ایدھی اور قندیل : مر گئے مردود
نیم عریاں قندیل ہماری ضرورت بن چکی تھی. ہمارے غیرت مندر کی داسی. اسے گندی گالیاں دے کر پوترتا کا وہ احساس ہوتا تھا جو شیطان کو کنکریاں مارنے والوں کو بھی نصیب نہ ہوتا ہو گا.
مگر ایک خلش ہر دفعہ رہ جاتی. اس کی عریانیت ہماری غیرت کو مسلسل للکار رہی تھی اور ہم بے بس ہوۓ جا رہے تھے.
مسلۂ یہ تھا کہ ہمارے ہاں عورت آزاد صرف کوٹھوں میں رہ سکتی ہے، کوٹھیوں میں نہیں. ہمارے ہاں آزاد مرد زندہ دل اور آزاد عورت آوارہ ہوتی ہے. ہم بھلا عورت اور مرد کی برابری کیسے قبول کر سکتے ہیں. ہمیں عورت کی آزادی قبول ہے نہ مرد کی قید.
ہم مشرقی اقدار کے لوگ ہیں. ہمارے ہاں عورت مرد کے حکم کے بغیر بے لباس ہو سکتی ہے نہ مرد (والد، بھائی یا دلال) کی مرضی کے بغیر کسی سے ہم بستری کر سکتی ہے. جو عورت ہماری ان اقدار کو پامال کرے وہ واجب القتل ہے.
ہمارا معاشرہ بال دیوتا بن چکا ہے. یہ معصوم بچوں کی بلی مانگتا ہے. اس بھینٹ کی راہ میں وہ کافر بڈدھا حائل تھا جسے جنت کی لالچ تھی نہ جہنم کا خوف، بس ان بچوں کو بچانے کی لگن تھی جو ہماری مشرقی اقدار پر طمانچوں کی طرح مسلسل برس رہے ہیں.
ہماری مشرقی اقدار کا جنازہ تو عرصے سے پڑا گل سڑ رہا ہے مگر ہم اسے دفنانے کے لئے تیار نہیں. یہ دو مردود اسے کندھا دینے کی کوشش کر رہے تھے، شکر ہے مر گئے.
مر گئے مردود، نہ فاتحہ نہ درود!
Well said...perfect for the jungle we live in but wait jungle is much more better
ReplyDeleteWell said...perfect for the jungle we live in but wait jungle is much more better
ReplyDelete