Friday, 26 September 2025

عبادت خانہ (افسانہ ) (Ibadat Khana Story in Urdu)

 

عبادت خانہ

از

ٹیپو سلمان مخدوم

(پنجابی سے ترجمہ)


 

1581

فتح پور سیکری

اکبر کی پرتگالی ملکہ  ماریا  اُس کی گود میں بیٹھی چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھی۔ اکبر کا دل اُسے چھوڑ کر جانے کو نہیں چاہ رہا تھا، مگر جانا بھی ضروری تھا؛ عبادت خانے میں تمام عالم اُس کا انتظار کر رہے تھے۔

"بس کرو جانِ من، اب مجھے جانے دو۔ آج کی رات مجھے عبادت خانے میں گزارنی ہے۔" مغل شہنشاہ اکبر نے پیار سے ماریا کے لچکیلے اور ملائم ننگے پہلو پر ہاتھ رکھ کر اُسے ایک طرف کرنے کی کوشش کی۔

ماریا اُس سے اور زیادہ چمٹ کر بیٹھ گئی اور اپنے رس بھرے لب بادشاہ کی بھری ہوئی توانا گردن پر رکھ دیے۔ اکبر کو لگا جیسے کسی نے ملائی کا پیڑا اُس کی گردن پر رکھ دیا ہو۔

"نہیں شہنشاہ، آج میں آپ کو نہیں جانے دوں گی۔ آج میرا بدن آگ پر جل رہا ہے۔ آج میں آپ کے شاہی ساگر سے اپنی آتش بجھاؤں گی۔"

اکبر کو ہنسی آ گئی۔ ایسی شوخیاں کوئی یورپی خاتون ہی کر سکتی تھی۔

"آج نہیں میری جان، آج کام ہے۔ کل تم میری ملکہ ہو گی اور میں تمہارا غلام۔ جو کہو گی میں کروں گا۔ اب مجھے جانے دو۔"

مگر آج ماریا کا جنون قابو سے باہر تھا۔ کتنے عرصے بعد تو اکبر اُس کے محل میں سونے آیا تھا۔

"نہیں بادشاہ۔ آج تو میں آپ کو اپنے اندر  چھپا کر رکھوں گی۔ آج آپ کو مجھ سے کوئی نہیں چھڑا سکتا۔ اگر آپ آج مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو میں خود کو پھانسی لگا لوں گی۔"

ماریا روہانسی ہو گئی۔

اندر سے اکبر کا بھی دل اُسے چھوڑ کر جانے کو نہیں چاہ رہا تھا، مگر کیا ہو سکتا تھا۔ سارے علماء اُس کا انتظار کر رہے تھے۔

"آج کی معافی دے دو میری خوبصورت ملکہ، میں مجبور ہوں۔ بادشاہت کوئی آسان کام نہیں۔"

"اگر شہنشاہ ایک رات بھی اپنی مرضی سے اپنی ملکہ سے پیار نہیں کر سکتا تو کیا فائدہ ایسی شہنشاہی کا۔ جائے چولہے میں ایسی بادشاہت۔"

اکبر کو پھر ہنسی آ گئی۔

ویسے وہ کہہ تو ٹھیک رہی تھی۔ اکبر بھی آج ملکہ کی ابھری ہوئی چھاتیوں اور بھری ہوئی رانوں کے لیے مشتاق ہو رہا تھا اور ملکہ بھی اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ کتنے عرصے بعد تو ماریا کے ساتھ وصال کی باری آئی تھی۔

"ملکہ، کل ساری رات میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گا، وعدہ۔ آج مجھے جانے دو۔"

اکبر نے بے دلی سے آخری کوشش کی، مگر آج ملکہ نہیں مان رہی تھی۔ آج اُس نے بادشاہ کے رس سے اپنی پیاس بجھانے کی ٹھان لی تھی۔

شکار کا رسیا، ہاتھیوں سے پنجہ آزمائی کا شوقین اکبر ابھی چالیس کا نہیں ہوا تھا۔

 

لندن

وزیرِ اعظم ولیم سیسل لندن کے وائٹ ہال محل کے ٹھنڈے اور اندھیرے دالانوں کو پار کرتا  دربار میں ہوئے فیصلوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ملکہ نے ضرور اُسے سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ تجارت کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے بلایا ہو گا۔ دالان میں موٹے موٹے ہندوستانی، ایرانی اور تُرک قالین بچھے تھے، پھر بھی ٹھنڈ اُس کے پہلوؤں میں گھستی جاتی تھی۔

"ملکہ نے تُرکی کے ساتھ تجارت کے لیے 'کمپنی بہادر' تو بنا دی ہے، اب مشورہ کیا کرنا ہے۔"

سیسل نے جھنجھلا کر سوچا۔

دالان کی چھت اُونچی تھی اور دیواریں چھت تک لکڑی کے تختوں سے چھتی ہوئی تھیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ تصویریں لگی تھیں اور ہر چار قدم بعد یا تو کوئی میز پڑی تھی یا مجسمہ۔ وہ دھیان رکھتا کہ کمر کے ساتھ بندھی تلوار کی میان کسی شے سے ٹکرا نہ جائے۔ باہر پھر برفباری شروع ہو چکی تھی، سو اُس کے چمڑے کے جوتے بھیگے ہوئے تھے۔ اُس کی سفید داڑھی ٹھوڑی اور کانوں تک آتے سفید کالر سے باہر تھی۔ دالان سے باہر کھڑے دربان کے بعد یہ دوسرا دربان تھا جو ملکہ کے کمرے کے باہر کھڑا تھا۔ دربان نے وزیرِ اعظم کو جھک کر سلام کیا اور کچھ پوچھے بتائے بغیر ہی دروازے کا ایک پٹ آدھا کھول کر آواز لگائی۔

"وزیرِ اعظم ولیم سیسل آئے ہیں۔"

اندر سے خادمہ کی آواز آئی۔

"آنے دو۔"

دربان نے دروازے کے پٹ کو دھکا مارا۔ لکڑی کا لمبا چوڑا اور بھاری پٹ پونا کھل گیا۔ سیسل نے اپنا چوڑا گہرا ہرا ریشمی فراک اور اُوپر پہنا  کلیجی رنگ کا گرم چوغہ سمیٹا اور اندر داخل ہو گیا۔

بڑا کمرہ بھی قالینوں اور لکڑی کے تختوں سے ڈھکا تھا۔ ایک طرف ملکہ کا پلنگ لگا تھا اور دوسری طرف ایک میز اور کرسی پڑی تھی۔ سامنے آتش دان میں بھڑکتی آگ کے آگے پڑی کرسی پر ملکہ الزبتھ اوّل بیٹھی تھی اور ساتھ ایک خادمہ کھڑی تھی۔ آگ دیکھ کر سفید تنگ پاجامے میں ٹھٹھرتی سیسل کی پنڈلیاں اور بھی ٹھنڈی ہو گئیں۔

لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیسل آگ کے بالکل نزدیک چلا گیا۔ پھر اُسے احساس ہوا کہ یہاں سے ملکہ کو جھک کر سلام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ وہ دو قدم پیچھے ہوا، جھک کر سلام کیا، پھر ایک قدم آگے آکر ایک گھٹنا زمین پر ٹیک کر بیٹھ گیا۔

ملکہ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا جسے چومنے کے لیے سیسل نے جھک کر تھام لیا۔ ملکہ نے سیسل کی انگلیاں کس کر پکڑ لیں۔ سیسل وہیں جم گیا اور اُس نے اپنی مسکراہٹ مشکل سے دبا لی۔ کنواری ملکہ کی دھڑکنیں تیز تھیں۔ اِس عمر میں بھی سیسل جیسے پرشکوہ مرد کو دیکھ کر ملکہ کا دل پسیج جاتا تھا۔ دربار میں ملکہ کی ایسی شرارتیں مشہور تھیں، مگر سب کو پتہ تھا کہ ملکہ ایسی حرکتیں محض اپنا دل بہلانے کے لیے کرتی تھی۔ اِس سے آگے کچھ نہیں تھا۔ خادمہ کی موجودگی میں یہ حرکت کوئی پیغام نہیں، محض شرارت تھی۔ ملکہ شرارت سے مسکراتی رہی۔ دو ایک منٹ ہاتھ کس کر پکڑنے کے بعد ملکہ نے گرفت ڈھیلی کر دی۔ کنوارہ شاہی ہاتھ چوم کر سیسل پھر کھڑا ہو گیا۔

