از
ٹیپو سلمان مخدوم
ہانز کیلسن ۱۸۸۱ سے ۱۹۷۳، آسٹریا کے ایک یہودی وکیل تھے۔ آپ
نے آسٹریا کا آئین بھی تحریر کیا اور وہاں کی عدالتِ اعظمیٰ کے جج بھی مقرر ہوئے۔
۱۹۴۰ میں وہ امریکہ جا کر رہائش پذیر ہو گئے اور مختلف یونیورسٹیوں میں درس و
تدریس سے منسلک رہے۔آپ کے خالص نظریہء قانون کا ذکر پاکستان کے متعدد آئینی فیصلوں
میں ملتا ہے۔ ان میں سے چند مشہور فیصلے سرکار بنام دوسو PLD
1958 SC 533 عاصمہ جیلانی بنام حکومتِ پنجاب PLD 1972 SC 139 اور بیگم نصرت بھٹو
بنام چیف آف آرمی سٹاف PLD
1977 SC 657 ہیں۔
کیلسن نا صرف ایک ماہر قانون تھے بلکہ اعلیٰ پائے کے فلسفی
بھی تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ فلسفہء قانون بذات خود ایک مکمل اور منفرد علم ہے جو
کہ دوسرے معاشرتی علوم مثلاً سیاسیات ، معاشیات وغیرہ سے ہٹ کر اپنے آپ میں ایک
مکمل مضمون ہے۔ لہٰذا اس کا بیانیہ بھی ایک خود مختار علم کے طور پر کامل ہونا
چاہیے۔ اپنے اس نظریے کے تحت انہوں نے علم القانون کا ایک وسیع اور مکمل فلسفہ
تشکیل دیا۔ اس تشکیل میں کیلسن نے اٹھارویں صدی کے مشہور جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ
کے نظریات سے بھی سیر حاصل استفادہ کیا۔
فلسفہ ء قانون کے دوسرے مکاتبِ فکر کے برعکس کیلسن نے یہ
انقلابی نظریہ پیش کیا کہ قانون کا نہ تو وجود اور نہ ہی اس کا استعمال کسی بھی
طرح نظریہ ء انصاف سے منسلک ہے۔ اس کے مطابق انصاف ایک فلسفیانہ نظریہ ہے جبکہ
قانون ایک عملی سائنس کا درجہ رکھتا ہے۔
کیلسن قانون کو خالص علمی نظرسے پرکھتا ہے۔ وہ قانون کا مطالعہ،
قانون کے نظام کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کے لئے کرتا ہے نہ کہ اس لئے کہ قانون
کو کسی خاص نظامِ فلسفہ کے موزوں کیا جا سکے۔ کیلسن قانون کو کسی بھی خارجی
معاشرتی اثرات کے بغیر ایک مکمل اور خود مختار نظام کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ کیلسن قانون کا ایک حکم کے طور پر انکار کرتا ہے۔ اس کے مطابق قانون کو کسی
حاکمِ اعلیٰ کے حکم کے طور پر دیکھنے سے اس میں داخلی اور سیاسی افکار کی ملاوٹ ہو
جائے گی۔
سب سے پہلے کیلسن فلسفہءقانون یا اصولِ قانون کے علم کو
خالص سائنس سے یوں ممتاز کرتا ہے کہ اس کے مطابق خالص سائنس کا مطالعہ علت و متحرک
پر مبنی ہوتا ہے جس کا حاصل یہ بیان کرنا
ہوتا ہے کہ ایک قسم کے عمل کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔ جبکہ قانون کا مقصد ایسے ضوابط
و معیار مقرر کرنا ہوتا ہے جن کے مطابق عمل کرنا عوام پر لازم ہو۔
مطالعہ ءقانون کا واحد مقصد ان ضوابط و معیار کی ماہیت کا
ادراک حاصل کرنا ہوتا ہے۔
کیلسن کے مطابق قانون سیاسی حکمران کا حکم نہیں بلکہ ریاست
کی نظریاتی شکل ہے۔ اس نظریہ کے مطابق قانون جب ایک مکمل اور عملی نظامِ ضوابط کی
شکل اختیار کرتا ہے تو اس کا ظہور بطور ریاست ہوتا ہے۔ قانون کی تخلیق، تصفیہ اور
