Monday, 15 September 2025

از دِلّی تا پالم (افسانہ)

 

از دِلّی تا پالم

از

ٹیپو سلمان مخدوم

(پنجابی سے ترجمہ)


 

1803ء

1803ء کا سال دنیا کی تاریخ میں ایک عجیب سال تھا۔ یورپ میں نپولین انگریزوں کے ساتھ جنگیں لڑ رہا تھا اور دنیا کے دوسرے کونے میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے "ماربری بنام میڈیسن" کے مقدمے میں فیصلہ دیا کہ اگر حکومت آئین کے خلاف کوئی قانون بنائے تو عدالتیں اس قانون کو رد کر سکتی ہیں۔

یہی وہ سال تھا جس میں دہلی کا لال قلعہ اداس دکھائی دیتا تھا۔ کمزور، لاچار اور بوڑھا۔ اس کی عظیم الشان دیواریں اور عالی شان مینار خزاں کی چمکیلی دھوپ میں بھی پھیکے نظر آتے تھے۔ مرہٹوں نے انگریزوں سے جنگ ہار کر شہنشاہِ ہندوستان کو کمپنی بہادر کی پناہ میں دے دیا تھا اور اب شہنشاہِ ہندوستان کا وظیفہ کمپنی بہادر نے دینا تھا۔ یہ خبر ملنے پر شاہ عالم نے زمرد سے کہا تھا کہ وہ سلجوق وزیرِ اعظم نظام الملک طوسی کی عظیم کتاب "سیاست نامہ" میں سے بادشاہ کو وہ واقعہ سنائے جس میں جنگِ بلخ ہار کر عمر بن لیث نے صرف اتنا کہا تھا کہ "صبح میں امیر تھا، اور شام کو اسیر"۔

پچھتر سال کے شاہ عالم ثانی نے بٹیرے کی بوٹی کے ساتھ انگلیاں بھی چوس لیں۔ چوبیس سال کی گل بدن کی انگلیاں چھ گھنٹے دم پر رکھی بٹیرے کی بوٹیوں سے زیادہ ملائم تھیں۔ ایک ہاتھ سے اس کی ریشمی کلائی پکڑ کر گل بدن کی انگلیاں چوستے مغل بادشاہ کا دوسرا ہاتھ کنیز کی ننگی کمر پر تھا۔ شرم اور شرارت سے جب وہ لچکتی تو شہنشاہِ ہندوستان کے پیٹ میں گدگدی سی ہوتی۔

شاہ عالم ثانی۔ کیا شاندار لقب تھا۔ رعب و داب والا، شان و شوکت والا۔ انگریز اس کے لمبے چوڑے خطابات سن کر ہنستے تھے، اور حاسد کہتے تھے، "سلطنتِ شاہ عالم، از دِلّی تا پالم"۔ پالم دہلی کے بالکل قریب ہی تھا۔

بڑے بڑے لفظوں کے نیچے دبتی مغلیہ سلطنت کے زوال کی تین سیڑھیوں میں سے شاہ عالم ثانی درمیانی سیڑھی تھا۔

اورنگزیب عالمگیر اپنی موت کے دن تک میدانِ جنگ میں ہی رہا۔ اس نے مرہٹوں کو بالکل پہاڑی چوہے بنا دیا تھا۔ مغل فوج جہاں بھی پڑاؤ ڈالتی، ایک شہر آباد ہو جاتا۔ لاکھوں کی فوج جو سالوں سے مسلسل جنگیں لڑ رہی تھی، اس کی ہر ضرورت لشکر میں ہی پوری ہوتی تھی۔ پڑاؤ ڈلتا تو کئی قسم کی منڈیاں سج جاتیں۔ سبزی منڈی، گوشت منڈی، اور ہیرا منڈی بھی۔ شام کو ہزاروں دیگیں چڑھ جاتیں، کسی ٹیلے پر چڑھ کر دیکھو تو حدِ نگاہ تک خیمے ہی خیمے نظر آتے۔ کوچ ہوتا تو کئی کئی میل تک فوج کے ہاتھی، گھوڑے، خچر اور سپاہی چلتے دکھائی دیتے۔ درمیان میں شاہی ہاتھی پر مغل شہنشاہ ہندوستان۔ سفید بال، ہاتھ میں تسبیح، گود میں قرآن، اپنی فوج کے ساتھ جنگ میں۔ وہ جہاں جاتا سلطنت کی شان نظر آتی۔

اورنگزیب عالمگیر کا بیٹا مغلیہ سلطنت کے زوال کی پہلی سیڑھی تھا۔ 1707ء میں شہنشاہِ ہندوستان بنا اور اس کے دو لقب تھے، شاہ عالم اور بہادر شاہ۔ دونوں  ہی منحوس ثابت ہوئے۔ شاہ عالم ثانی نے انگریز سے وظیفہ لے لیا اور اس کے پوتے بہادر شاہ ثانی عرف بہادر شاہ ظفر نے تو مغلیہ سلطنت کا بیڑا ہی غرق کر دیا۔ یہ اگلی دو سیڑھیاں تھیں۔

بٹیرے کے ساتھ ہرن کے کباب، بطخ کا سالن، دنبہ پلاؤ، بادام اخروٹ کا حلوہ اور انار کا شربت کھلا پلا کر گل بدن نے بادشاہ کی انگلیوں کی پوروں کو جواہرات جڑے سونے کے پیالے میں بھرے عرقِ گلاب میں ڈبویا اور اپنے ململی پلو کا کونا عرق میں ڈبو کر بادشاہ کے ہونٹ پونچھے۔

پاس بیٹھی خواجہ سراء زمرد کی آنکھ کے اشارے پر ہاتھ باندھے تین حبشی غلام برتن اٹھا کر شاہی باورچی خانے کی طرف لے گئے اور زمرد کے اشارے پر ایک کنیز نے سونے کا جڑاؤ پان دان بادشاہ کے آگے رکھ دیا۔ زمرد نے انگلی کا اشارہ کیا اور ایک حبشی غلام نے تازہ حقہ بادشاہ کے پاس رکھ دیا۔ مخملی پردے کے پیچھے سے ایک اور حسین کنیز نے جھانکا، زمرد کی کسی بھی حرکت کے بغیر ہی وہ حکم سمجھ گئی اور پائلیں چھنکاتی ہوئی اندر آ گئی۔ آداب کیا، "کنیز شیریں لب آداب عرض کرتی ہے بادشاہ سلامت"۔

گل بدن نے نرمی سے بادشاہ کا ہاتھ اپنی کمر سے نکال کر اس کی ران پر رکھا، گاؤ تکیے سیدھے کیے اور بادشاہ کی کہنی ایک تکیے پر ٹکا دی۔ بادشاہ کھسک کر تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ مورچھل سے ہوا دیتیں دونوں کنیزیں اطراف سے ہٹ کر بادشاہ کے پیچھے جا کھڑی ہوئیں۔ گل بدن نے حقے کے تین چار کش لے کر اسے گرم کیا اور تسلی کی کہ تمباکو ٹھیک ہے۔ پھر وہ بادشاہ کے ساتھ چمٹ کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ سے بادشاہ کو کش دینے لگی۔ ہر کش دینے سے پہلے وہ خود کش کھینچتی اور ساتھ ہی گڑگڑاتے حقے کا کش بادشاہ کو دیتی۔ اتنے میں شیریں لب بادشاہ کے سامنے بیٹھ گئی تھی اور حکیم صاحب کی ہدایات کے مطابق کابلی چنے جتنی افیون کی گولی مروڑ کر خوشبودار پان بنا رہی تھی۔