ملکہ نے خادمہ کو میز والی کرسی لانے کو کہا۔ کرسی آ گئی اور خادمہ کو باہر جانے کا کہہ کر ملکہ نے سیسل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کرسی آگ سے ذرا دُور تھی اور سیسل ابھی بھی ٹھٹھر رہا تھا۔ اُس نے کرسی اُٹھا کر آگ کے قریب کی اور ملکہ کے سامنے بیٹھ گیا۔

"جی ملکہ، آپ سلطنتِ عثمانیہ سے تجارت کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتی ہیں؟"

"نہیں سیسل، وہ تو میں "تُرکی کمپنی" کا چارٹر دستخط کر چکی ہوں۔ اب تجارت شروع ہو گی اور دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔"

"اچھا ہی ہو گا ملکہ، بحرِ ہند اور بحرِ روم میں ہسپانوی اور پرتگیزی بحری جہازوں سے عثمانی خلیفہ بھی پریشان ہے اور ہم بھی۔ ہندوستان سے یورپ میں ساری تجارت پر تو یہی قابض بیٹھے ہیں۔"

"تمہارے خدشات جائز ہیں سیسل۔ یہ دونوں پہلے ہی بحرِ روم اور یورپ کے زمینی راستوں پر قابض ہو کر عثمانی تجارت کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اب جب سے واسکو ڈی گاما نے بحرِ ہند کا سمندری راستہ بھی ڈھونڈ لیا ہے، بات اور بڑھ گئی ہے۔ پرتگالی اب ہندوستان کی گوا بندرگاہ پر جا بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے عثمانی تجارت اور کم ہوتی جا رہی ہے۔ اِس لیے تُرکی ہمارا ساتھ ضرور دے گا۔"

"جی ملکہ، ابھی تک تو خلیفہ مجھے سمجھدار  ہی لگتا ہے۔"

"ہاں،" ملکہ نے سیسل سے بھی زیادہ پھولا ہوا اپنا گہرا ارغوانی پھولدار فراک ذرا ٹھیک کرتے ہوئے کہا، عقلمند ہی لگتا ہے، مگر میں خلیفہ سے زیادہ اُس کی ملکہ پر بھروسہ کیے بیٹھی ہوں۔"

"جی ملکہ، صفیہ سلطان یورپی بھی ہے، سمجھدار بھی اور اُس کا اثر و رسوخ بھی دربار میں زیادہ ہے۔"

یہ ساری باتیں وہ "تُرکی کمپنی" کو چارٹر دینے کے فیصلے کے دوران کئی بار کر چکے تھے اور اب سیسل پھر وہی باتیں کر کے جھنجھلاتا جا رہا تھا۔

"ملکہ اب آپ کس معاملے پر بات کرنا چاہتی ہیں؟"

ملکہ کچھ دیر چپ رہی۔ آگ کی پیلی روشنی اُس کے بہت ہی سفید چہرے کو زرد کر رہی تھی۔ سیسل سمجھ گیا کہ ملکہ کے دماغ میں کچھ بڑا چل رہا ہے۔ اُس نے دماغ کو ذرا اور حاضر کیا اور انتظار کرنے لگا، دیکھو، اب کون سا نیا شگوفہ چھوڑتی ہے ملکہ۔

"میں چاہتی ہوں تم کسی سمجھدار بندے کو ہندوستان بھیجو۔"

بات سیسل کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ کیا کہہ رہی ہے؟

مگر وہ بولا کچھ نہیں۔

"میں چاہتی ہوں کوئی بھیس بدل کر ہندوستان جائے، مغل شہنشاہ اکبر سے ملے اور اُسے منائے کہ وہ پرتگالیوں کو اپنے ملک سے نکالے۔"

سیسل اب بھی چپ رہا، مگر اُس کا دماغ بھنبھیری کی طرح چلنے لگا تھا۔ ملکہ ٹھیک سوچ رہی تھی۔ اکبر ایک کھلے دماغ کا بادشاہ تھا جبکہ پرتگالی کٹّر یسوعی کیتھولک تھے۔ اِس بات پر اکبر کو اُن کے خلاف کیا جا سکتا تھا۔

پرتگالی ہندوستان میں گوا کی بندرگاہ پر کالونی بنا کر من مانی کر رہے تھے۔ جہاز رانی میں مغلوں سے برتری کی وجہ سے بحرِ عرب کی تجارت پر بھی اُن کا قبضہ تھا۔ اگر ہندوستان اور یورپ کے درمیان تجارت انگریزوں کے ہاتھ آ جائے تو وہ اکبر کو زیادہ ٹیکس دیں گے جس میں اکبر کا فائدہ ہی فائدہ ہے، وہ انگریزوں کے ساتھ مل سکتا تھا۔ اِس وقت عثمانیوں کے تعلقات نہ مغلوں سے اچھے تھے نہ پرتگالیوں سے۔ اگر ہندوستانی تجارت ہمارے ہاتھ آ جائے تو ہم ہندوستان اور سلطنتِ عثمانیہ کے درمیان بھی تجارت کا پل بن سکتے ہیں۔ یہ تینوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

"ملکہ عالیہ، آپ نے واقعی زبردست بات سوچی ہے۔"

سیسل نے دل سے ملکہ کی تعریف کی۔

"ملکہ عالیہ، میرے ذہن میں ایک نوجوان ہے، فرانسیس بیکن۔ نوجوان فلسفی ہے۔  پڑھا لکھا بھی ہے اور سمجھدار بھی۔ اُسے بھیجا جا سکتا ہے۔"

"یہ فلسفیوں کا کام نہیں سیسل، کسی شاطر سفارتکار کو بھیجو۔"

سیسل مسکرایا۔

"ملکہ، شاطر سفارتکار میں اُس کے ترجمان کے طور پر بھیجوں گا۔ بادشاہ فلسفے کا شوقین ہے اور علماء کی بحثیں کرواتا ہے، فلسفی نوجوان کے ذریعے اُس تک پہنچنا آسان رہے گا۔"

 

قُسطنطُنیہ

بندرگاہ

"سنہری سینگ" بندرگاہ ایک مصوری کا شاہکار لگتی تھی۔ رنگین، وسیع اور شاندار۔ ہجوم لگا تھا۔ چھوٹے بڑے کئی جہاز آ جا رہے تھے۔ انگریز کمپنی کے جہاز نے لنگر ڈالا۔ وہ بڑے جہازوں میں شامل تھا۔  پھر بھی برکلے اتنے جہاز، اتنی نسلوں کے لوگ اور اتنی ریل پیل دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ بڑی بات نہیں تھی کہ وہ کشتی پر بیٹھنے سے پہلے اچھی طرح پھر تیار ہوا تھا اور اپنے تمغے چمکا کر اور بال دوبارہ سنوار کر بندرگاہ جانے کے لیے کشتی پر بیٹھا۔

رسی کی سیڑھی پر پیر رکھتے ہی اُسے گرم دھوپ کا احساس ہوا۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا، اتنا نکھرا نیلا رنگ اُس نے برطانیہ میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آج اُسے سمجھ آئی کہ آسمانی نیلا رنگ کیا ہوتا ہے۔ دوسرا پیر سیڑھی پر رکھا تو سر پر دریائی پرندے قیں قیں کرتے اُڑتے محسوس ہوئے۔ ایک عجیب طرح کی بھرپور زندگی کا احساس اُس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔

چھوٹی سی کشتی ڈولتی ڈولتی بندرگاہ کی طرف تیرنے لگی اور ایک لشکارا اُس کی آنکھوں میں پڑا۔ گہرے نیلے پانی میں سورج کی کرنیں جیسے کھیل رہی تھیں۔ ایک جہاز کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ رومانیہ کے تاجر حبشی غلاموں سے شیشے کے سامان کی پیٹیاں کشتیوں میں لدوا رہے تھے۔ ساتھ کے ایک جہاز میں مصری تاجر اپنے غلاموں سے کشتی سے کپڑوں کے تھان جہاز میں اتروا رہے تھے۔ جہازوں، کشتیوں اور لنگروں سے بچتے بچاتے کشتی بندرگاہ کی طرف بڑھتی رہی۔

بندرگاہ پر اُتر کر برکلے کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ دنیا کی ہر نسل کا شخص وہاں موجود تھا اور تجارتی سامان کی ہزاروں پیٹیاں ہر طرف بکھری پڑی تھیں۔ اتنے میں ایک تُرک سپاہی نے تاڑ لیا کہ وہ یہاں پہلی بار آیا ہے۔ سپاہی نے برکلے کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور شہر کی طرف چل پڑا۔ برکلے اور اُس کے دو افسر سپاہی کے پیچھے چل پڑے۔ اونچی ٹوپی، لمبا کوٹ اور پاجامے کے اُوپر پنڈلیوں تک کے جوتے پہنے اُسے راستے میں کئی اور بھی تُرک سپاہی اور افسر نظر آئے۔ شکل سے پہلے نسل اپنے لباس سے پہچانی جاتی تھی۔ یورپیوں کے لمبے کوٹ، مسلمانوں کے چوغے اور ہندی و ایرانی تاجروں کے کرتے دھوتیاں اور شلواریں، رنگ نظر آنے سے پہلے ہی اُن کی نسل بتا دیتے تھے۔

برکلے نے دو تین بار ساتھ لانے والے سپاہی سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ان سنی کرتا رہا۔ اُس کے ایک افسر بلیک کو فارسی آتی تھی، اُس نے بھی کوشش کی مگر کچھ نہ بنا۔ برکلے کو بھی اندازہ تھا کہ عوامی زبان تُرکی تھی اور فارسی عام لوگ نہیں سمجھتے ہوں گے، پھر بھی اُس نے کوشش بار بار کی۔ قسمت آزمانے میں حرج ہی کیا تھا۔

انسانوں کو کندھے مارتے اور گھوڑا گاڑیوں سے بچتے بچاتے وہ بڑی محرابوں والی ایک عمارت میں جا گھسے۔ سیڑھیاں چڑھ کر آگے بڑا سا برآمدہ تھا جس کے سرے پر محراب کی شکل کا ایک دیو قامت دروازہ تھا۔ دو دربان دروازے پر ہوشیار کھڑے تھے۔ اندر داخل ہوئے تو دو اور دربان دالان میں کھڑے تھے۔ آگے ایک اور دروازے کے آگے پھر دو دربان کھڑے تھے۔ اِنہوں نے روک لیا۔ سپاہی نے اُن سے کچھ کھسر پھسر کی اور ایک دربان اندر چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد دربان نے ساتھ لانے والے سپاہی کو اندر بلا لیا۔ تینوں انگریز دربانوں کے پاس اکیلے رہ گئے۔ بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، وہ کھڑے رہے۔ آدھے گھنٹے بعد دربان نے دروازے میں سے منہ نکال کر تینوں کو غور سے دیکھا اور برکلے کے چمکدار تمغوں سے تخمینہ لگایا کہ وہی تینوں میں سے افسر ہے۔ برکلے کو اندر آنے کا اشارہ ہوا۔ برکلے نے اپنے افسروں کو بھی ساتھ آنے کا اشارہ کیا مگر دربان نے روک لیا۔ فارسی، فارسی، برکلے نے اپنے فارسی والے افسر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ دربان نے ایک منٹ سوچا پھر بات سمجھ کر تینوں کو جانے دیا۔

یہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا۔ اونچی چھت کمرے کو اور بھی بڑا کر رہی تھی۔ بڑی بڑی کھڑکیاں چھت تک جاتی تھیں جس سے کمرہ خوب روشن تھا۔ لکڑی کے فرش پر چلتے انگریزی جوتوں کی ایڑیاں ٹھک ٹھک بجتیں برکلے کو پریشان کر رہی تھیں۔ ایک دیوار کے ساتھ نیلے اور ہرے رنگ کا ایرانی قالین بچھا تھا۔ قالین پر بغیر ٹانگوں کا ایک میز پڑا تھا جس کے پیچھے بھاری چوغہ اور بڑی پگڑی باندھے ایک تُرک بیٹھا تھا۔ اُس کے سامنے دو تُرک افسر ہاتھ باندھے با ادب بیٹھے تھے۔ چار چھوٹے افسر ایک سائیڈ پر کھڑے تھے۔

دربان نے کھڑے افسروں کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں جا کر کھڑے ہو جاؤ۔ چوغے والے نے اُن کی طرف دیکھا اور برکلے نے ہاتھ سینے پر رکھ کر اونچی سی آواز میں کہا "سلام۔"

چوغے والے نے سر ہلا کر سلام قبول کیا۔ آگے سے بلیک نے فارسی میں بات کی۔

"سر میں نے اِنہیں بتایا ہے کہ ہم ملکہ برطانیہ کی چارٹرڈ "تُرکی کمپنی" کے افسر ہیں اور کمپنی کا تجارتی جہاز لے کر آئے ہیں۔"

"تو آگے سے بولتا کیوں نہیں؟" برکلے نے چوغے والے پر ہی آنکھیں جمائے پوچھا۔

"سر مشرق کی رسم یہی ہے، جلدی کرنے والے کو یہاں احمق سمجھا جاتا ہے۔" بلیک کی نظریں بھی چوغے والے پر ہی گڑی تھیں۔

"اِسے فارسی سمجھ بھی آتی ہے؟" جواب نہ ملنے پر برکلے پریشان تھا۔

"کچھ پتہ نہیں سر، دیکھتے ہیں۔"

کچھ دیر بعد چوغے والے نے سر کا اشارہ کیا اور ایک کھڑے افسر نے فارسی میں بلیک کو کچھ کہا۔

"سر یہ تجارت کا اجازت نامہ مانگ رہے ہیں۔"

برکلے نے شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے اپنے کوٹ کی جیب سے کمپنی کا چارٹر اور خلیفہ کا اجازت نامہ نکالا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کسے دے کہ بلیک نے کاغذات پکڑ کر بات کرنے والے کھڑے افسر کو تھما دیے۔ اُس نے آگے ایک بیٹھے افسر کو، جس نے ادب سے گھٹنوں کے بل اُٹھ کر چوغے والے کے آگے میز پر کھول کر دونوں کاغذ رکھ دیے۔ چوغے والے نے ایک نظر کاغذوں پر ڈالی پھر خلیفہ کا اجازت نامہ اُٹھا کر لال رنگ کی مومی مہر کو غور سے دیکھا۔ تسلی ہو گئی تو کاغذ واپس رکھ دیا۔

بیٹھے افسر نے اُٹھا کر کاغذ کھڑے والے کو تھما دیے جس نے بلیک کو، اور پھر کچھ کہا۔

"سر یہ کہہ رہے ہیں ہمارا استقبال ہے۔"

"گُڈ۔" برکلے بولا۔ نہ کوئی کچھ بولا نہ کوئی ہلا۔ برکلے کنفیوژ ہو گیا۔

"اب کیا کرنا ہے؟"

"اب اجازت لے کر باہر جانا ہے سر۔"

دونوں کی نظریں مسلسل چوغے والے پر ہی ٹکی تھیں۔

"مگر ہم نے تو ملکہ کو ملنا ہے۔"

"اُس کے لیے ہمیں محل جانا چاہیے سر۔"

"اِن سے پوچھو ملکہ صفیہ سلطان کو کہاں ملا جا سکتا ہے۔"

