ایک دن
ٹیپو سلمان مخدوم
)پنجابی سے ترجمہ(
ٹائی پکڑ کر اس نے گلے میں ڈالی اور گرہ لگانے سے پہلے فون اٹھا کر اوبر سے ٹیکسی منگوائی۔ ایپ نے کرائے کا اندازہ چار سو سے ساڑھے چار سو تک دیا۔ جوہر ٹاؤن سے مال روڈ تک کا فاصلہ تیرہ چودہ میل تو ہوگا ہی۔ اے سی والی گاڑی اسے گھر سے اٹھا کر پورے ٹشن سے وہاں پہنچانے والی تھی جہاں وہ کہے۔ مہذب ڈرائیور آگے اور صاحب بن کر وہ پیچھے۔ چار سو روپے ان ٹوروں کے لیے کوئی زیادہ تو نہیں تھے۔ ایپ نے بتایا کہ گاڑی تین منٹ میں پہنچ جائے گی۔ اس نے فون میز پر رکھ کر فٹافٹ ٹائی کی گرہ لگائی، موزے بوٹ پہنے اور اوپر سے کوٹ چڑھا کر ایک جیب میں پرس اور دوسری میں فون ڈالا اور باہر نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی اس کا سامنا مالی سے ہو گیا۔
'سلام صاحب!' مالی بھیڑو
کی طرح اس کی طرف دوڑا آیا۔
'وعلیکم!' اس نے اجنبی سا
ہو کر جواب دیا۔ اسے یقین تھا کہ مالی اس سے تنخواہ مانگے گا۔ کیونکہ دس تاریخ چڑھ
آئی تھی لیکن اس نے مالی کو تنخواہ نہیں دی تھی۔
'سرکار وہ بیلیں جو آپ نے
کہی تھیں وہ میں نے ٹرم کر دی ہیں!' مالی یہ کہتے کہتے ایسے آگے پیچھے ہوا جیسے اس
کے بہت قریب ہونا چاہتا تھا لیکن جب قریب ہو رہا تھا تو اچانک اسے لگا کہ وہ کچھ
زیادہ ہی قریب ہو گیا ہے، اور پھر وہ ایک ہلکے سے جھٹکے سے ذرا پیچھے ہو گیا۔
گھبرا سا گیا ہو جیسے! اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھلے صاحب کو گلے ہی لگا لے اور
للکارے مارے کہ "نکال اوئے صاحب میری تنخواہ! تجھے نہیں پتا میرے بچے روز
پھل، کبھی یہ کریم اور کبھی پنسل کاپی کے لیے پیسے مانگتے ہیں۔ بیوی جب مانگتی ہے
تو میں اسے جھاڑ دیتا ہوں۔ مجھے غصہ آتا ہے۔ اس پر نہیں، اپنی نامردی پر۔ مجھے
اپنی بیوی بری نہیں لگتی۔ بہت اچھی لگتی ہے۔ پر جب بیوی کو دینے کے لیے میرے پاس
پیسے نہیں ہوتے تو مجھے لگتا ہے کہ میں اس کے مرد ہونے کا ثبوت نہیں دے سکا۔ میں
صرف بچے پیدا کرنے والا مرد تو نہیں۔ ایسا مرد تو کتا بھی ہوتا ہے۔ عورت کی لاج کی
حفاظت اور اس کے کھانے پینے کی ذمہ داری بھی تو اس کے مرد کی ہی ہوتی ہے صاحب! اور
جب وہ پیسے مانگے اور میں دے نہ سکوں، میری تو مردانگی پر چوٹ لگتی ہے۔ بہت گہری
چوٹ۔ اپنی نامردی کا علاج کرنے کی کوشش میں میں ہر رات اسے نچاتا ہوں۔ اس کی قمیض
کے گلے، سر چھاتی کے دوپٹے اور ساتھ ہی آنے جانے کی ذرا ذرا سی باتوں پر قلقلاتا
ہوں، تاکہ یہ ثابت کر سکوں کہ میں بڑا اور بہت طاقتور مرد ہوں۔ کیا بتاؤں تجھے
صاحب، اپنی مردانگی میں بیوی سے زیادہ اپنے آپ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پر
پھر بھی جب وہ بے چاری پیسے مانگتی ہے تو میری مردانگی پر بہت گہری چوٹ لگتی ہے۔
سہن نہیں ہوتا صاحب۔
پر جب بچے پیسے مانگتے ہیں
تو غصہ نہیں آتا صاحب۔ غصہ نہیں آتا۔ ایسے لگتا ہے میں یک دم بکھر گیا ہوں۔ مٹی کا
ڈھیر بن گیا ہوں۔ بچے جب مجھے دیکھتے ہی ہنستے اچھلتے میری طرف بھاگتے ہیں اور
مجھے چمٹ کر چیخیں مارتے ہیں تو صاحب، میں باہر سے جتنے بھی چھتر کھا کر آیا ہوں،
میرا جی پھولوں کی طرح کھل جاتا ہے۔ اور پھر جب وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات
مانگتے ہیں تو غصہ نہیں آتا صاحب۔ میں کبھی غصہ ہونے کی کوشش بھی کروں تو نہیں ہو
پاتا صاحب۔ ان کے ہونٹوں پر بڑی مطمئن مسکان ہوتی ہے۔ بچوں کے لیے ان کا باپ خدا
ہوتا ہے صاحب۔ انہیں مومنوں سے زیادہ یقین ہوتا ہے کہ ان کا خدا ان کی دعا قبول
کرے گا۔ ان کا خدا ان کے سامنے بھی ہوتا ہے، ان کے قریب بھی، اور ان کی دعا سنتا
بھی ہے۔ ان کا اپنے جیتے جاگتے خدا پر ایمان کیسے نہ ہو۔ اور صاحب، نہ دکھنے والے
خدا کے بارے میں تو ہم سو حیلے کر لیتے ہیں کہ ہمارا ہی کوئی بھلا ہوگا پر بچوں کے
ساتھ یہ نہیں چلتا صاحب۔ ایک تو انہیں اپنا خدا سامنے دکھتا ہے اور دوسرا انہیں
حیلے بھی نہیں کرنے آتے۔ وہ تو اسی وقت خدا کے ساتھ روز حساب کھول کر بیٹھ جاتے
ہیں۔ اس دنیا نے میری بیوی کے شوہر کو تو نامرد کر ہی دیا ہے صاحب، اب تو میرے
بچوں کے خدا کو تو جھوٹا نہ کر۔ مجھے پیسے دے دے صاحب۔ میری تنخواہ دے دے۔"
پر نہ وہ صاحب کو گلے لگا
سکا اور نہ ہی یہ سارے للکارے۔ یہ سب کچھ اس کے سینے میں ہی دفن رہا۔ زندہ درگور۔
قریب ہو کر اسے ڈر لگا کہیں صاحب ناراض ہی نہ ہو جائے۔ یہ ہو گیا تو اس کے پیسے
پھنس جائیں گے۔ کہاں صاحب اور کہاں وہ۔ نہ صاحب کے آگے کسی نے اس کا ساتھ دینا ہے
اور نہ ہی کورٹ کچہری تھانے اپنا حق لے سکنے کا کوئی سوال ہے۔ صاحب کے آگے اس کے
کندھے جھک گئے، آواز نیچی پڑ گئی اور دل گھوڑا ہو گیا۔
مالی کو دیکھ کر اور ساتھ
ہی بیلوں کی کٹائی کا سن کر صاحب کو غصہ آ گیا۔
'اوئے تو نے اب کاٹی ہیں
بیلیں؟' صاحب نے ناک چڑھا کر مالی کو دیکھا۔
'جی صاحب، جیسے آپ نے کہا
تھا!' مالی نے بڑی لجاجت سے کہا۔
صاحب کی گاڑی پہنچ چکی تھی
اور تین روپے فی منٹ کے حساب سے اسے انتظار کا جرمانہ پڑ رہا تھا۔ اس لیے وہ جلدی
میں تھا۔
'اوئے یہ تو میں نے تجھے
دو ہفتے پہلے کہا تھا!' اس نے مالی کو ڈرایا۔
'اوہ صاحب میری قینچی خراب
تھی۔ اب تنخواہ لے کر ٹھیک کراؤں گا۔' مالی بولا۔
وہ چاہتا تو یہی تھا کہ
بھاگ کر اپنی ٹیکسی میں بیٹھ جائے تاکہ اس کا انتظار کا میٹر تو بند ہو، پر مالی
پر بھی اسے بہت غصہ تھا۔
'تنخواہ کے بغیر اگر تو
قینچی بھی نہیں ٹھیک کرا سکتا تو اب کیسے کاٹی وہ بیل؟ تجھے بھی دو ہفتوں بعد ہی
نہ تنخواہ دوں؟'
وہ جلدی میں بھی مالی کو
اچھی طرح پھٹکار کر ہی جانا چاہتا تھا۔
'نہیں نہیں صاحب!' مالی نے
بھوکے پالتو کتے کی طرح پونچھل ہلائی۔ 'رب کا واسطہ ہے، مجھے بڑی ضرورت ہے پیسوں
کی۔ قینچی تو میں ادھار پکڑ کر لایا ہوں۔'
مالی کی تنخواہ تو وہ پہلے
ہی دینا چاہتا تھا۔ مزدور کی مزدوری روک کر اسے بڑا ڈر آتا تھا، کہیں رب جلال میں
آ کر اس کے رزق پر ہی رکاوٹ نہ ڈال دے۔ پر یہ مالی کو سیدھا کرنا بھی ضروری تھا۔
دل تو اس کا تھا کہ ابھی
ذرا اور پھٹکارے، پر ٹیکسی کا میٹر سانس نہیں لینے دے رہا تھا۔
'اچھا اچھا!' اس نے جیب سے
نکال کر اسے پیسے پکڑائے۔ 'جو میں کہا کروں وہ فورا کیا کر!'
پیسے پکڑ کر مالی بہت خوش
ہو گیا۔ 'بڑی مہربانی صاحب!' اور ساتھ ہی بھاگ کر صاحب کے لیے گیٹ کھولا۔ صاحب
باہر جا کر ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔
ٹیکسی والے نے سلام کیا
اور پھر پوچھا کہ چلیں؟ اس نے سر ہلایا اور ٹیکسی چل پڑی۔ مین روڈ پر پہنچ کر
ٹیکسی والے نے پوچھا کہ وہ کسی خاص راستے سے جانا چاہتا ہے؟ اس نے کھڑکی سے باہر
دیکھتے ہوئے ڈرائیور کو نہر کے ساتھ ساتھ جانے کا کہا۔ پانچ منٹ بعد اسے لگا کہ
ڈرائیور نے گاڑی میں گانے لگائے ہوئے تھے۔ یہ بات اسے بالکل پسند نہیں تھی۔ اس نے
ڈرائیور کو جھاڑا۔
'اوئے، یہ تو نے گانے کیوں
لگائے ہیں؟'
اس کی جھاڑ سن کر ڈرائیور
چونک گیا۔
'اوہ صاحب ریڈیو ہے۔ میں
نے نہیں لگائے۔ ایف ایم والوں نے لگائے ہیں۔ ابھی بند کر دیتا ہوں۔'
یہ کہہ کر ڈرائیور نے
ریڈیو بند کر دیا۔ ریڈیو کے فورا بند ہونے سے اس کا غصہ یک دم ٹھنڈا سا پڑ گیا۔ پر
پھر ایک دم اسے خیال آیا کہ گاڑی کے شیشے کھلے ہیں۔ اس نے پھر ڈرائیور کو جھاڑا۔
'اوئے تو نے اے سی بھی
نہیں لگایا؟'
ڈرائیور پھر ڈر گیا اور
فٹافٹ کھڑکیاں بند کر کے اے سی لگانے لگا۔
'اوہ نہیں جناب، لگانے ہی
لگا تھا!'
