آدھی موت
مصنف
ٹیپو سلمان
(پنجابی سے ترجمہ)
باب- 1
دایاں اور بایاں
پہلے میں سیٹلائٹ کی طرح خلا سے دیکھا۔ انسان تو کیا، کوئی جاندار بھی دکھائی نہیں دیتا اتنی اونچائی سے۔ بلکہ دنیا بھی ایک ننھا سا گولا ہی نظر آتی تھی، بے شمار گولوں کے بیچ۔ ننھے بڑے، کالے اور دہکتے گولوں میں ایک ایسا ہی گولا۔ پھر میں نیچے لوٹ آیا اور چڑیا کی طرح اڑان بھر کر دیکھا۔ لاہور کے جوہر ٹاؤن کی ایک گلی تھی۔ دونوں طرف دس دس مرلے کے دو دو منزلہ مکان تھے۔ تین چار گھروں کے باہر ایک ایک درخت بھی تھا۔ ایک گھر کے لان، ڈرائیو وے اور گیٹ کے باہر کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ اسٹیل کے فریموں پر لال ریکسِن کی منڈھی کرسیاں۔ گلی میں بارہ چودہ گاڑیاں اور کچھ موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں۔ گھر میں بیس پچیس لوگ بھی تھے، کچھ کھڑے تھے اور باقی لال کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ پھر میں پورچ کی چھت سے الٹی لٹکی چھپکلی کی طرح دیکھا۔ دو دو چار چار کرکے لوگ آتے جا رہے تھے۔ مرد باہر ٹھہر جاتے اور عورتیں اندر چلی جاتیں۔ پھر میں مچھر کی طرح گھر کے اندر گھس کر دیکھا۔ بھنبھناتے ہوئے، لوگوں کے ہاتھوں، پیروں، کانوں، ناکوں، ٹانگوں اور بازوؤں کے ارد گرد اڑتے۔ سفید چادروں پر عورتیں بیٹھی تھیں۔ بھاگتے دوڑتے بچوں کے بیچ ایک چارپائی پر سفید چادر سے ڈھکا ایک جنازہ پڑا تھا۔ یہ جنازہ میرا تھا۔
اور یہ گھر بھی میرا ہی
تھا۔ میرا مطلب ہے میرا ہوتا تھا، جب میں زندہ تھا۔
کچھ دیر تو میں اپنی
لاش پر اڑتا رہا، پھر بور ہو کر اوپر پردے کی ریلنگ پر بیٹھ کر اپنے جنازے کو
گھورنے لگا۔
مجھے مرے ہوئے کوئی چار
گھنٹے ہو چلے تھے۔ میں باہر سڑک پر اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ دائیں سے
مجھے ایک جھٹکا لگا۔ پھر ایسا لگا جیسے ساری دنیا دائیں طرف گر پڑی ہو۔ اس کے بعد
مجھے لگا کہ میں چڑیا کی طرح اڑ رہا ہوں۔ وہاں اوپر سے مجھے دکھائی دیا ایک گاڑی
میری موٹر سائیکل پر چڑھی پڑی تھی اور میں سڑک کنارے پڑا تھا۔ سر فٹ پاتھ سے لگ کر
ٹوٹ چکا تھا۔ خون سے لت پت تھا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ گھر کے قریب ہی تھا، ایک دو
لوگوں نے پہچان لیا۔ گھر فون کرنے لگے۔ پھر مجھے اٹھا کر گھر لے آئے۔
میرا مطلب ہے میری لاش
کو۔
مرنے کے بعد کم از کم
یہ سکون تو تھا کہ جذبے اور احساسات ختم ہو گئے تھے۔ نہ مجھے کار والے پر غصہ آیا
اور نہ ہی اپنی لاش دیکھ کر دکھ ہوا۔ مزید یہ کہ گھر پہنچ کر اپنی بیوی اور بچوں
کو روتے بلکتے دیکھ کر بھی رونا نہیں آیا۔ میں بس یوں ہی اپنی لاش پر منڈلاتا
منڈلاتا گھر پہنچ گیا جیسے وہ دو تین مکھیاں جو میری لاش پر بھنبھنا رہی تھیں۔
آدھی صدی کا میرا جیون اب گویا یکجا ہی میرے سامنے تھا۔ نہ کچھ چھپا ہوا تھا اور