پان بنا کر وہ بادشاہ کی گود میں آ گئی۔ گل بدن بادشاہ کے کان میں پان کی کہانی سنا رہی تھی۔ بادشاہ نے منہ کھولا اور شیریں لب نے پان بادشاہ کے منہ میں رکھ دیا۔ پان رکھواتے وقت بادشاہ نے شیریں لب کی زبان اور ہونٹ چوسے۔ دونوں کنیزیں کھلکھلا کر ہنسیں اور بادشاہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔

 

1739ء

1639ء میں، استاد احمد لاہوری، جو شاہ جہاں کا "نادرُ العصر" کہلاتا تھا، ایک طرف ملکہ ممتاز محل کی قبر پر تاج محل بنا رہا تھا اور دوسری طرف لال قلعے کی بنیادیں رکھ رہا تھا۔ پتا نہیں اسی وقت ہی نحوست کی کوئی اینٹ اس کی بنیادوں میں شامل کر دی گئی تھی۔

شاہ جہاں نے اپنی خواہش کا بیج معمار کے تصور میں ڈالا، جہاں حکمِ حاکم سے لال قلعے کا نطفہ ٹھہرا۔ کہاں کہاں سے کاریگر نہیں آئے، اور کہاں کہاں سے اس کی تعمیر اور سجاوٹ کے لیے سامان نہیں آیا۔ پوری ایک دہائی مغلیہ سلطنت اس کی کہانیوں سے گونجتی رہی۔ کسے خبر تھی کہ یہ شانیں صرف ایک ہی صدی کی ہیں۔

1739ء میں، گیارہ سال کے شاہ عالم ثانی کی دونوں آنکھوں نے دو منظر دیکھے۔ یہی دہلی اور اس کا یہی لال قلعہ۔ قلعے کے اندر مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر کنیزوں کے ساتھ ناچتا تھا اور باہر نادر شاہ درانی کی ایرانی فوجیں دہلی کی گلیوں میں قتلِ عام کر رہی تھیں۔ پھر انہی آنکھوں نے تختِ طاؤس اور کوہِ نور ہیرا بھی نادر شاہ کے ایرانی ٹٹوؤں پر لدا ہوا قلعہ چھوڑتے دیکھا۔

 

1803ء

بادشاہ کی دونوں لاڈلی کنیزیں اٹھکیلیاں کرتی رہیں۔ کبھی اس کی رانیں دبانے کے بہانے ہاتھ پھیرتیں اور کبھی بال ٹھیک کرنے کے بہانے اس کا منہ اپنی چولی میں چھپا لیتیں۔ ارد گرد بادشاہ کے خاص خواجہ سرا، کنیزیں اور گویے بھی اب آ بیٹھے تھے، ہنسی مذاق چلتا رہا۔ بیچ میں کوئی لطیفہ سناتا، کوئی غزل اور کبھی گویے راگ سناتے۔ رقص کے لیے کوئی نہیں اٹھا۔

دربان نے بادشاہ کے کمرے کے باہر کھڑے ہتھیار بند خواجہ سرا کے کان میں اطلاع دی۔ اس نے دروازے کے اندر والے کو بتایا۔ اندر والے نے برابر والے کو۔ برابر والے خواجہ سرا نے ایک محفل والے کو اور محفل والے نے بادشاہ کے پاس بیٹھی زمرد کے کان میں خبر ڈالی۔ زمرد نے سر اتنا سا ہلایا جتنا پلک جھپکنے میں ہوتا ہے۔ محفل والا اپنی جگہ پر جا بیٹھا اور محفل اسی طرح ہی چلتی رہی۔

دو گھنٹے اور گزر گئے تو محفل دھیمی پڑنے لگی۔ اب زمرد کھڑی ہو گئی، اور ساتھ ہی گل بدن اور شیریں لب چھوئی موئی کی طرح سکڑ گئیں۔ خواجہ سرا بادشاہ کے ساتھ چمٹ کر بیٹھ گئی اور بولی، "آداب شہنشاہِ عالم، یہ بندی زمرد آداب عرض کرتی ہے۔"

بادشاہ نے ہلکا سا اس کی طرف منہ کیا، یہ جواب بھی تھا اور سوال بھی۔

زمرد نے منہ بادشاہ کے کان کے ساتھ لگا دیا۔

زمرد جس طرح پانی پر چلتی ہوئی بادشاہ کے پاس آئی تھی۔ پھر نزاکت سے اپنا نرم ہاتھ بادشاہ کی چھاتی پر رکھ کر کان میں بات بتائی، اور جب تک بادشاہ نے کچھ نہیں کہا، بت بنی رہی۔ ساتھ بیٹھی دونوں کنیزیں زمرد کی ایک ایک حرکت کو آنکھوں سے چوستی رہیں۔ عورت اور عمر میں چھوٹی ہونے کے باعث وہ ایک دوسرے سے کہتی رہتی تھیں کہ وہ زمرد سے اچھی باندیاں ہیں۔ پر اندر سے انہیں بھی پتہ تھا کہ وہ زمرد کا مقابلہ نہیں تھیں۔ خوبصورت تو زمرد ان سے زیادہ تھی ہی، پر اس کی ادائیں اور بھی آفت تھیں۔ یوں ہی تو بادشاہ اس پر فدا نہیں تھا۔

زمرد کا ہاتھ بادشاہ کی چھاتی سے آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا پیٹ کے نیچے کی طرف آنے لگا اور بادشاہ کا ہاتھ اس کی کمر پر۔ شاہ عالم بیٹھے بیٹھے پگھلنے لگا۔ پھر زمرد نے آہستگی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بادشاہ نے اس کی طرف منہ کیا، اور اشارہ سمجھ کر زمرد کھڑی ہو گئی۔ اعلان کیا، "والی سردھنہ و سپہ سالارِ جری افواجِ سردھنہ، منہ بولی دخترِ شہنشاہ زیب النساء بیگم سمرو قدم بوسی کی اجازت چاہتی ہیں۔"

"اجازت ہے"، شاہ عالم نے کہا۔

سب نے سن لیا پر کوئی کچھ نہ بولا، جب تک زمرد کی آنکھ نے اشارہ نہیں دیا۔ ساتھ ہی نوابِ سردھنہ، زیب النساء، بیگم سمرو کی آوازیں پڑنے لگیں۔ پہلے محفل والے، پھر اندر والے اور پھر باہر والے خواجہ سراؤں اور آگے دربانوں تک۔

بیگم سمرو کے بال کھلے اور سینہ پھٹنے کو نہ ہوتا تو لگتا کوئی مرد جرنیل آ رہا ہے۔ امن کے ماحول میں یہ پہلی بار تھا کہ وہ فوجی لباس میں آئی تھی۔ بادشاہ کے پاس پہنچ کر سمرو نے تین بار آداب کیا اور آگے بڑھ کر شاہی قدموں میں بیٹھ کر شاہ کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ بادشاہ نے "زیب النساء" کہہ کر اسے سینے سے لگا لیا۔

 

