ کا عمل محدود اور اِسی حد تک ہونا چاہیئے کہ وہ
ہمیں آج کے قوانین کو سمجھنے میں مدد دے۔ اِس کے علاوہ ہمیں ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنی تما م تر تحقیقی صلاحیتیں ماضی میں ہونے والی افزائشِ قانون
پر صرف کرنے کے بجائے اِس بات پر صرف کریں کہ ہم جو بھی معاشرتی اور
معاشیاتی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اُن کو کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اِن کے
حصول کے لئے کس قسم کے قوانین بنائے جائیں؟ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قانون دان اور
وکیل علمِ معاشیات کا ماہر ہو ۔ آج کے دَور کی سیاسی معاشیات اور قانون کے بیچ
دُوری سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفیانہ طور پر ہم نظامِ قانون کی تحقیق و ترقی میں
کتنے پسماندہ ہیں۔
اب بات ہو جائے ذرا فلسفۂ قانون کی۔ عملی سوچ
رکھنے والے وکلاء اور قانون دان، فلسفۂ قانون کی قدر و قیمت کا انتہائی ناقص
اندازہ لگاتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اِس کا عملی نظامِ قانون سے کوئی خاص لینا دینا
نہیں ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ نظامِ قانون کی کامیابی میں فلسفۂ قانون کا بہت
عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ بات البتہ قابلِ افسوس ہے کہ لوگ بہت سے ناقص خیالات کو بھی
فلسفۂ قانون کا نام دے دیتے ہیں۔ فلسفۂ قانون
دراصل قانون کو انتہائی وسعت میں دیکھنے کا نام ہے۔ کسی مقدمہ یا فیصلے کو
ایک اصول میں تبدیل کرنے کی سعی بھی فلسفۂ قانون کا ہی ایک قدم ہے۔ گو کہ روایتی
طور پر فلسفۂ قانون صرف اور صرف وسیع اور بنیادی ترین اصولوں کے مطالعے کو ہی
سمجھا جاتا ہے۔ قانون دان کی عظمت اِسی چیز میں ہے کہ وہ وسیع اصولوں کو مقدمات پر
لاگو کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
کہتے
ہیں پرانے زمانے میں انگلستان کا ایک کسان عدالت میں مقدمہ لے کر گیا کہ اُس کے
ہمسائے نے اُس کی چاٹی توڑ دی ہے لہٰذا اُسے مُعاوضہ دلوایا جائے۔ جج صاحب نے اِس
بِنا پر مقدمہ خارِج کر دیا کہ کسی بھی قانون میں لفظ چاٹی نہیں لکھا پایا گیا
لہٰذا چاٹی توڑنے پر کسی قانون کے تحت مُعاوضہ
نہیں دیا جا سکتا۔عام طور سے قانون کی کتابوں اور فیصلوں میں یہی ذہنیت کار
فرما دکھائی دیتی ہے۔ اب ہو یہ چکا ہے کہ روایتی قوانین کے زیرِ اثر چلتے چلتے ہم نئے حالات کے مطابق منطقی اور عقلی طور پر نئے
قوانین وضع کرنے کے بجائے پرانے اصولوں کو توڑ مروڑ کر نئے حالات پر زبردستی لاگو
کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جیسا کہ قدیم قوانینِ مُعاہدہ کو کھینچ تان کر
جدید کاروباری حالات پر لاگو کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانونی مقدمات میں
عجیب و غریب پیچیدگیاں پیدا ہونا کوئی غیر
معمولی بات نہیں۔ صحیح وکالت اور عمدہ فیصلوں کے لئے ضروری ہے کہ صحیح صحیح یہ
سمجھ ہو کہ قانونی تصورات جیسے کہ حق، فرض، بدنیتی، ملکیت اور قبضہ وغیرہ کا صاف
مطلب کیا ہے۔ ایسے کئی بڑے بڑے مقدموں کے فیصلے گنوائے جا سکتے ہیں جو انہی تصورات
کے ابہام کا شکار ہو کر جائز تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
اکثر
اوقات بزرگ لوگ نوجوانوں کو سطحی سی نصیحتیں کرتے ہیں، جیسے کہ ایک سو بہترین
کتابوں کا مطالعہ۔ اِسی طرح بزرگ وکلاء مجھے رومی قانون کے مطالعہ کی نصیحت کثرت
سے کیا کرتے تھے۔ مگر میرا خیال ہے کہ اس طرح کے مطالعہ سے شاید رومی قانون تو
میری سمجھ میں آجاتا، کامن لاء کسی طرح نہ آ سکتا تھا۔ اپنا قانون سمجھنے کے لئے
کچھ اور نہیں بلکہ اپنا قانون ہی گہرائی کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس گہرے مطالعے کا طریقہ یہ ہے کہ سب
سے پہلے تو رائج نظامِ قانون کا مطالعہ وسیع الاطلاقی اصولوں کی بنیاد پر کیا
جائے۔ اِس کے بعد تاریخ کے مطالعہ سے یہ سمجھا جائے کہ یہ اصول وضع کس طرح اور
کیوں کر ہوئے۔ اور آخر میں یہ دیکھا جائے کہ اِن اصولوں کو بنانے سے کون سے مقاصد
کا حصول درکار تھا، اِن اصولوں کو برقرار
رکھنے کے لئے ہمیں کیا کیا قربانیاں دینی
پڑ رہی ہیں اور کیا یہ اصول اب بھی اتنے کارآمد ہیں کہ اِن کے لئے ہم یہ قربانیاں
جاری رکھیں؟
فلسفہ
نظامِ قانون کا سب سے اہم ستون ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں
سب سے اہم کردار ماہر تعمیرات یعنی آرکیٹیکٹ کا ہوتا ہے۔ نظامِ قانون میں پچھلی
رُبعہ صدی میں جو اہم ترین تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ نظریۂ قْانون میں ہوئی ہیں۔ یہ غیر عملی تبدیلیاں
نہیں ہیں۔ بلکہ گہری ترین اور دُور رَس تبدیلیاں
ہیں۔ دانا یہ بات جانتے ہیں۔ گو کہ نادان سمجھتے ہیں کہ عمومی یا نظریاتی
علم کا مطلب ہے مخصُوص علم کی عدم موجودگی۔
کامیابی
اور طاقت کا مطلب آج کل دولت ہی سمجھا جانے لگا ہے۔ جیسے کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ
ثروت ہی ذہانت کا بہترین نتیجہ ہے۔ مگر عظیم جرمن فلسفی کانٹ کا مشہور فلسفی شاگرد
ہیگل کہتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد اپنے ذہن کو مطمئن کرنا ہے نا کہ نفس کو۔ اور
اگر کیڑے مکوڑوں کی سطح سے اُوپر ہو کر زندگی کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ طاقت کا اصل
سرچشمہ دولت نہیں بلکہ نظریات ہیں۔ اگر آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو احساس ہوگا کہ
آج کی دُنیا پر جتنی حکمرانی جرمن فلسفی کانٹ کی ہے اُس کی عشرِ عشیر بھی
فرانسیسی فاتح نیپولیئن کی نہیں۔ کامیابی معاشرے میں بڑا مقام حاصل کرنے یا دولت
اکھٹی کرنے کا نام نہیں۔ بیدار اذہان کو دولت اور طاقت جیسی کمتر، مصنوعی اور عارضی چیزوں سے بہت اعلٰی درجہ کی کامیابی
درکار ہوتی ہے۔ قانون کے عمومی اور نظریاتی پہلو ہی اِسے آفاقی بناتے ہیں۔ یہی وہ
عِلم ہے جو آپ کی ذہانت کو عظمت کی
بلندیوں پر لے جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment