Monday 3 July 2017

بے غیرت کتے : کہانی


از

ٹیپو سلمان مخدوم




وہ ایک کتا تھا۔ بے غیرت اس لئے تھا کہ اپنی بہن کے ساتھ سوتا تھا۔ کیا کہا جا سکتا ہے، جانور تھا کوئی ذات دھرم کو ماننے والا تو تھا نہیں۔ نہ کوئی اصول نہ شرم و حیا۔ اسے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بھائی یہ بے غیرتیاں تمہارے جنگل میں بے شک معمول ہوں گی مگر یہ جنگل نہیں مہذب معاشرہ ہے۔ نہ ہی اسے سائنس کی منطق سے قائل کیا جا سکتا تھا کہ ایسے عمل سے اجتناب کرو ورنہ اگلی نسلوں میں موروثی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، ہماری کزن میرج نہیں دیکھتے؟


اگرچہ کتوں کے منہ کوئی بھی نہیں لگنا چاہتا،  مگر یہ بھی نہیں تھا کہ کسی نے اسے آداب معاشرت سکھانے کی کوشش نہ کی تھی ۔ بڑی جوتیاں اور ڈنڈے مارے گئے۔ پتھر اور اینٹیں بھی برسائیں گئیں اس بے حیا جوڑے پر، مگر بے سود۔ وہ باز نہ آئے۔ جب مار پیٹ کے بعد بھی کچھ نہ بنا تو لوگ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اب محلے میں صلاح مشورے ہونے لگے کہ اس بے غیرتی کو کس طرح روکا جائے؟ ہر ایک ترکیبیں بتانے لگا مگر دبی دبی زبان میں۔ کوئی بھی کھل کر اس موزوع پر بات نہ کرنا چاہتا تھا مبادہ کوئی اس پر آوازہ کس دے کہ واہ بھئی تم تو بے غیرتوں کی رگ رگ سے واقف ہو، اور پھر اس کا ٹھٹھہ لگ جائے۔ مگر کسی سے چپ بھی نہ بیٹھا جا رہا تھا۔ آخر کو ان کی عزت کا سوال تھا۔ اب تو محلے کی لڑکیوں نے بھی گلی سے گزرتے ہوئے ان کو دیکھ کر دوپٹا منہ میں دے کر کھی کھی کرنا شروع کردیا تھا۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اور اب جب کہ بات پھیلنے لگی تھی تو سب کو یہ دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں یہ بات محلہ سے باہر نہ نکل جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو سارے محلہ کی ناک کٹ جاتی ۔ سب تھو تھو کرتے ان کی غیرت پر۔

بڑی کشمکش میں گرفتار ہو گئے تھے سب ۔ یہ کتے کے بچے محلے کے سورگواسی سادھو کے چہیتے کتے کی اولاد تھے۔ سادھو مہاراج کی ناراضگی کے ڈر سے وہ ان کا قتل کرنےسے کترا رہے تھے، غیرت کے نام پر بھی ۔ اور محلہ وہ بے غیرت اتنی مار کھانے کے با وجود چھوڑ کر نہیں جا رہے تھے۔ 

تگڑو اور مگڑو محلے میں رہنے والے جڑواں بھائی تھے۔ چونکہ جڑواں تھے اس لئے دونوں ہی آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ دونوں کی خوب دوستی تھی ۔ چار بہنوں کے بعد ہوئے تھے اس لئے گھر میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے بھی تھے۔ آٹھویں میں آنے کے بعد ان کی دوستی اور بھی زیادہ ہو گئی تھی ۔ سارا دن علیحدہ بیٹھے ہنستے رہتے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چھت پر آتے جاتے دکھائی دیتے اور کھانا کھاتے ہی بستر میں گھس جاتے اور پھر رات گئے تک جانے کیا کھسر پھسر اور کھی کھی کرتے رہتے۔ بے غیرت کتوں کی آمد نے  ان کو ایک نئی دلچسپی فراہم کر دی تھی ۔ اب سارا دن وہ اس ٹوہ میں رہتےکہ بے غیرت جوڑے کو نازیبا حرکات کرتے دیکھیں اور پھر مذاق کرتے اور ایک دوسرے کو چٹکیاں کاٹتے بھاگتے پھریں۔

ہر وقت بے غیرت کتوں کی باتیں ہوتے رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کتوں کی بے غیرتی محلے والوں کے ذہنوں پر سوار ہو گئی۔ یہاں تک کہ ان میں سے کئی لوگوں کو گندے گندے خواب بھی آنے لگے۔ بگے کو خواب آیا کہ اس کا افسر اپنی بہن کے ساتھ سو رہا ہے۔ اس دن وہ خوش خوش اٹھا اور دفتر میں سب چپڑاسیوں کو یہ خواب خوب نمک مرچ لگا کر، مگر محلے کے کتوں کا سیاق و سباق حذف کر کہ سنایا۔ سب بہت محظوظ ہوئے۔ جمرو کو بھی ایسا ہی ایک خواب آیا مگر اس کو جاگنے کے بعد دو دن تک متواتر متلی محسوس ہوتی رہی، کیونکہ اس نے خواب میں اپنے آپ کو اپنی ہی بہن کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔ 