1757ء

یہ بھی کمال ہی تھا کہ شاہ عالم کے والد کا لقب عالمگیر ثانی تھا۔ کہاں عالمگیر اوّل، اورنگزیب عالمگیر جس کی اجازت کے بغیر سارے ہندوستان میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا اور کہاں عالمگیر ثانی۔ اپنے وزیر عماد الملک کی کٹھ پتلی جس کے ہاتھوں یہ بادشاہ قتل بھی ہوا۔

1757ء وہ زمانہ تھا جب امریکہ میں انگریز سرکار سے آزادی کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ فرانس میں انقلاب کا شعلہ بننے لگا تھا۔ بنگال میں نواب سراج الدولہ کو مار کر میر جعفر نواب بن گیا تھا اور وہاں کمپنی بہادر دونوں ہاتھوں سے کھا رہی تھی۔ اور اسی سال احمد شاہ ابدالی دہلی میں گھس آیا۔

اس سے پہلے بھی کئی بار ہندوستان آیا تھا، لوٹ مار کرتا، چلا جاتا۔ جو کہ ان افغانیوں کا کام تھا۔ راستے میں پنجاب آتا تھا، سو جب بھی آتا، پہلے پنجاب کو لوٹتا۔ پنجاب کا گورنر اور اس کی مغل فوج اپنی سیاستوں میں لگی رہتی، کبھی لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیتے، کبھی بے دلی سے لڑ کر بھاگ جاتے۔ جو بھی ہوتا، پنجاب لوٹا جاتا۔ پنجابیوں نے تو یہ مقولہ ہی بنا لیا تھا کہ، "کھادا پِیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا" (جو کھا پی لیا  وہی اپنا، باقی احمد شاہ کا)۔

پنجاب کو دو بار لوٹ کر تیسری بار لوٹنے میں مزہ نہ آیا۔ پنجابیوں کے پاس کچھ بچا ہی نہیں تھا، لٹاتے کیا؟ سو اب ابدالی دہلی میں گھس آیا۔ ویسے پہلی بار نہیں آیا تھا۔ 1739ء میں بھی، نادر شاہ ایرانی کے فوجی کے طور پر دہلی لوٹ چکا تھا۔ اب اٹھارہ سال بعد پھر آ گیا تھا، ایک بار پھر دہلی کو لوٹنے۔

اس بار بھی مغل شہنشاہ میں لڑنے کی طاقت کوئی نہیں تھی۔ وہ اپنے قاتل وزیر عماد الملک کے ساتھ لٹیرے کو خوش آمدید کہنے لال قلعے کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔

کیا منظر تھا۔ رنگیلے شہنشاہ نے نادر شاہ ایرانی کو لال قلعے میں خوش آمدید کہہ کر دہلی لٹوائی تھی اور اب شاہ عالم کا والد احمد شاہ افغانی کو خوش آمدید کہہ رہا تھا کہ آؤ اور پھر دہلی کو لوٹ لو۔ شاہ عالم کا والد عالمگیر ثانی افغان فوج کے ساتھ لڑنے کی ہمت ہی نہیں کر سکا۔ شہنشاہ اورنگزیب، عالمگیر اول کی تو روح بھی قبر میں تڑپ گئی ہوگی۔ کہاں عالمگیر اول افغانستان کا حکمران تھا اور کسی افغانی کی جرات نہیں تھی کہ پھڑک بھی سکے۔ اور کہاں اب عالمگیر ثانی افغانوں سے جوتے کھانے باہر کھڑا تھا۔

ابدالی کو دہلی میں قتل عام کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ کوئی جنبش ہی نہ ہوئی۔ امن سے لوٹی گئی ساری دہلی۔ پر امیروں، وزیروں اور شاہی خاندان کی شامت آ گئی۔ افغان افسروں نے امیروں اور وزیروں کے گھر بانٹ لیے۔ پہلے گھروں کو لوٹا۔ پھر مردوں کو خوفزدہ کر کے چھپائی ہوئی چیزیں لُوٹیں۔ پھر گھر کی بیٹیوں، بہوؤں کے زیورات لوٹے۔ پھر بندوں کی ٹانگیں بازو توڑے اور خوبصورت عورتیں، خواہ بہوئیں، بیٹیاں تھیں یا باندیاں، مسلمان تھیں یا ہندو، اٹھا کر لے گئے۔

ابدالی نے پہلے نادر شاہ کی طرح خزانہ لوٹا، پھر ایک ایک کر کے شہزادوں کو نچوڑا۔ جن کے پاس کچھ تھا انہوں نے دے دلا  کر جان چھڑوائی، جن کا پہلے ہی لٹیرے سب کچھ ڈھونڈ کر لوٹ چکے تھے، وہ مار کھاتے کھاتے مارے گئے۔ خزانے کے ساتھ ساری خوبصورت شہزادیاں، کنیزیں اور ہجڑے بھی لوٹ کر ابدالی افغانستان چلا گیا۔ جانے سے پہلے اپنا افسر، نجیب الدولہ، عالمگیر ثانی کا وزیر لگا گیا۔ کس کی مجال تھی کہ انکار کرتا۔

پورا سال لال قلعے میں نجیب روہیلہ کا ہی حکم چلتا رہا۔

1757ء میں، ادھر انگریز کی کمپنی بہادر پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو ہرا کر بنگال پر قبضہ کر رہی تھی اور یہاں احمد شاہ افغانی عالمگیر ثانی کی دہلی کی بنیادیں ہلا رہا تھا۔

ادھر انگریز نے بنگال میں میر جعفر کو نواب لگایا اور دہلی میں ابدالی نے نجیب روہیلہ کو وزیر۔ دونوں ہی اپنے لگانے والوں کے پٹھو تھے۔

نجیب کے ہاتھ جو بادشاہی لگی تھی وہ عالمگیر سے زیادہ عماد الملک کی تھی۔ سازش گھڑنے میں عماد اول تھا اور اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ نجیب کے وزیر لگنے کے دوسرے دن ہی عماد نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ ایک سال لگا کر اس نے مرہٹوں کے ساتھ میل جول بڑھایا اور مرہٹا فوج کی مدد سے نجیب کو دہلی سے بھگا دیا۔ ایک بار پھر لال قلعے میں عماد کا ہی ڈنکا بجنے لگا۔

پر اس ایک سال میں نجیب نے پورا لال قلعہ عماد کے خلاف کر دیا تھا۔ اس کا ہر بندہ یا تو مار دیا تھا یا بھگا دیا تھا۔ عماد واپس تو آ گیا تھا، پر اس بار وہ اکیلا تھا۔ اوپر عماد اکیلا رہ گیا تھا اور نیچے نجیب کے بندے اکیلے رہ گئے تھے۔ ایسے حالات بن گئے تھے کہ عالمگیر ثانی کی چلنے لگی تھی۔ پورا سال اور عماد لگا رہا پر پہلے والی بات نہ بنی۔ اب عالمگیر ثانی بھی دلیر ہو کر بادشاہ کی طرح برتاؤ کرنے لگا تھا۔ تنگ آ کر عماد نے 1759ء میں بادشاہ کو ہی قتل کر دیا۔

باپ کے بعد شاہ عالم ثانی کی باری تھی بادشاہت کی۔ پر عماد اور مرہٹے دونوں ہی شاہ عالم سے ڈرتے تھے۔ انہوں نے شاہ جہاں سوم کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

شاہ عالم جان بچا کر اودھ بھاگ گیا، نواب شجاع الدولہ کے پاس۔ کچھ عرصے بعد شاہ عالم نے دہلی پر قبضہ کرنے کے لیے مدد کے واسطے مرہٹوں سے بات چیت شروع کی۔ مرہٹے عماد سے خوش نہیں تھے۔ اس نے ابدالی کا لگایا نجیب روہیلہ نکلوانے کے لیے مرہٹوں کے ساتھ ساز باز تو کر لی تھی، پر وہ بڑا شاطر تھا، وہ کوئی سرا نہیں پکڑاتا تھا۔ مرہٹوں کو دہلی بھی چاہیے تھی اور دہلی میں اپنی مرضی کا مغل بادشاہ بھی۔ مغل بادشاہ کے حکم کے آگے عوام اور چھوٹی موٹی ریاستوں کے نواب، راجے بھی چوں نہیں کرتے تھے۔ شاہ عالم کے نام پر مرہٹوں نے پھر دہلی پر حملہ کر کے عماد اور شاہ جہاں سوم کو بھگا کر شاہ عالم ثانی کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

شاہ عالم بادشاہ تو بن گیا، پر وہ اتنا ہوشیار تھا کہ دہلی واپس نہ گیا۔ وہ دہلی دربار کی سازشوں سے اچھی طرح واقف تھا اور اپنے والد کا بطور شہنشاہِ ہندوستان اپنے ہی وزیر کے ہاتھوں قتل بھی دیکھ چکا تھا۔ اور اس قتل کے پیچھے حوصلہ افزائی بھی انہی مرہٹوں کی  تھی جو اب اس کو بادشاہ بنائے بیٹھے تھے۔

دوسری طرف 1760ء میں ہی کمپنی بہادر نے نواب میر جعفر کو ہٹا کر اس کے داماد میر قاسم کو بنگال، بہار اور اڑیسہ کا نواب لگا دیا تھا۔ میر قاسم کوششیں کر رہا تھا کہ کمپنی بہادر کو ان کی اوقات میں رکھ کر اصل حکمرانی اپنے پاس رکھے، نہ کہ سسر کی طرح انگریزوں کا پٹھو ہی بنا رہے۔ اس بات پر انگریزوں اور میر قاسم میں ٹھن گئی تھی اور اودھ کا نواب شجاع چاہتا تھا کہ وہ میر قاسم کے ساتھ مل کر انگریزوں کو کچل دے، کیونکہ اسے ڈر تھا کہ بنگال میں زیادہ مضبوط ہو کر یہ اودھ پر چڑھائی کریں گے۔ پر انگریزوں کے خلاف جنگ میں نواب کو مغل بادشاہ کی ضرورت تھی۔ شجاع جانتا تھا کہ مغل بادشاہ کا ہاتھ اس پر اور میر قاسم پر ہوا تو انگریزوں کو ہرانا آسان ہو گا۔ لوگ بھی مغل بادشاہ کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہیں دیں گے اور اور کسی نواب راجے نے بھی مغل بادشاہ کے خلاف فوج نہیں نکالنی اس لیے نواب شجاع بھی بادشاہ کو اپنے پاس ہی رہنے کی صلاح دیتا تھا۔

تیسرا یہ بھی خبریں تھیں کہ ابدالی پھر دہلی پر قبضہ کرنے آ رہا ہے اور اس بار اس کا مقابلہ سیدھا مرہٹوں سے ہونا تھا کیونکہ دہلی کے  اصل حکمران اب مرہٹے ہی تھے۔ شجاع کو انگریزوں کے بعد مرہٹوں سے خطرہ تھا۔ افغان تو پنجاب یا زیادہ سے زیادہ دہلی لوٹ کر چلے جاتے، پر اگر مرہٹے زیادہ مضبوط ہو گئے تو انہوں نے کبھی نہ کبھی اودھ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنی تھی۔ اس لیے وہ ابدالی کے ساتھ مل کر مرہٹوں سے جنگ کرنے کے لیے بھی تیار بیٹھا تھا۔

شاہ عالم پریشان تھا کہ ان حالات میں کیا کرے، کس کا ساتھ دے اور کس کے ساتھ جنگ کرے؟

شاہ عالم اودھ میں رہ کر نواب کے وزیر مرزا نجف خان کو پسند کرنے لگا تھا۔ ہوشیار اور نیک نیت آدمی تھا۔ شاہ عالم نے نجف کو بلایا۔ آداب کر کے مرزا نجف ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

"مرزا تم نوابِ اودھ کے خاص وزیر ہو۔"

نجف بچپن سے دربار میں رہا تھا، بادشاہ کا مطلب سمجھ گیا۔

"یہ بندہ شہنشاہِ ہندوستان کا غلام ہے اور اس کے حکم کی وجہ سے ہی نواب کا نوکر ہے۔" مرزا کا سر نیچا ہی رہا۔

"مرزا۔ میں نے سنا ہے ابدالی پھر دہلی پر چڑھائی کی تیاریوں میں ہے۔"

"شہنشاہ نے ٹھیک سنا ہے۔ اور نواب صاحب اس کے جھنڈے تلے لڑیں گے۔" مرزا بولا اور ایک لمحے کے لیے رک کر اس نے سر اٹھایا اور بادشاہ سے آنکھیں ملائیں۔ "مرہٹوں کے خلاف۔"

"نواب کو یہ مشورہ تم نے دیا ہے؟"

"نہیں شہنشاہ، یہ فیصلہ مرہٹوں کی اودھ پر لگی گندی نظروں کا نتیجہ ہے۔"

"کیا تمہیں بھی یہی ٹھیک لگتا ہے مرزا؟"

نجف کچھ دیر چپ رہا۔

"اگر جنگ میں شہنشاہِ ہندوستان افغانوں کے ساتھ دکھے تو مرہٹوں کے ساتھ دشمنی ہو جائے گی۔ اگر مرہٹوں کے ساتھ نظر آئے  تو افغانوں کے ساتھ دشمنی۔"

نجف یہ کہہ کر رک گیا۔

"اور مرزا اگر شہنشاہ جنگ میں کسی کے ساتھ بھی نہ ہوا  تو؟"

"تو شہنشاہ، افغان جیتیں یا ہاریں ابدالی نے تو واپس قندھار ہی جانا ہے۔"

شاہ عالم کافی دیر تک نجف کی باتیں تولتا رہا۔ پھر اس کو اپنی یاقوت جڑی انگوٹھی انعام میں دیتے ہوئے بولا، "مرزا، میں تمہیں شجاع سے مانگ لوں گا۔"

"اس سے زیادہ میری اور کیا خوش قسمتی ہو گی شہنشاہ۔" نجف نے ادب سے انگوٹھی پکڑ کر بادشاہ کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔

سو شاہ عالم سکون سے اودھ ہی بیٹھا رہا، نہ دہلی میں داخل ہوا نہ پانی پت کے میدان میں۔

پھر ہوا بھی وہی۔ 1761ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں احمد شاہ ابدالی کے ساتھ نجیب روہیلہ اور اودھ کا نواب شجاع الدولہ لڑے اور مرہٹوں کو کچل دیا۔ ابدالی پھر دہلی میں گھس آیا۔ بادشاہ بدلنے کی ضرورت نہیں تھی، وہ پہلے ہی باہر بیٹھا تھا اور تھا بھی اس کے ساتھی نواب شجاع کی پناہ میں۔ ابدالی نے ایک بار پھر دہلی نجیب روہیلہ کے حوالے کی اور لوٹ مار کر کے خود افغانستان واپس چلا گیا۔