نہ ہی کچھ آدھا ادھورا۔ یوں ہی میں کبھی سیٹلائٹ بنا پھرتا تھا اور کبھی چڑیا،
چھپکلی یا مچھر۔
وقت میں جہاں بھی پیچھے
جانا چاہتا جا سکتا تھا۔ چاہوں تو وقت روک بھی سکتا تھا۔ ایک اڑان میں وقت کے
کنوئیں میں مار آیا تھا۔ اڑتی لالی کی طرح نظر ڈالی اپنی زندگی پر۔ ایک کلرک کے
گھر پیدا ہوا۔ سرکاری سکولوں میں پڑھا۔ جب میٹرک میں میری فرسٹ ڈویژن آئی تو باپ
نے دیگ دی۔ پھر جب میں ایم اے ہسٹری پاس کیا، تو دیگیں۔ کیا
فائدہ تھا اتنے خوش ہونے کا؟ گائیڈوں کے رٹے مار کر ہی پاس ہوا تھا، کون سا علم کے
سمندر میں غوطہ لگا لیا تھا۔ ویسے اگر میں ایم اے میں فیل بھی ہو جاتا تو کیا فرق
پڑ جاتا؟ نہ تو میں پاس ہو کر سوشی مچھلیاں کھانے لگا تھا اور نہ ہی گرمیوں کی
چھٹیاں امریکہ میں گزارنے لگا تھا۔ وہی مونگ مسور کی دال کے ساتھ ڈالڈے کے پراٹھے
کھاتا تھا اور سکول سے چھٹی نہیں لیتا تھا کہ میرا تبادلہ کہیں دور نہ کر دیں۔ فیل
بھی ہو جاتا تو یہی کچھ ہونا تھا۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟ انکریمنٹ کچھ کم لگتی۔
یا شریکے والے ذرا کم جلتے۔ مرنا تو میں پھر بھی یہیں تھا۔ موٹر سائیکل سے گر کر۔
ہاں فرق پڑتا اگر میرے باپ دادا سرخا انقلاب لے آئے ہوتے۔ اس وقت ڈنڈوں، جیلوں اور
فاقوں سے ڈر کر بکری نہ ہو گئے ہوتے۔ پھر فرق پڑ سکتا تھا۔ اگر میں سوشی مچھلی نہ
بھی کھا سکتا تو پھر کوئی اور بھی نہ کھاتا ہوتا۔ اور اگر میرے پاس گاڑی نہ بھی
ہوتی، تو کسی اور کے پاس بھی نہ ہوتی۔
کیا زندگی تھی میری۔ اس
سے بہتر تو جنگلی جانوروں کی زندگی ہوتی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی اور کولہو کے بیل کی
زندگی میں ایک ہی فرق دکھائی دیتا تھا۔ اس کا کولہو اور تھا اور میرا اور، بس۔
نہیں، ایک اور فرق بھی تھا۔ اس کی آنکھوں پر اس کے مالکوں نے کھوپے چڑھائے ہوتے
ہیں اور میری آنکھوں پر ساری عمر سماج نے کھوپے چڑھائے رکھے۔
یوں ہی ہوا میں تیرتا
تیرتا میں باہر پورچ میں آ گیا اور مجھے ایک کراری آواز آئی، "تم یہاں کیا کر
رہے ہو؟"
یہ آواز میرے لیے ہی
تھی کیونکہ یہ کھنکتی آواز تھی، لوگوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے کنوئیں سے آ رہی
ہوں۔ اسی وقت میرا دھیان گیا کہ ہر بندے کے کندھوں پر دو دو بندے بیٹھے ہوئے تھے۔
ایک دائیں اور ایک بائیں۔ ننھے ننھے مگر مکمل اور خوبصورت۔ نور کے ہیولے جیسے
(ہالے جیسے)۔ میں نے اپنے کندھوں پر دھیان دیا، وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
میں نے دیکھا ایک چوبیس
پچیس سال کے لڑکے کے دائیں کندھے والا بندہ مجھ سے مخاطب تھا۔
"میں مر چکا ہوں۔
اندر میرا جنازہ رکھا ہے۔" مجھے اور کچھ نہ سوجھا۔
"ہاں۔ پر تم اوپر
کیوں نہیں گئے؟" دائیں کندھے والے نے کہا۔
"مجھے نہیں پتا
میں پہلی بار مرا ہوں۔" میرے منہ سے بے اختیار نکلا اور ساتھ ہی مجھے اپنی اس
