جلیانوالہ باغ
از
مخدوم ٹیپو سلمان
انگریز سرکار کو خطرہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم (1918-1914ء)
کے دوران کہیں ہندوستانی اسکے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔ مگر گاندھی سمیت بہت سارے بڑے ہندوستانی
لیڈروں نے جنگ کے دوران انگریز سرکار کا ساتھ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں انگریز سرکار کا ساتھ دینے سے اور ہندوستانیوں
کو انگریز فوج میں شامل ہو کر جرمنوں، اطالویوں
اور جاپانیوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دینے کے انعام کے طور پر جنگ جیتنے کے بعد انگریز سرکار ہندوستان کو بھی ڈومینیئن
قرار دے کر اسی طرح تقریباً آزاد کر دے گی جس طرح وہ کینیڈا اور آسٹریلیا کو پہلے ہی کر چکی تھی۔
اس جنگ میں 13 لاکھ ہندوستانی
انگریزوں کی طرف سے لڑے جن میں سے پچاس ہزار مارے گئے اور ستر ہزار زخمی ہوئے۔ مگر جب جنگ ختم ہوئی تو انگریز سرکار نے ہندوستان
کو آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لئے ہندوستانیوں اور انگریزوں کے بیچ تناؤ بڑھنے لگا اور انگریز
سرکار کے برتاؤ میں بھی واضح تبدیلیاں
آنے لگیں۔
جنگ میں ہندوستان کی معیشت تباہ ہو چکی تھی اور ہر طرف مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان تھا۔ 1918ء میں دنیا بھر میں سپینش فلو کی جان لیوا وباء پھیل گئی جس سے دس کروڑ لوگ مارے گئے۔ ہندوستان میں اس بیماری
سے دو کروڑ کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے، جس کی وجہ سے سارے ہندوستان
میں تھرتھلی سی پڑی ہوئی تھی۔
1919ء میں انگریز سرکار کے سلطنت عثمانیہ کو توڑنے کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان
ناراض تھے اور تحریک خلافت کی شروعات
تھی۔
امریکہ میں پنجابیوں نے غدر پارٹی بنائی اور 1915ء میں ہندوستان کو آزاد کروانے
کے لئے بغاوت کا پلان بنایا۔ بغاوت کی یہ کوشش پکڑی گئی۔ انگریز
سرکار نے باغیوں
کو سزایں دینے کے لئے ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ 1915ء لاگو کیا جس کے تحت جنگ کے دوران کسی کو بھی بغیر وارنٹ کے گرفتار
اور بغیر مقدمے کے سزا دی جا سکتی تھی۔ اس کالے قانون کے تحت غدر پارٹی کے پکڑے گئے لوگوں کو ایک ٹربیونل
نے لاہور کونسپائریسی
کیس میں سزائیں دیں۔
42
بندوں کو پھانسی
لگا دیا اور 114 کو عمر قید کی سزا سنائی۔ غدر پارٹی کی بغاوت کی کوشش کے بعد انگریز
سرکار نے انگلستانی
ہائی کورٹ کے ایک جج سڈنی رولٹ کی سربراہی
میں ایک کمیٹی بنائی جو رولٹ کمیٹی کہلائی۔ اس کمیٹی کا مقصد ہندوستان
میں بغاوت کی لہروں کے بارے میں شہادتیں اکٹھا کر کے سرکار کو رپورٹ کرنا تھا۔
رولٹ کمیٹی نے رپورٹ دی کہ ہندوستان، خاص کر پنجاب اور بنگال میں لوگ بغاوت پر آمادہ ہیں اور جرمن حکومت ان کی مدد کر رہی ہے۔ بغاوت کو روکنے کے لئے ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ 1915ء جیسا قانون جنگ ختم ہونے کے بعد، امن کے دور کے لئے بھی پاس کرنا چاہیے۔ رولٹ کمیٹی کی رپورٹ کی وجہ سے 18 مارچ 1919ء کو اینارکیکل اینڈ ریوولوشنری کرائمز