'لگانے ہی لگا تھا!' اس نے
برا سا منہ بنا کر ڈرائیور کی نقل اتاری۔
دو منٹ بعد اس نے ڈرائیور
سے پوچھا۔
'کتنا عرصہ ہوا ہے تجھے
کمپنی کے ساتھ؟'
اور ساتھ ہی ڈرائیور کا
رنگ اڑ گیا۔
'جی چوتھا مہینہ ہے۔ کیوں
جی، کوئی غلطی ہو گئی ہے مجھ سے؟'
'نہیں، کوئی غلطی نہیں
ہوئی، ایسی حرکتیں ویسے اس کمپنی کے ڈرائیور کرتے نہیں۔' اس بار وہ بہت ٹھنڈا
ٹھنڈا بول رہا تھا۔ 'وہ اب بھی فیڈ بیک لیتے ہیں تیری کمپنی والے کہ نہیں، کلائنٹس
سے؟'
جتنا ڈرانے کے لیے اس نے
یہ بات کی تھی، ڈرائیور اس سے بہت زیادہ ڈر گیا۔ اس کا جی کیا کہ زور سے بریک
لگائے اور گاڑی کو وہیں روک دے اور چھلانگ مار کر پچھلی سیٹ پر بیٹھے صاحب کے
پیروں پر سر رکھ کر اسے ہولی گھوسٹ کا واسطہ دے کہ اس کی ریٹنگ خراب نہ کرے۔ اس کے
پیر پکڑ کر اسے بتائے کہ وہ فاروق آباد سے نہیں بلکہ چوڑکانے سے آیا ہے۔ کیونکہ
فاروق آباد کا اصل نام بھی یہی ہے اور وہ بھی اصل میں کرسچن نہیں، چوڑا ہے۔
آج بھی وہ چوڑا ہی ہے۔
ابھی تک چوڑا ہی ہے۔ نسلوں کا چوڑا۔ اس کے بڑے چوڑے جاتی کے اچھوت تھے۔ ان کے گھر
گاؤں کے باہر اس چھپڑ کے ارد گرد ہوتے تھے جہاں سارا گاؤں حاجت کے لیے جاتا تھا۔ وہ
کہنا چاہتا تھا کہ "صاحب یہی گند صاف کرنا ہندو دھرم نے ہماری جاتی کا فرض
بتایا تھا۔ ہم صدیوں سے چوڑے تھے، ہمارا بچہ بچہ چوڑا تھا، ہم لوگوں کا گند صاف
کرتے تھے اور ہماری چھاؤں بھی کسی پر پڑ جاتی تو وہ اشنان کیے بنا پوتر نہیں ہوتا
تھا۔ کسی زمانے میں ہمارے کچھ لوگ مسلمان بھی ہو گئے۔ کیونکہ مولوی صاحب کہتے تھے
مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے اور اسلام میں کوئی ذات پات نہیں، سب برابر ہیں۔
پر ہمارے بندے خدا جانے کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔ وہ مسلمان تو ہو گئے، پر رہے چوڑے
کے چوڑے۔ اب کوئی مسلمان ان کے ہاتھ یا کپڑا لگنے سے بھرشٹ تو نہیں ہوتا تھا، پر
ان کے برتنوں میں کھانے پینے کے لیے تیار بھی کوئی نہیں تھا۔
اور جب انگریز پادری آ گئے
تو انہوں نے ہمارے سر پر ہاتھ رکھے، ہمیں گلے لگایا، ہمارے ہاتھوں کھایا پیا۔ ہم
تو پاگل ہی نہیں ہو گئے؟ ایک تو حاکم اوپر سے گورے، اور ہمارے ساتھ کھاتے پیتے۔ ہم
کرسچن ہو گئے۔ اپنے طور پر یسوع کی بھیڑیں ہو گئے۔ سمجھے، اب تو برابر ہو گئے۔
چوہدری صاحب، میں بارہ
جماعتیں پاس ہوں۔ ڈرائیونگ کرتا ہوں۔ پر ہوں آج بھی چوڑا ہی۔ چوڑکانے میں مجھے
وہاں کے لوگ کچھ نہیں کرنے دیتے۔ ہر بات پر کہتے ہیں کہ آج کل چوڑوں کو بڑی آخر آ
گئی ہے۔ اور اب اگر بڑے شہر لاہور آیا ہوں کہ بڑے شہر کے ہنگامے میں اپنی ذات گنوا
دوں، ذات میرے سے پہلے ہی ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ 'تو چوڑا ہے
نا؟'
سنا ہے پچھلے زمانوں میں
لوگ اپنی بڑی ہستیوں کی روحوں کو پوجتے تھے۔ میں تو کہتا ہوں ٹھیک ہی کرتے تھے۔ یہ
جو بڑے ہوتے ہیں نا، یہ کبھی جان نہیں چھوڑتے۔ مر کر بھی نہیں۔
اب میں دن رات محنت کرتا
ہوں۔ کوئی دو نمبری نہیں لگاتا۔ پھر بھی سارے مسلمان ڈرائیوروں کی ہر وقت کوشش
ہوتی ہے کہ کسی طرح مجھے اس کمپنی سے نکلوادیں۔ اب جو میں کوئی بھی موقع نہیں دے
رہا تو مجھے ڈر لگنے لگا ہے کہ کوئی میرے پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر
مجھے فارغ ہی نہ کرا دے۔ اسی چکی میں پسا جا رہا ہوں اور اب آپ میری شکایت لگانے
چلے ہو۔ ریڈیو تو میں آپ کو خوش کرنے کے لیے لگایا تھا۔ آپ کو پسند نہیں آیا میں
نے فورا بند کر دیا۔ اور اے سی والی میری غلطی ہے۔ دو آنے بچانے کے چکروں میں میں
تب تک اے سی نہیں لگاتا جب تک گاہک خود نہ کہے۔ پر آپ کے کہتے ہی تو میں نے لگا