بات پر ہنسی بھی آ گئی۔ "میرا مطلب ہے میں تو نیا ہوں۔" میں نے کہا۔
"اچھا پھر سیر ور
کرو، کبھی کبھار تکنیکی مسائل کی وجہ سے دیر سویر ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ تمہیں نہیں
دیکھ سکتے، بس ہم دائیں اور بائیں ہی تمہیں دیکھ سکتے ہیں۔" دائیں والے نے یہ
کہہ کر اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ میں نے اس سے سلام لیا۔ اور پھر اسی لڑکے کے
بائیں والے سے بھی۔
"کتنی دیر لگتی
ہوتی ہے اوپر جانے میں؟" میں نے دائیں والے سے پوچھا۔
"کوئی پتا نہیں،
کچھ سیکنڈ یا کچھ صدیاں۔" دائیں والا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے لا تعلقی سے
بولا۔
لڑکا آگے بڑھ گیا اور
میں بھی ساتھ ساتھ ہی تیرتا گیا۔ "تم کون ہو؟" میں نے دائیں والے سے
پوچھا۔
"پتا نہیں۔"
اس نے کہا اور پھر ایک ننھا سا رجسٹر نکال کر اس میں کچھ لکھنے لگا۔
"اسی لڑکے کے ساتھ
ہی رہتے ہو؟" میرے پاس بھی کرنے کو کچھ نہیں تھا۔
"ہاں، بندے کے
ساتھ ہی ہم بھی پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اوپر چلے جاتے ہیں۔" اس نے
لکھتے لکھتے کہا۔
"اوپر کیا
ہے؟" میں نے پوچھا۔
"ہمیں نہیں پتا۔
اوپر جائیں گے تو پتا لگے گا۔ ہم بس اپنا کام کرتے ہیں۔" اس نے رجسٹر بند کر
کے واپس رکھ لیا۔ پتا نہیں لگا کہاں سے نکالا تھا اور کہاں رکھ دیا۔ لڑکا گیٹ سے
باہر جا کھڑا ہوا اور سگریٹ جلا لیا۔ "یہ پھر شروع ہو گیا ہے،" کہہ کر
بائیں والے نے اپنا رجسٹر نکال کر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا نیلی گاڑی
میں سے ایک لڑکی اتر رہی تھی، ہلکے رنگ کے پیلے کپڑے پہنے تھے اور سفید چادر لی
ہوئی تھی۔ لڑکا اسے گھور رہا تھا۔ میں نے منظر کو ریوائنڈ کر کے دیکھا۔ لڑکی جب
گاڑی سے نکلنے لگی تو پہلے اس نے اپنا دایاں پیر باہر سڑک پر رکھا تھا جس کی وجہ
سے اس کی شلوار ٹخنے سے اونچی ہو گئی تھی۔ دودھ جیسی سفید اور برفی کے گودے جیسی
بھری ہوئی پنڈلی واقعی بہت خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔ اور پھر جب اس نے باہر کھڑے
ہو کر اپنی چادر کھول کر پھر اچھی طرح اوڑھی تو اس کی بھری ہوئی چھاتیوں نے سارا
منظر میٹھا کر دیا۔ وہ لڑکا، امجد، یہ سب کچھ ہی دیکھ رہا تھا۔
میں نے وقت روک لیا۔
بائیں والے نے میری طرف دیکھا اور رجسٹر اندر رکھ لیا۔
"یہ تم کر کیا رہے
ہو؟" میں نے پوچھا۔
"یہ ہمارا کام ہے۔
ہم نے اپنے بندے کا سب کچھ لکھنا ہوتا ہے۔" اس بار بائیں والے نے جواب دیا۔
"وہ تو میں دیکھ
رہا ہوں۔ پر تم ہو کون اور یہ سب کچھ کیوں لکھتے ہو؟"
"اجو جی" پھر بائیں
والا ہی بولا اور اس کے منہ سے اپنا نام سن کر مجھے عجیب سا لگا "جتنا تمہیں
مر کے پتا چلا ہے ہمیں بھی اتنا ہی پتا ہے۔ آنکھ کھلی تو ہم یہاں تھے، اور ہمیں
پتا تھا کہ یہی ہمارا کام ہے جو ہمیں کرنا ہے۔ اور ہم کیے جا رہے ہیں۔ باقی ہمیں
بھی اوپر جا کے ہی پتا لگے گا۔"
