از
ٹیپو سلمان مخدوم
آخر جمہوری نظام ہی
کیوں؟ یہ سوال اکثر سننے میں آتا ہے۔ اور سوچ پر بھی مجبور کرتا ہے۔ جب ہم دیکھتے
ہیں کہ اس نظام کے ذریعے جو بھی گروہ ہم پر حکمران بنتا ہے اس میں بہت سے چور،
لٹیرے، جاہل اور بدکردار لوگ شامل ہوتے ہیں۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں اور جس بھی
سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے ہمیں یہی شکایت ہوتی ہے۔ تو پھر ہم یہ نظام بدل کیوں
نہیں دیتے؟
بالکل! اس نظام کو
بدل دینا چاہئے۔ اس کی جگہ ایسا نظام لانا چاہئے جو ہمارے لئے بہترین حکمران لائے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر مسلط کرنےکے لئے بہترین حکمران کہاں اور کیسے تلاش
کریں؟ میں نے ایک دوست سے مشورہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم میں سے سب سے زیادہ
پڑھے لکھے لوگوں کو ہمارا حکمران ہونا چاہئے۔ میں نے سوچا، بات سننے میں تو اچھی
لگتی ہے۔ مگر جب مختلف لوگوں سے مشورہ کیا تو احساس ہوا کہ اس بات پر عمل کرنے میں
دو قباحتیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی کا فیصلہ کیسے ہو گا
جسے کہ وزیر اعظم بنایا جا سکے؟ پی ایچ ڈی تو اب پاکستان میں بے شمار ہیں، سب کو
تو وزیر اعظم نہیں لگایا جا سکتا۔ پھر ان میں بھی بڑی تفریقات ہیں۔ کوئی کہتا ہے
کہ جس نے فلاں ملک سے ڈگری لی ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ کوئی کہتا ہے جس نے فلاں
یونیورسٹی سے ڈگری لی ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جس نے فلاں مضمون
میں ڈگری لی ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ جس کا ڈگری کے بعد کام
کا تجربہ زیادہ ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ اور کوئی کہتا ہے کہ ڈگری وگری کچھ نہیں
ہوتی، جس نے کتابیں زیادہ پڑھ رکھی ہیں وہ زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ اور کوئی تو کہتا
ہے کہ گدھے پر کتابیں لاد دینے سے کوئی پڑھا لکھا نہیں بن جاتا، اصل پڑھا لکھا تو
وہ ہے جس نے کتابوں سے علم زیادہ سے زیادہ کشید کیا ہے۔ ابھی یہی نہیں معلوم ہو
رہا تھا کہ زیادہ پڑھے لکھے آدمی یا عورت کا فیصلہ کیسے کیا جائے اور دوسرا مسلہ
وہیں کا وہیں کھڑا ہے، یعنی کیا یہ بات یقینی ہے کہ زیادہ پڑھا لکھا انسان زیادہ
اچھا حکمران ثابت ہو گا؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہو گا جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ
نہیں ہو گا۔ بہت ساروں نےیہ بھی کہا کہ اچھا حکمران ہونے کے لئے پڑھا لکھا ہونا
نہیں بلکہ نیک اور ایماندار ہونا ضروری ہے۔
غور کیا تو اس بات
میں بھی وزن لگا۔ مگر جب لوگوں سے اس بارے میں مشورہ کیا تو پھر الجھن میں پڑ گیا۔
پہلے تو نیک انسان کے بارے میں ہی کسی کے خیالات نہ ملتے تھے۔ کوئی کہتا کہ نیک وہ
ہے جو دیندار ہے اور کوئی کہتا کہ نیک وہ ہے جو دیندار ہو یا نہ مگر دوسروں کا دکھ
رکھتا ہو۔ ایماندار پر بھی کسی کا اتفاق ہونے میں نہ آ رہا تھا۔ کوئی کہتا کہ ایماندار
وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی امانت میں خیانت نہ کرے اور کسی نے کہا کہ ایماندار وہ ہے
جو حرام خوری نہ کرے۔ حرام خوری پر بھی بڑی بحث چلی۔ کسی نے کہا زیادہ منافع لینا
حرام خوری ہے کسی نے کہا یہی تو کاروبار ہے۔ کتنا منافع زیادہ ہوتا ہے اس پر بھی
ہر ایک کا مختلف نظریہ تھا۔ کسی نے کہا ضرورت سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت کیا
