Monday 13 March 2017

دہشت گردی اور عدالتی کردار


از
شہزاد اسلم



 آج دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو امریکہ پر دہشتگردی کے خوفناک  سائے جب چھائے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ افغانستان اور پاکستان خصوصی طور پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے میدان بن گئے۔ جہاں دہشت گردی نے تمام ممالک کو امتحان میں ڈالا وہاں جمہوری ممالک کے لئے ایک کڑا وقت شروع ہو گیا .


دہشت گردی میں ملوث مشکوک افراد کو گرفتار کرنا اور متشدد ذرائع سے معلومات حاصل  کرنا ایک معمولی عمل قرار دیا گیاکیونکہ ریاست اور عوام کی بقا سب سے اہم تھی۔ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق ان حالات میں ریاست کی بقا سے جڑے ہوئے ہیں۔ تشدد کو تشدد سے ختم کرنے کے اصول میں نہ تو کوئی معیار ہوتا ہے اور نہ ہی اصول۔ لیکن یہ سوال کہ ہم قانون کی حکمرانی کے بغیر تحفظ اور سلامتی کو قائم کر سکیں گے، نے عام آدمی سے لے کر اعلیٰ عدالتی حلقوں تک کو سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ اسی سوال نے جمہوری ریاست کے مختلف اداروں میں اختلاف ِ رائے کو پروان چڑھایا ۔ ایک طرف عوام اور ان کے نمائندے دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے ہر قدم کو جائز قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اس جنگ کو اسی حد تک ہی جائز قرار دیتی ہیں جہاں یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرتی ہو۔ اس کشمکش سے نبرد آزما ہونا اگرچہ مقننہ اور انتظامیہ کا کام ہے لیکن مقننہ کو اپنے فیصلوں کے لئے عدلیہ کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے کیونکہ عدلیہ ہی جمہوریت اور آئین کی حفاظت اور نگرانی کی ذمہ دار ہے۔

 جدید جمہوری نظام میں عدلیہ نے نہ صرف جمہوریت کو دہشت گردی سے بچانا ہے بلکہ ان طریقہ کار سے بھی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری دہشت گردی کے وقت میں ایک امتحان کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ اگر دہشت گردی کے دوران اس امتحان میں کامیاب نہ ہوں تو پھر امن کے دور میں عدالتیں اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو جائیں گی۔ دہشت گردی اور امن کے دوران انسانی حقوق کی حیثیت مختلف نہ ہو سکتی ہے اور اسی لئے قانونی فیصلہ جات دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن کے ادوار کے لئے مختلف نہ ہو سکتے ہیں اور ایسا سوچنا بھی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہو گا۔ دہشت گردی کے دوران عدلیہ کے غلط فیصلے جمہوریت کا حصہ بن جاتےہیں اور یہ دہشت گردی کے ختم ہو نے کے بعد کے ادوار میں بھی استعمال ہوتے رہیں گے۔ دوسرے اداروں کے فیصلوں کو قانون سازی یا پالیسی کے تحت ختم کیا جا سکتا ہے اور ان کے فیصلے عدلیہ کے فیصلوں کی طرح مستقبل کے لئے بوجھ نہیں ہوتے۔ جمہوریت میں عدلیہ کی آزادی بنیادی اصول ہے اور اس اصول کو عوامی رائے کے تناظر میں پرکھا نہ جا سکتا ہے کیونکہ عوامی رائے کشمکش کے دور میں بنیادی اصولوں کو اہمیت کے قابل نہ سمجھتی ہے۔ عدلیہ کو ہر حال میں بنیادی اصولوں اور اقدار سے وفاداری کرنا ہوتی ہے تاکہ جمہوریت اور آئین کی حفاظت ہو سکے۔ 

دوسری جنگ عظیم کے دوران ۱۹۴۱ میں لورڈ ایٹکن نے فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ "انگلستان میں ہتھیاروں کی لڑائی کے دوران قوانین خاموش نہ ہیں۔ اگرچہ قوانین بدلے جا سکتے ہیں لیکن جنگ اور امن میں وہ ایک جیسی زبان بولتے ہیں۔ آج ہم اسی آزادی کے ستون کی خاطر لڑ رہے ہیں.جج, عوام کو ان کی آزادی کے اوپر ہونے والے حملوں سے بچاتے ہیں اور ہر وقت یہ دیکھنے کے لئے تیار رہتے ہیں کہ کوئی جبری عمل قانون کے مطابق ہے کہ نہیں۔" ایک مشہورِ زمانہ کہاوت ہے کہ جب توپیں دھاڑتی ہیں تو تدبیریں خاموش ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح سِسرو نے کہا تھا کہ "جنگ کے دوران قوانین خاموش ہوتے ہیں۔ " یہ دونوں باتیں قانون اور آئین کی بالادستی سے قبل کی ہیں اور ہمارے آج کے جمہوری ادوار کی آئینہ دار نہ ہیں۔ آج کے دور میں ہر ریاست کو قومی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق چلنا ہوتاہے۔ اب کوئی "کالے گھڑے" نہ ہیں۔ قانون کو تدبر کی فوری طور پر اس وقت ضرورت ہوتی ہے جب توپیں چلنا شروع  ہو جائیں۔ سوسائٹی کا اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کی وجہ وہ اقدار ہیں جن کی وہ حفاظت کرنا چاہتی ہے اور ان اقدار میں قانون کی حکمرانی بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ قانون کے دائرے سے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر لڑی جا سکتی ہے۔ 

ریاست اور اس کے دشمنوں کے درمیان جنگ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست قانون کی سر بلندی کے لئے جنگ لڑتی ہے جبکہ اس کے دشمن قانون کی پامالی کے لئے۔ قانون کی سر بلندی سے بڑا کوئی اخلاقی جواز نہ ہے اور اخلاقی جواز ہی جنگ میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جمہوریت کی جنگ کو بیان کرتے ہوئے جسٹس کربی نے کہا کہ یہ جنگ ضرور لڑی جائے لیکن توازن کے ساتھ جمہوری طور طریقوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ آئین اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے مشکوک افراد کے قانونی حقوق کو پامال نہ ہونے دیا جائے۔ جمہوری قوموں کو دہشت گردی کے خلاف کوشش دو متضاد اقدار اور اصولوں کے درمیان توازن رکھ کر کرنی چاہیے۔ ایک طرف ریاست اور اس کے شہرِیوں کی سیکورٹی کے متعلقہ اصولوں اور اقدار کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ انسانی حقوق کو ریاستی تباہی کے لئے سٹیج کے طور پر استعمال نہ کر سکتے ہیں اور آئین قومی خود کشی کا نسخہ نہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہمیں انسانی آزادی اور وقار کے متعلقہ اصولوں اور اقدار کو بھی دیکھنا ہو گا۔  قومی تحفظ کے نام پر انسانی حقوق کو ہر کیس اور ہر حالت میں قربان نہ کیا جا سکتا ہے۔ 

قومی تحفظ ایک عام آدمی کو نقصان پہچانے کا لا متناہی لائسنس نہ ہے۔ جمہوری قوموں کو ان دو متضاد اصول و اقدار کے درمیان توازن کو ڈھونڈ نکالنا ہو گا۔ کوئی بھی راستہ یا اصول اٹل نہ ہے ۔ کینیڈین سپریم کورٹ کے جسٹس آئیکوبیسی اور آرپر نے اس توازن کی ضرورت کا اظہار ان حالات میں کیا ہے "دہشت گردی کے خلاف جمہورتوں کی جنگ کا بڑا چیلنج یہ نہ ہے کہ رد عمل دیا جائے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیسے دیا جائے۔ یہ اس لیے ہے کیوں کہ کینیڈین انسانی زندگی اور آزادی کو اہمیت دیتے ہیں۔ دہشت گردی یقینی طور پر اس ماحول کو بدل دیتی ہے جس میں قانون کی حکمرانی پر عملدرآمد ہونا ہوتا ہے لیکن یہ قانون کی دستبرداری کا بھی نہیں کہتی۔ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قانون کی حکمرانی کو بحال رکھنا ضروری ہے، لیکن آئین بھی خود کشی کا معاہدہ نہ ہے۔۔۔۔۔۔جمہوری ریاست کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چیلنج یہ ہے کہ دہشت گردی کے جواب میں متاثر کن ردعمل دیتے ہوئے مناسب طور پر بنیادی اقدار اور قانون کی حکمرانی کو بحال رکھا جاےُ۔" 