ایسا ہوا جیسے محفل پر تیزاب چھڑک دیا  گیا ہو۔ سب نے یوں سر اُٹھا کر برکلے کی طرف دیکھا جیسے سانپ ڈنگ مارنے کے لیے پھن اُٹھاتا ہے۔ تینوں انگریز افسر ڈر  گئے۔

بلیک نے جھک  کر فارسی میں ملکہ معظمہ، ملکہ معظمہ کہا۔ برکلے نے اُس کے کان میں کہا کہ چوغے والے کو بتائے کہ برکلے ملکہ الزبتھ اوّل کا ایک خاص پیغام ملکہ صفیہ سلطان کے لیے لایا ہے۔

بلیک نے یہ بات بتائی تو چوغے والے نے ہاتھ آگے کر دیا۔

"بلیک اِسے بتاؤ کہ وہ پیغام میں صرف ملکہ کو ہی دوں گا، اور کسی کو نہیں۔"

بلیک دو سیکنڈ جھجکا، پھر سر جھکا کر کہا کہ ملکہ برطانیہ کی خاص ہدایت ہے کہ پیغام صرف ملکہ کو ہی دیا جائے۔

پہلی بار چوغے والا بولا۔ اُس کی فارسی رواں تھی۔

"ملکہ سلطنتِ عثمانیہ ہر کسی سے نہیں ملتیں۔"

"ایک ملکہ کا پیغام دوسری ملکہ تک پہنچانا ضروری ہے۔" بلیک درباریوں کی ذہنیت سمجھتا تھا۔

"میں پیغام ملکہ عالیہ تک پہنچا سکتا ہوں، تم لوگوں کو نہیں ۔" چوغے والے نے کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا۔

بلیک سے اِس بات چیت کا ترجمہ سُن کر برکلے نے کہا پھر نکلتے ہیں یہاں سے۔ وہ چوغے والے کی اجازت لے کر باہر آ گئے۔

 

ٹوپ کاپی محل

 

خلیفہ سلطنتِ عثمانیہ، سلطان مراد سوم کی البانوی معشوقہ، ملکہ صفیہ سلطان اپنے کمرے میں جھولے پر نیم دراز تھی۔ کالی لکڑی کے جھولے پر موٹے قالینوں کے اوپر گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے اور ملکہ حقہ پی رہی تھی۔ درباری امراء اُسے 'ناگن' کہتے تھے۔ سانپ کی ملائم چال سے وہ ہر کسی کے سرہانے پہنچ جاتی اور اُس کا ڈسا کبھی پانی نہیں مانگ سکا تھا۔ اِس زہریلے حُسن کا خفیہ نام 'ناگن' ہی ہو سکتا تھا۔ پیچھے دو کنیزیں جھولے کو ہر جھول پر آہستہ سے ہلا دیتی تھیں۔ ساتھ ہی آغا کھڑا تھا۔

گورا چٹا غضنفر آغا محل کے خواجہ سراؤں کا سردار تھا۔ اُس کے اطالوی نسل کے لمبے، چھریرے بدن پر لٹکا چوغہ ملکہ کے چوغے سے ہرگز کم نہیں تھا۔ مگر چوغے پر ٹنگے کسی بھی نگینے میں آغا کی آنکھوں جتنی تیز چمک نہیں تھی۔ خلیفہ، ملکہ اور والدہ سلطان کے علاوہ سلطنت کا ہر شخص اُس کی بات سانس روک کر سنتا ۔ ویسے بھی اُس کے جبڑے کی ابھری ہوئی ہڈیوں کے ہلنے سے ہر کوئی خوفزدہ رہتا۔ اُس کے الفاظ کا وزن حکمِ سلطانی سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتا تھا۔

سامنے قالین پر ایک ایرانی آتش پرست، سفید چوغہ اور گول ٹوپی پہنے بیٹھا تھا۔

"ملکہ عالیہ، حاصکی سلطان! معزز موبد ایرانی آتش پرستوں کے روحانی باپ ہیں۔" غضنفر نے آتش پرست کا تعارف کرایا۔

ملکہ کا حقہ گڑگڑایا۔

"ملکہ، معزز موبد کئی برسوں سے ہندوستان میں مقیم ہیں۔"

ملکہ کا حقہ گڑگڑایا۔

"ملکہ عالیہ، معزز موبد آتش پرستوں کے عظیم عالم، دستور مہرجی رانا کے شاگرد ہیں۔"

ملکہ کا حقہ گڑگڑایا۔

"ملکہ معظمہ، معزز موبد عظیم دستور کے ساتھ ہندوستان کے بادشاہ اکبر سے بھی ملتے ہیں۔"

اِس بار ملکہ کا حقہ خاموش رہا۔

---------------------------

 

غضنفر آغا ملکہ صفیہ سلطان کے کمرے سے نکلا تو ایک کنیز اُس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"ہمت کی داد ہے۔" غضنفر گردن ٹیڑھی کر کے مسکرایا۔ اُس کے کان میں پڑی بالی جھولنے لگی اور اُس میں جڑا قیمتی ہیرا ہر جھول پر چمکنے لگا۔

"عظیم آغا کے لیے ایک نادر تحفہ پیش کرتی ہوں۔" کنیز نے ایک ریشمی پوٹلی اُس کے آگے کر دی۔

غضنفر نے جنبش نہ کی۔

کنیز نے بڑی ادا سے پوٹلی کھولی، اندر کوئل کے انڈے جتنا ایک یاقوت تھا۔

غضنفر کچھ دیر یاقوت کو دیکھتا رہا۔ یہ تسلی کر کے کہ پتھر قیمتی تھا، اُس نے نظریں کنیز کی طرف کیں۔ بولا کچھ نہیں۔

"ایک انگریز افسر ملکہ سے ملاقات چاہتا ہے۔"

غضنفر کی مسکراہٹ  غائب ہو گئی۔

"ملکہ برطانیہ کا خط لے کر آیا ہے۔" کنیز نے گھبرا کر جلدی سے کہا۔

غضنفر نے کنیز کے ہاتھ میں چمکتے پتھر کو دوبارہ دیکھا، پھر کنیز کی طرف دیکھا۔

"اِس انگریز افسر نے عظیم آغا کے لیے پیغام بھیجا ہے، وہ آغا سے خود مل کر کچھ تحائف آغا کی نظر کرنا چاہتا ہے۔"

غضنفر نے یاقوت کنیز کے ہاتھ سے پکڑا اور آگے بڑھ گیا۔ کنیز تڑپ کر اُس کے پیچھے دوڑی۔

"عظیم آغا!"

"اگلے مہینے۔" غضنفر نے مڑے بغیر کہا اور نکل گیا۔

کنیز نے رک کر اپنی چولی پر ہاتھ رکھ کر لمبا سانس لیا۔ چولی میں پڑی اشرفیاں حلال ہو گئی تھیں۔ اب آغا سے ملاقات کے لیے اِس سے دُگنی اشرفیاں لوں گی۔ سوچ کر وہ مسکرائی۔

 

گوا

مقدس فادر "روڈولفو آکواویوا" آہستہ آہستہ چلتے بازار کی طرف جا رہے تھے۔ سڑک کنارے لگے ناریل کے درختوں کی جھولتی ہوئی چھاؤں پرتگالی پادری کو بھلی لگ رہی تھی۔

ایک طرف بندرگاہ تھی۔ کوئی جہاز آ رہا تھا، کوئی جا رہا تھا۔ کسی نے بادبان کھولے تھے کسی کے لپیٹے ہوئے تھے۔ کسی میں سے تجارتی سامان اُتارا جا رہا تھا کسی میں  رکھوایا جا رہا تھا۔ کشتیاں جہازوں اور بندرگاہ کے درمیان سامان اور لوگوں کو اِدھر اُدھر کر رہی تھیں۔ کچھ بیل گاڑیاں سامان کی پیٹیاں لاد کر بازار کو جا رہی تھیں کچھ جہازوں پر لدوانے کے لیے آ رہی تھیں۔ فادر روڈولفو نے بندرگاہ کی طرف دیکھا جہاں بحرِ عرب میں دُور دُور تک جہاز ہی جہاز دکھائی دیتے تھے۔ کوئی جہاز ایران سے آیا تھا اور کوئی مصر جانے کے لیے تیار تھا۔