دیا تھا اے سی۔ مجھے معاف کر دو آپ کو رب سوہنے کا واسطہ ہے۔
لوگ چھپکلیوں سے بڑی نفرت
کرتے ہیں۔ پر کیونکہ چھپکلیاں بیماریاں پھیلانے والے مچھر کھاتی ہیں، لوگ چھپکلیوں
کو نہیں مارتے۔ پر وہ چاہتے ہیں کہ یہ گندی چھپکلیاں گھر سے باہر ہی رہیں۔ جب تک
یہ چھپکلیاں باہر سے ہی مچھر کھاتی رہتی ہیں لوگ ایسے بیہیو کرتے ہیں جیسے
چھپکلیاں ٹرانسپیرنٹ ہوں۔ انہیں دکھتی ہی نہ ہوں۔ اور اگر کبھی چھپکلی گھر کے اندر
آ جائے تو یہی اندھے سہیے کی طرح اپنے کانٹے پھیلا لیتے ہیں۔ اور صاحب ہم بھی جب
تک چوڑے رہیں، دور رہیں اور گند صاف کرتے رہیں تو ٹھیک۔ پر جس وقت ہم گند صاف کرنا
چھوڑ کر کوئی دوسرا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چوڑے سے کرسچن بننے کی کوشش کرتے
ہیں، معاشرے میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر بندہ اپنے کانٹے پھیلا کر ہمیں پڑ
جاتا ہے۔"
پر اس نے گاڑی کی بریکیں
نہ لگائیں، گاڑی چلاتے ہی گڑگڑا کر کہا 'صاحب، میری شکایت نہ کیجئے گا۔ میں فاروق
آباد سے لاہور کام ڈھونڈتا آیا ہوں اور بڑی مشکل سے مجھے یہ کام ملا ہے۔'
یہ ترلا سن کر وہ بڑا راضی
ہوا۔ اور ایک دم اسے ڈرائیور پر ترس بھی آیا۔ پر پھر بھی اس نے چھاتی پھلا کر
چودھراہٹ دکھائی، 'نہیں بھئی، یہ جو طریقے تو نے پکڑے ہوئے ہیں یہ چلنے والے
نہیں!'
'نہیں نہیں صاحب!' ڈرائیور
نے ذرا اور نیچے ہو کر منتیں کرنی شروع کر دیں 'میری شکایت نہ لگائیے گا، آپ کو
دعائیں دوں گا۔ میرے گھر کے حالات اچھے نہیں۔ آپ کو آپ کے رب کا واسطہ ہے۔'
ڈرائیور کی 'آپ کے رب'
والی بات اسے کچھ اجنبی سی لگی۔ اس کے منہ سے نکلنے ہی لگا تھا کہ یہ 'آپ کا رب'
کیا بات ہوئی، رب تو ایک ہی ہے۔ پر پھر اسے یاد آیا کہ اس نے اخبار میں خبر پڑھی
تھی کہ ملائشیا کی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ غیر مسلم اپنے رب کو اللہ
نہیں کہہ سکتے۔ وہ اسے گاڈ کہیں یا بھگوان یا کچھ اور، پر اللہ صرف مسلمان ہی اپنے
رب کو کہہ سکتے ہیں۔ غصے، چودھراہٹ اور ترس کے الجھے ہوئے جذبات میں یہ بات بڑی
کنفیوزنگ ہو گئی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ملائشیا کی یہ خبر پڑھ کر وہ بہت خوش
ہوا تھا۔ بلکہ جذباتی ہو گیا تھا۔ بلکہ جوش ایمانی اور جذبہ جہاد سے بھر گیا تھا۔
پر اس وقت پتا نہیں کیوں اسے لگنے لگا تھا کہ یہ تو اسلام سے پہلے والی باتیں
ہوئیں جب ہر قبیلے کا اپنا رب ہوتا تھا۔ اسی چکر میں ہی دو تین سیکنڈ گزر گئے اور
ڈرائیور نے سمجھا اس کی معافی تلافی کوئی نہیں ہو رہی۔ وہ گھبرا گیا اور اس کے منہ
سے نکلا 'صاحب اگر آپ کو میری رائڈ سے تکلیف ہوئی ہے تو بے شک آپ پیسے نہ دیجئے
گا۔' یہ بات منہ سے نکلتے نکلتے ہی ڈرائیور کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ بلنڈر مار
بیٹھا ہے۔ اس رائڈ کے پیسے نہ پکڑنے کا مطلب تھا کہ آج کی دیہاڑی سارا دن کام کر
کے بھی جیب میں کچھ نہیں پڑنا۔ اور اس ڈراؤنے خیال سے ہی اس کا لہجہ اتنا مسکین ہو
گیا کہ صاحب کے دل پر چوٹ سی لگی۔ اسے ایسے لگا جیسے کسی نے اسے ربوں کی دلدلوں سے
نکال کر باہر تڑپتے کرلانے والے بندوں کی دنیا میں پھینک دیا ہو۔
'اوہ نہیں!' صاحب نے اب
بڑے نرم لہجے میں کہا 'پیسے تو میں دوں گا، تیرے پیسے تھوڑا مارنے ہیں میں۔ پر آگے
ایسی حرکتیں نہ کرنا۔'
ڈرائیور کے سانس ابھی بھی
سوکھے ہوئے تھے۔ 'صاحب، وہ شکایت۔۔۔'
اور وہ ہنس پڑا 'اوہ نہیں
کرتا میں تیری شکایت، اب دھیان دے سڑک پر، کہیں گاڑی نہ ٹھوک دے۔'
ڈرائیور اتنا خوش ہوا کہ
جب گاڑی منزل پر پہنچ گئی تو وہ بھاگ کر باہر آیا اور صاحب کے لیے گاڑی کا دروازہ
کھولا۔ یہ دیکھ کر اسے مداری کے ڈنڈے کی آواز پر ناچتا بندر یاد آ گیا۔
دفتر کا انتظار
پلازے کے اندر داخل ہو کر
لفٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے جیب سے موبائل فون نکال کر وقت دیکھا۔ وہ مقررہ وقت سے
پندرہ منٹ پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔ دفتر کی ریسپشن پر بیٹھی لڑکی کو اس نے اپنا نام بتایا۔
'ہاں جی، آپ کی میٹنگ فکس
تھی!' لڑکی نے کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہوئے کہا 'پر آج اچانک باہر سے کچھ لوگ
آ گئے ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے آپ کی میٹنگ اگلے مہینے چلی جائے۔'
'اگلے مہینے؟' اسے کرنٹ سا
لگ گیا۔ 'اگر آج نہ بھی ہوئی تو کل کر لیں گے میٹنگ، میں اپنی پروپوزل لے کر آیا
ہوں، مہینے بعد کس لیے؟'
'اوہ کل صبح باس امریکہ جا
رہے ہیں نا، چھ ہفتوں کے لیے!' لڑکی نے جواب دیا۔
'کل صبح؟' وہ ہکا بکا رہ
گیا۔ 'چھ ہفتوں کے لیے؟'
'ہاں جی!' لڑکی نے ذرا
ہمدردی سے کہا 'ویسے آپ انتظار کر لو، ہو سکتا ہے یہ لوگ جلدی چلے جائیں اور آپ کی
میٹنگ آج ہی ہو جائے۔'
'مس، یہ میٹنگ آج ہی ہونی
بہت ضروری ہے، ورنہ میرا بڑا نقصان ہو جائے گا۔' وہ جھنجھلا کر لڑکی پر برسا۔
لڑکی دب سی گئی۔ 'سر میں
کچھ نہیں کر سکتی۔ مجھے باس نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ جب تک یہ گورے چلے نہیں
جاتے، وہ کسی سے ملیں گے نہ ہی کوئی کال لیں گے۔'
یہ سن کر وہ چڑ سا گیا۔
'مس، آپ سمجھ نہیں رہیں۔' اس نے غصے سے ذرا آواز اونچی کر کے کہا 'میں ہر حال میں
آپ کے باس کو آج مل کر ہی جاؤں گا۔'
اس کے غصے اور اونچی آواز
سے لڑکی پریشان ہو گئی۔ اس کا جی کیا کہ اس کا کالر پکڑے اور اسے جھٹکے مارے اور
ساتھ اس کے منہ پر تھپڑ مار کر چیخ چیخ کر کہے کہ وہ اپنی آواز نیچی رکھے۔ اگر اس
کی آواز اندر آفس میں چلی گئی تو باس نے اسے نوکری سے نکال دینا ہے۔ لڑکی کا جی
کیا کہ اس کے منہ پر خراشیں مار مار کر اسے بتائے کہ نوکریوں کی اسے لاہور شہر میں
کمی بالکل نہیں ہے۔ ہر دوسرا آفس اسے فٹافٹ اچھی تنخواہ پر نوکر رکھ لے گا۔ اس لیے
نہیں کہ وہ پڑھی لکھی ہے یا اچھا کام کرتی ہے۔ بلکہ اس لیے کہ وہ جوان ہے، خوبصورت
ہے اور ساتھ ہی کمزور ہے۔ ہاں، جوانی اور خوبصورتی کے ساتھ غربت بھی لڑکی کی نوکری
کے لیے بڑا گن ہے۔ اس کا جی کیا کہ وہ بین ڈالے کہ "تجھے نہیں پتا صاحب، لوگ
مجھے کام کرنے کے لیے کام نہیں دیتے، رکھنے کے لیے کام دیتے ہیں۔ بڑے گھروں کی
لڑکیاں نہیں رکھ سکتے، کیونکہ انہیں تو گندی نظر سے بھی دیکھیں تو وہ شور مچا دیتی
ہیں اور ان کے بڑے گھروں میں بڑے بندے ہوتے ہیں، وہ تو دفتر بند کرا دیتے ہیں۔ اس
لیے انہیں تو کوئی ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ پر مجھے کوئی نہیں چھوڑتا صاحب۔ ہر
بندہ گندی نظروں سے دیکھتا ہے، چپڑاسی سے لے کر افسر تک۔ میری جیسی کمزور لڑکیوں
کو یہاں نوکری کے نام پر پارٹ ٹائم رکھیل کے طور پر کام کرنے کی آفر ہوتی ہے۔
میرا شوہر ہے صاحب، اس نے
بڑی مشکل سے مجھے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ پرانے خیالات کا ہے،
بلکہ اس لیے کہ یہاں کام کرنے والی عورتوں کو ہر کوئی گشتی سمجھتا ہے۔ جب میں کام
کرنے کی بات کی تو اسے یہ مسئلہ نہیں تھا کہ میں کوئی غلط کام کروں گی، اسے یہ
مسئلہ تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور یہ مسئلہ صرف اسے ہی نہیں تھا صاحب، مجھے بھی
تھا۔ تجھے میں کیا بتاؤں صاحب لوگ مجھے بھی کیسے کیسے کی باتیں کرتے ہیں۔ بندے تو بندے،
عورتیں بھی کیا کیا طعنے نہیں مارتیں۔ ہر بات پر کہتی ہیں کہ میں کنجری ہوں۔ اور
بندے؟ بندے تو صاحب مجھے ایسے دیکھتے ہیں جیسے میں حلال کمانے دفتر نہیں بیٹھی،
مجرا کرنے کوٹھے پر بیٹھی ہوں۔ اور صاحب کیونکہ وہ اپنی عورتوں کو باہر نہیں
نکالتے اس لیے انہیں کوئی بوجھ بھی نہیں۔ ہر بندہ تماش بین بنا پھرتا ہے۔ دفتروں
میں ایسے مجھے دیکھتے ہیں جیسے بھوکا کتا ہڈی کو دیکھتا ہے۔ اور ایسی ایسی ذومعنی
گندی باتیں کرتے ہیں کہ خون میرے سر پر چڑھ جاتا ہے صاحب۔ میں سوچتی ہوں اگر کہیں
میرا شوہر کبھی اس وقت آ کر یہ باتیں سن لے تو مجھے بھی مار ڈالے اور خود بھی
خودکشی کر لے۔ اور اگر ایسے کبھی ہو گیا نا صاحب، تو میں اسے اپنا خون معاف کر دوں
گی۔ وہ مجھے مارنے میں حق بجانب ہوگا صاحب۔ میں اسے یہ ضرور کہوں گی کہ مجھے مارنے
سے پہلے سارے تماش بینوں کو میری آنکھوں کے سامنے مارے۔ پر وہ نہیں مار سکتا صاحب۔
ایک تو وہ کمزور ہے، اور دوسرا کن کو کن کو مارے گا بیچارہ۔ یہاں تو ہر کوئی تماش
بین ہے۔ پر میں کیا کروں صاحب، گھر نہیں چلتا نوکری بنا۔ بچے اچھے سکولوں میں
پڑھانے ہیں، ان کا مستقبل سنوارنا ہے اور پیسے چاہئیں۔ کہاں سے آئیں گے پیسے صاحب؟
کمزور گھر میں حلال کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
یہ نوکری میں نہیں چھوڑ
سکتی صاحب۔ میرا باس کسی شریف ماں باپ کا ہے۔ اس کے ہوتے کسی کی مجال نہیں جو میرے
ساتھ کوئی اوپر نیچے کر جائے۔ یہ نوکری مجھے بڑی پیاری ہے صاحب۔ چپ کر جا صاحب،
تجھے رب کا واسطہ ہے چپ کر جا، میری نوکری کا تو نہ لگا۔"
اس نے گھٹی گھٹی آواز میں
اسے کہا 'سر پلیز آپ اونچا نہ بولیں۔ میں جو کچھ کر سکتی ہوں آپ کے لیے کروں گی۔'
لڑکی کا اڑا ہوا رنگ دیکھ
کر وہ ذرا نرم پڑ گیا۔ 'مس کچھ کرو۔ میرا آج آپ کے باس کو ملنا بہت ضروری ہے۔'
'سر میں کچھ کرتی ہوں۔ پر
پلیز آپ اونچا نہ بولیں۔ کسی نے میری شکایت کر دی تو میری نوکری چلی جائے گی۔' وہ
تقریبا رونے لگی۔
'اچھا اچھا!' لڑکی کا منہ
دیکھ کر وہ بالکل ہی ڈھیر ہو گیا 'میں نہیں اونچا بولتا مس، پر پلیز کچھ کرو، یہ
بڑا ضروری ہے۔'
لڑکی نے اسے کہا کہ وہ
سامنے بیٹھ جائے اور وہ کچھ کرتی ہے۔ وہ جا کر بیٹھ گیا اور لڑکی سوچنے لگی کہ وہ
کیا کرے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی، پر اسے ڈر تھا کہ اگر صاحب نے شور مچا دیا
تو اس کی نوکری خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اسی فکر میں تھی کہ دروازہ کھلا اور گورے چلے
گئے۔ لڑکی نے سکھ کا سانس لیا اور صاحب کے گالوں پر بھی لالی آ گئی۔
کاروباری گٹھ جوڑ
باس نے گوروں کو رخصت کرتے
ہوئے اسے دیکھ لیا تھا اور اس نے بھی فٹافٹ ہلکی سی مسکان کے ساتھ سر ہلا کر باس
کو سلام کیا تھا۔ اور اسے ایسے لگا تھا جیسے باس نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے
سلام کا جواب دے دیا ہو۔ اب وہ بھی اطمینان سے بیٹھا تھا اور لڑکی بھی خوشی خوشی
اپنے کمپیوٹر پر ٹائپنگ کر رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ہی باس نے
اسے اندر بلا لیا۔ وہ جلدی جلدی اپنی فائلیں سنبھالتا باس کے کمرے کی طرف ایسے
بھاگا جیسے اسے دو منٹ دیر ہو گئی تو باس کھڑکی سے بھاگ جائے گا۔ باس کچھ اچھے موڈ
میں نہیں تھا۔ لگتا ہے گورے اسے پھٹکار کر گئے ہیں، اس نے سوچا اور دل ہی دل میں
ذرا سا ہنسا۔ پر اوپر سے اپنے منہ کے سارے پٹھے کھینچ کر رکھے کیونکہ باس کو بھنک
بھی پڑ جاتی کہ وہ اندر اندر اس کا مذاق اڑا رہا ہے تو اس کی پروپوزل تو گئی تھی
فٹے میں۔ اس نے کرسی سے کولہے اٹھا کر بڑی تمیز سے اپنے کاغذ باس کے سامنے رکھے
اور پھر بہت مؤدب ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ باس نے ہلے جلے بغیر اوزاری سے کاغذوں
پر نظر ڈالی۔
'یہ تو آپ نے پچھلے ہفتے
لانی تھی۔' باس نے ناک چڑھا کر کہا۔ اور ساتھ ہی صاحب کا رنگ اڑ گیا۔
'جی جناب۔ پر میں آپ کو
فون کر کے بتا دیا تھا کہ کام بہت زیادہ ہے اس لیے تھوڑی سی دیر ہو جائے گی۔' اس
نے خوف سے بھری آنکھوں سے باس کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔ اور جب باس نے نہ آگے سے
ہاں کی اور نہ ہی کاغذ پکڑے تو اس کا دل چلتے چلتے ایک دھڑکن کھا گیا۔
'میں بڑی محنت سے پروپوزل
تیار کی ہے جناب۔ آپ کو تو پتا ہی ہے دماغی کام میں تھوڑی بہت دیر سویر ہو جاتی
ہے۔۔۔کبھی کبھار۔'
جب اب بھی باس کچھ نہ بولا
تو وہ بہت ڈر گیا۔ اس کا جی کیا وہ چھلانگ مار کر میز پر جا چڑھے اور باس کا منہ
پکڑ کر کاغذوں پر مارے۔ پھر ایک ایک کاغذ پکڑ کر باس کے منہ کے آگے کرے اور اسے
کہے کہ پڑھ تو لے۔ تجھے نہیں پتا میں ان پر کتنی مغز ماری کی ہے۔ اور جب تک انہیں
پڑھے گا نہیں تجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں بنا کر کیا لایا ہوں۔ تجھے رب کا واسطہ
ہے بوس، انہیں پڑھ۔ مجھے یقین ہے کہ میری پروپوزل تجھے بہت پسند آئے گی۔ اسے پڑھ
کر پاس کر باس، میری پگ تیرے ہاتھ میں ہے۔
میرا بڑا شاندار گھر میرا
اپنا نہیں، کرائے کا ہے۔ ہم بس چار ہی افراد ہیں اور ہمیں پانچ مرلے کا گھر بھی
زیادہ ہے۔ پر پھر بھی میں پورے کنال کا گھر سر پر اٹھائے پھرتا ہوں۔ اور باس جی یہ
جوہر ٹاؤن بڑا مہنگا علاقہ ہے۔ میں اندرون شہر یا پھر ٹھوکر سے آگے جا کر بھی گھر
لے سکتا تھا۔ اور لینا چاہتا بھی تھا، کیونکہ وہاں کرائے بہت کم ہیں۔ پر نہ تو میں
دور گھر لیا ہے اور نہ ہی چھوٹا۔ مجھے کوئی شو مارنے کا شوق نہیں باس۔ میں زندگی
کی پیڑ کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ میرا باپ سرکاری دفتر میں چپڑاسی تھا۔ اس نے
کیسے پیٹ کاٹ کر مجھے پڑھایا ہے، یہ میرا دل جانتا ہے۔ یہ شو شا پر اور حلال کی
کمائی خرچ کرنے پر میں لعنت بھیجتا ہوں۔ پر کیا کروں، داتری کے ایک طرف دانتے ہوتے
ہیں اور دنیا کے دو طرف۔ میں جب کام شروع کیا تو میں اندرون بھاٹی گیٹ رہتا تھا
اور بسوں رکشوں پر پھرتا تھا۔ کپڑوں کا بھی مجھے زیادہ شوق نہیں، بس ڈھنگ کے پہن
لیتا تھا۔ پہلے میں جہاں بھی کام لینے جاتا تھا، کوئی مجھے لفٹ ہی نہیں کراتا تھا۔
آہستہ آہستہ مجھے سمجھ آئی کہ میرے پرانے گھسے کپڑے دیکھ کر لوگ مجھے کمزور سمجھتے
تھے۔ اور کمزور طاقتور کے بارے میں تو آپ کو پتا ہی ہوگا باس، طاقتور کو دیکھ کر
لوگ ہنستے ہیں اور کمزور کو دیکھ کر غصہ آتا ہے۔ پھر میں ذرا سا اپنے آپ کو
سمجھایا کہ یہ تو دنیا کی پرانی ریت ہے، 'کھاؤ من بھاتا، پاؤ جگ بھاتا' (جو دل
چاہے کھاؤ، جو دنیا کو پسند آئے وہ پہنو)۔
کچھ کام ملنا شروع ہوا تو
میں اوپر کی طرف چھلانگ مارنے کی کوششیں کیں۔ پھر وہی بات۔ بسوں رکشوں پر سفر کرنے
والے کو اونچی کلاس کے لوگ کیا سمجھتے تھے۔ پر گاڑی لینے کا میرا حوصلہ نہیں پڑا
باس۔ ایک تو مجھے گاڑی کی بالکل کوئی ضرورت نہیں تھی، اور دوسرا میرے پاس پیسے بھی
نہیں تھے۔ پر جب میں ایک دفتر میں لوگوں کو باتیں کرتے سنا کہ 'کپڑے تو لوگ لنڈے
سے بھی لے کر پہن لیتے ہیں، بندے کا پتا تو گاڑی سے ہی چلتا ہے'، تو میں ڈھیر ہو
گیا۔ پر پھر بھی میرا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا باس۔ میں اپنی بیوی سے بات کی، اور
نرمی سے اس نے بھی مجھے بتایا کہ رشتے دار اسے بھی باتیں کرتے ہیں۔ وہ بیچاری مجھے
منہ سے تو نہ کہہ سکی، پر مجھے سمجھ آ گئی کہ شریکے کے طعنوں سے تنگ آ کر وہ بھی
چاہتی تھی کہ ہم گاڑی لے لیں۔ اور پھر باس، میں بینک سے گاڑی لیز کرا لی۔ اور کیا
کرتا؟ کہاں سے لاتا اتنے پیسے؟ اب میرے دل پر بہت بوجھ پڑ گیا باس۔ ایک تو ہر
مہینے گاڑی کی قسط نکالنی پڑ گئی، اور دوسرا یہ خوف کہ اگر اب قسطیں نہ دے سکا تو
ایک طرف پیسے کا نقصان کیونکہ گاڑی بینک والے چھین کر لے جائیں گے، اور دوسری طرف
شریکے میں خواہ مخواہ کا مذاق بن جائے گا کہ 'بڑے گاڑی والے صاحب بنے پھرتے تھے، آ
گئے پھر اوقات پر'۔
پر گاڑی نے اپنا جادو
دکھایا باس۔ ایک تو شریکے میں ہماری واہ واہ ہو گئی، اوپر سے بیوی بھی خوش۔ اور
دوسری طرف جب میں دفتروں میں جا کر کاغذات کے ساتھ اپنی نئی گاڑی کی چابی رکھتا
تھا تو وہ میرے کاغذات سے زیادہ غور سے میری گاڑی کی چابی کی طرف دیکھتے تھے۔
ایمانی بات تو یہی ہے باس، کہ گاڑی نے میرا کاروبار کافی بڑھا دیا۔ اب مجھے سمجھ
آئی کہ دنیا تو کھیل ہی سجی دکھا کر کھبی مارنے کا ہے۔ اور پھر کچھ دیر بعد میں
ایک اور چھلانگ مارنے کا انتظام کیا۔ لاہور کے ایک پوش علاقے میں بڑا گھر۔ زیادہ
کرائے والا۔ اور آپس کی بات ہے صاحب یہ گھر بھی بڑا کماؤ پوت ہے۔ اس کی وجہ سے بھی
لوگوں نے مجھے بہت کام دیا ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے خیال آتا ہے باس کہ اپنی پڑھائی
لکھائی اور ذہانت محنت ایک طرف، اور یہ گاڑی گھر کی شو شا دوسری طرف رکھ کر اگر
میں سچی بات کروں تو گاڑی گھر نے مجھے زیادہ کما کر دیا ہے۔
پر اب میں ایک شکنجے میں
پھنسا ہوا ہوں۔ پہلے اگر کسی مہینے کمائی کم ہوتی تھی تو میں حساب لگاتا تھا کہ کون
سا کون سا خرچہ کم کر کے پورا پڑ جائے گی۔ پر اب نہیں باس۔ اب تو مجھے کم کمائی کے
خیال سے ہی کپکپی چھڑ جاتی ہے۔ اگر قسط نہ گئی تو گاڑی جائے گی، اگر کرایہ نہ گیا
تو گھر جائے گا۔ یہ نہیں کہ میں ان کے بنا مر جاؤں گا، پر عزت بھی جائے گی اور
کمائی بھی۔ اس معاشرے میں میری ورتھ میرے گنوں کی وجہ سے نہیں بلکہ میری اس شو شا
کی وجہ سے ہے۔ پہلے تو میں زیادہ کام اس لیے کرتا تھا تاکہ زیادہ کھانے پینے کے
لیے زیادہ کما سکوں، پر اب میں اس لیے زیادہ کام کرتا ہوں کیونکہ کمائی کم ہونے کا
مطلب ہے شو شا گئی۔ اور اگر شو شا گئی تو سمجھو کمائی بھی گئی۔ مجھے ایسے لگتا ہے
جیسے میں موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتا ہوں۔ گول گول اور گول گول۔ اوپر نیچے
ہو سکتا ہوں، آہستہ تیز بھی ہو سکتا ہوں، پر رک نہیں سکتا۔ رکا تو سمجھو گیا۔ بیڑا
غرق ہی ہو گیا۔
اور اب اگر تو کاغذ دیکھے
بنا ہی باہر چلا گیا تو میرے کام کا کیا بنے گا؟ میرے پیسوں کا کیا بنے گا۔ میری
گاڑی، میرے گھر، میری بیوی کی خوشی، شریکے میں میری عزت اور آگے میرے کام کا کیا
بنے گا باس۔ آپ کو رب کا واسطہ ہے ایسے مجھے برباد نہ کرو۔
'سر، یہ پلیز دیکھ تو لو!'
اس نے رونہاکا سا ہو کر باس کو کہا۔
اس کی روتی آواز سن کر
شاید باس کو ترس آ گیا۔
'اچھا، آپ یہ میرے پاس
چھوڑ جاؤ، میں دیکھ لوں گا!' باس نے کہا۔
'مگر سر آپ تو کل باہر چلے
جاؤ گے، میری پروپوزل کا کیا ہوگا؟' اس کے منہ سے جیسے بات پھسل سی گئی۔ اور ساتھ
ہی وہ ڈر گیا کہیں یہ باہر جانے والی بات اس کے منہ سے سن کر باس کو غصہ نہ آ
جائے۔ اور ایک منٹ کے لیے شاید باس کو غصہ آیا بھی، پر اس کا اڑا رنگ دیکھ کر وہ
ہنس پڑا۔
'آپ فکر نہ کرو!' اس نے
مسکراتے کہا، 'میں جی ایم صاحب سے بات کر لی ہے، آپ کی پروپوزل میں انہیں بھیج دوں
گا، وہ دیکھ کر آپ سے کوآرڈینیٹ کر لیں گے۔'
دفتر سے باہر نکل کر اپنے
سمارٹ فون کی سمارٹ ایپ سے اوبر ٹیکسی منگواتے اسے باس پر اتنا پیار آ رہا تھا کہ
اس کا جی کرتا تھا واپس جا کر اس کا منہ چوم لے۔
No comments:
Post a Comment