از
ٹیپو سلمان مخدوم
جب روسٹرم پر پہنچ کر
وکیل صاحب نے فائلیں سیدھی کیں اور کہا، "جناب والا، میرے مؤکل پر ایک جھوٹا
مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے جرم سے میرے مؤکل کا کوئی تعلق نہیں" تو
یہ وکیل صاحب کا مقدمہ میں پہلا جملہ تھا۔
اس سے پچھلے مقدمہ میں تاریخ پڑتے ہی عدالت کے ریڈر نے ہرکارے کو اشارہ کیا جس نے دروازے پر کھڑے ہو کر لمبی تان میں اگلا مقدمہ باآواز بلند پکارا "احسان بنام سرکار"۔ اس ابتدایہ جملے والے احسان کے وکیل صاحب پہلے ہی چوکنے بیٹھے تھے، آواز پڑتے ہی اٹھے اور جلدی جلدی فائلیں سنبھالتے جج صاحب کے سامنے نسب روسٹرم پر جا پہنچے۔ وکیل صاحب کے روسٹرم پر پہنچتے پہنچتے ان کے چار شاگرد وکیل بھی کمرہ عدالت کی مختلف نشستوں سے اٹھ کر ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ ان چاروں کو وکیل صاحب خاص طور پر لے کر آئے تھے۔ اس کے دو فوائد تھے۔ ایک تو یہ کہ شملہ اونچا رہتا تھا۔ وکیل صاحب کوئی عام وکیل نہ تھے بلکہ ایک سیاسی وکیل تھے۔ اور یہ کوئی اچھا تو نہ لگتا تھا کہ ایک لیڈر اکیلا ہی فائلیں اٹھائے عدالت میں جاتا دکھائی دے۔ چوہدریوں کے شملے تو اونچے ہی رہنے چاہیں، ورنہ تو ہر کوئی ایراغیرا نتھو خیرا حسبیوں نسبیوں کی عزت اچھالتا نظر آئے۔ اور دوسرا فائدہ یہ تھا کہ ستارے نما شاگردوں کے جھرمٹ میں وکیل صاحب ایک بڑے، چمکدار اور طاقتور چاند کی مانند نمایاں ہوتے تھے جس سے جج صاحبان پر خاطر خواہ رعب اور دبدبہ کا اطلاق ہوتا تھا۔ جج صاحب کو یاد آجاتا تھا کہ ان کے سامنے کوئی عام وکیل نہیں بلکہ ایک لیڈر کھڑا ہے جو اگر ان کے فیصلہ سے ناراض ہو گیا تو بات اخباروں میں بیان بازی اور ٹی وی چینلوں میں پریس کانفرنسوں تک جا سکتی ہے جن میں جج صاحب پر سچا جھوٹا کیچڑ بھی اچھالا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شاگردوں کی موجودگی میں جج صاحب وکیل صاحب پر زیادہ سختی بھی نہ کر سکتے ہیں مبادا کہ استاد کی ہتک پر جوان خون جوش مار جائے۔ لہذا سائلین پر اپنی وکالت کی دھاک بٹھانے کے لئے وکیل صاحب بلا روک ٹوک جتنی لمبی چاہتے بحث کر سکتے تھے۔
جب روسٹرم پر پہنچ کر وکیل صاحب نے فائلیں سیدھی کیں اور کہا، "جناب والا، میرے مؤکل پر ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے جرم سے میرے مؤکل کا کوئی تعلق نہیں" تو ان کی ٓاواز نسبتاً گرجدار تھی۔
دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب اس بات کا خاص خیال رکھے ہوئے تھے کہ عدالت میں بیٹھے ہوئے تمام سائیلین پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ ان سے دلائل سنتے ہوئے جج صاحب کا رویہ دوسرے مقدمات کی نسبت فرق ہے۔ باقی وکلاء کی نسبت جج صاحب انہیں نا صرف بڑے انہماک سے سنے چلے جا رہے ہیں بلکہ ہر تھوڑی دیر بعد اثبات میں سر ہلا کر دلائل کی داد بھی دیتےہیں۔ اس لئے جب بھی جج صاحب وکیل صاحب کی بات کاٹنے کی کوشش کرتے یا ان کی کسی دلیل پر بے چینی سے سر اِدھر اُدھر مارنے لگتے تو وکیل صاحب کا لہجہ فوراً ایسا گرجدار ہو جاتا کہ جج صاحب بس گھٹ سے جاتے۔ اور ساتھ ہی وکیل صاحب نہایت شیریں لہجے میں "جنابِ والا جنابِ والا" کہہ کر گویا ان کی خاموشی پر اپنے تشکر کا اظہار کرتے۔ دورانِ دلائل اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے پیش کرتے ہوئے بھی وکیل صاحب نے اس بات کا خیال رکھا کہ ہر بار وہ اپنے ایک مختلف شاگرد سے کہیں کہ میاں صاحب یا ڈوگر صاحب یا بٹ صاحب ذرا فلاں فیصلہ پکڑائیے گا۔ یہ تردد اس لئے ہوتا کہ ہر خاص و عام کو معلوم ہو جائے کہ وہ کتنی محنت سے مقدمہ کی تیاری کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کے تمام شاگرد بھی مقدمہ تیار کرنے میں ان کی مدد کرتےہیں۔ یہ علیحدہ بات تھی کہ دو ایک فیصلے جج صاحب کو پڑھ کر سناتے ہوئے وکیل صاحب کو احساس ہوا کہ شاگردوں اور منشی نے مل کر غلط فیصلے پلاسٹک کی سبزی والی ٹوکری میں رکھ دیئے تھے۔ مگر انہوں نے زیادہ خیال نہ کیا اور دلائل ہی دلائل میں جج صاحب کو یاد دلا دیا کہ پچھلے ہی ہفتے جو انہوں نے ایک وزیر کے خلاف بار روم میں تقریر کی تھی اُس کو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے کتنی پزیرائی بخشی تھی۔
جب روسٹرم پر پہنچ کر وکیل صاحب نے فائلیں سیدھی کیں اور کہا، "جناب والا، میرے مؤکل پر ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے جرم سے میرے مؤکل کا کوئی تعلق نہیں" تو جج صاحب ذرا سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ رسمی سا جملہ تھا جو تقریباً ہر وکیل اپنے مقدمہ کے ابتدائیہ میں بولتا تھا۔ آج صبح ہی جب ایک نووارد وکیل صاحب نے اسی جملے سے اپنے دلائل کی ابتدا کی تھی تو جج صاحب کی حسِ مزاح بری طرح پھڑک اٹھی تھی اور انہوں نے بے اختیار ہو کر کہا تھا، "واقعی وکیل صاحب، تو آپ کو آپ کے مؤکل نے سچی بات بتا دی ہے؟" اور یہ کہہ کر جج صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔ جج صاحب کا اس طرح ہنسنا تھا کہ عدالت میں موجود سب وکلاء بھی بے اختیار ہنس پڑے۔ وہ بھی جو ایک دوسرے کے کانوں میں باتیں کر رہے تھے اور جج صاحب کی بات نہ سن پائے تھے۔
لیکن وکیل صاحب کے
منہ سے یہی گھسے پٹے کلمات سُن کر جج صاحب نے زور زور سے سر ہلا کر اتنے غور سے
احسان کو دیکھا کہ اس کا سوا سیر خون بڑھ گیا اور عدالت میں موجود باقی سائلین نے
دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ بھی وکیل صاحب کو اپنا مقدمہ سُنا کر کم از کم
مشورہ ضرور حاصل کریں گے۔ وکیل صاحب کی تیاری جج صاحب پر واضع تھی۔ تیاری دو کوڑی
کی بھی نا کی تھی وکیل صاحب نے بس اپنے تجربے کی بِنا پر مناسب سے دلائل دے رہے
تھے جو کوئی دو سال تجربے والا نووارد وکیل بھی ذرا سی محنت سے دے سکتا تھا۔ مگر
اس بارے میں کوئی بھی غیرذمہ دارانہ جملہ بھاری پڑ سکتا تھا۔ وکیل صاحب سیاسی ہونے
کے ساتھ ساتھ خاصے بدتمیز بھی واقع ہوئے تھے اور اُن کو ناراض کرنے کا مطلب اپنے
خلاف الزامات کی بوچھاڑ کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ویسے تو قانون نے جج صاحب کے
ہاتھ بے حد مظبوط کر رکھے تھے اور وہ کسی بھی وکیل کو اپنی شان میں گستاخی کرنے پر
چھ ماہ قید بامشقت سُنا سکتے تھے؛ مگر وہ اِن چکروں میں بھلا کہاں پڑتے۔ جو وکیل
جج نہیں بن سکتے وہ ویسے ہی ججوں سے بڑی حسد کرتے ہیں، ذرا ذرا سی بات کا بتنگڑ
بنا دیتے ہیں۔ انہیں کیا ضرورت تھی کہ یاجوج ماجوج کی یہ فوج اپنے پیچھے لگا کر
اپنے سالے کی نوکری، سرکاری خرچہ پر چند بین الاقوامی دورے اور اسی طرح کی بے ضرر
سی چیزوں کے ایشو بنواتے پھریں۔ لہٰذا جج صاحب نے ہر ہر دلیل پر وکیل صاحب کو وہ
وہ داد دی کہ دلائل ختم ہونے تک وکیل صاحب کا چہرہ گل و گلنار ہو گیا اور اپنے
اختتامیہ جملے کے ساتھ وکیل صاحب نے کمر تک جھک کر جج صاحب کا شکریہ ادا کیا۔
جب روسٹرم پر پہنچ
کر وکیل صاحب نے فائلیں سیدھی کیں اور کہا، "جناب والا، میرے مؤکل پر ایک
جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس گھناؤنے جرم سے میرے مؤکل کا کوئی تعلق