ہوا کا ایک جھونکا آیا تو فادر کے نتھنوں میں جیسے خوشبوؤں کا طوفان آ گیا۔ ہلدی، دار چینی، کالی مرچ، نمک، بارود، گیلی لکڑی، تازہ مچھلی، سمندر کے پانی اور نہ جانے اور کون کون سی خوشبوؤں نے مل کر اُس کے نتھنوں میں خوشبوؤں کا مینا بازار سجا دیا۔ کھلی نکھری دھوپ میں اُس کا بدن پگھل کر کھلنے لگا۔ سورج کی ٹکور نے اُس میں نئی جان ڈال دی۔ آہستہ آہستہ اُس کے سامنے پھیلی تصویر میں جان پڑنے لگی۔

ایک کالا حبشی اپنی پٹاری کھولے سانپ کا تماشا دکھا رہا تھا۔ ایک طرف ایک جادوگر منہ میں سے آگ نکال کر دکھا رہا تھا۔ دوسری طرف ایک عربی اور ایرانی سودے پر بحث کر رہے تھے۔ اُدھر لمبے کوٹ پہنے یہودی تاجر ایک تاجر سے اشیاء خرید کر وہیں دوسرے کو بیچ رہے تھے۔ ایک طرف چوغے پہنے عربی تاجر کھجوریں بیچتے پھرتے تھے۔ وہاں دنیا کی ہر نسل کا شخص موجود تھا۔ حبشی غلام، ہندوستانی، ایرانی، تُرک، اُزبِک، آرمینی، البانوی، ہنگری، فرانسیسی، اطالوی، عربی، یونانی، یمنی، کُرد، مصری اور نہ جانے اور کن کن ملکوں کے تاجر ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ کوئی اپنا سامان اُتروا رہا تھا کوئی رکھوا رہا تھا، کوئی سودے کر رہا تھا اور کوئی چھکڑوں پر پیٹیاں رکھوا کر شہر کی طرف لے جا رہا تھا۔ پیٹیوں کے انبار لگے تھے اور ساتھ ہی چھکڑوں کی قطاریں لگی تھیں۔

بڑے بڑے جہاز دُور دُور تک پھیلے تھے۔ اونچے اونچے بادبان، تجارتی سامان کی پیٹیاں ہی پیٹیاں اور ہر رنگ و نسل کا انسان دیکھ کر فادر نے رب کی شان کا ورد کیا۔

فادر روشن دن کے اِس حسین نظارے پر ایک نظر ڈال کر بازار کی طرف مڑ گئے۔

بازار اُسے ہمیشہ سے ہی پسند تھا۔ یہاں آ کر فادر کو زندگی کا احساس ہوتا تھا، اور ساتھ ہی دنیا کی ہر نسل کو مسیحیت میں داخل کرنے کی تڑپ بھی۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ تڑپ کہ وہ کافر پروٹیسٹنٹ انگریزوں کو یسوعی کیتھولک بنا دے۔

گوا کا بازار بھی ایک رنگین دنیا تھی۔ ایک دکان  پر گجراتی تاجر ململ کے تھان سجائے بیٹھے تھے اور اگلی دکان  پر آرمینیا کے تاجر چینی کے نیلے کام والے برتن بیچ رہے تھے۔ ایک عربی تاجر کھجوریں لگائے بیٹھا تھا جس کے ساتھ ایک پنجابی سودا طے کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سامنے بیجا پور کا ایک تاجر ریشمی ساڑھیاں بیچتا تھا اور ایک فرانسیسی تاجر دام گھٹانے کے لیے بھاؤ تاؤ کر رہا تھا۔ بیچ میں ٹوکریوں میں تازہ سبزیاں اور مچھلیاں سجائے رنگین ساڑھیاں پہنے دیسی عورتیں آوازیں لگا رہی تھیں۔ اُس طرف ایک دکان پر یہودی باپ بیٹا قیمتی پتھر رکھے بیٹھے تھے۔ آگے مصالحوں کی  دکانیں تھیں جن میں دار چینی، کالی مرچ، ہلدی، لونگ، لوبان، چینی، نمک  اور دیگر کئی مصالحوں کی ڈھیریاں لگی تھیں اور فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی، آرمینی، البانوی، تُرک اور بھی کتنی ہی نسلوں کے گاہکوں کا رش لگا تھا۔ سب سے زیادہ رش نیل بیچنے والی  دکانوں  پر تھا۔ فادر کے نتھنوں میں شور مچاتی تازہ مچھلی اور سبزیوں کی خوشبوؤں کو اب مصالحوں کی  تیز  خوشبوئیں پیچھے چھوڑتی جا رہی تھیں۔ چوغے پہنے، کرتے پہنے، کوٹ پہنے، پگڑیاں اور ٹوپیاں پہنے، پاجامے، ٹوپ، شلواریں اور دھوتیاں پہنے ہر نسل کا شخص دیکھا جا سکتا تھا۔

بازار پار کر کے فادر وائسرائے کے محل کی طرف مڑ گئے۔

اب راستے میں بڑے بڑے گنبدوں والے گرجا گھر اور اونچی چھتوں اور برآمدوں والے کھلے کھلے گھر تھے۔ یہ سب ہی پرتگالی طرزِ تعمیر پر بنائے گئے تھے مگر گوا کی گرم اور مرطوب آب و ہوا کے پیشِ نظر چھتیں اونچی اور کھڑکیاں بڑی بڑی تھیں۔

"ڈو فرانسیسکو ماسکاریناس" گوا میں نیا پرتگالی وائسرائے آیا تھا۔ فادر روڈولفو اُس کے دفتر میں داخل ہو گئے۔

یہ ایک بہت ہی بڑا کمرہ تھا۔ لکڑی کا فرش اور لکڑی کی چھت، جس سے بڑے بڑے تین فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں پر پرتگالی اور ہسپانوی بادشاہ اور ملکہ کی قد آدم تصویریں اور یورپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں پرتگالی کالونیوں کے بڑے بڑے نقشے ٹنگے تھے۔ ہر دوسری شے پکے کھجور کے رنگ کی تھی پھر بھی چھت تک جاتی کھڑکیوں سے نکھری دھوپ چھن چھن کر آتی کمرے کو روشن کیے ہوئے تھی۔

درمیان والے فانوس کے نیچے ایک بڑا میز اور شاہانہ کرسی پڑی تھی۔ وائسرائے لمبا کوٹ، لمبے جوتے، پاجامہ اور شتر مرغ کے پنکھ جڑی ہیٹ پہنے بیٹھا تھا۔ فادر اُس کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ وائسرائے نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور سب باہر چلے گئے۔

"فادر آپ شہنشاہ اکبر کے عبادت خانے کب جا رہے ہیں؟"

"دو ہفتوں تک نکلوں گا۔"

"آپ کو یقین ہے نا کہ شہنشاہ سے آپ کی ملاقات ہو گی؟"

"شیخ ابوالفضل کی طرف سے خاص پیغام آیا ہے۔ بادشاہ نے دو مہینوں تک محفل رکھنی ہے۔ رب نے چاہا تو ضرور ملاقات ہو گی۔"

"فادر آپ کسی طرح، کسی بھی طرح شہنشاہ کو مسیحی کر سکتے ہیں؟"

"میرے بچے میں اپنا کام کر رہا ہوں، جو رب کی طرف سے میرے ذمے لگایا گیا ہے۔ اگر اُس کی مرضی ہوئی تو بادشاہ ضرور سچ کو پا لے گا۔"

وائسرائے بڑا شاطر سفارت کار تھا۔ وہ فادر کی  مبہم بات پر جھنجھلا گیا۔ مگر اُسے معلوم تھا کہ فادر بھلے ہی پادری تھے، مگر وہ ایک بڑے عالم تھے اور اُنہیں سفارت کاری کے فن پر بھی عبور تھا۔