دو دن تو جمرو کی طبیعت خراب تھی لہٰذا اس نے کسی سے زیادہ بات نہ کی ۔ صبح سویرے ہی اٹھ کر جلدی جلدی تیار ہوتا اور کالج بھاگ جاتا۔ کلاسیں ختم ہونے کے بعد بہانے سے کسی نہ کسی دوست کو روک لیتا اور شام ڈھلے گھر جاتا۔ جاتے ہی کتابیں کھول لیتا اور پھر تھوڑا بہت کھانا زہر مار کر کہ جلدی سے بستر میں گھس جاتا۔ دو دن بعد متلی تو ختم ہو گئی مگر جمرو نے اپنا یہ معمول جاری رکھا۔ جب سے اس نے وہ گندا خواب دیکھا تھا اسے بہن کے خیال سے ہی گھن آتی تھی۔ جمرو کوشش کرتا کہ بہن سے ٹاکرا نہ ہو، لیکن وہ جتنی بھی کوشش کرتا، گھر میں رہتے ہوئے یہ نا ممکن تھا۔ جمرو جو پہلے بہن کو دیکھتے ہی کھل اٹھتا تھا، اب بجھ سا جاتا۔ اس کا جی کرتا کہ بہن سے اس کی بات ہی نہ ہو، اگر ہو تو مختصر اور کسی گھر والے کی موجودگی میں۔ بہن کے ساتھ  اس کا رویہ اچانک گھٹا گھٹا سا، اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا تھا۔ 

 ایک دن چھانی دروازے میں بیٹھی چاول چن رہی تھی کہ ایک سادھو آگیا۔ سوائے ایک چھوٹے سے جانگیے کے بالکل ننگا۔ پہلی بار نہ آیا تھا۔ جب بھی آتا آواز نہ لگاتا، جو نظر آ جاتا اس کے سامنے جھولی پھیلا دیتا۔ کوئی بھیک دے دیتا تو ٹھیک، ورنہ چپ چاپ دوسرے کے آگے جھولی پھیلا دیتا۔ تین لوگ بھیک نہ دیتے تو چپ چاپ چلا جاتا۔ جب تک تین لوگوں سے بھیک نہ مانگ لیتا چپ چاپ کھڑا انتظار کرتا رہتا۔ بھیک بھی اپنی مرضی کی لیتا۔ ایک مٹھی اناج اور ایک مٹھی دال یا دو آلو کے برابر سبزی۔ کوئی کم دیتا تو چپ چاپ دوسرے کے پاس جاکر جھولی پھیلا دیتا۔ اور اگر کوئی زیادہ دینا چاہتا تو "اوم" کی ایک لمبی سی صدا لگا کر کہتا، پہلے سانس اکھٹا کر لوں، پھر اناج بھی جمع کر لوں گا۔ اور دو مٹھیوں کی بھیک لے کر چلا جاتا۔ 

ننگے سادھو کو دیکھ کر چھانی کا دل بھر آیا۔ یہ بھگوان کا نیک بندہ ہے، جنسی تعلقات سے انہوں نے زندگی بھر کا جوگ لیا ہوتا ہے، بڑے پاکیزہ لوگ ہوتے ہیں یہ۔ننگا سادھو ضرور کوئی اپائے کرے گا، اس نے سوچا۔ اپائے محلے والوں نے سوچ رکھا تھا، اس بے غیرت جوڑے کا قتل، مگر کسی سادھو سنت کی آشیرباد کے بغیر سادھو کے چہیتے کتے کے بچوں کو مارنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ "سادھو مہاراج کو میں ان کی ساری بے شرمیاں بتاوں گی اور وہ ضرور جلال میں آ کر ان کو جان سے مارنے کی اچھا کا اظہار کریں گے اور ہماری اس بے غیرتی سے جان چھوٹے گی"۔ جلدی جلدی ساڑھی کا پلو ٹھیک کر کہ اس نے چاول کا چھابا رکھ دیا اور اندر سے دال بھر مٹھی لے آئی۔ اس وقت گلی میں اور کوئی نہ تھا لہٰذا ننگا سادھو سیدھا چھانی کی طرف ہی آیا۔ ابھی سادھو چار پانچ گھر دور ہی تھا کہ بے غیرت کتوں کا جوڑا اٹھکیلیاں کرتا کہیں سے نکلا اور سادھو کو پہچان کر اس کے پاوں چاٹنے لگا۔ ننگا سادھو وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور ان سے لاڈ کرنے لگا۔ اور جب کھیلتے لھیلتے ہی ان بے غیرتوں نے سادھو کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو بھی نازیبا طریقے سے چاٹنا شروع کر دیا تو وہ ہنسنے لگا۔ "ارے تم بدمعاشوں نے آپس میں ہی جوڑا بنا لیا ہے؟" چند ساعتیں ان سے کھیلنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا، "چلو ہٹو، مجھے جانے دو اب"، وہ انہیں پیار سے دھکیل کر چھانی کے گھر کی طرف بڑھا، مگر چھانی اندر جا چکی تھی۔



2 comments:

  1. Alfaz ka chunao bht hi umda MashaAllah@@@@@@@ besides it ur every story depicts ur true observation of the society @@@ keep writting sir

    ReplyDelete