از
ٹیپو سلمان مخدوم
وہ ایک تھائی ہیجڑا
تھا۔ مجھے اس کی جو چیز سب سے واضع طور پر یاد ہے وہ اس کی ٹک ٹک پر مجھ سے بچھڑتے
ہوئے کی مسکراہٹ ہے۔ اس وقت ہم دونوں روئے تھے۔ وہ اب بھی یہی سمجھتا ہو گا کہ صرف
وہ رویا تھا، مگر حقیقت میں میں بھی رو پڑا تھا۔
میں کو سوموئی کے ایک
بازار میں پھر رہا تھا۔ رات کا کھانا بھی کھا چکا تھا اور شراب بھی پی چکا تھا۔
ایک تو نشہ ہو رہا تھا دوسرے کرنے کو کچھ بھی نہ تھا، میں بلا وجہ دکانوں اور
ٹھیلوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ اچانک اس پر نظر پڑی تو میں ٹھٹک گیا۔ وہ ایک نہایت
حسین لڑکی لگ رہا تھا۔ ایک بند دکان کے سامنے بڑی ادا سے کسی حسین طوائف کی طرح
کھڑا کھلے عام دعوت گناہ دے رہا تھا۔ کئی سیکنڈ تک میں مبہوت اسے دیکھتا رہا۔ یہ
نہ سمجھئے گا کہ میں نشے کی وجہ سے اسے لڑکی سمجھ بیٹھا تھا۔ پہلی نظر میں تھائی
ہیجڑے کو پہچاننے کا فن کافی تجربے کے بعد ہی آتا ہے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر
وہ مسکرایا اور سر کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میں بلا ارادہ اس کےپاس جا کھڑا
ہوا۔ گوری گوری سڈول آدھی ننگی ٹانگیں، برہنہ بازو، ابھری ہوئیں چھاتیاں، پتلی
لچکیلی کمر، صراحی دار گردن، موٹے رسیلے لال سرخ ہونٹ، چینیوں جیسی پھینی مگر
چھوٹی سی پیاری سی ناک اور بڑی بڑی ہلکی نیلی آنکھیں جو میرے خیال میں رنگین بصارتی شیشے یعنی کونٹیکٹ
لینز کا کمال تھیں۔ میرے پاس پہنچنے پر اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کا ہاتھ بھی
بڑا نازک اور خوبصورت تھا۔ جب ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس نے میرا حال پوچھا تو
پہلی دفعہ مجھے شک پڑا کہ وہ لڑکی نہیں ہیجڑا ہے۔ اس کی آواز تھی تو زنانہ مگر
شاید اس نے مصنوعی طور پر ایسی بنا رکھی تھی۔ میں جب ٹھٹک کر اسے غور سے دیکھنے
لگا تو اس نے اس طرح آگے بڑھ کر، کہ اس کے پستان میرے سینے سے مس ہونے لگے اور اس
کے ہونٹ میرے کان کی لو سے، میرے کان میں کہا کہ وہ کیتھوئے ہے۔ کیتھوئے تھائی
زبان میں ہیجڑے کو کہتے ہیں اور مجھے اس بات کا علم تھا۔ اگر کوئی اور وقت ہوتا تو
میں کراہت سے اسے جھٹک دیتا، مگر وہ وقت کچھ اور تھا۔ کچھ نشے کا اثر، کچھ اس کی
خوبصورتی کا، اور کچھ اس کے ملائم لمس کا اثر۔ گویا کہ شراب اور شباب نے صحیح
معنوں میں مجھے مدہوش کر دیا تھا۔ میں اس کے ہیجڑہ ہونے کی تلخ حقیقت فوری طور پر
ہضم نہ کر سکا۔
جب میں نے اس کے کیتھوئے ہونے پر کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا تو اس نے جانا کہ
میں نے اس کی گاہکی قبول کر لی ہے۔ خوشی سے اس نے میری بغلوں میں بانہیں ڈالیں اور
میرے ساتھ چپک کر ہولے ہولے میری کمر سہلانی شروع کر دی۔ کوئی پانچ سات سیکنڈ اس
میں بھی گزر گئے لیکن میں مسحور ہی رہا۔ وہ سمجھا کہ میں نشے میں دھت ہوں۔ اس نے
میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس بند دکان کے تھڑے پر بیٹھا کر میرا سر اپنے سینے سے لگا
لیا اور ہولے ہولے میرا سر اور کمر سہلانے
لگا۔ اس کے سینے کی وادیوں سے بھینی بھینی مست کر دینے والی خوشبو نے میری مدہوشی
کو مزید تقویت دی۔ اسی اثنائ میں بے دھیانی میں میرا ہاتھ اس کی ران پر چلا گیا۔ اس
کی گوری اور ملائم ران کو چھوتے ہی گویا میرا نشہ ہرن ہو گیا۔ لمحہ کے ہزارویں حصہ