"فادر میں نے سنا ہے شہنشاہ اسلام سے باغی ہے اور وہ کسی اور دین میں داخل ہونا چاہتا ہے؟"

"بادشاہ اسلام سے نہیں، مسلمان علماء سے باغی ہوا ہے۔"

"اور اِس بات کو کھینچ کر اُسے اسلام سے باغی نہیں کیا جا سکتا؟"

"آپ جانتے ہیں کہ بادشاہ اَن پڑھ ضرور ہے مگر جاہل نہیں۔ اُسے اچھے بُرے کی اچھی پہچان ہے۔"

"فادر آپ مسیحیت کو اچھا ثابت کرنے کی روشن مثال بھی ہیں اور اِس کی سچائی کو ثابت کرنے کے دلائل کے بھی ماہر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ شہنشاہ کو قائل کر سکیں گے۔"

فادر چپ رہے۔ وائسرائے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ جب تک فادر خود نہ بولے۔

"بادشاہ اکبر روشن خیال ضرور ہے، مگر وہ  عقلمند بھی ہے۔ اگر اُس کا ایک نورتن کھلے ذہن کا اسلامی عالم ابوالفضل ہے تو دوسرا نورتن کٹّر ملا بدایونی ہے۔"

"فادر وہ روشن خیال ہے، اپنے دین سے باغی ہے، کوئی دوسرا مذہب اپنانے کے لیے دوسرے مذاہب کے پادریوں اور پنڈتوں سے صلاح لے رہا ہے، کیا آپ باقی ادیان کے مقابلے میں مسیحیت کو سچ ثابت نہیں کر سکتے؟"

"جناب وائسرائے، جس طرح میں نے عرض کی، بادشاہ دین سے نہیں مسلمانوں سے باغی ہے۔"

"فادر میں نے سنا ہے اگر شہنشاہ کسی بھی دین سے قائل نہ ہوا تو وہ اپنا نیا دین نکال لے گا۔"

"سُنا تو یہی ہے۔"

"فادر اِس طرح تو ہر دین کے لوگ اُس کے خلاف نہیں ہو جائیں گے؟"

"یہ ہندوستان ہے وائسرائے، پرتگال نہیں۔ یہاں دین کے نام پر حکمرانی ہو تو دیندار آپس میں لڑتے ہیں، اگر حکمرانی دین پر نہ ہو تو سارے بادشاہ کے وفادار رہیں گے۔ یہ بات بادشاہ سمجھتا ہے۔"

"اور فادر پھر آپ شہنشاہ کو کس طرف دھکیل رہے ہیں؟"

"انگریز قُسطنطُنیہ پہنچ گئے ہیں اور اُن کا اگلا قدم ہندوستان پڑنا ہے۔ اِس سے پہلے کہ انگریز ہمیں بدایونی سے جوڑیں، میں اُسے یقین دلا دوں گا کہ ہم مسیحیت کے ابوالفضل ہیں۔" یہ کہتے فادر کے چہرے پر کراہت آ گئی۔

وائسرائے کو ہنسی آ گئی۔

"فادر یہ تو دن کو رات کرنے والی بات ہے۔ بادشاہ آپ کی یہ بات کس طرح مانے گا؟"

"انگریز سمجھدار  ہیں، کھلے ذہن کے نہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی اُن کی اسمبلی نے چڑیلوں کو پکڑنے اور مارنے کا قانون پاس کیا ہے۔ میں دیکھوں گا اِسے وہ کھلے ذہن سے کیسے ملاتے ہیں۔"

فادر نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، اور جاری رہے۔

"علاوہ ازیں ہماری بچی ماریا بادشاہ کی ملکہ ہے معزز وائسرائے۔ میں اُس سے ملوں گا۔ وہ ہمارے بڑے کام آ سکتی ہے۔"

وائسرائے کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔

 

فتح پور سیکری

فرانسیس بیکن جس وقت پر فتح پور سیکری کے سامنے پہنچا سورج سنہرے سے گہرا نارنجی ہو چکا تھا۔ بیکن کا جیسے دل ڈوب گیا۔ اُس کے ٹیلے سے سارا شہر ایک کلیجی رنگ کے ایرانی قالین کی طرح بچھا دکھائی دیتا تھا۔ شہر کی ہر بڑی عمارت لال پتھر کی تھی اور نہ جانے کیسا پتھر تھا جو ڈوبتے سورج کی لال روشنی میں دہکتے کوئلے کی طرح لاٹیں مار رہا تھا۔

اُس کی حیرت دیکھ کر ساتھ آیا ترجمان اُسے مختلف عمارتوں کے بارے میں بتاتا جاتا۔ پَنچ محل دیکھ کر تو اُس کے قدم جیسے جم ہی گئے۔ اتنی خوبصورت پانچ منزلہ عمارت، اُسے لگا جیسے وہ الف لیلہ کی دنیا میں آ گیا ہو۔ جب ترجمان نے اُسے بتایا کہ یہ شاہی زنان خانے کا محل ہے اور اِس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اِس کی بالائی منزلوں میں ہر وقت تیز ہوا چلتی رہتی ہے تو وہ دنگ ہی رہ گیا۔

شہر کے اندر سے گزرتے ہر ایک شے پر بیکن دنگ رہ جاتا۔ عمارتوں کے پاس سے گزرتا اور پتھروں پر ہوا باریک کام  دیکھ کر عش عش کرتا۔ چوڑی اور فُٹے سے ناپی سیدھی سڑکیں دیکھ کر ہندوستانی علم و ہنر اور فن کی عظمت اُس پر حاوی ہو گئی۔

جامع مسجد دیکھ کر اُس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ مسجد کے گنبد کی وسعت دیکھ کر اُس پر ہیبت طاری ہو گئی۔ جامع مسجد کے پیچھے ہی ابوالفضل کا گھر تھا۔ گھر کے سامنے ایک بڑا برآمدہ تھا۔ باہر کھڑے دربانوں نے بات چیت پوچھ کر اندر اطلاع کی اور اجازت ملنے پر اندر جانے کا اشارہ کیا۔

اندر داخل ہوئے تو ایک بڑا ہال کمرہ تھا۔ کمرے کی چھت، اُس کے ستونوں اور فرش پر ہوا باریک کام دیکھ دیکھ کر بیکن دل ہی دل میں ہنر مندی اور اعلیٰ ذوق کی داد دیتا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ابوالفضل آ گیا۔ یمنی نین نقشے والا راجستھانی۔ درمیانہ قد، ہلکی داڑھی۔ سر پر بھاری راجستھانی پگڑی اور ہلکے نارنجی رنگ کے چوغے  پر  ہری ریشمی شال۔ بیکن نے جھک کر سلام کیا۔ ابوالفضل نے بھی جھک کر "اللہ اکبر" کہا۔

ترجمان نے تعارف کروایا کہ یہی وہ انگریزی فلسفی ہیں جو مشرق کا علم ڈھونڈنے آئے ہیں۔

"مجھے آپ کا بڑا انتظار تھا۔ میں بھی ہندوستان کی تاریخ لکھ رہا ہوں۔ آپ سے بات چیت کر کے مجھے بھی سیکھنے کا موقع ملے گا۔"

"محترم ابوالفضل، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ آپ جیسے عالم کو تو دیکھنا ہی بڑی خوش قسمتی ہے، کہاں آپ نے ملاقات کا شرف بخشا۔"

"یہ آپ کی عالی ظرفی ہے جناب بیکن۔ میں نے آپ کی بحریہ اور آپ کے سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے بارے میں سُنا ہے۔"

بیکن کو جھٹکا لگا۔ ہندوستانی دنیا سے اتنے کٹے ہوئے نہیں تھے جتنا وہ سمجھے بیٹھا تھا۔

"محترم ابوالفضل، یہ حکمرانوں کی باتیں ہیں، میں اِن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ میں تو ایک عام سا طالب علم ہوں۔"