نہیں" تو اکبر کا دل بیٹھ سا گیا۔
مقدمہ کا عنوان تو احسان بنام سرکار تھا مگر اصل میں مدعی اکبر تھا۔ یہ اکبر ہی تھا جس نے اپنا گھر گروی رکھوا کر احسان کو قرض پر مال سپلائی کیا تھا۔ ادائیگی کی گارنٹی کے طور پر بیس لاکھ کا چیک احسان سے لے لیا تھا۔ جب احسان نے پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ادائیگی نہ کی اور ساہوکار نے اکبر سے اپنے روپے یا اُس کے مکان کا تقاضہ کر دیا تو مجبوراً اکبر کو ایف آئی آر کٹوانی پڑی۔ پولیس کو رشوتیں دے دے کر اکبر کے کنگال ہونے میں باقی رہی سہی کسر بھی پوری ہو چکی تھی۔ تفتیشی افسر نے ویسے تو اکبر سے ملزم کو گرفتار کرنے کی مد میں بھی بیس ہزار اینٹھ لئے تھے مگر آحسان سے پینتیس ہزار لے کر اُسے ایک دن کی مہلت دے دی تھی کہ وہ ضمانت کروا لے۔ اکبر کو اس نے ٹال دیا کہ چھاپے میں احسان بھاگ گیا اور اب اس نے ضمانت کروا لی ہے سو اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اُسے بھی معلوم تھا کہ اکبر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ یہ البتہ اس نے اکبر پر واضع کر دیا تھا کہ آج اگر احسان کی ضمانت خارج ہو گئی تو وہ جیل سے بچنے کے لئے اُسے فوراً ادائیگی کر دے گا، لیکن اگر آج احسان کی ضمانت پکی ہو گئی تو پھر وہ اپنے پیسے بھول جائے۔
اپنے پیسے بھول
جائے؟ اپنا گھر بھول جائے؟ اکبر نے تفتیشی کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ احسان اگر
قانون کے چنگل سے بچ نکلا تو اکبر دیوالیہ ہو جائے گا، اُس کے بچوں کے سَر سے چھت
چھن جائے گی، اُس کے اور اُس کے بچوں کے مستقبل کے سُہانے خواب چُور چُور ہو جائیں
گے۔ جواب میں تفتیشی نے بھی بے دلی سے اُسے سمجھا دیا تھا کہ اُسے اپنی قسمت پر
شاکر رہنا چاہیے، قدرت کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔
جس طمطراق سے احسان
کے وکیل صاحب دلائل دے رہے تھے اور جس والہانہ انداز سے جج صاحب اُن دلائل سے سہمت
ہوتے نظر آتے تھے، اکبر کا دل بٹھانے کے لئے کافی تھے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا
تھا کہ جب احسان کے وکیل صاحب نے دلائل میں مال وصول کرنا تسلیم کرلیا تھا تو اب
جج صاحب اکبر کی ادائیگی کا حکم کیوں نہیں کرتے، اب مقدمے میں رہ ہی کیا گیا تھا؟
وکیل صاحب کے دلائل ختم ہوتے ہی جج صاحب تفتیشی کی طرف متوجہ ہوئے، "ہاں، پولیس کی تفتیش کیا کہتی ہے؟"۔ مگر اس سے پہلے کہ تفتیشی کچھ کہتا، اکبر بے اختیار بول پڑا، "جناب میں نے اپنا گھر گروی رکھ کر اسے مال دیا تھا، یہ مال بھی کھا گیا اور پیسہ بھی نہیں دیتا۔ انصاف کریں جج صاحب ان۔۔۔۔۔۔" اس کی بات جج صاحب کی گرجدار دھاڑ نے بیچ میں ہی کاٹ دی۔ "تم کون ہو؟"
"جی میں، جی میں، جی میں۔۔۔۔۔۔" جج صاحب کی گھن گھرج اور غصے سے گھورتی ٓانکھوں سے اکبر گڑبڑا گیا۔ جب کوشش کے باوجود اس کے منہ سے پورا جملہ نہ نکل سکا تو تفتیشی نے باادب ہو کر کہا، "سر یہ مدعی ہے"۔
" اس نے وکیل نہیں کیا؟" جج صاحب نے تفتیشی سے ہی استفسار کیا۔ اور یہ جاننے کہ بعد کہ اکبر نے وکیل نہیں کیا، جج صاحب نے ایک بار پھر اسے غصے سے گھورتے ہوئے ڈانٹا، "اب اگر تم نے عدالتی کارروائی میں دخل دیا تو تمہیں جیل بھجوا دوں گا۔"
اکبر کا رہا سہا حوصلہ اصغر ہو گیا۔
اور جج صاحب ایک بار پھر تفتیشی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے گویا ہوئے، "ہاں بھئی، اب تم بتاو کیا معاملہ ہے؟"
Really we daily witness it( great observation)
ReplyDelete