بڑے خواب، بڑی کامیابی
زندگی ڈر ڈر کر جینے کا نام نہیں. گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں، وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے. دنیا میں وہی لوگ کامیابی حاصل کرتے ہیں جو خطروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا جانتے ہیں.
ہمارے ارد گرد تمام کامیاب لوگ ہمیں یہ باتیں بتاتے رہتے ہیں مگران پر عمل کرنے سے ہمارے اندر سے کوئی چیز ہمیں روکتی رہتی ہے. اور ہم رکے رہتے ہیں. کیا ہم بزدل ہیں؟ کیا ہم بیوقوف ہیں؟ جب کامیاب لوگ یہی کچھ کر کہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور کامیابی کا یہ آزمودہ راستہ ہمیں بتا رہے ہیں تو پھر ہم کامیابی کے اس آزمودہ راستے پر قدم رکھنے سے کیوں کتراتے ہیں؟
کیونکہ ان بچوں جیسی جذباتی باتوں پر ہماری عقل بند باندھ کر رکھتی ہے.
یہ کامیابی کا کھلا راستہ جو کامیاب لوگ ہمیں بڑے فخر سے اپنے تجربے کی بنیاد پر دکھاتے ہیں یہ وہی راستہ ہے جس پر ناکام لوگوں نے بھی سفر کیا تھا.
انہوں نے بھی بڑے بڑے خواب دیکھے تھے، انہوں نے بھی جی جان سے محنت کی تھی، وہ بھی بڑی خوبیوں والے لوگ تھے اور انہوں نے بھی خطروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کا مقابلہ کیا تھا.
مگر وہ ناکام رہے.
ہر کامیاب آدمی اپنی کامیابی کی چکا چوند سے سورج کی طرح دمکتا ہے. سب کو کامیاب دکھائی دیتا ہے. سب اس سے مرعوب ہوتے ہیں، اس پر رشک کرنا چاہتے ہیں، اس جیسا بننا چاہتے ہیں، اس کے آزمودہ رستے پر چلنا چاہتے ہیں.
مگر کامیابی کی اس چکا چوند میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اس کامیاب آدمی کے ساتھ اس جیسے ہی ہزاروں لاکھوں دوسرے لوگ بھی اسی راستے پر چلے تھے جو اب ناکامی کے اندھیروں میں ڈوب چکے ہیں.
چونکہ ہم صرف اوپر دیکھنا چاہتے ہیں اور نیچے دیکھنا گوارا نہیں کرتے، اس لئے نہیں دیکھ پاتے کہ یہی آزمودہ راستہ ایک آدمی کو کامیابی کی منزل پر پہنچانے کے عوض ہزاروں لاکھوں کو ناکامی کی گھاٹیوں میں دھکیل دیتا ہے.
جہاں سے نہ ہمیں ان کی بےچارگی نظر آتی ہے اور نہ ان کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے. دکھائی دیتے ہیں تو بس وہ چند جو کامیابی کی چوٹیوں پر کھڑے اپنے جھنڈے گاڑ رہے ہوتے ہیں.
زندگی اتنی بھی سیدھی سادھی اور آزمودہ نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں. یہ ایک گورکھ دھندہ ہی ہے.
No comments:
Post a Comment