"بہت خوب، آپ کس ملک کی تاریخ لکھ رہے ہیں؟"

"جی میں نے  یورپ کی بڑی طاقتوں کی تاریخ پڑھی ہے۔ اور پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ مشرق کی تاریخ کے بارے میں ہمارے لوگوں کو زیادہ نہیں معلوم، اِس لیے ہندوستان کے عظیم ملک کی تاریخ ڈھونڈنے یہاں آیا ہوں۔ پھر پتہ چلا کہ ہندوستان کی تاریخ آپ جیسا عالم لکھ رہا ہے تو میں نے سوچا کہ آپ کی ہندوستانی تاریخ میں ہی ترجمہ کر لوں گا۔ اگر آپ کی ہندوستانی تاریخ کی ایک کاپی عنایت ہو جائے تو میری خوش قسمتی ہو گی۔"

"یہ تو اچھی بات ہے۔ ابھی تاریخ مکمل تو نہیں ہوئی، مگر جتنی لکھی ہے اُس کی کاپی دے کر مجھے خوشی ہو گی۔ مگر چونکہ یہ تاریخ شہنشاہ کے حکم پر لکھی جا رہی ہے اِس لیے شہنشاہ کی اجازت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو گا۔"

"محترم ابوالفضل، مجھے یقین ہے کہ شہنشاہ آپ کو اجازت دے دیں گے۔ میں نے سنا ہے کہ شہنشاہ ہندوستان ایک عالم فاضل اور روشن خیال بادشاہ ہیں۔ ایسا حکمران ہونا کسی بھی ملک کی خوش قسمتی ہوتی ہے۔"

ابوالفضل یہ بات سُن کر خوش ہو گیا۔

"مجھے خوشی ہے کہ آپ بھی ایک روشن خیال عالم ہیں۔ آج کل شہنشاہ عبادت خانے میں فلسفے اور مذاہب پر بحثیں سن رہے  ہیں، میں کوشش کروں گا کہ آپ بھی ایسی کسی محفل میں شامل ہو سکیں۔"

"اگر یہ ہو جائے تو میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا خوش قسمت انسان  سمجھوں گا۔ یہ تو کمال عزت افزائی کی بات ہو گی۔"

"اچھا، آئیے پھر میں آپ کو اپنی تاریخ کی کتاب دکھاؤں۔"

 

عبادت خانہ

عبادت خانے کی پُرشکوہ عمارت اَماوس کی رات کے اندھیرے اور چراغوں کی مست روشنیوں میں تیرتی دکھائی دیتی تھی۔ سیڑھی کے ایک پایے پر دروازہ تھا۔ سامنے گنبد کے نیچے بادشاہ کے بیٹھنے کا گول چبوترہ تھا جس کے ارد گر ایک ایک  قدم  نیچے دو اور چبوترے تھے۔ نچلے چبوترے پر ترجمان اور شاگرد بیٹھے تھے۔ خوب رونق لگی  ہوئی تھی۔ درمیانی چبوترہ علماء کے لیے تھا۔

بادشاہ کے چبوترے کے دائیں طرف سب سے پہلی جگہ ابوالفضل کی تھی، جو خالی پڑی تھی۔ اُس کے ساتھ ابوالفضل کا شاعر بھائی فیضی بیٹھا تھا۔ فیضی کے ساتھ لمبی سفید داڑھی والا آتش پرست عالم دستور مہرجی رانا اپنا لمبا سفید گھاگرا سمیٹے بیٹھا تھا۔ سر پر سفید گول ٹوپی تھی۔ پٹکا اور چادر گندمی تھے۔ بادشاہ کے چبوترے کے سامنے ہندو پروہت پرشوتم داس بیٹھا تھا۔ سفید دھوتی پر سندوری رنگ کی چادر لپٹی تھی اور سر و منہ مونڈا تھا بس پیچھے ایک چوٹی تھی۔ اُس کے ساتھ بدھ بھکشو آچاریہ سدھارتھ بیٹھا تھا۔ پیلے رنگ کی چادر میں لپٹا، سر، منہ اور بھنویں بھی مونڈی تھیں۔ بادشاہ کے بائیں طرف لمبی سفید داڑھی والا یہودی رابی یتذاق کالا چوغہ اور چھوٹی گول ٹوپی پہنے بیٹھا تھا۔ اُس کے آگے کالا چوغہ اور اونچی ٹوپی پہنے فادر روڈولفو بیٹھا تھا۔ ساتھ سفید داڑھی اور پگڑی پہنے ملا عبدالقادر بدایونی بیٹھا تھا۔

عشاء کا وقت ہو چلا تھا مگر ابھی بھی سب بادشاہ کا انتظار کر رہے تھے۔ ترجمان نچلے چبوترے پر موجود تھے مگر کوئی بھی کسی سے بات چیت نہیں کر رہا تھا۔

اِتنے میں ابوالفضل آ گیا۔ اُس کے اندر داخل ہونے پر سب لوگ ہوشیار تو ہو گئے مگر اُٹھا کوئی نہیں۔ بیکن اور اُس کے ترجمان کو نچلے چبوترے پر بٹھا کر وہ درمیانی چبوترے پر اپنی جگہ پر آیا اور بیٹھنے سے پہلے دل پر ہاتھ رکھ کر سب کو سلام کہا۔

"اللہ اکبر۔"

کوئی بولا نہیں، بس سر ہلا کر جواب دے دیا۔ سب سمجھ گئے تھے کہ ابوالفضل آ گیا ہے  تو اب شہنشاہ بھی آنے ہی والا ہو گا۔ تھوڑی دیر بعد ہی بادشاہ کی آمد کا اعلان ہوا۔ سب کھڑے ہو گئے۔ سب سے اوپر شاہی چبوترے کے پچھلے کمرے سے بادشاہ نمودار ہوا۔ بادشاہ بیٹھ گیا  تو  سارے عالم بھی بیٹھ گئے۔ ابوالفضل گھٹنوں کے بل اُٹھ کر بولنے لگا۔

"شہنشاہ کا اقبال بلند ہو، آج ہم شہنشاہ کے حکم کے مطابق کل کی بات کو آگے بڑھائیں گے۔۔۔"

بادشاہ نے ہاتھ اُٹھایا۔ ابوالفضل چپ کر کے دوبارہ نیچے بیٹھ گیا۔

"ہم بڑے دنوں سے بات چیت کر رہے ہیں اور مختلف معاملات پر میں نے  آپ سب کی  عقل و دانش سے بھرپور  باتیں سُنی ہیں۔ مگر آج میں چاہتا ہوں سارے عالم مجھے ایک جملے میں بتائیں کہ اُن کے دین کے مطابق رب اور بندے کا رشتہ کیا ہے؟"

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اکثر چلتی بحث کو، کبھی خوش ہو کر اور کبھی جھنجھلا کر، بادشاہ یوں ہی ختم کر کے کوئی نئی بحث چھیڑ دیتا تھا۔

سب اپنی سوچوں کو ترتیب دینے لگے۔ پھر بدایونی بولا۔

"شہنشاہ عالم، اسلام کے مطابق رب اور بندے کا رشتہ حاکم اور محکوم کا ہے۔ رب کا کام ہے حکم دینا اور بندے کا کام ہے حکم بجا لانا۔"

اکبر نے بات غور سے سُنی، پھر ایک نظر ابوالفضل کو دیکھا جس کے چہرے پر بدایونی کو بولتا دیکھ کر ایک زہریلی مسکان پھیل گئی تھی۔

کچھ دیر بعد یہودی رابی بولا۔

"شہنشاہ، یہودیت کے مطابق رب اور بندے کا رشتہ معاہدے کا ہے۔ 'یاہوے' نے ہم سے معاہدہ کیا ہے کہ اگر ہم اُس کے دین پر چلیں گے تو وہ ہمیں اسرائیل کی حکمرانی اور اپنی نعمتوں سے نوازے گا۔"

