Friday 20 October 2017

حرمت : کہانی


 از
ٹیپو سلمان مخدوم



پچاس سالہ اشرف موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ڈول رہا تھا۔ اسے سب کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آ رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دنیا کو اپنی بیوی کی آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ ہارن کی آوازوں کی جگہ اس کے کانوں میں آنند بخشی کا یہ گیت بج رہا تھا:
میں اس دنیا کو اکثر دیکھ کر حیران ہوتا ہوں،
نہ مجھ سے بن سکا چھوٹا سا گھر، دن رات روتا ہوں،
خدایا! تو نے کیسے یہ جہاں سارا بنا ڈالا۔

دو کنال کی شاندار کوٹھی کے سامنے اس نے جھجھکتے ہوئے موٹر سائیکل روکی۔ گیٹ پر شاہد چوہدری کے نام کی تختی گرمیوں کی ڈھلتی دھوپ میں چمک رہی تھی۔ شاہد کے نام پر اس کے ذہن میں اب بھی ایک چھوٹے بچے کی تصویر ابھرتی جس کی ناک بہہ رہی ہوتی اور جو میلی کچیلی نیکر قمیض میں ننگے پاؤں اس کے ساتھ گلی میں شٹاپو کھیلا کرتا۔ لاہور کے اندرون بھاٹی گیٹ کے علاقے میں وہ اشرف کا ہمسایہ ہوا کرتا تھا۔ اشرف کی طرح شاہد کا بھی دو مرلہ کا مکان ہوا کرتا تھا۔
گارڈ نے جب نصب شدہ فون پر اندر پیغام دیا کہ بھاٹی گیٹ سے اشرف صاحب آئے ہیں تو شاہد خود باہر آگیا۔
ابے شرفو کے بچے، اتنی دیر بعد یاد آئی تجھے اپنے یار کی”، کہہ کر شاہد اشرف سے لپٹ گیا۔
اشرف کی بھی تقریباً آنکھیں بھر آئیں۔ “بس یار شاہد۔۔۔۔۔” اس نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ شاہد نے اسے ٹوک دیا۔
ابے مجھے غور سے دیکھ، میں شیدا ہوں شیدا۔ تیرا شیدا۔ کوئی چوہدری شاہد صاحب نہیں ہوں۔” اور ہنستے ہوئے ایک دھپ اشرف کی کمر پر رسید کی۔
اشرف کے ذہن میں ماضی کی مختلف تصویروں اور فلموں کی کھچڑی پکے لگی۔ وہ چوہدری شاہد سے پیسے مانگنے آیا تھا۔ ایسے وقت میں اسے شیدا کہہ کر پکارنا بالکل مناسب نہ تھا۔ لیکن اگر وہ اصرار کے باوجود اسے شاہد ہی کہتا رہتا تو ممکن تھا کہ چوہدری صاحب چڑ جاتے۔ یہ تو گویا غضب ہو جاتا۔ عجیب کشمکش میں پھنس گیا تھا اشرف۔ بچی کی شادی کے لئے پیسے مانگنے آیا تھا، کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی کہ شاہد چڑنے پر بھی پیسے دے دیتا۔ شادی بعد میں بھی ہو سکتی تھی۔ کسی اور سے بھی ہو سکتی تھی، جس سے شادی کرنے پر اتنے پیسے نہ خرچ ہوتے ہوں۔ شادی نہ بھی ہو تو کوئی ایسے اچنبھے کی بات نہیں۔ بہت سی لڑکیاں شادی کے بغیر ہی زندگی بسر کر دیتی ہیں۔ جوگ لے کر۔ پہلے تو بھائی بھابیوں پر بوجھ بن کر دن کاٹا کرتی تھیں مگر اس بیٹی پڑھی لکھی تھی، کوئی کام کاج کر کے عزت کی زندگی بھی گزار سکتی تھی۔ عزت کی زندگی تو ٹھیک ہے مگر جیون ساتھی کے بغیر کیا زندگی ہو گی میری بچی کی۔ اشرف کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر یہ بات وہ کس طرح زبان پر لا سکتا تھا۔ اپنی جوان بیٹی کی اس کے ہونے والے خاوند کے ساتھ نجی زندگی کی باتیں۔ وہ بھی ایک غیر آدمی کے سامنے؟ نہیں نہیں۔ یہ بے غیرتی وہ نہیں کر سکتا تھا، آخر اس کی بھی کوئی حرمت تھی معاشرے میں۔