مرہٹوں کی کمر توڑ کر اب شجاع نے انگریزوں کی طرف منہ کیا اور بنگال کے نواب میر قاسم کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ قاسم پہلے ہی انگریزوں سے خوش نہیں تھا۔ حالات بگڑتے بگڑتے جنگ تک پہنچ گئے۔ 1764ء میں بکسر کے میدان میں فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔ ایک طرف بنگال، بہار اور اڑیسہ کے نواب میر قاسم اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ کی فوجیں مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے جھنڈے تلے اور سامنے کمپنی بہادر کی فوج۔

اب پھر شاہ عالم کی دہلی مشکل میں پڑ گئی تھی۔ پانی پت کے بعد مرہٹوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی، اس وقت تو وہ شاہ عالم کو دہلی نہیں دلوا سکتے تھے۔ اگر تو نواب بکسر میں جیت جاتے تو وہ ان کی فوجیں لے کر دہلی پر قبضہ کر سکتا تھا، پر اگر وہ ہار جاتے تو پھر شاہ عالم کو افغانوں سے دہلی کون چھڑا کر دیتا؟ انگریزوں کے ساتھ ابھی تک مغل بادشاہ کی کوئی لڑائی نہیں تھی، پر اب ہو جانی تھی کیونکہ نواب شجاع نے اس کو یہ جنگ لڑنے کے لیے مجبور کر لیا تھا۔ اور جیت کر انگریزوں نے شاہ عالم کی مدد کیوں کرنی تھی؟

بکسر کی لڑائی تو ہوئی، پر شاہ عالم اپنے خیمے سے باہر ہی نہ آیا۔ وہ اندر بیٹھا اپنی غزل پوری کرتا رہا۔

جنگ انگریز جیت گئے۔ میر قاسم بھاگ گیا اور شجاع اودھ واپس چلا گیا۔ شاہ عالم نے انگریزوں کو پیغام بھجوایا اور ملاقاتیں ہوئیں۔ کمپنی شاہ عالم کو الہ آباد لے گئی۔ اب کمپنی بہادر کو بھی سمجھ آ گئی تھی کہ مغل بادشاہ ہاتھی کی طرح ہے، زندہ لاکھ کا اور مرا سوا لاکھ کا۔ بھلے بادشاہ کسی کام کا بھی نہ ہو، اگر بنگال پر قبضہ مغل بادشاہ کے حکم سے ہو تو آگے کوئی جنبش نہیں کرے گا۔

1765ء میں کمپنی بہادر نے بنگال، بہار اور اڑیسہ کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی دیوانی، شاہ عالم ثانی سے لکھوا لی۔ ساتھ ہی شجاع سے بھاری جنگی جرمانہ لے کر اودھ میں بھی اپنی فوجیں لگا دیں۔

پھر شاہ عالم انگریزوں سے کہتا رہا کہ اسے فوج دیں، اس نے دہلی جا کر بیٹھنا ہے۔ پر ان کا دھیان میسور کے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی طرف ہو گیا تھا۔

 

1803ء

بیگم سمرو کو شاہ عالم نے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔

"کیا حال ہے میری خوبصورت بیٹی کا، سب خیریت ہے؟"

شاہ عالم نے پیار سے پوچھا۔

"جی بادشاہ سلامت، رب کا بڑا کرم ہے۔"

اتنے میں کنیزیں شربت، پان اور تازہ حقہ لے آئیں اور بادشاہ کا ہاتھ چھوا کر زمرد نے سمرو کو پان اور حقہ پیش کیا۔

تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کر کے شاہ عالم نے زمرد کی طرف منہ کیا۔ زمرد نے تالی مار کر "تخلیہ" کہا اور سب آداب کرتے اٹھ گئے۔ زمرد نے آنکھ کا اشارہ کیا اور گل بدن اور شیریں لب بھی اٹھ گئیں۔ اب بادشاہ، زمرد اور سمرو کے ساتھ صرف مور پنکھ کا پنکھا جھلنے والی دو کنیزیں ہی رہ گئی تھیں۔

"انگریز فوجوں نے تو دہلی کی گلیاں گلاب کر دی ہیں۔"

بیگم سمرو نے انگریز فوجیوں کی وردی کے لال کوٹ کی طرف اشارہ کیا۔

"ہاں زیب النساء، لال پگڑیوں کے بعد اب دہلی میں لال چوغوں کا راج ہے۔"

شاہ عالم کا اشارہ مرہٹوں کی لال پگڑیوں کی طرف تھا۔

"ٹھیک کہا شہنشاہ، کم از کم یہ سفید شلواروں سے تو اچھے ہی ہیں۔"

بیگم سمرو کا اشارہ غلام قادر روہیلہ کے افغان فوجیوں کی طرف تھا، جن سے 1787ء میں جنگ کر کے سمرو نے شاہ عالم کو بچایا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب دنیا کے دوسرے کونے میں امریکہ نے آئین بنا کر اپنی آزاد آئینی جمہوریت کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔

یہ کہتے ساتھ ہی سمرو کو احساس ہوا کہ اس نے غلط بات چھیڑ دی تھی۔

کچھ دیر چپ رہ کر شاہ عالم نے اپنی غزل کے دو شعر پڑھے۔

عاجز ہوں ترے ہاتھ سے کیا کام کروں میں

کر چاک گریباں تجھے بدنام کروں میں

ہے دورِ جہاں میں مجھے سب شکوہ تجھی سے

کیوں کچھ گلہ گردشِ ایّام کروں میں۔

کوئی کچھ نہ بولا۔ زمرد نے اشارہ کیا اور دروازے پر کھڑا خواجہ سرا بادشاہ کے لیے شراب لینے نکل گیا۔ زمرد نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پہلے شاہ عالم کے ہونٹ چومے، پھر آنکھیں چومتے اس کے آنسو چاٹ لیے۔

اپنے ہاتھ سے جام بنا کر زمرد نے پہلے سمرو کو دیا پھر بادشاہ کا جام بنا کر اس سے پہلا گھونٹ پیلانے کی اجازت لی۔ دونوں طرف گھٹنے رکھ کر بادشاہ کی چھاتی پر اپنی چھاتیاں دبائیں اور جام میں سے گھونٹ لے کر شاہ عالم کے منہ کے ساتھ منہ جوڑ لیا۔ گھونٹ دے کر زمرد نے زبان بادشاہ کے منہ میں بھر دی اور ساتھ ہی ایک ہاتھ اس کی ٹانگوں میں ڈال دیا۔ بادشاہ دونوں ہاتھ اس کی کمر پر رکھ کر اس کی زبان چوسنے لگا۔

بادشاہ پھر تروتازہ ہو چکا تھا۔

"زیب النساء، ہم تمہارا فرنگی نام ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ کیا نام رکھا تھا تم نے مسیحیت اپنا کر؟"

بادشاہ نے اخروٹ کی گری چباتے ہوئے کہا۔

"چھوڑیں بادشاہ سلامت"، سمرو نے مسکرا کر کہا، "وہ تو لوگوں کے لیے ہے، آپ کے لیے تو میں آپ کی زیب النساء ہی ہوں۔"

"صحیح کہا۔" بادشاہ نے کہا۔ "تم میری سب سے پیاری بیٹی ہو۔"