نفاذ کے نظام کو ہم نظامِ قانون کہتے ہیں جبکہ یہی کام جب مقننہ، عدلیہ اور
انتظامیہ کے ادارے سر انجام دینے لگ جائیں تو اس نظام کو ہم ریاست کہہ دیتے ہیں۔
دراصل یہ دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔
ضوابطوں کےقوانین ہونے یا نہ ہونے کا تعین ان کے مواد کی بنا پر نہیں ہو سکتا کہ
قوانین ہر قسم کے موضوع پر وضع کئے جا سکتے ہیں۔ قوانین کو انصاف کی بنیاد پر بھی
نہیں پر کھا جا سکتا کہ کئی قوانین غیر منصفانہ ہوتے ہوئے بھی قوانین رہتے ہیں۔
کیلسن کے مطابق انصاف ایک ایسا غیر منطقی نظریہ ہے جس کی
سائنسِ خالص قانون میں کوئی جگہ نہیں۔
کیلسن کے خالص نظریہء قانون کے مطابق قانون ہمیں یہ نہیں
بتاتا کہ کیا ہو گا، بلکہ یہ کہ کیا ہونے کا امکان ہے۔ لیکن کسی بھی نظام قانون کے
قائم ہونے اور رہنے کے لئے ان امکانات کا کم از کم ایک حد تک پورا ہونا ضروری ہے۔
خالص نظریہء قانون کے مطابق ہر قانون دراصل ایک ضابطہ ہوتا
ہے۔ ایک غیر قانونی ضابطہ اور ایک قانونی ضابطہ میں فرق یہ ہے کہ قانونی ضابطہ کی
پشت پر ایک دوسرا قانونی ضابطہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے پہلا ضابطہ قانونی ضابطہ کی
شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً الف کی قید کی سزا اس لئے قانونی ہے کہ یہ ایک
قانونی عدالت نے سنائی ہے۔ عدالت اس لئے قانونی ہے کہ قانونی ضابطہ فوجداری کے تحت
وجود میں آئی ہے۔ ضابطہ فوجداری اس لئے قانونی ہے کہ اسے ایک قانونی قانون ساز
اسمبلی نے تشکیل دیا ہے۔ قانون ساز اسمبلی اس لئے قانونی ہے کہ یہ ایک قانونی آئین
کے تحت معرضِ وجود میں آئی ہے۔
مگر ایک آئین کی پشت پر کوئی قانونی ضابطہ نہیں ہوتا جو
آئین کو ایک غیر قانونی ضابطہ سے قانونی ضابطہ میں تبدیل کر دے۔ لہٰذا خالص نظریہء
قانون کے مطابق یہاں آئین بنیادی ضابطہ ہے جس سے پورے نظامِ قانون کے ضوابط قانونی حیثیت اخذ کرتے
ہیں۔ مگر بنیادی ضابطہ اپنی حیثیت کسی قانونی ضابطہ سے اخذ نہیں کرتا۔ خالص
نظریہءقانون اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ بنیادی ضابطہ اپنی حیثیت کیسے حاصل کرتا
ہے۔ خالص نظریہ کے مطابق نظام قانون کی شروعات بنیادی ضابطہءقانون سے ہوتی ہے۔
لہٰذا فلسفہء قانون کا کام یہاں سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اس سے پیچھے فلسفہءقانون نہیں
جا سکتا۔ لہٰذا یہ بات جاننا کہ بنیادی ضابطہءقانون کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما
ہیں، یہ فلسفہءقانون نہیں بلکہ کسی دوسرے علم کا منشا ہو گا۔ اب وہ چاہے علمِ
سیاسیات ہو یا کوئی اور علم القانون کا بہرحال اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اس نظریہ کے مطابق بنیادی ضابطہ اپنی حیثیت سیاسی
انقلاب سے بھی لے سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment