Thursday, 21 September 2017

ترکی مٹھائی: کہانی



از
ٹیپو سلمان مخدوم



گھر کے اندر  داخل ہوتے ہی اس کی نظر پورچ کے کونے میں پڑے پندرہ سو روپے والے چینی بیگ پر پڑی جو وہ ترکی سے پچاس لیرے کا لایا تھا۔ گاڑی سے اترتے ہی وہ مچل کر بیگ کی طرف بڑھا اور یہ دیکھ کر تڑپ کر رہ گیا کہ بیگ میں بہت سے کاڈے مٹر گشت کر رہے تھے۔ اس نے غصے سے گیٹ کھولنے والے ملازم سے پوچھا کہ بیگ میں کیڑے کیوں پھر رہے ہیں؟ جواب سے پہلے اندر سے بیگم نکل آ ئی۔


یہ جو آپ بڑی مٹھائیاں لائے تھے نا ترکی سے، یہ اس کے نتیجے ہیں۔ بیگم نے ملازم کی جگہ تنک کر جواب دیا۔
اسے دھچکا لگا۔ استنبول کی استقلال سٹریٹ اس کے سامنے گھوم گئی۔

ہوٹل سے نکل کر وہ استقلال سٹریٹ کی رونقیں دیکھ رہا تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ۔ کچھ لمبے تڑنگے اور کچھ مریل مرد۔ کچھ بڑی چادروں اور کچھ چھوٹی نکروں میں ملبوس خواتین۔ دونوں طرف دکانیں۔ برقی قمقموں کی بہار۔ رات کے کھانے کے بعد کی چہل پہل۔ حافظ مصطفیٰ کی مٹھائی کی دوکان پر مکھیوں کی طرح لوگوں کا رش۔ وہ دکان کے بورڈ پر پڑھ رہا تھا کہ یہ دکان ۱۸۶۴ ؁سے قائم ہے کہ اسے ایک دھکا لگا۔ ہلکا سا، باد نسیم جیسا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک نہایت حسین لڑکی چست جینز اور تنگ تنگ ٹی شرٹ میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔ یہی حسینہ اس سے ٹکرائی تھی۔

وہ گڑبڑا گیا۔

 اگر پاکستان میں اس طرح نوجوان حسینہ اس سے ٹکرائی ہوتی تو وہ فوراً ایک قدم پیچھے ہٹ کر معاف کیجیے گا بہن جی، یا سوری باجی دو تین دفعہ زور زور سے کہتا تا کہ راہگیر اس کی پٹائی نہ شروع کر دیں۔ مگر یہ تو ترکی تھا۔ یورپ کی شروعات۔ مشرق کا اختتام۔ مشرق اور مغرب کا حسین امتزاج۔ مسجد کے بغل میں سگریٹ کے کھوکھے پر کوکا کولا کے ساتھ شراب کی بوتلیں بیچنے والا مسلم ملک، جہاں چست کپڑوں یا آدھی ننگی ٹانگوں والی جوان عورتوں کو کوئی گھور گھور کر نا دیکھتا تھا۔

وہ گڑبڑا گیا کہ کیا کرے۔

لیکن وہ حسینہ بالکل نہ گڑبڑائی۔ جب اس نے دیکھا کہ دو سیکنڈ کا طویل وقفہ گزرنے کے باوجود وہ بت ہی بنا کھڑا ہے تو وہ مسکرائی اور ایک قدم بڑھا کر اس کے اتنے قریب آ گئی کہ ہلکی ہوا سے لہرانے والے حسینہ کے سنہری بال اس کے چہرے پر بکھرنے لگے۔ حسینہ نے اس کے بازو پر اپنا ملائم ہاتھ رکھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں معذرت کی۔ وہ ابھی تک کنگ تھا۔ حسینہ نے دوبارہ معذرت کی اور پھر کرنی شروع کر دی۔ کچھ اس بات سے کہ حسینہ کا ہاتھ مسلسل اس کے بازو پر تھا۔ کچھ اس بات سے کہ حسینہ مسکرا مسکرا کر اس سے معذرت کرتی جا رہی تھی۔ کچھ اس بات سے کہ حسینہ کی انگریزی بھی ٹوٹی پھوٹی تھی۔ اور بہت کچھ اس بات سے کہ اتنا کچھ ہونے کہ باوجود  بازار میں کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوا تھا؛ اسے حوصلہ ہوا۔