کچھ دیر سمرو بادشاہ سے اس کی عربی، فارسی اور ہندوی شاعری کے بارے میں پوچھتی رہی اور اسے ہنساتی رہی کہ انگریزی اور فرانسیسی شاعری اتنی بے جوڑ اور بے وزن ہوتی ہے جیسے بچوں نے لوریاں لکھی ہوں۔

پھر کہنے لگی کہ اس کا فرانسیسی خاوند  بتاتا تھا ایک اطالوی عالم کے بارے میں۔ میکاولی۔ جس نے یورپ کی مشہور ترین سیاست پر کتاب لکھی تھی، جس کا نام تھا "شہزادہ"۔

اس کا قول ہے کہ اگر بادشاہ مضبوط ریاستوں میں گِھرا ہو تو اسے کسی نہ کسی طاقت کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے۔ اس طرح جیت ہو یا ہار، بادشاہ کے ساتھ ایک طاقت ہمیشہ کھڑی رہے گی۔ کسی کا بھی ساتھ نہ دینے کا مطلب ہو گا کہ جو بھی جیتے گا، وہ سمجھے گا کہ ایک تو بادشاہ اکیلا ہے، اور دوسرا اس نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ سو اس صورت میں، جو بھی جیتے گا وہ اسے کچل دے گا۔

شاہ عالم اور زمرد، دونوں نے یہ بات بڑے دھیان سے سنی۔

 

1777ء

ٹیکسلا کی یونیورسٹی سے پڑھا، مہاراجہ چندر گپت موریا کا وزیر اعظم کوتلیہ چانکیہ، علومِ سیاسیات کا ماہر تھا۔ اس کی کتاب "ارتھ شاستر" یعنی راج نیتی، اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب ارسطو یونان میں فلسفہ پڑھاتا تھا اور اس کا شاگرد سکندر دنیا فتح کر رہا تھا۔ چانکیہ نے لکھا تھا کہ سیاست کے لیے ضروری ہے کہ اگر دوست مدد نہ کرے تو دشمن کو کوئی لالچ دے کر ساتھ ملا لیا جائے۔

1770ء میں نجیب روہیلہ مر گیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ضابطہ روہیلہ دہلی کا اصل حکمران بن بیٹھا۔ ضابطہ اپنے والد سے بھی ظالم تھا اس لیے دہلی میں کوئی بھی اس سے خوش نہیں تھا۔

شاہ عالم نے ارتھ شاستر کے دشمن کو لالچ دینے والے صفحے پر مور پنکھ کی نشانی لگائی اور مرہٹوں کو پیغام بھجوایا۔

احمد شاہ ابدالی بیمار اپنی آخری گھڑیاں گن رہا تھا۔ مرہٹے پھر طاقت اکٹھی کر رہے تھے اور پہلے ہی دہلی پر پھر اپنا راج چاہتے تھے۔ معاملہ طے ہو گیا۔ شاہ عالم کمپنی بہادر چھوڑ کر آ گیا اور 1772ء میں مرہٹوں کی فوج کے ساتھ دہلی پر قبضہ کر لیا۔ ضابطہ روہیلہ بھاگ گیا پر باز نہ آیا۔ دہلی پر ایک بار پھر شاہ عالم کے نام پر مرہٹوں کا قبضہ ہو گیا۔ مرہٹے پانی پت کی لڑائی کے بعد خاص طور پر افغانیوں کے جانی دشمن ہو گئے تھے۔ نجیب روہیلہ  نے ابدالی کے ساتھ یہ جنگ بھی لڑی تھی اور اب اس کا بیٹا بھی ہارنے کے باوجود شرارتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا تھا۔ مرہٹوں اور ضابطہ روہیلہ کی آنکھ مچولیاں چلتی رہیں۔

1777ء میں امریکہ کی آزاد فوجوں نے انگریزوں کی حالت خراب کر دی اور اسی سال کی ایک لڑائی میں مرہٹوں سے ہار کر ضابطہ روہیلہ بھاگ گیا اور مالِ غنیمت میں مرہٹوں کے ہاتھ اس کا بیٹا لگ گیا۔ نجیب روہیلہ کا پوتا، غلام قادر روہیلہ۔ دس سال کا روہیلہ لڑکا بہت ہی خوبصورت تھا۔ شاہ عالم نے اسے اپنے پاس محل میں ہی رکھ لیا۔

 

1788ء

1788ء میں فرانس کا برا حال تھا۔ بادشاہ کی عیاشیوں، غلط پالیسیوں اور امریکی جنگِ آزادی میں امریکیوں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے ساتھ جنگیں کرنے سے فرانس دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے اگلے سال انقلابِ فرانس نے دنیا کی تاریخ میں دھوم مچا دی۔ دنیا کے ایک کونے پر انگریزوں نے آسٹریلیا پر قبضہ کر لیا اور دوسرے کونے پر امریکہ کی ریاستوں نے اپنا آئین منظور کر لیا۔

اور اسی سال دہلی کے لال قلعے میں بھی قیامت کا سماں تھا۔ دہلی میں روہیلہ فوجی لوٹ مار کر رہے تھے۔ مغل تخت پر غلام قادر روہیلہ بیٹھا شراب پی رہا تھا اور ساری شہزادیاں اس کے آگے ناچ رہی تھیں۔ ایک طرف شاہ عالم، شہزادے اور امیر وزیر گھٹنوں کے بل افغانی تلواروں کے سائے تلے بیٹھے تھے۔

قادر کا منہ لال تھا۔ شراب پیتا جاتا اور قہقہے لگاتا جاتا۔

 

1783ء

غلام قادر روہیلہ کو بادشاہ ہر وقت اپنے ساتھ ہی رکھتا۔ دربار میں بھی ساتھ ، کھلاتا بھی ساتھ اور سلاتا بھی ساتھ۔ لڑکا بادشاہ کے بہت ہی دل کو بھا گیا تھا۔ اتنا کہ کنیزوں نے تو کیا جلنا تھا، خواجہ سرا بھی جلنے لگے تھے۔

کچھ ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک دن شاہ عالم اپنی خواب گاہ سے باہر آیا تو اس کا مزاج برہم تھا۔ نمکین کو بلایا گیا۔ نمکین بادشاہ کا خاص الخاص خواجہ سرا تھا۔ لڑکا نمکین کے حوالے ہوا کہ اس کی تربیت کی جائے اور اسے شہنشاہِ ہندوستان کی محبت کے لائق بنایا جائے۔ پھر کچھ مہینوں کے لیے لڑکا لال قلعے کے دوسرے حصوں میں غائب رہا۔ نمکین نے اسے محبت کے آداب سکھائے۔ اپنے خاص الخاص خدمت گاروں سے محبت کی تربیت دلوائی۔ عربی، فارسی اور ہندوی کے استاد رکھے گئے تاکہ اس میں شاعری کا ذوق پیدا ہو۔ ماہر گویے اسے سُر اور تال کی تعلیم دینے پر معمور ہوئے۔ ساتھ ہی چُوڑی دار پاجامے پر گھنگرو چھنکانا اور تنگ کرتی میں ٹھمکے لگانا سکھائے گئے۔

چھ مہینے بعد جب نمکین نے قادر کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا تو اس کی کجراری آنکھیں، پان کی گلوری سے ہوئے لال ہونٹ، تنگ کرتی، مٹکتی چال اور لچکیلا آداب دیکھ کر ہی شاہ عالم کا جی خوش ہو گیا۔ صبح اٹھا تو اور بھی خوش تھا۔ نمکین کو بادشاہ کے گلے میں پڑا موتیوں کا ہار انعام ہوا۔

سال جوانی کی راتوں کی طرح گزرتے گئے، پلک جھپکتے۔ بادشاہ کا قادر روہیلہ کے لیے پیار بڑھتا ہی گیا۔ دوسری طرف دہلی بچانا بھی ایک چوبیس گھنٹے کی الجھن بن گیا تھا۔ سکھ گروہ حملہ کرتے تو مرہٹوں کی منتیں کرتا کہ دہلی بچاؤ۔ ایک بار تو سکھوں کے حملے سے بیگم سمرو نے بچایا تھا ورنہ مرہٹا فوج کے آتے آتے دہلی پھر لوٹ لی گئی تھی۔ مرہٹے زیادہ مضبوط نہ ہو جائیں، اس لیے بادشاہ افغانوں کے ساتھ بھی رابطے رکھتا۔ ضابطہ روہیلہ کو پیغام بھجواتا کہ قادر کو وہ اپنے بیٹے کی طرح پالتا تھا۔ بادشاہ نے قادر کو "روشن الدولہ" کا خطاب بھی دے دیا تھا۔ پر پنجاب میں سکھ مِسَلوں کی حکمرانی کے بعد افغانستان کی کسی فوج میں اتنا دم خم نہیں رہ گیا تھا کہ وہ پنجاب پار کر کے ہندوستان پر حملہ کر سکے۔ اس لیے افغانوں کا اب زور ٹوٹتا جاتا تھا۔ سو شاہ عالم کمپنی بہادر کے ساتھ بھی رابطے رکھے ہوئے تھا۔

سارا دن شطرنج کی چالوں کی طرح یہ کشمکش کر کر کے اس کا دماغ خراب ہو جاتا اور عصر کے وقت محفل سج جاتی۔ پہلے رقص و سرود کی محفل ہوتی۔ سارے ہندوستان سے گویے اور طوائفیں آتیں، اپنی فنکاریاں دکھاتیں اور بادشاہ سے انعام اور وظیفے پاتیں۔ پھر مصور، مجسمہ ساز اور سنار آتے، اپنی فنکاریاں پیش کرتے اور بادشاہ سے انعام اور وظیفے پاتے۔ پھر قصہ گو اور شاعروں کی باری آتی۔ وہ بادشاہ کی اردو، ہندوی، فارسی، عربی اور ترکی کی شاعری بھی سنتے اور اپنا کلام بھی سنا کر انعام اور وظیفے پاتے۔

سال ایسے ہی گزرتے رہے۔ قادر روہیلہ کی مونچھیں نکل آئیں۔

ہر وقت بادشاہ کے ساتھ ہی بندھے رہنے کے بڑے فائدے بھی تھے، پر بڑا نقصان یہ تھا کہ لڑکے کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ لال قلعے کی کتنی کنیزیں اور کتنے خواجہ سرا، جن سب کی شاہی محبتیں وہ چوس گیا تھا، ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ اسے بادشاہ کی نظروں میں گرا دیں۔

بچہ ہونے اور بادشاہ کا "منظورِ نظر" ہونے کے باعث قادر کی شاہی حرم میں بھی رسائی تھی۔ شاہی حرم میں داخل ہونا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔ دو فوجیں چوبیس گھنٹے حرم کی ہر حرکت پر نظر رکھتی تھیں۔ ایک تو بوڑھی اور قبول صورت کنیزیں جنہیں شاہی خاندان کا کوئی بھی مرد اپنے ساتھ سلانا نہیں چاہتا تھا، اور دوسری ہجڑوں کی فوج، جو حرم اور دنیا میں رابطے کا واحد ذریعہ تھے۔

نئے نئے جوان ہوئے لڑکے کو، جس نے عورت ابھی نہ دیکھی ہو، کسی بھی کنیز کے عشق میں گرفتار کروا دینا ایک شاہی خواجہ سرا کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ شاہی کنیزیں مرد کے لمس کے لیے ویسے ہی ترسی رہتی تھیں، اور انہیں یہ بھی پتہ ہوتا تھا کہ اگر بادشاہ کا کوئی منظورِ نظر خواجہ سرا ہو تو وہ حرم میں کچھ بھی کروا سکتا ہے۔

لڑکا بادشاہ کی ایک کنیز کے ساتھ حرم میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اتنی آنکھوں میں سے لڑکا پھسل کیسے گیا اور کنیز کے کمرے میں بھی کیسے داخل ہو گیا اور پھر عین بستر پر پکڑا بھی گیا۔ یہ سب ہوا کیسے، مسئلہ نہیں تھا۔ جو بات بادشاہ کو پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ لڑکے کو سزا کیا دی جائے؟ کنیز تو زندان خانے کی کال کوٹھڑی کے لیے مقرر کر دی گئی تھی پر لڑکے کا کیا کیا جائے؟ کنیز کون تھی، بادشاہ کو یاد بھی نہیں تھی۔ جس بھی کنیز کے ساتھ بادشاہ رات گزار لیتا وہ دنیا کے باقی سارے مردوں پر حرام ہو جاتی۔ اور اگر بادشاہ پہلی رات میں اس کے عشق میں گرفتار نہ ہو جائے تو اس کی دوسری باری اس وقت ہی آ سکتی تھی جب نمکین چاہے۔ اکثر کی دوسری باری کبھی نہیں آتی تھی۔

لڑکا ایک تو بادشاہ کو پسند بہت تھا، دوسرا اسے مارنا افغانوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے تعلق بگاڑنے والی بات تھی، جو اس وقت شاہ عالم کے بالکل بھی مفاد میں نہیں تھا۔ پر سزا دینی بھی ضروری تھی۔ یہ شہنشاہِ ہندوستان کی عزت کا سوال تھا۔ اس کے حرم پر حملہ ہوا تھا۔ یہ تو دو بندوں کی پُگن پُگائی کا کھیل والی بات ہو گئی تھی۔ نہ کوئی جیت سکتا تھا نہ کوئی ہار سکتا تھا۔ ایک ہی طریقہ بچا تھا کہ بادشاہ کی غیرت بھی بچ جائے، لڑکا افغانیوں کو زندہ محل میں بھی نظر آتا  رہے، اور بادشاہ کی راتیں بھی رنگین کرتا رہے۔

افیون کی مناسب مقدار شاہی حکیم نے ایک گھونٹ پانی میں گھولی اور نمکین کو پکڑا دی۔ زنجیروں میں جکڑے لڑکے کا منہ ایک قوی الجثہ خواجہ سرا نے پکڑ کر کھولا اور نمکین نے افیون کا گھونٹ لڑکے کے منہ میں انڈیل دیا۔ قوی الجثہ نے اس کا منہ بند کر کے ناک بھی بند کر دی۔ لڑکا گھونٹ نگل گیا۔