ہے، اس پر بھی اتفاق نہ ٹھہرا۔ کسی نے کہا موٹر سائیکل ضرورت ہے کسی نے کہا گاڑی۔
کسی نے کہا چھوٹی گاڑی کسی نے کہا درمیانی گاڑی۔ کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ ضروری
نہیں کہ نیک اور ایماندار انسان اچھا حکمران ثابت ہو۔ تاریخ میں ایسی بہت سی
مثالیں ملتی ہیں جس میں نیک اور ایماندار مگر نالائق حکمرانوں نے قوم کا بیڑا غرق
کر دیا۔
اچھا، تو لائق آدمی
کو اپنا حکمران بنانا چاہئے، میں نے سوچا۔ مگر مشورہ کرنے پر پھر وہی ڈھاک کے تین
پات۔ کیسے فیصلہ ہو گا کہ کون کتنا لائق ہے؟ پھر کس چیز میں لائق ہونا چاہیے،
کاروبار میں، لوگوں کی بھلائی میں، افسروں سے کام لینے میں، بجلی کی پیداوار میں،
جنگیں لڑنے میں، ٹیکس وصولی میں، نظام انصاف کی بہتری میں، نظام صحت کی بہتری میں،
نظام تعلیم کی بہتری میں، معاشیات میں، سیاسیات میں، معاشرت میں۔۔۔۔؟
یہ تو عجیب و غریب
قسم کی الجھنیں پیدا ہو گئیں۔ اس طرح حکمران تلاش کرنے میں تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔
نہ تو یہ سمجھ آ رہی ہے کہ کس قسم کے لوگوں کو حکمران بنائیں اور نہ یہ کہ کس کی
بات مانیں۔ ہر کسی کی اپنی ہی منطق اور پسند ہے۔ تو پھر سب سے بہتر یہی نہیں کہ
پرچیاں ہی ڈال لی جائیں؟ جس آدمی کو لوگ سب سے زیادہ پسند کریں اسی کو حکمران چن
لیا جائے؟ بات تو سہی ہے مگر یہ تو جمہوریت والے انتخابات ہی ہو گئے۔ یہ تو اچھا
نظام ہوا!
لیکن اگر یہ اتنا ہی
اچھا نظام ہے تو پھر اس کے نتائج اتنے بھیانک کیوں نکلتے ہیں؟ ویسے بھیانک نتائج
ہمارے ہاں ہی نکلتےہیں، باقی دنیا میں تو جمہوریت کے نتائج بڑے اعلیٰ نکلتے ہیں۔
تو کیا خرابی نظام میں نہیں بلکہ ہم میں ہے؟
ایک انگریز سے مشورہ
کیا۔ وہ ہنسنے لگا۔ کہنے لگا تم لوگ اپنے ذاتی کام کروا کر پرچی پر مہر لگوانے کو
جمہوریت سمجھو گے تو اس سےبھی بھیانک نتائج آئیں گے۔ میں نے استفسار کیا کہ پھر جمہوریت
کیا ہے؟ کہنے لگا جمہوریت عوام کی حکمرانی کا نام ہے۔ ووٹ ڈالنا تو محض ایک طریقہ
ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ عوام جن لوگوں کو پسند کرتےہیں انہیں انتخابات لڑنے پر
ابھاریں، اچھے لوگوں کو منتخب کریں اور پھر منتخب حکمرانوں پر مسلسل نظر رکھیں کہ
وہ کسی فرد یا گروہ کے مفاد میں نہیں بلکہ صرف اور صرف عوام کے مفاد میں کام کریں۔
تم لوگ ووٹ ڈالتے ہو اپنے ذاتی فائدوں کے لئے اور لوگ وہ چنتے ہو جو لائن توڑ کر
پہلے تمہارا کام کروایں۔ اگر فوری کوئی کام نہ ہو تو اپنی ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ
ڈال دیتے ہو کہ کل کو ان سے کہہ کر اپنے ذاتی کام کرواو گے۔ ایسے لوگ منتخب ہو کر
تمہارے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے بعد اپنے اور اپنے گروہ کے کام کرتے ہیں اور تم
لوگوں کے بڑے بڑے اور اصل کام ویسے ہی پڑے رہ جاتے ہیں۔ میں نےپوچھا کہ لوگوں کے
ذاتی کام ہونے سےبھی تو عوام کی بھلائی ہی ہوتی ہے۔ گورا ہنس کے بولا، ہو جائے،
اگر تم میں سے ہر آدمی سارے پاکستان کے بچوں کی تعلیم کو اپنا ذاتی کام سمجھے، ہر
بیمار کے علاج کو اور ہر خاص و عام کے انصاف کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر اس کے حصول
کے لئے لوگ منتخب کرناشروع کرے۔ ایسا کرو گے تو جمہوریت تمہیں بھی ویسے ہی نتائج
دے گی جیسے ہمیں دیتی ہے۔
میں سوچ میں پڑ گیا۔
یہ تو بڑا مشکل کام ہے!
No comments:
Post a Comment