اکبر نے سر جھکا کر بات پر غور کیا۔ پھر سر اُٹھا کر علماء کی طرف دیکھنے لگا۔

اب فادر بولا۔

"شہنشاہ ہندوستان، مسیحیت میں رب اور بندے کا رشتہ ایک عظیم محبت کا ہے۔ رب نے بندے کو جنت میں رکھا تھا، مگر بندے نے غلطی کی اور سزا پائی۔ پھر محبت بھرے رب نے زمین پر آ کر اُس کے حصے کی سزا خود کاٹ کر اُس کی غلطی معاف کر دی۔ بندے کا کام ہے کہ وہ اپنے رب سے محبت کرے۔"

اکبر نے پھر ابوالفضل کی طرف دیکھا اور سر ہلایا۔

اب پروہت پرشوتم بولا۔

"ہندومت میں رب اور بندے کا کوئی فرق نہیں۔ ہر بندہ رب کا ہی روپ ہے، اُس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کے رب کو پہچانے۔"

اِس بات پر اکبر نے 'واہ' کہا۔ ساتھ ہی ابوالفضل مست ہو کر بولا۔

"اللہ اکبر۔"

بدایونی کے چہرے پر کراہت پھیل گئی۔

اِس بار آچاریہ بولا۔

"شہنشاہ، بدھ مت میں کوئی رب نہیں۔ بندہ جو کرم کرتا ہے اُسے اُس کا پھل ملتا ہے۔ اگر کوئی اِس بات کو ہضم نہیں کر سکتا تو یہ سمجھ لے کہ یہ اصول ہی رب ہے۔"

اکبر دیر تک آچاریہ کو دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے دستور کی طرف نظر کی۔

دستور بولا۔

"رب اور بندے کا رشتہ ساتھیوں کا ہے۔ اچھے بُرے کا فیصلہ بندہ خود کر سکتا ہے۔ بندے کی مرضی ہے خواہ وہ رب اہورا مزدا کا ساتھ دے یا بُرے کرموں سے شیطان اہرمن کا ساتھی بن جائے۔"

اکبر نے ایک لمبا سانس لیا۔

یہ باتیں جو علماء کے بعد اُن کے ترجمان فارسی اور دیگر زبانوں میں محفل کو بتا رہے تھے اور فارسی سُن کر بیکن کا ترجمان اُس کے کان میں انگریزی کر رہا تھا، سُن کر بیکن کے دماغ میں جھکڑ چلنے لگے۔ اتنے گہرے فلسفے اُس نے نہ کبھی سُنے تھے نہ پڑھے تھے۔ رب اور بندے کا رشتہ حاکم و محکوم کا، محبت کا، معاہدے کا، ساتھی کا، ایک ہی شے کی مختلف شکلوں کا اور ایک قانون کا۔ یہ لوگ ہیں یا علم کے گہرے سمندر؟ بیکن کا دماغ یہ باتیں ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اِس ہر رشتے کی بنا پر تو رب کا کردار بھی مختلف بنتا ہے۔ ہندوستان میں رب کے وجود اور اُس کی ہیئت پر لوگ کتنا گہرا، کتنا آزاد اور کتنا مختلف سوچتے ہیں۔ اور وہاں یورپ میں ہم چڑیلیں ڈھونڈنے اور اُنہیں مارنے کے قانون پاس کر رہے ہیں۔ یہ ملک تو علم میں ہم سے صدیوں آگے ہے۔ یہاں تو مجھے علم سیکھنے کے بے بہا مواقع ملیں گے، بیکن نے سوچا اور منصوبہ بنانے لگا کہ ابوالفضل سے کہے گا اُس کی ملاقاتیں اِن علماء سے بھی کروائے۔

یہ ساری باتیں ہو گئیں تو ابوالفضل ہوشیار ہو کر بیٹھ گیا کہ اب بادشاہ کے ذہن میں جو بھی بات ہے اُسے چھیڑنے کے لیے، بادشاہ اُس کے ساتھ ہی بحث شروع کرے گا۔ مگر اکبر کچھ نہ بولا۔ کچھ دیر اِسی طرح گزر  گئی   تو ابوالفضل کو بے چینی ہونے لگی۔

آخر اکبر بولا۔

"میں نے  سب کی باتیں غور سے سُنی ہیں۔ بڑی ہی عمدہ باتیں ہیں، مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر رب ایک ہے تو پھر اُس کا رشتہ ہر دین کے ساتھ جدا جدا کیوں ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ اِن باتوں پر کچھ دیر تنہائی میں غور کروں۔ اب پھر ہم کل شام کو ملیں گے۔"

یہ کہہ کر بادشاہ اُٹھ گیا۔ ساتھ ہی سارے اُٹھ گئے۔ بادشاہ نے ابوالفضل کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور پچھلے دروازے سے نکل گیا۔ ابوالفضل جلدی سے اُس کے پیچھے گیا۔

"شہنشاہ کو آج کی محفل اچھی لگی ہے۔"

ابوالفضل نے اکبر کے دل میں جھانکنے کی خاطر بات چھیڑی۔

اکبر مسکرایا۔

"ہاں ابوالفضل، یہ باتیں، ہمیشہ کی طرح، کمال کی تھیں۔"

"پھر بھی آج شہنشاہ کو باتیں بہت ہی خاص لگی ہیں کہ آپ اِن پر تنہائی میں غور کرنا چاہتے ہیں؟"

ابوالفضل نے حیرانی سے پوچھا۔

اکبر نے اشارہ کیا تو اُسے گھیرا ڈالے پچیس دربان دس قدم دُور ہو گئے۔

"ابوالفضل، آج کی رات میں رانی ماریا کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ تم اِنہیں سنبھال لو، کل کوئی اور بات کریں گے۔"

ابوالفضل دو لمحے چپ رہا۔

"تو کیا شہنشاہ کو یہ باتیں سطحی لگی ہیں؟"

اکبر مسکرایا۔

"نہیں ابوالفضل، یہ کمال کی باتیں تھیں۔ میں اِن علماء کی باتوں پر ہمیشہ ہی غور کرتا ہوں۔ مگر میں مسلمان پیدا ہوا تھا اور مسلمان ہی مروں گا۔"

"تو شہنشاہ عالم، پھر اِن محفلوں کا کیا مقصد؟"

"ابوالفضل، تم  دانا  ہو۔ میں بادشاہ ہوں، کوئی ملا یا پنڈت نہیں۔ مجھے اپنی رعایا پر حکمرانی کرنی ہے، اُنہیں جنت نہیں دلوانی۔ لیکن یہ بات لوگ نہیں سمجھتے۔ اگر میں مسلمان ہی رہوں تو سب کا بادشاہ نہیں بن سکتا۔ اصل میں اگر میں کسی بھی ایک مذہب کا پیروکار رہوں تو میں ساری رعایا کا بادشاہ نہیں بن سکتا۔"

"تو کیا شہنشاہ بے دین ہونے کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟"

ابوالفضل نے پریشانی سے پوچھا۔

"نہیں ابوالفضل، اِس کا بھی الٹا  نقصان ہی ہو گا۔"

ابوالفضل کچھ نہ سمجھ کر چپ رہا۔

اکبر نے آسمان کے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"اِس لیے میں سب کو الجھن میں ہی رکھوں گا۔ ہر کوئی یہی سوچتا رہے کہ میں اُس کے مذہب کی طرف یا تو مائل ہوں یا پھر مائل ہو سکتا ہوں۔ لہٰذا  سارے مجھے قائل کرنے کی آس میں ہی لگے رہیں گے۔"

ابوالفضل بے اختیار آگے بڑھا اور اُس نے جھک کر اکبر کا ہاتھ چوم لیا۔

"شہنشاہ عالم کی سمجھ بُوجھ سارے عالم کی کتابوں اور علم سے بڑھ کر ہے۔"

"بس کرو ابوالفضل، اب مجھے جانے دو۔ میرا دل رانی کی آغوش کے لیے تڑپ رہا ہے۔"

اکبر نے شرارت سے کہا اور محل کی طرف چل دیا۔

No comments:

Post a Comment