ایکٹ 1919ء پاس ہوا جو رولٹ ایکٹ کہلایا۔ اس قانون کی وجہ سے انگریز سرکار ہندوستان میں کسی کو بھی بغیر وارنٹ گرفتار
اور بغیر مقدمے کے سزا دے سکتی تھی اور پریس پر بھی سنسرشپ
لگا دی گئی۔ اس قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قائداعظم
محمد علی جناح نے لیجسلیٹو
کونسل سے استفعیٰ
دے دیا۔
6 فروری 1919ء کو مہاتما گاندھی
نے بیس بڑے لوگوں کے ہمراہ، جن میں ہندو اور مسلمان
سب ہی شامل تھے، اعلان کیا کہ اگر رولٹ قانون پاس ہو گیا تو وہ کوئی دنگا فساد تو نہیں کریں گے پر اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی
ضرور
کریں گے۔ 1857ء کے بعد یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ ہندوستانی عوام انگریز راج کو اس طرح دھڑلے سے للکار رہے تھے۔ پھر جب 18 مارچ 1919ء کو رولٹ قانون پاس ہو کر نافظ ہو گیا تو گاندھی
نے 6 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی۔
1913ء سے لے کر 1919ء تک پنجاب کا گورنر مائیکل
اڈوائر تھا۔ مائیکل
اڈوائر نے 1885ء میں انڈین سول سروس میں کام شروع کیا اور 1919ء تک کا تقریباً سارا عرصہ پنجاب میں ہی رہا۔ مائیکل
اڈوائر کے مطابق نہ تو ہندوستانی عوام میں حکومت کرنے کی صلاحیت تھی اور نہ ہی یہ ان کی مانگ تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ ہندوستانیوں
کی طرف سے ہر طرح کے جلسے جلوسوں کو سختی سے کچل دینا چائیے۔
گاندھی جی کی کال پر 6 اپریل کو لاہور میں ہڑتال کے ساتھ رولٹ ایکٹ کے خلاف ایک بہت بڑا جلسہ ہوا۔ پنجاب میں دوسری جگہوں پر بھی جلسے جلوس ہوئے۔ یہ تمام جلسے پوری طرح پرامن رہے اور اس بات کی اخباروں میں بہت تعریف بھی ہوئی۔ مگر 7 اپریل کو پنجاب کے گورنر مائیکل
اڈوائر کا بیان آیا کہ جب اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران پنجاب میں کوئی گڑبڑ نہیں ہونے دی تو اب جنگ کے بعد وہ پنجاب میں کسی بھی قسم کی گڑبر برداشت نہیں کرے گا۔
9 اپریل 1919ء کو لاہور میں رام نومی کا میلہ منایا گیا، جس میں بیس ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ اس میلے میں مسلمانوں
نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور انگریز
سرکار کے خلاف اپنی ایکتا کا پرچار کرنے کے لئے ہندووں
اور مسلمانوں نے ایک ہی برتن میں پانی بھی پیا اور اپنی پگڑیاں
بھی ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کیں۔
رولٹ ایکٹ کے خلاف گاندھی کی کال پر امرتسر میں 30 مارچ کو کامیاب
ہڑتال کی گئی تھی۔ اس دن تیس ہزار لوگوں کا ایک جلسہ بھی ہوا جس کے لیڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال تھے۔ ڈاکٹر کچلو بیرسٹر
تھے اور انہوں نے فلسفے میں ڈاکٹریٹ
کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی، جب کہ ڈاکٹر ستیا پال ایک میڈیکل
ڈاکٹر تھے۔
6 اپریل کو امرتسر
میں لاہور، گجرانوالہ،
پنڈی، حافظ آباد، بٹالہ، سیالکوٹ،
جالندھر، لدھیانہ اور انبالہ کے ساتھ ایک بار پھر ہڑتال اور جلسے کئے گئے۔
پنجاب کا انگریز سرکار کے خلاف اتنا زوردار
ردعمل دیکھ کر گاندھی جی نے پنجاب کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا، مگر مائیکل
اڈوائر نے 9 اپریل کی رات کو انہیں دلی سے پیچھے ہی گرفتار
کروا کر مال گاڑی کے ذریعے ممبئی بھجوا دیا۔ 10 اپریل کی صبح مائیکل اڈوائر
نے ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر سیتا پال کو امرتسر
سے گرفتار کروا کر کسی نامعلوم جگہ بھجوا دیا۔ ان گرفتاریوں
کے خلاف 10 اپریل کو لاہور اور امرتسر میں اتنے بڑے جلسے ہوئے کہ مائیکل
اڈوائر نے گھبرا کر پنجاب پولیس کو حکم دیا کہ اگر گڑبڑ روکنے کے لئے ان کو عوام پر گولی بھی چلانی پڑے تو وہ اس سے گریز نہ کریں۔ ان جلسوں کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں ہندو، مسلمان اور سکھ مل کر شرکت کر رہے تھے۔
لیڈروں کی گرفتاری کے غصے اور عوام کو قابو میں کرنے والے لیڈروں کے نہ ہونے کی وجہ سے 10 اپریل کے لاہور اور امرتسر کے جلسے پرامن نہ رہ سکے۔ امرتسر
میں لوگوں نے بینکوں اور ریلوے سٹیشنوں
پر حملے کر کے پانچ گورے مار ڈالے۔ پولیس نے گولی چلا دی جس سے کئی بندے مارے گئے اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ 11 اپریل 1919ء کو جمعہ کا دن تھا۔ لاہور کی بادشاہی مسجد میں پینتیس
ہزار لوگوں کا ایک بڑا جلسہ ہوا، جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو اور سکھ بھی شامل تھے۔ 12 اپریل کو ملٹری نے لاہور میں گولی چلا دی جس سے دس لوگ مارے گئے۔ 13 اپریل کو اتوار کا دن تھا اور بیساکھی
کا میلہ۔ امرتسر
کے جلیانوالہ باغ میں دس ہزار لوگ اکٹھے تھے۔ کچھ لوگ لیڈروں کے بلاوے پر سیاسی جلسہ کرنے آئے تھے مگر زیادہ تر بیساکھی منا رہے تھے، اس لئے باغ میں خواتین اور بچے بھی تھے۔
امرتسر کے انچارج برگیڈیئر
جنرل ریجیلڈ ڈائر نے امرتسر
میں جلسوں پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اسے جب جلیانوالہ باغ کے جلسے کی خبر ملی تو اس نے پنجابیوں کو سبق سکھانے
کی ٹھانی۔
جلیانوالہ باغ شہر کے بیچ میں تھا، اس لئے چاروں طرف عمارات
اور دیواروں کی وجہ سے بند تھا۔ باغ میں داخلے اور اخراج کا ایک ہی راستہ تھا۔ شام کے ساڑھے چار بجے، جنرل ڈائر نے باغ کا یہ واحد راستہ بند کر دیا۔ اس کے ساتھ نوے گورکھے، سکھ اور مسلمان
فوجی تھے۔ جنرل ڈائر نے آتے ہی نہتے لوگوں پر گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ فوجیوں
کے پاس 1650 گولیاں تھیں جو انہوں نے دس منٹوں کے اندر اندر چلا دیں۔ دس ہزار کا نہتا پابند سلاسل مجمع سامنے تھا، ایک بھی گولی ضائع نہ گئی۔ انگریز
سرکار کے مطابق 379 مارے گئے اور ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ چشم دید گواہان
کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زیادہ زخمی ہوئے، جن میں مرد، خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اس قتل عام کے ساتھ ہی جنرل ڈائر نے کرفیو لگا دیا اور لوگوں کو لاشیں اٹھانے کی مہلت بھی نہ بخشی۔ رات بھر لاشوں کو گدھیں اور کتے کھاتے رہے۔
14 اپریل کو جلیانوالہ
باغ قتل عال کے خلاف گجرانوالہ میں مظاہرے ہوئے جن پر مائیکل اڈوائر
کے حکم پر ہوائی جہازوں
سے بم گرائے گئے اور مشین گنوں سے گولیاں
