Tuesday, 18 April 2017

باپ: کہانی

از
ٹیپو سلمان مخدوم

ایک ہی باپ تھا میرا، وہ بھی مَر گیا سالا۔ آپ شاید حیران ہو رہے ہوں کہ میں اپنے والدِ بزرگوار کے بارے میں کیسے الفاظ استعمال کر رہا ہوں۔ کیا بتاوں آپ لوگوں کو، دل تو میرا کرتا ہے مغلظات بکنے کو مگر  برداشت کرتا ہوں۔ پتہ نہیں کیا خبط سوار تھا اُسے خالق بننے کا۔ ماں کے پیٹ میں بیج بو کر مجھے پیدا کیا، اپنے جگر پر شراب کی بارشیں برسا کر سرطان پیدا کیا، اُلٹی سیدھی حرکتیں کر کہ دولت، شہرت اور عزت پیدا کرنے کی کوشیشیں کرتا رہا۔ 


اس سے پہلے کہ آپ لوگ مجھے نافرمان اولاد جان کر مجھ پر فتوے جاری کر دیں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میرا باپ جب مرا تو ابھی ساٹھ کا نہ ہوا تھا، پچاس کے پیٹے میں تھا۔ جبکہ میں اب تک زندگی کی اسّی سے زیادہ بہاریں دیکھ چکا ہوں۔ بہاروں میں البتہ کچھ گردشیں بھی تھیں۔ جن میں سے چند بجز غلام گردشیں تھیں اور کچھ گویا گردشِ رنگِ چمن۔ زندگی نے مجھے اُس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب میں اپنے باپ کی عمر کے لوگوں کو بیٹا کہہ کر پکارتا ہوں۔ 

میرا باپ ایک محنتی، ذمّہ دار اور شریف آدمی تھا۔ شریف اور شرابی پر آپ لوگوں کو شاید اعتراض ہو مگر میرے لئے اِن دونوں شینوں میں کوئی فطری اختلاف نہ ہے۔ میرا باپ شریف اس لئے تھا کہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ حاصل کرنے کا قائل نہ تھا۔ ایک بڑی بین الاقوامی کمپنی میں اچھی ملازمت کرتا تھا، زندگی کے جس موڑ پر جو کچھ حاصل کرنا چاہتا وہ نہ کر پا رہا تھا اس لئے ہر وقت بے سکون رہتا تھا۔ ہمیشہ اور زیادہ کی تلاش میں سر گرم۔ خوبصورت بیوی۔ رئیس سسرال۔ اچھی آمدن والی نوکری۔ صحت مند ہونہار بیٹا۔ مہنگا گھر۔ علاقے میں شہرت۔ معاشرے میں عزت۔ بہت سارے خواب تھے اس کے۔ لیکن زندگی میں یہ سرخ رُو ہونے کے لئے کافی نہ تھے۔ اور بھی بہت سے سپنے  پال رکھے تھے۔ مثلاً ایک خواب یہ بھی تھا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ولائیت سے تعلیم دلوا کر اسکے لئے اتنا ترکہ چھوڑ کرمرے کہ اسے کبھی کسی چیز کی کمی نہ محسوس ہو۔ اور اپنے یہ تمام خواب پورے کرنے کے لئے وہ سر توڑ کوششیں کیا کرتا؛ دن رات۔ 

بیوی خوبصورت تھی مگر سسرال رئیس نہ تھا۔ نوکری اچھی تھی پہ آمدن زیادہ نہ تھی۔ گھر اپنا تھا پر مہنگا نہ تھا۔ بیٹا صحت مند تھا لیکن ہونہار نہ تھا۔ علاقے میں عزت تھی گو معاشرے میں شہرت نہ تھی۔ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ میرا باپ ایماندار اور ذہین بھی تھا۔ غریب گھرانے سے تھا اس لئے تعلیم کے دوران ہی نوکری کرنا پڑی۔ تعلیم پوری نہ تھی سو نوکری چھوٹی ملی۔ سارا دن نوکری کرنا ہوتی تھی اس لئے تعلیم دیر سے مکمل ہوئی۔ چھوٹی نوکری میں شادی ہوئی لہٰذا سُسْرال رئیس نہ مل سکے۔ جن اعلیٰ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر امراء کے بچے پچیس سال کی عُمْر میں مینیجر لگ جاتے ہیں، وہاں سے ڈگری لیتے لیتے میرا باپ چالیس ٹاپ گیا۔ پندرہ برس  کا یہ فاصلہ جان لیوا ثابت ہوا ۔

