Friday 27 April 2018

صحرائے دل ۔ کہانی

صحرائے دل
از
 شیراز احمد

اس سے قبل میں نے صحراؤں سے متعلق بہت سی کہانیاں سن رکھیں تھیں کہ صحرا میں ایک انجانا خوف اور اداسی ہوتی ہےجو بعض اوقات اپنے مسافر کو کلاوے میں لے لیتے ہیں مسافر ایک نامعلوم سی اداسی اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اس بار بہاولپور میں یہ تجربہ ہوا رات میں ہوا کی شُوکریں اور آہ و زاریاں جب سینہ بوجھل کرنے لگیں تو میں کمرے میں دبک گیا ایک بے وجہ سی اکتاہٹ اور ویرانی نے دل کو جکڑ لیا لاکھ دامن ٹٹولا لیکن کچھ نہ ملا ۔۔۔۔۔۔   ماسوائے اداسی و ویرانی کے جو میری تنہائی سے ہی دست و گریباں تھے.


صبح ہوتے ہی میں نے صحرا چھوڑنے میں عافیت جانی مگر اداسی نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا ملتان سے لیہ تک تعاقب جاری رکھا اور اپنے مفرور کو تلاشتی رہی۔ لیہ سے شور کوٹ راستے میں صحرا و بیابان ہے دل میں نجانے کیا آئی دونوں اطراف منہ کھولے صحرا پر غصہ آ گیا ایک جگہ جہاں تاحدِ نظر ریت اور صحرا کے پہرے دار ٹیلے استادہ تھے _____  میں گاڑی سے اتر گیا اور صحرا کے اندر دور تک چلتا گیا لق و دق صحرا تاحدِ نظر دور تک پھیلا ہوا تھا رات ہونے والی بارش نے ریت پر قدم جمانا سہل کر دیا تھا آخر ایک بلند و بالا ٹیلے پر چڑھ گیا غصے نے میرے اندر الاؤ جلا رکھا تھا.

صحرا سے پوچھا کون ہو تم؟ ____  کیا ہو تم؟ لو میں آ گیا ہوں ____  لاؤ اپنی وحشتیں, ویرانیاں اور اداسیاں ____  وہ میری راجپوتی خُو پر نرمی سے مسکرایا ____  ایک بگولے نے میرے گرد چکر کاٹا جیسے حصار کھینچا ہو ____  کچھ دیر سکوت رہا پھر وہ گویا ہوا ____  کبھی کسی کو ڈرایا نہ اداس کیا _____  میں نے تو ہمیشہ تمہیں گلے لگایا, تھپکا, پیار  کیا ____  یہاں تک کہ میرے مہمان مجھ سے اس قدر مانوس ہوئے کہ اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھنے لگے___ میں نے ان کے رویوں میں برسرِ پیکار غم, اداسی اور خوف کو باہر نکالنا شروع کیا____ انکی ذات کے نہاخانوں سے ان کے تعصبات مجسم شکل میں ان کے سامنے لا کھڑے کیے  ____  میرے دوست! میں نے تو خود کو تمہارے لیے آئینہ بنا ڈالا صرف تجھ میں "موجود" ہی نکال باہر کیا ہے اس میں میرا کچھ نہیں ____  لا یہ اپنی سب وحشتوں اور ویرانیوں کا بوجھ مجھے دے جا اور جا اپنی منزل کی طرف ____  آج کے بعد خوف اور اداسی تیرے پاس بھی نہ پھٹکے گی
پسینے میں شرابور میرے بدن کو صحرا کی گرم ہوا طمانیت بخشنے لگی میرے دوست نے میرے جوتوں میں نرم گیلی ریت کا تحفہ بھر دیا تھا میرا دل خوشی سے لبریز ہو گیا میری آنکھوں میں اپنے دوست کے لیے تشکر کے جذبات تھے وہ اپنی آخری حد تک مجھے الوداع کرنے آیا خود کو ہوا کیطرح ہلکا پھلکا محسوس کیا صحرا نے میرا خوف اور اداسی جذب کر لیے تھے میں آنکھوں سے اوجھل ہونے تک اس کو دیکھتا رہا.




No comments:

Post a Comment