میں حیران ہو کر ادھر
ادھر نظر دوڑائی۔ سب کچھ فلمی سا لگ رہا تھا۔ کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
خود پر نظر ڈالی تو ایک ہیولا سا دکھائی دیا، نور کا۔ مر کر سوا پتا چلا ہے؟ میں
نے سوچا۔ مولوی صاحب تو کہتے تھے مر کر سب کچھ پتا لگ جائے گا۔ اصل حقیقت بندے کے
سامنے چڑھے سورج کی طرح چمکے گی۔ پر یہاں تو مزید اندھیرے چھا گئے تھے۔ نہ اپنا
کچھ پتا لگ رہا تھا نہ دنیا کا، اور نہ ہی اوپر کا۔ میں نے آسمان کی طرف نظر ڈالی
پر وہ میرے بس سے شاید باہر تھا۔ چاروں طرف بس شاہ کالا خلا۔ نہ آسمان دکھائی دیتا
تھا نہ جنت دوزخ۔ یہی عالم برزخ ہو گا، میں نے سوچا۔ پر مولوی صاحب تو کچھ اور ہی
نقشہ کھینچتے ہوتے تھے، میں نے سوچا۔ پھر مجھے خیال آیا انہوں نے کون سا مر کر
دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی تو سن سنا کر ہی اپنے دماغ میں فلم بنا لی تھی۔ میں تو
عجیب شے ہی بن گیا ہوں، میں نے سوچا۔ نہ مرے ہوئے میں ہوں نہ زندہ میں۔ آدھا مر
گیا ہوں کیونکہ اب میں مر نہیں سکتا۔ اور آدھا زندہ ہوں کیونکہ ابھی بھی نہیں بتا
سکتا کہ مولوی صاحب ٹھیک کہتے تھے یا غلط۔ ہنسی آ گئی مجھے۔ چلو چھوڑو، میں نے مٹی
ڈالی، اوپر جاؤں گا تو سب پتا لگ جائے گا۔
"پر یہ تمہارا کام
ہے کیا؟" میں نے بائیں والے سے پوچھا۔
"ہمیں اپنے بندے
کے اچھے برے کام لکھنے ہوتے ہیں، تاکہ مرنے کے بعد اس کا حساب کتاب ہو سکے۔"
بائیں والے نے جواب دیا۔
میں نے سوچا کہ مولوی
صاحب پھر اتنے بھی بے خبر نہیں تھے۔ وہ کہتے ہوتے تھے کہ رب تمہاری ہر بات، اور ہر
حرکت پر آنکھ رکھے بیٹھا ہے۔ کہتے ہوتے تھے کہ تم بندوں کو دھوکہ دے سکتے ہو، رب
کو نہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہوتا تھا کہ مولوی صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہیں۔
انہیں نہ تاریخ کا پتا ہے نہ فلسفے کا۔ نہ انہوں نے ادب پڑھا ہے نہ نفسیات۔ وہ
استعاروں کو مادیت سے گڈمڈ کر کے فلسفے کی دیومالائی داستان بنا لیتے ہیں۔ اور پھر
اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ مجھے ایسا بھی لگتا ہوتا تھا کہ سیانے ضمیر کو ہی رب کہتے
ہیں۔ اسی لیے کہتے تھے کہ رب بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہوتا ہے۔ اور رب پر ایمان
لانے کا مطلب تھا ضمیر کو زندہ کرنا۔ تاکہ ہر وقت ضمیر بندے کو کچوکے لگاتا رہے۔
یہی رب کا حساب تھا کہ برا کام کر کے بندے کو سکون نہ ملے۔ مجھے کبھی کبھی ایمان
ایسا لگتا تھا۔ موت بھی مجھے ایک نہ ختم ہونے والی نیند ہی لگتی ہوتی تھی۔ بنا
خواب کے۔ جیسے پیدا ہونے سے پہلے اندھیرا خلا تھا، اسی طرح مرنے کے بعد بھی یہی
ہونا تھا۔ اندھیرا خلا۔ پر یہ کبھی کبھار ہی لگتا ہوتا تھا۔ اور جب بھی ایسے
کافرانہ خیال آتے، میں فورا توبہ کر لیتا ہوتا تھا۔
پر اب تو لگتا تھا کہ
مولوی صاحب ہی سیانے تھے۔
حساب کتاب کا سن کر
مجھے پہلی بار ڈر لگا۔
میں نے وقت تو چلا دیا
پر ان سے تفصیل پوچھنے لگا کہ وہ کیا کچھ لکھتے ہیں اور کیوں۔ اور یہ بھی کہ وہ
دونوں کیوں لکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنا اپنا کام لکھتے ہیں۔ دایاں
اچھے کام لکھتا ہے اور بایاں بندے کے برے کام۔ انہوں نے سنا ہوا تھا کہ اوپر جا کر
بندے کا حساب ان کی لکھی ہوئی باتوں پر ہی ہو گا۔
کچھ دیر بعد میرا جنازہ
اٹھایا گیا۔ اب تک ٹینٹ اور لائٹیں بھی لگ چکی تھیں۔ اندر باہر چادریں اور کھیس
بچھے ہوئے تھے۔ دیگوں کے آرڈر دیے جا چکے تھے۔ ککڑی کا سالن اور سادہ نان۔ ساتھ
دہی کا رائتہ اور سلاد بھی آنی تھی۔ سب مہمانوں کو کہا جا رہا تھا کہ وہ میت دفنا
کر واپس آئیں اور کھانا کھا کر جائیں۔ اپنے لیے "میت" کا لفظ سن کر بھی
عجیب سا لگا۔ نماز جنازہ پڑھاتے ہی مولوی صاحب نے اعلان بھی کر دیا تھا کہ اگلے دن
عصر اور مغرب کی نماز کے درمیان میرے قل ہوں گے۔ میرے گھر والے ابھی سے ڈسکس کر
رہے تھے کہ میرے قلوں پر کون کون سے پھول رکھے جانے چاہئیں گے۔
میں نے جنازے پر ایک کاوے (پرندے) کی طرح نظر ڈالی۔ واہ واہ لوگ تھے، گاڑیاں تھیں۔
شان و شوکت سے جا رہا تھا میرا جنازہ۔ میں نے سوچا میں ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ
میرا جنازہ شان و شوکت سے اٹھے۔ بے شمار لوگ ہوں۔ بڑی بڑی گاڑیاں ہوں۔ جب جنازہ
اٹھایا جائے تو لوگ رو پڑیں، عورتیں بین کریں۔ جنازے کا کھانا اچھا ہو۔ لوگ ہمیشہ
میرا جنازہ یاد رکھیں۔ میں اب اپنی خواہش اپنی آدھی زندہ آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ
رہا تھا۔ فضول سا ہی لگ رہا تھا۔ زیادہ تر لوگ تو بس حاضری لگوانے آئے تھے۔ کیونکہ
انہیں پتا تھا اگر وہ نہ آئے تو کل کو جو جو بھی آیا ہوا ہے اس نے ملتے ہی پوچھنا
ہے، تم اجو کے جنازے پر نہیں آئے تھے؟ اور پھر جس نے اس غیر حاضر کی چغلیاں کرنی
ہوں گی وہ دوسرے کے کان میں چغل خوری کرے گا، "یہ تو بندہ ہی بڑا خودغرض ہے۔
دیکھو جب تک اجو زندہ تھا، اس کے آگے پیچھے پھرتا تھا، میرا بھائی میرا بھائی کرتے
اس کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ پر دیکھ لو، وہاں اجو کی آنکھیں بند ہوئیں اور یہاں اس
نے آنکھیں پھیرنے میں ایک منٹ نہیں لگایا۔ جنازے تک تو نہیں گیا؟ توبہ توبہ۔"
ان چغلیوں اور چغل خوری سے بچنے کے لیے بہت سارے لوگ مجبوراً حاضری لگوانے ہی آئے
ہوئے تھے۔ اب جنازے کا رش دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ ان لوگوں کا میرے جنازے پر
آنے کا کیا فائدہ ہے؟ اچھا نہیں تھا اگر یہ نہ ہی آتے؟ اور کچھ نہیں تو میرے گھر
والوں کا خرچہ ہی کم ہو جاتا۔ ویسے بھی جس نے زندہ کو نہ پوچھا اس کے جنازے پر آنے
کا کیا فائدہ؟ پوچھتے تو خیر یہ سارے ہی تھے۔ کچھ ایسی باتیں پوچھتے تھے جن سے