کورپوریٹ دنیا کی انتظامی سطح پر پہنچ کر میرے باپ پر یہ راز کھلا کہ یہاں اڑنے کے لئے تو پَر ہی کوئی اور  درکار ہیں۔ اس کی عُمر کے لوگ پچھلے پندرہ سال سے کمپنی کے ایوانِ اقتدار میں تھے، ان کے آپس میں اور دوسری کمپنیوں کے افسروں سے ایسے تعلقات بن چکے تھے جن میں کسی نووارد کا داخلہ ممکن نہ تھا۔ اپنے چاروں طرف اٹھی ہوی شیشے کی دیواروں کو وہ بری طرح محسوس کرنے لگا۔ اچھی طرح ہاتھ پاؤں مار کر جب اسے یقین ہو گیا کہ ان غیر مرئی دیواروں کو پار کرنا اس کے بس کی بات نہیں تو اس نے ان کے احساس سے بھاگنا شروع کر دیا۔ ساری ساری شام جام چلنے لگے۔  یہ بات وہ کبھی نہ جان سکا  کہ انسان کی ترقی کی حدود  اس کی پیدائش کے مقام سے منسلک ہوتی ہیں۔

شیشے کی دیواروں کے اِس پار یا گھر بن سکتا تھا یا بیٹا ولائیت پڑھنے جا سکتا تھا۔ گھر بن گیا اور بچے کھچے خواب اس میں دفن ہونے لگے۔ جام بڑھنے لگے۔ یونیورسٹی اور سرطان کے ہسپتالوں کے میرے چکر آگے پیچھے ہی شروع ہوئے۔ پہلے پہل جو باپ کومہینے میں ایک آدھ بار لے کر جایا کرتا تھا، چند ہی سالوں میں ہر دوسرے دن لیجانے لگا۔ اور پھر ہسپتال میں داخلہ ہو گیا۔ میں اس کے ساتھ ہی رہنے لگا۔ تیسرے روز میرے باپ نے چُھٹیوں کے بارے پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ نوکری چھوڑ دی ہے۔ اس نے ایسی ہونق نگاہوں سے مجھے دیکھا کہ میں گھبرا ہی گیا۔ 

"
اب کوئی ایسی زبردست نوکری بھی نہیں تھی ابو۔" 

میں نے کچھ ہڑ بڑا کر اسے تسلی دینی چاہی۔ ویسے بات کچھ اتنی غلط بھی نہ تھی۔ لیٹے لیٹے وہ ہلا بھی نہیں، مگر اس کے لاغر جسم کے تمام پٹھے یوں اچانک ڈھیلے پڑ گئے کہ ایک بار تو میرا دل ہی بیٹھ گیا۔ ایسا لگا کہ اس کے بیمار بدن سے جان نکل گئی ہو۔ لیکن وہ زندہ تھا۔ بس شرمندگی کے مارے زندہ درگور ہوا چاہتا تھا کہ اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر اونچی نوکری پر فائز نہ کروا سکا تھا۔ 

ہسپتال میں گزرے وہ چند ماہ عجیب و غریب ثابت ہوئے۔ 

ہسپتال کے تیسرے ہی ہفتے اس نے مجھ سے اپنے خوابوں کی باتیں شروع کر دیں۔ یہ عجیب بات تھی کیونکہ اس سے پہلے ہمارے بیچ ہمیشہ زندگی کے مقاصد کے تعیُن اور ان کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندیوں پر ہی بات ہوا کرتی تھی۔ اب بسترِ مرگ پر پہلی بار میرے باپ نے مجھ سے بات کی کہ وہ زندگی کو کیا دیکھتا تھا۔ اس نے کیا کیا خواب بُن رکھے تھے اور کس طرح ان خوابوں کے ٹوٹنے سے اس کی زندگی چکنا چور ہو گئی تھی۔ 

