Friday 10 February 2017

انسان جنتی تھا یا بندر؟


از 

ٹیپو سلمان مخدوم



قرآن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا۔ سائنس کہتی ہے کہ انسان بندر کی ارتقائی شکل ہے۔ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کا قرآن سچ کہتا ہے جبکہ فرنگی کی سائنس جھوٹ بولتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سائنس فرنگی کی مخلوق ہے؟

سائنس تو علم کے کشید کرنے کے ایک مجوزہ ضابطہ  کا نام ہے۔ جس میں کچھ اصول وضح کیے گئےہیں۔ مثلاً کسی چیز کو سائنسی طور پر ثابت شدہ صرف تب مانا جاتا ہے جب معروضی تجربہ کے زریعے اس فعل یا عمل کا یقینی طور پر مظاہرہ کیا جا سکے۔ گویا سائنس وہ چھلنی ہے جس سے چھن کر معلومات یا علم ہمارے پاس ااپنی خالص ترین حالت میں پہنچتا ہے۔ پھر سائنس فرنگی کی کیونکر ہوئی؟ سائنس تو وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے کائنات کا علم ہم تک اپنی خالص ترین حالت میں پہنچتا ہے۔ یعنی سائنسی علم تو کائنات کے  معرہضی طور پر ثابت شدہ حقائق ہیں۔ پھر قرآن اور سائنس میں تصادم کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا قرآن کسی اور خالق کی کتاب ہے اور کائنات کسی اور رب کی تخلیق؟




کیا نظریۂ  ارتقا  ہر طرح سے قران کے متضاد ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ خدا نے انسان کا پتلا اس طریقہ سے بنایا ہو جس کی طرف نظریۂ ارتقا اشارہ کرتا ہے اور پھر جب جسمانی انسان تیار ہو گیا ہو تو اس میں جنت سے لا کر شعور کی روح پھونک دی ہو، جس کا اشارہ قرآن میں ہے؟ کیا قرآن پر ایمان لانے کے لئے سائنس کا انکار لازمی ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعلٰی نے حقائق کی طرف اشارہ کر کہ ہمیں عقل اس لئے عطا کی ہو کہ ہم اس کا استعمال کر کہ سچائی کو تلاش کریں؟




اس سوال کا جواب تو ہر کسی نے خود تلاش کرنا ہے مگر ائیے ہم یہ تو دیکھیں کہ یہ بندر سے انسان والا نظریۂ ارتقا آخر ہے کیا شے؟

نظریۂ ارتقا  زمین پر زندگی کے ظہور کا نظریہ نہیں ہے۔ یہ محض اس بات کا نظریہ ہے کہ زمین پر زندگی کے ظہور کے بعد اس کے مختلف حصّوں میں جیسے جیسے حالات بدلتے گئے ویسے ویسے وہاں پر موجود زندہ مخلوق میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں دیکھنے میں آتی گئیں۔ یہ تبدیلیاں جمع ہو کر بڑی تبدیلیاں بنتی گئیں۔ اور یوں ایک سے دوسری مخلوق کا ارتقائی عمل ظہور پذیر ہوا۔ 

ارتقائی نظریہ کے مطابق ارتقائی عمل کا بنیادی اصول "بہترین کا بقا" ہے۔ اس اصول کا مطلب ہے کہ قانونِ قدرت کے مطابق بہترین مخلوق ہی زندہ رہے گی اور اسی کی افزائشِ نسل ہو سکے گی۔ یوں تو یہ ایک سادہ سا اصول ہے مگر اس میں ایک شعبدہ بازی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس اصول میں بہترین مخلوق وہ نہیں جو سب سے اعلٰی صفات کی مالک ہو بلکہ وہ ہے جو موجودہ حالات میں موزوں ترین ہو۔ 