امریکن سپریم کورٹ کی جج، جسٹس اوکانر نے حامدی کیس میں فرمایا کہ " متقابل ضروریات میں توازن کا عام طریقہ کار، جس میں ضروری ہے کہ کسی شخص کو زندگی، آزادی اور جائیداد سے بغیر قانونی طریقہ کار کے محروم نہ کیا جائے، یہی ہے کہ قومی سلامتی اور عام انسانی حقوق کو ترازو میں برابر تولا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کی تفتیش بھی انہیں تفتیش کے اصولوں پر کی جائے جو عام ملزموں کے لئے متعین ہے۔ جسمانی تشدد اور بلا جواز قید کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو سکتے ہیں۔ سیکورٹی اور آزادی کے درمیان توازن ٹوٹ جاتا ہے اگر سیکورٹی یا انسانی حقوق میں سے کسی ایک کو فوقیت دی جائے۔ توازن اور مفاہمت ہی جمہوریت  کی قیمت ہیں۔ ایک مضبوط، محفوظ اور مستحکم جمہوریت انسانی حقوق کی حفاظت کر تی ہے اور انسانی حقوق کی بنیاد پر تعمیر شدہ جمہوریت ہی سیکورٹی اور امن و امان دے سکتی ہے۔ یہ قیمت اگرچہ مہنگی ہے لیکن گوارہ ہے۔ یہ ریاست کو مضبوط کرتی ہے اور لڑنے کا جواز بھی مہیا کرتی ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ توازن کا یہ اصول امن و امان اور دہشت کے دور میں مختلف نہیں ہو سکتا۔ جہاں آزاد عدالتوں اور عدالتی معائنہ کا اصول متعین ہے وہاں روزن سیاہ نہ ہوتے ہیں۔ عدالتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہوتی ہیں اور قانونی نمائندگی کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ جہاں عدالتوں کا کھلا ہونا اہمیت کا حامل ہے وہاں عدالتوں کے  عمل دخل کا وقت بھی بہت ضروری ہے۔ عدالتی کاروائی کو جنگ کے بعد تک موخر نہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ انسانوں کی زندگیاں اور قسمت جنگ کے وقت میں لٹک رہی ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کی حفاظت دیوالیہ ہو جائے گی اگر عدالتیں جانے یہ انجانے میں جنگ کے دوران لائے ہوئے مقدمات کو جنگ کے ختم ہونے تک موخر کر دیں گی۔

چیف جسٹس رینکویسٹ اور جسٹس برینن اسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔ عدالتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار پر کوئی نقطہ نظر نہ رکھ سکتی ہیں کیونکہ یہ لائحہ عمل  بنانا اور اختیار کرتا دوسرے حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ جب تک یہ ادارے معقولیت کے دائرے میں رہیں گے عدالتیں عمل دخل نہ کریں گی۔ سیکورٹی ضروریات البتہ کوئی جادوئی الفاظ نہ ہیں اور عدالتوں کو وہ سیکورٹی ضروریات جاننے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی وجہ سے حکومت نے ایکشن کا فیصلہ کیا۔ عدالتیں یہ بھی دیکھ سکتی ہیں کہ آیا فوجی ایکشن شہریوں کو ضرر پہنچانے میں معقول ہے کہ نہیں۔ قانونی تقاضوں کو دیکھنا عدالتی دائرہ کار میں ہے اور وہی اس کی اہلیت رکھتی ہیں۔ فوجی کاروائی کا فیصلہ اور اسکی دانشمندی عدالتی نگرانی سے باہر ہے لیکن اس فوجی کاروائی کی قانونی حیثیت دیکھنا صرف عدالت کے اثر میں ہے اور عدالتیں یہ دیکھ سکتی ہیں کہ آیا یہ کاروائی انسانی ہمدردی کے قوانین کے مطابق چل رہی ہے اور اس میں علاقائی اور بین الاقوامی قوانین کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ نہیں۔ عدالتی نظر ثانی کو نقاد دو طرح سے رد کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس عدالتی نظر ثانی  سے متاثر ہوتی ہے اور دوسرا عدالتی نظر ثانی حکومتی عمل کو بلاوجہ قانونی حیثیت مہیا کرتی ہے۔ یہ دونوں نکتہ نظر اس لحاظ سے غلط ہیں کہ عدالتی نظر ثانی اگرچہ اس جنگ کو مشکل بناتی ہے لیکن اس کے دور رس اثرات یہ ہیں کہ یہ لوگوں کو مضبوط بناتی ہے۔ قانون کی حکمرانی قومی سیکورٹی کا بنیادی عنصر ہے اور اس کے بغیر امن و امان نا ممکن ہے۔