قبر میں پاؤں لٹکا کر میرے باپ نے مجھے بتایا کہ آج تک جو زندگی وہ جیتا آیا تھا وہ دراصل میرے روشن مستقبل کے لئے کاٹی گئی ایک سزا تھی۔ اس کی زندگی تو اس وقت شروع ہونی تھی جب وہ اپنی تمام ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو کر ریٹائرمنٹ کی آزاد اور بے فکر زندگی کا آغاز کرتا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے مجھے بتانا شروع کیا کہ اپنی اس مشقت بھری زندگی میں اس نے کیسی چھوٹی چھوٹی لیکن بڑی قیمتی قربانیاں دیں تھیں۔ کیسے وہ گاناسیکھنا چاہتا تھا مگر جلدی ترقی حاصل کرنے کی جستجو میں وہ اس شوق کے لئے کبھی وقت ہی نہ نکال سکا اور اسے ریٹائرمنٹ تک اٹھا رکھا۔ پھر یہ کہ اسے دنیا دیکھنے کا کس قدر جنون تھا مگر پیسے جوڑنے کے چکر میں اسے بھی ریٹائرمنٹ پر موقوف کر دیا۔ کیسے اس کی زندگی نے اس کے بڑھاپے سے جنم لینا تھا۔ مگر اب بڑھاپا ہی اسے دغا دے گیا تھا۔
 
گزرتے دنوں کے ساتھ اس کی آواز دھیمی ہوتی گئی۔ اور پھر اس میں ایک خرخراہٹ سی شامل ہو گئی۔ عجیب صورتِ حال تھی۔ ایک بے بس مرتا ہوا انسان بھرپور زندگی کی خواہش میں غلطاں۔ میرے باپ کا جسم اور خواہشیں میرے سامنے دم توڑ رہی تھیں۔ میرا دل خون کے آنسو روتا تھا کہ میرا باپ آخرِ کار جینا چاہتا تھا مگر اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔

پھر ایک دن میری دنیا ہی بدل گئی۔

میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ وہ جانتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کے فلسفۂ حیات کا اسی کی طرح معتقد ہے اور اسے پورا یقین تھا کہ اس کا بیٹا اُس کے نقشِ قدم پر چلے گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ اپنے باپ کے ادھورے سپنے  پورے  کرنے کے لئے میں اپنی زندگی تیاگ  دوں گا؛  سپنے جیسے کہ ڈھیر ساری آمدن والی نوکری اور مہنگا گھر وغیرہ۔ اپنے باپ کے نیم مردہ ہاتھ میں ہاتھ دیے یہ وعدہ کر تے ہوئے  میرا دماغ  ماوف ہو چلا تھا۔ سب کچھ ایک فلم کی مانند لگ رہا تھا۔ اُس رات ہسپتال کے کمرے میں میرا دَم گھُٹنے لگا۔ میں چپکے سے باہر نکل آیا اور ہسپتال کی چھت پر بیٹھ کر خوب رویا۔ 

چالیسویں کے بعد میں اپنے باپ کی قبر پر کبھی کبھار  ہی جاتا۔ وہ بھی صرف اُس وقت  جب اپنا کوئی نہ کوئی شوق پورا کرلیتا۔ اب پسند کی شادی کر کہ۔ پھر اِس مُلک گھوم کر۔ اب مصوری سیکھ کر۔ پھر اُس ُملک گھوم کر۔ اب اچھی نوکری چھوڑ کر من پسند ادنیٰ نوکری کر کہ۔ اب۔۔۔۔۔ اب۔۔۔ اب۔۔۔

میں اپنی اَسّی سالہ زندگی میں اُس سے آدھی دولت بھی جمع نہیں کر سکا جتنی میرے باپ نے پچپن سال میں کر لی تھی۔ مگر میرے پاس اپنے بچوں کو بتانے کے لئے میرے ٹوٹے ہوئے اور ادھورے سپنے نہیں بلکہ دلچسپ و عجیب واقعات، مشاہدات اور تجربات سے مزیّن ایک بھرپور زندگی ہے۔ اس زندگی کے بارے میں جب میں اپنے بچوں کو بتاتا ہوں تو وہ اداس نہیں ہوتے بلکہ خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ جب میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ بھی میرے جیسی زندگی اپنائیں تو وہ اپنے کندھوں پر بوجھ نہیں بلکہ سینوں میں ولولہ محسوس کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انہیں میرے مرنے سے پہلے میرا ماتم نہیں کرنا پڑے گا۔
 
میں اب اپنی قبر کے دہانے پر بیٹھا ہوں۔ اب جو میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو یاس و حسرت سے میرا دل مرجھا نہیں جاتا بلکہ اپنی زندگی کی زندہ دلی پر کِھل اٹھتا ہے۔ زندگی میں حسرت ہے تو بس ایک۔ کاش میں اپنے باپ کو بھی جینا سکھا سکتا۔

No comments:

Post a Comment