Saturday 7 April 2018

تصویر غم ۔ کہانی


تصویرِ غم
از
شیراز احمد



اتوار کا روز تھا میں ناشتہ لینے کے لیے مٹھائی کی دکان پر کھڑا پوڑیاں تیل میں سُڑ سُڑ ہوتے دیکھ رہا تھا لوگ سوسائٹی کی مارکیٹ میں آ جا رہے تھے لاہورئیے آج بھی چھٹی والے دن ناشتہ بہت اہتمام سے کرتے ہیں خاموش گہما گہمی تھی گاہگ تھے تو مگر شور نام کو نہ تھا اتنے میں ایک بوڑھا آدمی شب خوابی کے لباس میں ملبوس دکان پر آیا کوئی ستر کے پیٹے میں ہو گا پہلی نظر میں اس کے سفید بال اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی اس کے تجربے پر دلالت کر رہے تھے دکاندار نے دیکھتے ہی تعظیم  اور ملازم نے پھرتی دکھائی____ وکیل صاحب کے لیے کرسی آ چکی تھی میری توجہ قدرتی طور پر وکیل صاحب کی طرف ہو گئی وہ بھی جیسے میری توجہ بھانپ گئے بولے "آپ اسی سوسائٹی میں رہتے ہیں"

میں نے احتراماََ کہا "جی سر"
پوچھنے لگے کیا کرتے ہیں
میں نے مسکراتے ہوئے کہا جی وکیل ہوں
انہوں نے آنکھیں سکیڑیں مجھ پر گہری نظر ڈالی اور ایک لمبا سانس کھینچ کر منہ دوسری جانب کر لیا اتنے میں ہوشیار دکاندار دوسری کرسی بھی بھجوا چکا تھا میں ان کے سامنے بیٹھ گیا اب میں ان کا بغور جائزہ لینے لگا چہرے پر بے شمار سلوٹیں جن کے پیچھے عمر سے زیادہ حادثات کارفرما نظر آتے تھے آنکھیں بڑی بڑی لیکن رُندھی ہوئیں جیسے رونا معمول ہو ایک کربِ مسلسل تھا جو چہرے سے عیاں تھا لگتا تھا ان کو "غم" ہو گیا ہے جس نے انہیں پیس کے رکھ دیا ہے وہ کسی مصور کی تصویر لگتے تھے جس نے غم کو انسانی شکل دے دی ہو_____
میں سوچنے لگا کہ خدا جانے اس انسان کو کیا غم ہے جس نے اسے توڑ کے رکھ دیا ہے کیا رنج ہے جس نے زندگی نچوڑ لی ہے اس سے___ جانے کیا ہے جو اس کو کھا گیا____
اچانک انہوں نے چہرہ میری جناب موڑا میری آنکھوں سے شاید اپنے تجربے کی بنیاد پر میرے خیالات پڑھ لیے____ اپنے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے____ یہ بالکل سیاہ تھے صرف دو سال قبل____
کچھ توقف اور شاید خود کو سنبھالنے کی جدوجہد کرتے ہوئے ایک سرد آہ سینے میں رکتی ہوئی ان کے منہ سے نکلی___ آنسو بالکل بغاوت پر آمادہ اور آنکھوں کا حصار توڑنے پر مُصر______ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے بولے_____ پھر وہ چلا گیا_____ مُراد____ میرا بیٹا_____ تمہاری طرح ہی دِکھتا تھا____ ٹرک کچل گیا اس کو_____
بیٹا____ وہ تو مر گیا لیکن زندہ میں بھی نہیں_____ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا ناشتہ لیے بغیر چلے گئے

No comments:

Post a Comment