میں یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہو گئی کہ جس کی بانہوں میں اس وقت میں سمایا ہوا ہوں
وہ کوئی لڑکی نہیں، ہیجڑہ ہے۔ یک دم میں برف کی سل کی طرح منجمد ہو گیا۔
ادھر وہ ہیجڑہ مجھ پر صدقے واری ہوا جا رہا تھا۔ کبھی میرا سر چومتا، کبھی
میری ران پر ہاتھ پھیرتا۔ ایک دفعہ تو میرا دل کیا کہ اٹھ کر بھاگ جاوں، مگر پھر
اس کا معصوم چہرہ نظروں میں گھوم گیا۔ اس بیچارے کا تو کوئی قصور نہ تھا۔ میں ہی
پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی گود میں آ گرا تھا۔ میں نے یہی سوچا کہ یہ جتنے بھی
پیسے مانگے گا، بہت زیادہ کہہ کر چلتا بنوں گا۔ میری بھی جان چھوٹے گی اور اس کا
بھرم بھی رہ جائے گا۔ یہ فیصلہ کر کہ میں نے زرا درشتی سے اپنے آپ کو اس سے الگ
کیا۔ مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا، شاید نشے کی وجہ سے چکر سا آگیا۔ میری بگڑی
طبیعت دیکھ کر وہ مجھ پر مزید صدقے واری ہونے لگا۔ اپنی چولی میں سے رومال نکال کر
میرا ماتھا پونچھنے لگا۔ پھر جلدی سے اپنے پرس سے پانی کی بوتل نکال لی اور میری ٹھوڑی
پکڑ کی ماں کی طرح مجھے پانی پلانے لگا۔ سچ کہتا ہوں اس دن میری سمجھ میں آیا کہ
اوسان خطا ہونا کس چڑیا کا نام ہے۔ اب حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو یہ جان کر کہ وہ ایک
ہیجڑہ ہے میرے اندر کراہت جاگتی جا رہی تھی اور دوسری طرف اس کا پیار دیکھ کر میری
اس کو دھتکارنے کی ہمت بھی نہ ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ سےوہ دو گھونٹ پانی زہر مار
کرتے میری وہ حالت تھی جو ماں کے ہاتھ سے کڑوی دوائی پیتے ہوئے چھوٹے بچوں کی ہوتی
ہے۔ اُگلی جائے نہ نگلی جائے۔
ذرا حوصلہ کر کہ میں نے پوچھا کہ وہ کتنے پیسے لے گا۔ اس نے ہنس کر کہا کہ وہ
بڑا خوش قسمت ہے کہ میں نے اسے پسند کیا ورنہ شام سے تین آدمی اسے دھتکار چکے
تھے۔ یہ کہتے کہتے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔ جلدی سے
آنسو پونچھ کر اس نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بڑی ادا سے بولا کہ اب وہ
بہت خوش ہےاور یہ کہ میں بہت پیارا ہوں اس لئے وہ ساری رات میرے ساتھ صرف ایک ہزار
باتھ میں گزارے گا، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ اسنے اپنے دو سالہ بیٹے سے آج تحفہ
لانے کا وعدہ کیاہے۔ پھر اس نے مجھے شرارت سے آنکھ ماری اور میرا گال چوم کر میرے
گلے لگ کر بولا کہ مجھے کھلی اجازت ہو گی میں جو چاہوں کروں۔ مجھ سے کچھ بولا نہ
گیا۔ خودبخود میرے ہاتھ اس کی پتلی کمر کے گرد حمائل ہو گئے۔ اس کی خوبصورتی،
نزاکت، پیار اور شراب کا نشہ مل کر بار بار میرے ذہن سے یہ بھیانک حقیقت محو کر
رہے تھے کہ وہ لڑکی نہیں بلکہ ایک ہیجڑہ ہے۔
اس نے خوشی خوشی میرا ہاتھ پکڑا اور ایک ٹُک ٹُک، یعنی تھائی چنگ چی رکشہ روکا۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی چپ چاپ اس کے ساتھ رکشہ میں سوار ہو گیا۔ ڈرائیور کے
استفسار پر میں نے مری ہوئی آواز میں ہوٹل کا نام بتایا۔ کیتھوئے نے اس کے ساتھ
بھاو تاو کیا اور رکشہ چل پڑا۔ میں عجیب کشمکش میں گرفتار تھا۔ جتنا وقت گزرتا جا
رہا تھا مجھے اس سے پیچھا چھڑانا مشکل سے مشکل ہوتا نظر آ رہا تھا۔ میرے بھونڈے
پن سے ذرا سمٹ کر بیٹھنے کو اس نے پھر میری خراب طبیعت پر مامور کیا اور میرے ساتھ