جتنے میں جراح نے آ کر اپنے اوزار آگ پر گرم کیے، لڑکا مد ہوش ہو چکا تھا۔ پر اسے سمجھ آ گئی تھی کہ اس کے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔ اسے چت لٹا کر چار قوی الجثہ خواجہ سرا اس کی ٹانگیں بازو پکڑے بیٹھے تھے۔ جب اس کے کپڑے  کاٹے جا رہے تھے تو اس نے تڑپنے، گندی گالیاں نکالنے اور جراح کے منہ پر تھوکنے کی کوشش کی، پر افیون کی مقدار مناسب تھی۔ جراح جب آگ پر دہکتی لال چھری پکڑ کر قادر کی ٹانگوں میں داخل ہوا تو رال کے ساتھ اس کا پیشاب بھی بہہ گیا۔ قادر کے پیٹ کے نیچے سے خون کا فوارہ نکلا۔ جراح کے ہاتھ خون سے بھر گئے، پر وہ بڑی احتیاط اور مہارت سے گوشت کی تھیلی کاٹتا رہا۔ جتنی دیر شاہی جراح اس کی رانوں کے درمیان جراحی کرتا رہا اس کے منہ میں سے ایسی آوازیں آتی رہیں جیسے وہ غرارے کر رہا ہو۔

تین دن لڑکے کو افیون پر رکھ کر حکیم نے آہستہ آہستہ مقدار گھٹانی شروع کر دی۔ یہ کوئی چھپنے والی بات تو نہیں تھی۔ اب وہ آزاد تو تھا پر آتے جاتے ہر کوئی اس کا مذاق اڑاتا۔ محل میں اس کا نام "افغانی دنبہ" پڑ گیا تھا۔

کچھ ہی عرصے بعد خبر آئی کہ ضابطہ روہیلہ بہت بیمار ہے۔ غلام قادر روہیلہ عرف افغانی دنبے کو والد کے پاس بھیج دیا گیا۔

 

1788ء

ہر شہزادے، امیر اور وزیر کو باری باری نچوڑا گیا۔ اس وقت تک جب تک غلام قادر روہیلہ نے روکا نہیں۔ جن کا قادر کو یاد تھا کہ وہ اسے افغانی دنبہ کہتے تھے یا اسے ملکہء عالم کہہ کر چھیڑتے تھے، وہ مار کھاتے کھاتے مر گئے۔ جو شہزادیاں، کنیزیں اور خواجہ سرا اس کا مذاق اڑاتے تھے، وہ افغان افسروں کو انعام ہوئیں اور قادر کے سامنے ہی ننگی کی گئیں۔

قادر ہر موت یا زناکاری کے بعد شاہ عالم کی طرف دیکھتا۔ بادشاہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔ شاید اسے حکیم نے افیون کی مناسب مقدار دی ہوئی تھی یا زندگی میں اس نے اتنا کچھ دیکھ لیا تھا کہ یہ صدمے بھی وہ ایک اور کڑوا گھونٹ کر کے پیتا جاتا تھا۔ اس کا سپاٹ چہرہ دیکھ دیکھ کر قادر کو ایڑیوں میں آگ لگتی اور کھوپڑی تک جاتی۔

چار قوی الجثہ افغانوں نے بادشاہ کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اور بازو دبا لیں۔ غلام قادر روہیلہ بادشاہ کی چھاتی پر چڑھ گیا۔

"شہنشاہِ ہندوستان شاہ عالم ثانی، وہ وقت یاد کر جب تیرے بندے ایسے ہی مجھے دبا کر بیٹھے تھے۔ یاد ہے؟"

شاہ عالم کچھ نہ بولا۔ اس کی سکڑی ہوئی آنکھیں دہکتی لال سوئی پر جم گئیں تھیں۔

"شاہ عالم، ایسے ہی دہکتے لوہے سے مجھے کاٹ دیا تھا نا؟ یاد کر!"

قادر نے دہکتی سوئی شاہ عالم کی بائیں آنکھ کے قریب کر دی۔ بادشاہ کا چہرہ خوف سے سکڑ گیا۔

بادشاہ کے بگڑے ہوئے چہرے کو دیکھ کر قادر نے قہقہہ لگایا۔

"شاہ عالم، تو نے میری مردانگی پر حملہ کیا تھا نا، پر میں اتنا گھٹیا نہیں۔ ویسے بھی تو کیا مرد رہ گیا ہے۔ وہ دیکھ تیرا حرم میری فوج کی ٹانگوں میں پڑا تڑپ رہا ہے۔ یہی بچانا تھا نا تو نے، اب بچا انہیں میرے سے۔"

قادر پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتا رہا۔ بادشاہ کی پلکیں سوئی کی تپش سے جل رہی تھیں۔

"ان آنکھوں سے تو نے میری بے بسی کا تماشا دیکھا تھا نا؟"

بادشاہ کچھ نہ بولا۔

"ان آنکھوں سے ہی تو نے جراح کو اشارہ کیا تھا نا میری مردانگی کاٹنے کا۔ اب یہ آنکھیں کوئی اشارہ نہیں کر سکیں گی۔ یہ اب رہیں گی ہی نہیں۔ تجھے اب غلام قادر روہیلہ کی شکل کے بعد کچھ نہیں دکھے گا۔ اب تو ساری عمر قید خانے کی کال کوٹھڑی میں میری شکل یاد کرتا رہے گا۔ دیکھ، مجھے غور سے دیکھ لے، تیری زندگی کی آخری شکل۔"

یہ کہہ کر قادر نے بائیں ہاتھ سے بادشاہ کی بائیں آنکھ کھولی اور لوہے کی دہکتی سوئی آنکھ کے ڈیلے پر رکھ دی۔ گوشت جلنے کی آواز شہنشاہِ ہندوستان کی چیخوں میں دب گئی۔ بادشاہ اتنی زور کا تڑپا کہ قادر ایک طرف جا گرا۔ قہقہے لگاتا وہ بادشاہ کو تڑپتا اور چیختا دیکھتا رہا۔ پھر ایک فوجی کو اشارہ کیا۔ فوجی نے بادشاہ کے منہ کو بائیں طرف موڑا اور قادر نے اب دائیں آنکھ کھول کر دہکتی سوئی آنکھ کے بیچ پھیر دی۔ بادشاہ کی چیخیں محل کی چھتیں پھاڑنے لگیں۔ کتنی دیر شہنشاہِ ہندوستان پھڑپھڑاتا رہا، اور اس کے گلے میں سے ایسی آوازیں آتی رہیں جیسے وہ غرارے کر رہا ہو۔

مرہٹے جب غلام قادر روہیلہ کا سر لے کر آئے تو شاہ عالم ثانی کی آنکھوں کے زخم بھر چکے تھے۔ نمکین نے بادشاہ کے کان میں بتایا کہ اس کے سامنے تھال میں قادر کا سر لایا گیا ہے۔ بادشاہ کی سفید آنکھیں قادر کے سر پر ایسے ٹکی تھیں جیسے اسے دکھتا ہو۔

 

1803ء

بیگم سمرو چلی گئی اور بادشاہ نے کاتب کو بلا لیا۔ اردو کی داستان "عجائب القصص" کے تین ہزار صفحے لکھے جا چکے تھے۔ بادشاہ نے داستان آگے لکھوانی شروع کی۔ شہزادے کو ایک اندھے کنویں میں قید کیا گیا تھا۔ اس کے ہاتھ پیر آزاد تھے، پر کنویں سے باہر کی دنیا میں وہ ایک چڑیا بھی نہیں اڑا سکتا تھا۔ پری شاہ کی نہ دکھائی دینے والی زنجیروں میں شہزادہ جکڑا ہوا تھا۔

زمرد کو لگا شاہ عالم ثانی شہزادہ شمس العجائب کا نام لے کر اپنی ہی داستان لکھوا رہا تھا۔

No comments:

Post a Comment