برسائی گئیں۔ بارہ لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 16 اپریل کو پنجاب میں مظاہروں کی وجہ سے مارشل لاء لگا دیا گیا۔
ابھی انگریز
سرکار کا غصہ نہیں اترا تھا۔ امرتسر
شہر کی بجلی اور پانی کاٹ دیا گیا۔ ایک گلی، جہاں مظاہرین نے 10 اپریل کو مظاہروں
کے دوران ایک انگریز خاتون پر حملہ کیا تھا، اس کے بارے میں آڈر ہوا کہ اس گلی سے جو بھی ہندوستانی گزرے وہ دو سو گز تک کتوں کی طرح ہاتھوں پیروں پر چلتا ہوا جائے۔ گجرانوالہ میں مارشل لاء نوٹس نمبر-2
کے تحت آڈر ہوا کہ جو بھی دکاندار سپاہیوں
یا فوجیوں کو سودا دینے سے انکار کرے گا اس کو کوڑے مارے جائیں گے۔ مارشل لاء نوٹس نمبر-7
میں آڈر ہوا کہ جو بھی ہندوستانی
کسی انگریز افسر کو دیکھے،
فوراً کھڑا ہو کر اسے سیلوٹ کرے۔ لاہور میں کالجوں
کے طلباء کو آڈر ہوا کہ وہ ہر روز میلوں دور بنی ملٹری چوکیوں پر جا کر اپنی حاضریاں
لگوایں۔ سارے پنجاب میں مارشل لاء عدالتوں
نے درجنوں پنجابیوں
کو مظاہروں، قتل عام اور توڑ پھوڑ کے الزاموں
پر قید اور موت کی سزائیں سنائیں۔
ان سارے مظالم سے مظاہرے تو رک گئے، پر ہاہاکار
اتنی پڑی کہ مائیکل اڈوائر
اور جنرل ڈائر، دونوں کو ہندوستان چھوڑ کر انگلستان
جانا پڑا۔ انگلستان
میں جنرل ڈائر نے استعفیٰ
دے دیا۔ انگلستان
کی پارلیمنٹ نے جنرل ڈائر کے مستعفی
ہونے کے بعد کسی اور سزا کی مخالفت کر دی،
پر جنرل ڈائر کے جلیانوالہ
باغ قتل عام کو غلط قرار دیا۔ انگریز افسروں
اور عوام میں بہرحال جنرل ڈائر بہت مقبول رہا، جن کا خیال تھا کہ جلیانوالہ
قتل عام ہندوستان
میں رہنے والے انگریزوں کی حفاظت کے لئے بہت ضروری تھا۔ عوام نے چندہ اکٹھا کر کے جنرل ڈائر کو چھبیس ہزار پونڈ کی خطیر رقم دی، جو آجکل کے دس کروڑ روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ اس چندہ مہم میں مشہور انگریز ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
دوسری طرف جلیانوالہ قتل عام میں مارے جانے والے لوگوں کے وارثان
کو انگریز سرکار نے پانچ سو روپیہ فی لاش کا معاوضہ
دیا۔ اس پر بنگال کے نوبل انعام یافتہ ادیب رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا "سر" کا خطاب انگریز
سرکار کو واپس کر دیا۔
13 مارچ 1940ء کو پنجاب کے سپوت ادھم سنگھ نے لندن میں مائیکل
اڈوائر کو گولیاں
مار کر قتل کر دیا اور اپنی گرفتاری پیش کر دی۔ مقدمے میں ادھم سنگھ نے بیان دیا کہ اس نے مائیکل اڈوائر
کو اس لئے مارا کہ اس نے جلیانوالہ باغ میں پنجابیوں
کا قتل عام کیا تھا۔ ادھم سنگھ کو پھانسی
دے دی گئی۔ ادھم سنگھ بھگت سنگھ کا پرستار
اور غدر پارٹی کا ممبر تھا۔
EXCELLENT...
ReplyDeleteBrief and untold facts about unfortunate historical incident of "JALYANWALA BAAGH"
Marvellous..it's good to read some history for a change and also it resembles quite a lot with today's politics
ReplyDeletebohat khoob Makhdoom sahib
ReplyDeleteI want to know some more your books.
ReplyDeleteExcellent piece of work
ReplyDeleteExcellent piece of work
ReplyDelete