از
ٹیپو سلمان مخدوم
رونلڈ ڈوارکن (Ronald Dworkin) اصول
قانون کے امریکی پرفیسر تھے جو امریکہ کی ییل اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹیوں
میں اصول قانون (Jurisprudence) پڑھاتے
تھے۔ آپ کی وفات 2013 میں ہوئی۔ آپ کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا قانونی
فلسفی مانا جاتا ہے۔ مقدموں کے فیصلوں سے متعلق پرفیسر ڈوارکن نے بہت
کچھ کہا ہے جس میں سے چند دلچسپ خیالات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ایک جج کے پاس تقریباً
ہر مقدمہ میں صوابدید (Discretion)
ہوتی ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔ کسی مقدمہ میں یہ صوابدید زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں
کم۔
کچھ مقدمات ایسے حقائق
پر مبنی ہوتے ہیں کہ اسی طرح کے معاملوں پر پہلے بھی لوگوں کے جھگڑے ہو چکے ہوتے
ہیں اور یہ مقدمات عدالتوں میں فیصلہ کئے جا چکے ہوتے ہیں۔ پچھلی عدالتوں نے یہ
جھگڑے سلجھاتے ہوئے کچھ اصول وضع کر دئے ہوتے ہیں جو پریسیڈینٹ (Precedent) کے
طور پر تمام عدالتوں پر قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں۔ ایسے مقدمات میں جج صاحبان کے
پاس بہت کم صوابدید ہوتی ہے۔ وہ صرف یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ پچھلے فیصلوں میں وضع
کردہ اصول زیر نظر مقدمہ میں کس حد تک لاگو ہونا چاہیے۔
مگر بہت سے ایسے مقدمات
بھی جج صاحبان کے سامنے آتے ہیں جو اپنی نوعیت کے منفرد حقائق پر مبنی ہوتے ہیں
اور اس سے پہلے کسی عدالت میں اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ نہ کیا گیا ہوتا ہے۔ ایسے
مقدمات میں جج صاحبان نے پہلے وہ اصول وضع کرنے ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ مقدمہ
کا فیصلہ کریں گے اور پھر اس اصول کو مقدمہ کے حقائق پر لاگو کر کہ فیصلہ
کرنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے مقدمات میں جج صاحبان کے پاس بہت زیادہ
صوابدید ہوتی ہے۔
قانونی معاملہ سازی ایک
خاص طرح کا طریقہ ہے جس میں قوائد (Rules) سے زیادہ اصول (Principles)
اہمیت رکھتے ہیں۔ قوائد جمہوری طور پر منتخب مقننہ بناتی ہے جبکہ اصول عدلیہ کی
طرف سے وضع کئے جاتے ہیں۔
قائدے اور اصول میں
مندرجہ ذیل فرق ہوتے ہیں:
ا) قائدہ یک دم تعمیر کر
کہ لاگو کیا جاتا ہے جبکہ اصول ایک ہی طرح کے پے در پے عدالتی فیصلوں سے اخذ کئے
جاتے ہیں۔
ب) قائدہ یا لاگو ہوتا
ہے یا نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ قائدہ کسی حد تک قابل اطلاق ہو۔ جبکہ اصول
اپنا وزن رکھتے ہیں۔ یہ پورے کہ پورے یا پھر کسی حد تک لاگو ہو سکتے ہیں۔
ج) قوائد متضاد نہیں ہو
سکتے۔ اگر دو قائدے باہم متضاد ہیں تو ان میں سے ایک قائدہ لازماً فاسق ہو گا۔
جبکہ اصول باہم متضاد ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک مقدمہ میں دو متضاد اصول لاگو ہوتے ہوں
تو جج صاحب نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سے اصول کا اطلاق ہونا چاہیے،
اور کس حد تک۔
صحیح فیصلہ کرنے کے لئے
جج صاحبان قوائد کو اصولوں کے پس منظر میں دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔
امریکہ میں ۱۸۸۹ میں ایک مقدمہ عدالت
میں لایا گیا۔ اس مقدمہ میں ملزم پر الزام تھا کہ اس نے اپنے دادا کو زہر دے کر
قتل کیا ہے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ الزام درست تھا اور ملزم کو قتل کے عوض
قید کی سزا سنائی۔ ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا مجرم اپنے دادا کی وصیت کے
مطابق اس کی جائیداد کا حقدار ہو گا یا کہ نہیں؟ وقت کا قانون صرف یہ کہتا تھا کہ
مرنے والے کی جائیداد وصیت کے مطابق منتقل کی جائے۔
عدالت کے اقلیتی فیصلہ
کے مطابق جائیداد مجرم کو ملنی چائیے تھی کیونکہ وصیت کا قانون یہ قدغن نہ لگاتا
تھا کہ قاتل وصیت سے عاق ہو جائے گا۔
مگر عدالت کے اکژیتی
فیصلہ کے مطابق یہ جائیداد مجرم کو نہ دی گئی کیونکہ گو عائد قائدہ تو یہ کہتا تھا
کہ جائیداد وصیت کے مطابق دی جائے اور اس حساب سے قاتل بھی جائیداد کا حقدار ٹھرتا
تھا، مگر مروجہ اصول کے مطابق مجرم اپنے جرم کا فائدہ حاصل نہ کر سکتا تھا۔ لہٰذا
قائدے کو اصول کے پس منظر میں پرکھتے ہوئے عدالت نے فیصلہ کیا کہ قائدہ کی خالی
جگہ اصول پر کر دیتا ہے اور قائدہ کا اس بات پر خاموشی کہ قاتل کو وصیت کی
جائیداد ملے یا نہیں مروجہ اصول کو ساتھ ملا کر پڑھنے سے واضع ہو جاتی ہے۔
عدالتی فیصلے قسط وار
ڈراموں کی طرح ہونے چاہیں؛ جہاں ہر نئی قسط پچھلی قسط کے تسلسل میں بھی ہو مگر نئے
حالات کے مطابق کہانی کو اگے بھی بڑھائے۔
یوٹیلیٹیریئنزم یعنی
زیادہ تر لوگوں کا زیادہ تر فائدہ ایک خطرناک فلسفہ ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق زیادہ
لوگوں کے فائدے کے لئے ایک یا کچھ معصوم لوگوں کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ یہ غلط
ہے۔ حقوق فائدے پر فوقیت رکھتے ہیں۔ کتنے ہی لوگوں کے فائدے یا کسی بھی اعلیٰ یا
مقدس کام کے لئے کسی ایک بھی شہری کے حقوق پامال نہ کئے جا سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment