از
ٹیپو سلمان مخدوم
کومن لاء نظام میں قانون کی تشریح کا حق عدالت کے پاس ہوتا
ہے۔ قانون کسی خاص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا جاتا بلکہ قانون کی کتاب ایسے لکھی جاتی ہے کہ قوانین کو ہر
قسم کے حالات میں لاگو کیا جا سکے۔ چنانچہ جب عدالت کے سامنے کوئی مقدمہ آتا ہے تو
عدالت نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے حالات میں دستیاب قانون کو کس انداز
سے لاگو کیا جائے؛ جیسے سختی سے یا نرمی سے، وغیرہ۔
لیکن اگر عدالتوں کو یہ کھلی آزادی دے دی جائے کہ وہ ہر
مقدمہ میں جیسے چاہیں قانون کو لاگو کریں تو قانون کے نظام کا تیّقن مفاہمت پذیر ہو جائے گا
اور شہریوں میں بے یقینی کی کیفیت پھیل جائے گی کہ جب وہ کسی مقدمہ میں پھنس جائیں
گے تو نہ جانے ان کے مقدمہ میں عدالت کس انداز سے قانون لاگو کرے گی۔ لہٰذا
عدالتوں کو قانونی تشریح کی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ ان پر ایک قدغن بھی لگائی
جاتی ہے۔ اس قد غن کو کہتے ہیں سٹیئر ڈیسائسِس
Stare Decisis ۔
سٹیئر ڈیسائسِس کا مطلب ہے کہ جب اعلیٰ عدالت کسی مقدمہ میں
قانون کی ایک خاص طرح سے تشریح کر دے تو اس طرح کے تمام مقدمات میں ماتحت عدالتیں
اس قانون کی اسی طرح سے تشریح کرنے کی پابند ہوں گی۔ سٹیئر ڈیسائسِس کا دارومدار
ایک اور قانونی تصوّر پر ہوتا ہے جسے ریشو ڈیسیڈینڈی Ratio Decidendi
کہتے ہیں۔
ریشو ڈیسیڈینڈی کا مطلب ہے کہ جب اعلیٰ عدالت کسی مقدمہ میں
قانون کی تشریح کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی تو ماتحت عدالتوں پر وہ فیصلہ یا تشریح
مَن و عَن ہی لازم نہیں ہو جائے گا۔ بلکہ اس فیصلہ کا اصول یا فلسفہ دراصل وہ چیز
ہے جس کی پیروی کرنا ماتحت عدالتوں پر لازم ہو گی۔
چنانچہ جب وکیل صاحبان عدالتوں میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلہ
اپنے مقدمہ کے حق میں پیش کرتے ہیں تو وہ فیصلہ کی ریشو جج صاحبان کو سمجھاتے ہیں
تاکہ وہ اس کی پیروی کر سکیں۔ ریشو معلوم کرنے کا عموماً جو طریقہ اپنایا جاتا ہے
وہ یہ ہے کہ جج صاحب کو فیصلہ کے متعلقہ حقائق پڑھ کر سنائے جاتے ہیں جس سے یہ اخذ
کیا جاسکے کہ اعلیٰ عدالت کے فیصلے اور
مقدمہ ہذا کے حقائق ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اعلیٰ عدالت
کے پیش کردہ فیصلے میں سے وہ حصّے پڑھ کر سنائے جاتے ہیں جن میں قانون کی تشریح کی
گئی ہوتی ہے۔ ان دونوں حصّوں کو ملا کر پڑھنے سے عموماً فیصلہ کی ریشو سمجھ میں آ
جاتی ہے۔ اب اگر جج صاحب قائل ہو جائیں کہ اعلیٰ عدالت کے فیصلے کی ریشو مقدمہ ہذا
پر لاگو ہوتی ہے تو وہ اس بِنا پر فیصلہ سنا دیں گے۔ فیصلہ میں جج صاحب لکھیں گے
کہ پیش کردہ مقدمہ کے حقائق کیا ہیں، اعلیٰ عدالت کے فیصلہ کی ریشو کیا ہے اور اب
کس طور پر یہ ریشو مقدمہ ہذا پر لاگو ہوتی ہے۔
یہ کام اتنا سیدھا سادھا اور آسان نہیں جتنا لگتا ہے۔ مثال
کے طور پر عدالتِ اعظمیٰ کے فُل بینچ نے ایک فیصلہ دیا ہے جو چوہدری محمد اکرم بنام رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ
کے نام سے PLD 2016 SC 961 کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس فیصلہ میں متعلقہ حقائق یہ تھے کہ اسلام
آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے آئین
کی دفعہ ۲۰۸ کے تحت ضابطہ بنایا۔ اس ضابطہ کے تحت عدالت کے ماتحتی عملہ کی تقرری
کے کچھ قوائد مقرر کئے گئے۔ لیکن عدالت نے جب یہ تقرریاں کیں تو اس ضابطہ کو
ملحوظِ خاطر نہ رکھا۔ چنانچہ ان تقرریوں کے خلاف آئینی درخواست دائر کی گئی کہ
ضابطہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئیں تقرریاں غیر قانونی ہیں۔ اس مقدمہ میں ایک
اہم سوال یہ اٹھا کہ کیا عدالتِ عالیہ کے حکم کے خلاف آئینی درخواست دائر کی جا
سکتی تھی؟ عدالتِ اعظمیٰ نے فیصلہ سنایا کہ عدالتِ عالیہ کے پاس دو طرح کے
اختیارات ہوتے ہیں۔ ایک عدالتی اور دوسرے انتظامی۔ عدالتی اختیارات آئین کی دفعہ
۱۹۹ کے تحت میّسر ہوتے ہیں جبکہ انتظامی اختیارات آئین کی دفعہ ۲۰۸ کے تحت عدالت
کو حاصل ہوتے ہیں۔ جو احکام آئین کی دفعہ ۱۹۹ کے تحت جاری کئے جائیں ان کے خلاف
آئینی درخواست نہیں دی جا سکتی جبکہ اگر احکام آئین کی دفعہ ۲۰۸ کے تحت جاری کئے
گئے ہوں تو ان کے خلاف آئینی درخواست دی جا سکتی ہے۔ یہ ساری باتیں کر کہ اس نقطے
پر بحث کو ختم کرتے ہوئے عدالت نے جو الفاظ استعمال کئے وہ اس طرح تھے کہ اگر
عدالتِ عالیہ کا فیصلہ انتظامی ہو اور وہ آئینی دفعہ ۲۰۸ کے تحت بنائے گئے ضابطہ
کی خلاف ورزی کرتا ہو جس سے شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو ایسے
احکام کے خلاف آئینی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
اب اس فیصلہ کی ریشو دریافت کرنے کے بارے میں دو قسم کی
آراء سامنے آ سکتی ہیں۔
پہلی یہ کہ فیصلہ اس اصول کے تحت کیا گیا ہے کہ عدالتِ
عالیہ کے پاس دو طرح کے اختیارات ہوتے ہیں یعنی عدالتی اور انتظامی۔ جب عدالتِ
عالیہ اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرتی ہے تو ایسے فیصلے
کے خلاف آئین کی دفعہ ۱۹۹ کے تحت آئینی
درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو اس طرح سے پڑھنا، ان کی تشریح کرنا اور ان کی ریشو تلاش
کرنا ساری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جبکہ اس فیصلہ کی ریشو کے بارے میں دوسری رائے یہ ہو سکتی
ہے کہ عدالتِ اعظمیٰ نے چونکہ بحث کو نمٹاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے
ایسے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دی جا سکتی ہے جس میں دفعہ ۲۰۸ کے تحت بنائے گئے
ضابطہ کی خلاف ورزی کی گئی ہو اور جس سے بنیادی انسانی حقوق بھی پامال ہوتے ہوں،
لہٰذا اس فیصلے کی ریشو بھی یہی ہے۔ اس طرح سے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی تشریح کرنا
ساری دنیا میں نالائقی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی فیصلے کی ریشو محض دو ہی
طریقوں سے اخذ کی جا سکے۔ کئی فیصلے ایسے پیچیدہ یا فلسفیانہ ہوتے ہیں کہ اُن کی
تشریح دو سے زیادہ طرح سے بھی ممکن ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا چوہدری محمد اکرم بنام
رجسٹرار والا فیصلہ ایک مقدمہ کے دوران عدالتِ عالیہ میں پیش کیا گیا اور
وکیل صاحب نے اُس کی یہ تشریح پیش کی کہ عدالتِ اعظمیٰ نے عدالتِ عالیہ کے تمام انتظامی
فیصلوں کے خلاف آئینی درخواست کی دائری قانونی قرار دے دی ہے۔ مگر عدالتِ عالیہ نے
اس سے اختلاف کیا۔
PLD 2017 Lahore 271 کے طور پر شائع ہونے والے آصف ناز بنام حکومتِ پنجاب
نامی فیصلے میں عدالتِ عالیہ نے چوہدری اکرم
والے فیصلے کے بارے میں یوں بیان کیا کہ عدالتِ اعظمیٰ نے وہ فیصلہ ضابطہء ۱۹۸۱ کے قائدہ نمبر ۲۶ کی خلاف ورزی پر دیا تھا لہٰذا
مذکورہ فیصلہ کی یہ ریشو نہ ہے کہ عدالتِ عالیہ کے ہر انتظامی فیصلہ کے خلاف آئینی
درخواست قابلِ سماعت ہے۔
This blog is really very halpul for understanding the concept of precedent
ReplyDeleteThis blog is really very halpul for understanding the concept of precedent
ReplyDelete