یار بس تیری بڑی یاد آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو میں نے سوچا آپ کو سلام کر لوں”۔ اشرف نے بے تکلفی اور ادب و احترام کی ایک مخلوط سی فضا پیدا کر دی۔ چلتے چلتے چوہدری شاہد کا ہاتھ اٹھا کہ اشرف کو بے تکلف نہ ہونے پر ایک اور دھپ رسید کرے، مگر پھر وہ ہاتھ بیچ ہی میں رہ گیا۔ وہ بھی فیصلہ نہ کر سکا کہ آیا یہ جملہ تکلفانہ تھا یا بے تکلفانہ۔ دونوں کے بیچ اچانک ایک بھدی سی خاموشی چھا گئی۔ اشرف پہلے ہی اپنی سوچوں کی وجہ سے پریشان تھا اس خاموشی سے اس کا دل بیٹھنے لگا۔ یہ خاموشی طوفان سے پہلے کا سکوت تو نہیں؟ اگر چوہدری شاہد نے پیسے دینے سے انکار کر دیا تو شادی کیسے ہو گی؟ وہ لوگوں کو کیا جواب دے گا؟ انہی خیالوں میں ڈوبا وہ چوہدری شاہد سے ایک قدم پیچھے چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں پہنچ گیا۔ اسے اپنے سامنے والے صوفے پر بٹھا کر چوہدری شاہد نے ملازم کو آواز دی۔ اسے چائے اور فروٹ کیک کا کہہ کہ وہ پھر اشرف کی طرف متوجہ ہوا۔
ہاں بھئی، اب سناو کیا حال چال ہے؟
اشرف اور تھوڑا سا تذبذب کا شکار ہو گیا۔ کیا کہے، کیا نہ کہے۔ بات کیسے بڑھاۓ۔ پہلے اس نے سوچا کہ دفع کرے یہ سوچ بچار اور سیدھی بات کرے کہ بیٹی جوان ہوئی بیٹھی ہے، ہاتھ پیلے کرنے کو دھیلا نہیں ہے۔ دھیلے بنا لڑکی کی ودائی نہیں ہونی۔ لڑکی کے جہیز اور اس کی بارات کے لئے پیسہ پیسہ کر کہ کچھ روپیہ اکھٹا کیا تھا کہ موٹرسائیکل سے گر کر ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ٹانگ میں کیل ڈلنا تھا جس کی باری سرکاری ہسپتال میں چھ ماہ بعد آنی تھی۔ اتنی دیر بستر پر پڑا رہتا تو گھر کیسے چلتا؟ ڈوکٹروں کی بڑی منت سماجت کی کہ اس کا اوپریشن جلدی کر دیں۔ کسی نے ڈانٹا، کسی نے دھتکارا، کسی نے مذاق اُڑایا اور کسی نے سنی ان سنی کر دی۔ کسی نے طنز کیا کہ اتنی ہی جلدی ہے تو نجی ہسپتال سے علاج کروا لو۔ نجی ہسپتال سے ٹانگ میں کیل ڈلوانے کا فیصلہ کرنے میں دو راتیں لگ گئیں۔ ستر ہزار میں تو بٹیا کا جہیز تیار ہو جاتا۔
باقی بچھی کچھی پونجی دوائیوں پر لگ گئی۔ دو ہی ماہ میں سولہ برس کی کفایت شعاری اور بچت کا قلع قمع ہو گیا۔ اگلے چھ ہفتے وہ بستر پر پڑا پیچ و تاب کھاتا رہا کہ یہ کیسے مسیحا ہیں جو علاج کرنے کے عوض انسان کی زندگی بھر کی کمائی اینٹھ لیتے ہیں۔ اگر انہیں پیسے نہ ملتے تو کیا وہ اسے لنگڑا ہونے دیتے؟ یہ ہیں مسیحائی کے دعویدار؟ کیا تعلیم نے انہیں صرف ٹانگ میں میخ ٹھوکنا سکھایا تھا، کسی مجبور کی بے کسی دیکھنا اور اس کا سہارا بننا نہ سکھایا تھا؟ کیا اتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے ٹوٹی ہڈی میں کیل گاڑنے پر؟ کیا اس کی سالوں کی جمع پونجی کی ضرورت تھی انہیں؟ یہ سب ڈوکٹر تو بڑے بنگلوں میں رہنے والے، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے امیر و کبیر لوگ تھے۔ کیا انہیں اتنی بھی عقل نہیں کہ امیر سے پیسہ کمانا کامیابی ہو سکتی ہے لیکن غریب کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اسے لوٹنے کے مترادف ہے؟ یہ کیسی تعلیم ہے جو بچوں کو انسان نہیں محض پیسہ کمانے والی مشینیں بنا رہی ہے؟
اور یہ کیسی ریاست ہے جہاں انسان کی ساری کمائی بچوں کی تعلیم اور بڑوں کے علاج میں صرف ہو جاتی ہے۔ غصہ میں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈاکٹروں، استادوں اور ریاست تینوں کے خلاف مقدمہ دائر کرے گا۔ مگر بستر سے اٹھ کر جب چار وکلاء کے دفتروں کے چکر لگائے تو معلوم پڑا کہ انصاف کا تو بیڑا ہی غرق ہے۔ اپنا مقدمہ غرق کروانا ہے تو کوئی بھی عام سا وکیل کر لو، جو عرفِ عام میں لفافہ وکیل یا ہومیوپیتھک وکیل کہلاتا ہے۔ وہ فیس مانگے گا تو سو، مگر کندھے پر قالین بیچنے والے پٹھان کی طرح دس پر بھی مان جائے گا۔ اس کے بعد بس تاریخ پہ تاریخ اور سال پہ سال۔ مگر دو اور اقسام بھی وکیلوں کی دستیاب تھیں۔ یہ فیس تو اپنی مرضی کی اور کافی زیادہ لیتے تھے مگر مقدمہ کا فیصلہ کافی جلدی کروا دیتے تھے۔ ایک قسم ان وکلاء کی تھی جو ججوں کو ڈرا دھمکا کر کام نکلوا لیتے تھے اور دوسرے ان ججوں کے ٹاؤٹ تھے جو محکمہ رشوت ستانی کے چھاپے کے ڈر سے خود پیسے نہ پکڑتے تھے۔ لہٰذا یہ پیسے ان کے ٹاؤٹ وکلاء پکڑ کر مقدمات کے فیصلے جلدی اور حسب خواہش کروا دیتے تھے۔ نہ تو اس میں اتنی ہمت تھی اور نہ اس کی جیب میں اتنی سکت کہ وہ ان لائسنس یافتہ غنڈوں اور دلّوں کی خدمات حاصل کر سکتا۔ لہٰذا عدل و انصاف کی دیو مالائی داستانیں ذہن سے جھٹک کر روز کی روٹی کمانے پر جٹ گیا۔
اللہ کا بڑا شکر ہے۔ بھابی بچے کیسے ہیں؟”، ہمت کر کہ اشرف صرف اتنا ہی کہہ سکا۔
ہاں بھئی مزے میں ہیں سب۔ بڑا بیٹا میرے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتا ہے اور چھوٹا امریکہ سے انجینیٗر بننے کے بعد اب مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ بیٹی پڑھنے ولایت گئی ہے، واپسی پر اس کی شادی کر دیں گے۔” چوہدری شاہد نے بتایا۔
چوہدری شاہد کے بیٹوں کی روئیداد سن کر اشرف کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ اس کا دل کیا کہ چوہدری کا منہ نوچ لے۔ ایک چھابڑی والے سے بیس سال میں وہ ارب پتی کس طرح بن گیا تھا اشرف اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کے دو نمبر کے دھندوں کی لوگ اس کے پیٹھ پیچھے تو بہت باتیں کرتے تھے، مگر سامنے اس کو جھک جھک کر سلامیں کرتے تھے۔ بڑا بیٹا کاروبار میں۔ چھوٹا امریکی انجینئیر۔ مقابلے کا امتحان۔ اس کی آنکھوں میں یک دم آنسو آ گئے اور ان آنسووں میں اس کے اپنے بیٹے کی شبیہ تیرنے لگی۔ اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں جانے کیا پڑھاتے تھے کہ میٹرک میں اس کے اچھے نمبر نہ ٓائے۔ حالانکہ وہ ساری ساری رات پڑھا کرتا تھا۔ نمبر اچھے نہ آئے تو کسی اچھے کولج میں وظیفہ نہ مل سکا۔ نجی طور پر پڑھانے کی اشرف میں سکت کہاں تھی۔ بڑی مشکل سے بی اے کیا اور پھر دو سال نوکری کے لئے مارا مارا پھرتا رہا۔ نہ کسی نامور یونیورسٹی کی ڈگری تھی، نہ فرفر انگریزی بول سکتا تھا اور نہ ہی کوئی سفارش تھی۔ بڑی مشکل سے ایک جگہ بیرے کی نوکری مل سکی۔ چودہ جماعتیں پڑھنے کے بعد صبح گیارہ بجے سے رات دو بجے تک لوگوں کے جھوٹے برتن مانجھتا اور بات بات پر ان کی اوئے توئے برداشت کرتا۔ اسے دیکھ دیکھ کر اشرف کا دل کڑھتا تھا۔ مگر چوہدری شاہد کی بیٹی کی شادی والی بات کو اس نے سنہری موقع جانا۔
یار چوہدری” اشرف نے پھر اسے بڑا ناپ تول کر مخاطب کیا “تیری بھتیجی کی بھی میں نے شادی طے کر دی ہے۔
اچھا” چوہدری شاہد خوش ہو کر بولا” بھئی بہت بہت مبارک ہو۔ بتاوؐ میں اپنی بھتیجی کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟” چوہدری دنیا دار آدمی تھا، شاید اشرف کے آنے کا مقصد سمجھ گیا تھا۔
اشرف بھی اب اور ضبط نہ کر سکا “یار میرے پاس شادی کے لئے پیسے نہیں ہیں”۔
ابے بس کر دے شرفو، ابھی تیرا یہ بھائی مرا نہیں ہے۔ تو تاریخ پکی کر اور کوئی فکر نہ کر”۔
اشرف کا دل بھر آیا اور اس نے بے اختیار اٹھ کر چوہدری شاہد کا ہاتھ چوم لیا۔ حرام کے پیسے نے اس کی حرمت بچا لی تھی۔

2 comments:

  1. معاشرتی بے حسی اور اخلاقی گراوٹ کا مختصر مگر جامعہ خلاصہ۔۔۔👍👍👍👌

    ReplyDelete