مثال کے طور پر اگر اب چھٹا برفانی دور شروع ہو جائے تو نہ تو یہ ہو گا کہ سب سے اچھے انسان زندہ بچ  جایئں گے اور نہ ہی  ایسا  ہو گا کہ ہمارے جسموں میں زیادہ سردی برداشت کرنے کی قوت پیدا ہو جائے گی۔ اور نہ ہی یہ  ہو گا کہ ہمارے آئندہ  پیدا ہونے والے بچے زیادہ سردی برداشت کرنے کی قوت لے کر پیدا ہوا کریں گے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ صرف اتنا ہو گا کہ ہم میں سے صرف وہ لوگ زندہ بچ جائیں گے جن میں دوسروں کی نسبت زیادہ سردی برداشت کرنے کی قوت موجود ہو گی۔ یہی زندہ بچیں گے تو ظاہر ہے کہ افزائشِ نسل بھی انہی لوگوں کی ہو گی۔ جب ماں اور باپ دونوں ہی میں زیادہ سردی برداشت کرنے کی جین یعنی موروثیت موجود  ہوں گی تو بچے بھی انہی جین کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ اس طرح اگلی نسل کے سب بچوں میں زیادہ سردی برداشت کرنے کی موروثییت پائی جائے گی۔ اگلی نسلوں میں یہ چھلنی موروثیت کو اور چھان دے گی اور کچھ نسلوں کے بعد صرف وہ بچے زندہ ہوں گے اور پھلیں پھولیں گے جن میں سردی برداشت کرنے کی قوت اتنی زیادہ ہو گی کہ ان کے لئے برفانی دور کی سردی روز کا معمول ہو گی۔ 




لہٰذا ارتقائی عمل میں مخلوق میں تبدیلیاں ضرور ہوتی ہیں مگر یہ رونما اس طرح ہوتی ہیں کہ جب قدرتی حالات تبدیل ہوتے ہیں تو وہ خلق بچ جاتی ہے جس میں اس تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی خوبیاں موروثی طور پر پہلے سے ہی موجود ہوتی ہیں۔ باقی سب مخلوق فنا ہو جاتی ہے۔ جیسے کہ قدرتی تبدیلی کی وجہ سے ایک جنگل میں درختوں پر پتے ذرا اوپر اگنے لگیں تو اس جنگل کے ان پتوں پر گزارہ کرنے والے جانوروں کے زندہ رہنے کے لئے لمبی گردن ناگزیر ہو جائےگی۔ اب صرف وہی جانور زندہ بچیں گے جن کی گردن موروثی طورپر لمبی ہو گی۔ لہٰذا صحبت بھی یہ لمبی گردن والے جانور ہی آپس میں کریں گے اور لمبی گردن والے بچے پیدا کریں گے۔ اگر ان میں سے کچھ بچے اپنے پرکھوں کی بچی کھچی چھوٹی گردن کی جینیات کی وجہ سے چھوٹی گردن والے پیدا ہو بھی گئے تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔ اب اگلی نسل میں صحبت کرنے کے لئے پھر صرف موروثی طور پر لمبی گردن والے بچے ہی زندہ بچیں گے۔ چند نسلوں بعد سب بچے لمبی گردن والے ہی پیدا ہوا کریں گے کیونکہ ہر وہ جانور جس میں چھوٹی گردن کی جین تھی مر چکا ہوگا اور اب اس نسل میں ہر جانور میں گردن کی جین لمبی گردن ہی کی ہوگی۔ اور ہم سہولتِ بیان کے لئے اس عمل کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ اس جنگل کے اس جانور کی گردن ارتقائی تبدیلی کے ذریعے لمبی ہو گئی۔ 

یہ البتہ ضروری نہیں کہ قدرتی تبدیلی ہونے پر اس علاقے کی مخلوق میں کوئی موزوں موروثی خوبی موجود ہی ہو۔ چنانچہ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ قدرتی تبدیلی کے رونما ہونے پر کسی جانور یا پودے کی ساری نسل ہی ناپید ہو جاتی ہے۔ 



No comments:

Post a Comment