جڑ کر بیٹھ گیا۔ میری ران کے اندر والے حصے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ رکشہ چلنے
سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لگی تو پھر سے سرور آنے لگا۔ اوپر سے اس کے ہاتھ کا ملائم لمس
میرے جسم کے حساس حصوں پر۔ پیٹ کی تکون میں سختی آنے لگی۔ جب اس نے دیکھا کہ ایک
کے علاوہ میرے تمام پٹھے ڈھیلےپڑتے جا رہے تھے تو میرا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی چولی
میں ڈال لیا۔ ایک لمحے کے لئے میرے ذہن میں ایک بالوں بھرے سپاٹ سینے کا تصور
ابھرا اور کراہت کا ایک زوردار احساس میرے پیٹ میں ابلا، مگر دوسرےہی لمحے، کچھ
نشے کے سرور اور کچھ تجسس کے مارے، میں نے اپنا ہاتھ اس کی چولی میں جانے دیا۔
توقع کے برعکس میرے ہاتھ نے ایک ملائم زنانہ سینے کو محسوس کیا۔ پستان پر میں
نے تجسس کے مارے ہاتھ پھیرا اور پھر اسے بھینچ کر بھی دیکھا، بالکل زنانہ اور جسم
کا قدرتی حصہ تھا۔ مجھے ایک بار پھر مزہ آنے لگا تھا کہ اس نے میرا دوسرا ہاتھ
پکڑ کر اپنی سکرٹ کے اندر، ران کے اندرونی حصہ پر رکھ لیا۔ مجھے اور مزہ آنے لگا۔
اور پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر ران کے سرے تک لیجانا چاہا۔ اچانک میرے ذہن میں
ایک نیم مردہ اور کالے عضو تناسل کی تصویر ابھری جو بالوں سے بھرا ہوا تھا۔ غلاظت
کا ایک طوفان سا میرے حلق میں اٹھا اور میں نے جھٹکے سے اپنے دونوں ہاتھ کھینچ
لئے۔ اتفاق سے عین اسی وقت رکشہ ایک جھٹکے سے رک گیا۔ رکشہ کے جھٹکے کی وجہ سے اسے
شک پڑا کہ میرے ہاتھ رکشے کے جھٹکے سےکھنچے ہیں۔ اس نے شک بھری نظروں سے میری طرف
دیکھا۔ عجیب سا خوف تھا اس کی آنکھوں میں۔ ایک بار پھر دھتکارے جانے کا۔ اس کا
اترا ہوا چہرہ دیکھ کر میرا دل پسیج گیا۔ میں نے سوچا رکشہ والے کے سامنے اسے ذلیل
نہ کروں، ذرا آگے جا کر کچھ پیسے دے کر واپس بھیج دوں گا۔ رکشہ چلا گیا تو ہم ہوٹل
کی جانب چل پڑے۔ میں تذبذب کے عالم میں تھا کہ کیسے اسے کہوں میں نے اسے ہوٹل نہیں
لے کر جانا، وہ واپس چلا جائے، لہٰذا میں آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ اسے بھی شک پڑ
چکا تھا، وہ بھی آہستہ آہستہ ہی چل رہا تھا۔ اچانک ایک گزرتے رکشے کو اس نے ہاتھ
دے کر روک لیا۔ پھر ڈرائیور کے ساتھ کچھ گٹ مٹ کی اور رکشہ چند قدم آگے جا کر رک گیا۔
وہ مڑ کر میرے پاس آیا ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
رکشے میں جھٹکے سے میں نے ہاتھ کھینچ لئے تھے، رکشہ سے اترنے پر میں اسے ہوٹل
لے جانے میں پر جوش نہ تھا، نہ ہی میں اس سے شرارتیں کر رہا تھا، اس کے رکشہ روکنے اور ڈرائیور سے بات کرنے کے
دوران بھی میں نہ کچھ بولا تھا نہ ہی اسے روکا تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ وہ ایک بار
پھر دھتکارا جا چکا تھا۔ اس کی اتری ہوئی شکل دیکھ کر میری نظروں میں کچھ ہی دیر
پہلے والا اس کا ہنستہ مسکراتا چہرہ گھوم گیا۔ میرا دل کٹ ساگیا۔ اس نے میرے گلے
میں بازو ڈال کر میرے کان میں آہستہ سے “پیارے لڑکے” کہا اور میرا گال چوم کر مڑا
اور رکشے کی طرف چل پڑا۔ چنگ چی پر بیٹھ
کر اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔ عجیب دلکش مسکراہٹ تھی اس کی۔ جانے کیوں
میری آنکھ سے آنسو ٹپک پڑا۔ رکشہ چل پڑا اور اچانک اس نے اپنا حسین چہرہ اپنے
ہاتھوں میں چھپا لیا۔ آخر کار وہ رو پڑا تھا۔
No comments:
Post a Comment