انہیں پتا تھا کہ میں چڑتا تھا۔ اور کچھ اس لیے پوچھتے تھے کہ کل کو لوگوں میں
بیٹھ کر کہہ سکیں کہ بھئی میں تو ہمیشہ اجو کو پوچھتا گچھتا ہوں۔ بے شک تم پوچھ لو
اس سے۔
اور لوگ بھی تھے جنازے
میں جو واقعی میرے مرنے پر دکھی تھے۔ ان میں رشتہ دار بھی تھے اور ملنے والے بھی۔
یہی لوگ تھے جو میری بیوی کا کچھ ہاتھ بٹا دیں گے چیزیں سیدھی کرنے میں، جو اب میرے
مرنے کی وجہ سے ساری الٹی سیدھی ہو جائیں گی۔ ہاتھ بھی کتنا کو بٹا لیں گے؟ کوئی
کسی کو روٹی تو نہیں دے سکتا نا؟ شروع شروع میں جو ہچکیاں پڑ جاتی ہیں ان میں کچھ
مدد امداد کر دیں گے۔ ننھی موٹی جو جائیداد میرے نام پر ہے اسے بیوی اور بچوں کے
نام کرانا اور بینک اکاؤنٹوں میں سے پیسے نکلوائے، عدالتوں کے چکر۔ میری پنشن
وغیرہ کی فائلیں بنوانیں، دفتروں کے چکر۔
لاہور میں جینا مرنا
دونوں ہی مشکل ہوئے پڑے تھے۔ قبر کی جگہ بڑی مشکل سے ملی تھی، ایک دور کے قبرستان
میں۔ اس لیے گلی کے نکڑ پر ایمبولینس کھڑی تھی۔ جنازے نے گاڑی پر جانا تھا۔ اب
اتنی دور تک کون میری لاش کندھوں پر اٹھا اٹھا کر پھرتا؟
مجھے مرے ابھی بارہ
گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور گھر والوں نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔ روتے تھے،
بلکتے تھے، پر مجھے دو دن اپنے پاس رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شاید انہیں پتا چل
گیا تھا کہ میں اب اس ہڈی گوشت کے بورے میں نہیں تھا۔ پر نہیں، انہیں یہ کیسے پتا
چلنا تھا۔ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ جیسے وہ کہاوت بنی ہے کہ ایک لڑکا اپنے
نانکے ہو کر آیا اور اماں کے سامنے ان کی تعریفیں کرنے لگا۔ کچھ دیر تو ماں سنتی
رہی، پھر اکتا کر بولی، "رہنے دے بیٹا میں انہیں جانتی ہوں، میرے میکے
ہیں۔"
وہ تو مجھے اس لیے
نکالنے کی کر رہے تھے کہ میں گل سڑ جاؤں گا۔ اس سے پہلے کہ میں بدبو دینے لگوں، وہ
مجھے مٹی میں دبا دینا چاہتے تھے۔ اور کرتے بھی کیا؟ انسانی عقل اور جذبے جینے کے
دوران ہی چلتے ہیں۔ نہ پیدا ہونے سے پہلے، نہ مرنے کے بعد۔ جیون کے آگے پیچھے قدرت
کے اصول چلتے ہیں۔ اور قدرت بے نیاز ہے۔
قبرستان پہنچا تو میں
پھر اِل (چیل) کی طرح اڑان بھر کر دیکھا۔ اپنی قبر اپنی آنکھوں سے
دیکھنے کی شاید کیا خواہش تھی۔ یا پھر جستجو کہ دیکھوں مجھے کہاں دباتے ہیں میرے
چاہنے والے؟ قبر تو تیار تھی، پر قبرستان جنگل ہی تھا۔ کوئی بات نہیں، ڈی ایچ اے
کے فوجی قسم کے قبرستان چھوڑ کر لاہور کے سارے قبرستان ایسے ہی تھے۔ اونچے نیچے،
کچے پکے، ہر طرف بوٹیاں اور جنگلی گھاس۔ قبر دیکھی، گہری اور اندھیری لگی۔ میں نے
سنا ہوا تھا قبر کا بڑا ڈر ہوتا ہے۔ پر مجھے ڈر ور کوئی نہیں لگ رہا تھا۔ مجھے تو
یہ اپنی قبر ہی نہیں لگ رہی تھی۔ کسی اور کی لگتی تھی۔ اور تھی بھی یہ کسی اور کی
ہی۔
یہ تو میری لاش کی قبر
تھی۔
No comments:
Post a Comment