وہ زور لگا کر مسکرایا اور جوابی معذرت کی۔ حسینہ کے ملائم ہاتھ نے اس کا بازو اپنی نرم گرفت میں کر لیا اور پوچھا کہ وہ کس ملک سے ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا کسی انجانی زبان میں ایک کرخت جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا۔ اس کے ذہن میں بجلی کی طرح یہ خیال کوندا کہ حسینہ کا بھائی آ ٹپکا ہے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ مگر حسینہ نے اسے کھینچ کر حافظ مصطفیٰ کی دکان کے دروازے سے ہٹا دیا۔ کرخت آواز والا پردیسی مٹھائی لینے دکان کے اندر چلا گیا۔ حسینہ نے اپنی جینز کی جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی، ایک سگریٹ سلگایا اور ڈبی اس کی طرف بڑھائی۔ تذبذب کے عالم میں اس نے سگریٹ لے کر سلگا لیا۔ حسینہ دکان کی قد آدم کھڑکی کی دہلیز پر بیٹھ گئی اور اسے بھی اشارہ کیا۔ وہ بھی بیٹھ گیا۔ اور لوگ بھی ایسے ادھر ادھر بیٹھے تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ پاکستان سے ہے۔ حسینہ نے زور زور سے سر ہلا کر دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ بے دھیانی میں اس کی نظر حسینہ کے سینے پر پڑی اور عین اسی وقت حسینہ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ چوری پکڑی گئی تھی۔

وہ ایک بار پھر گڑبڑا گیا۔

مگر حسینہ نے برا نہ مانا۔ اپنا ملائم ہاتھ اس کی ران پر رکھ کر وہ مسکرائی اور کہنے لگی کہ وہ آج رات فارغ ہے۔ اس کی ران میں سنسناہٹ ہوئی۔ اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش کھینچا۔ وہ حسینہ کے ہاتھ کا ناخدا بننا چاہتا تھا۔ مگر کوشش کے باوجود وہ نہ کوئی حرکت کر سکا اور نہ کچھ بول سکا۔ حسینہ نے اس کی ران  کو تھپ تھپایا اور پھر سیدھی ہو کر سگریٹ پینے لگی۔ سگریٹ ختم کر کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور دوسری جیب سے ایک پرچی نکال کر اسے تھما دی۔ مجھے فون کرنا کہہ کر مسکراتی ہوئی چل دی۔ وہ دس منٹ ہونقوں کی طرح کھڑکی میں بیٹھا رہا پھر اٹھ کر پرچی پھینکی اور حافظ مصطفیٰ کی دکان میں اپنے بیوی بچوں کےلئے مٹھائی خریدنے گھس گیا۔
بدحواسی میں وہ دکان والوں کو یہ نہ بتا سکا کہ اس نے یہ مٹھائی ہوائی جہاز میں لے کر جانی ہے۔ لہٰذا حافظ مصطفیٰ کی ترکی مٹھائی کا شیرا استنبول سے لاہور تک  پچاس لیرے کے سرخ بیگ میں ٹپکتا رہا۔

بیگم کے سامنے وہ جھینپ گیا۔

چھوڑو اس بیگ کو۔ یہ ترکی کے لوگ ہی عجیب ہیں۔ میں نے بہت کہا کہ اچھی طرح پیک کرو مگر وہ سنتے ہی نا تھے۔

بیگم نے مسکرا کر اس کا بازو پکڑ کر کھینچا تو وہ ایک بار پھر گڑبڑا گیا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا، مگر بیگم اسے آلو گوشت کے جلتے جلتے بچ جانے کی کہانی سناتی ہوئی اندر لے گئی۔

No comments:

Post a Comment