 کہتے ہیں کہ بادشاہ جیمز اور جسٹس کوک میں جھگڑا پڑ گیا۔ سوال یہ تھا کہ آیا بادشاہ عدالتی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔  پہلے تو جسٹس کوک نے بادشاہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جج کا کام کرنے کے لئے مطلوبہ علم ہونا چاہیے اور وہ بادشاہ کے پاس نہ ہے۔ بادشاہ مطمئن نہ ہوا تو جسٹس کوک اٹھے اور کہا کہ " بادشاہ کسی انسان کے محکوم نہ ہیں، لیکن وہ خدا اور قانون کے محکوم ہیں۔ لیجیے ایسے ہی سہی۔" بالکل اسی طرح سیکیورٹی ضروریات جو ریاستی ادارے اپناتے ہیں وہ خدا اور قانون کے محکوم ہیں۔ حتمی نتیجہ یہی ہے کہ یہ محکومیت جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو قابل قدر بناتی ہے اور عوام کا اعتماد ریاستی اداروں پر بڑھتا ہے۔ ان حالات میں ریاست چاہے جیتے یا ہارے قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کا بول بالا ہوتا ہے۔ جمہوری ریاست میں "طاقت کے توازن" کو براہ راست "طاقت کی تقسیم" سے جوڑا جاتا ہے اور یہ طاقت ریاست کے تین اداروں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ میں تقسیم ہوتی ہے۔ 

ان تینوں اداروں کو ایک خاص دائرہ کار میں پابند کیا جاتا ہے۔ جہاں جہاں "طاقت کے توازن" میں رخنہ پڑتا ہے وہاں طاقت کے انتشار کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ انتشار قومی سلامتی اور انسانی حقوق کی پامالی کا جہاں سبب بنتا ہے وہاں آئین کی بالا دستی صرف باتوں کی حد تک محدود ہو جاتی ہے۔ جمہوریت کے اندر جہاں تینوں اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہیں وہاں ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنی طاقت اور حدود کا حاسدانہ دفاع کریں۔ یہ دفاع اس ادارے کی ساکھ کے لئے جہاں ضروری ہے وہاں یہ آئین اور بنیادی حقوق کی سر بلندی کے لئے بھی اہم ہے جس سے عوام فوائد حاصل کرتے ہیں اور ان کا اعتماد ان اداروں پر قائم رہتا ہے۔ عدالتوں کا کردار اس حوالے سے بنیادی ہے کیونکہ وہ معاشرتی رواج , اقدار اور آئینی معیار کی محافظ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ لا پتہ افراد کے حوالے سے اور دوسرے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے جرتمندانہ فیصلے ہوئے ہیں لیکن "طاقت کے توازن" کی خاطر ابھی یکساں قانونی فلسفہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

اس مضمون کا زیادہ تر حصہ جسٹس آہرون براک کی کتاب "دی جج ان ڈیموکریسی" سے ماخوذ ہے۔

No comments:

Post a Comment