Wednesday, 20 July 2016

کونسے فیصلے عدالتوں میں پیش کئے جایئں ؟ - اصول قانون






از
ٹیپو سلمان مخدوم


دنیا میں اس وقت دو بڑے نظام عدل رائج ہیں : (١) کامن لا یا مشترکہ نظام عدل (Common Law System)، اور (٢) سول لا یا دیوانی نظام عدل (Civil Law System). 

کامن لا کا نظام انگریزوں کا وضح کردہ ہے، جو ہمارے ہاں بھی رائج ہے. اس نظام کے تحت قانون صرف دو ادارے بنا سکتے ہیں، (١) مجلس شوریٰ، اور (٢) اعلی عدالتیں . 



مجلس شوریٰ کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ معاشرے میں کون کون سے کام ریاست کو کروانے یا رکوانے چاہیے. ایسے تمام کاموں کے کرنے کے لئے یا رکوانے کے لئے مجلس شوریٰ جو احکامات جاری کرتی ہے ان احکامات کو قوانین کہا جاتا ہے. جو شہری ان احکامات یا قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے ریاست سزا دیتی ہے. 


اعلی عدالتوں کا کام یہ ہے کہ وہ جھگڑوں کے فیصلے کریں. یہ فیصلے عدالتوں نے مجلس شوریٰ کے بناۓ ہوۓ قوانین کے تحت کرنا ہوتے ہیں. عدالتوں میں انہی باتوں سے متعلق جھگڑے پہنچتے ہیں جن کے بارے میں مجلس شوریٰ کے قوانین واضح نہیں ہوتے. ایسے جھگڑوں کے فیصلے کرتے وقت عدالتیں یہ فیصلہ سناتی ہیں کہ اس جھگڑے کے بارے میں مجلس شوریٰ کا قانون دراصل کیا کہتا ہے. لہذا اس جھگڑے کا فیصلہ ایسے کیا جاتا ہے. اب اگر ایک قسم کے جھگڑوں کا فیصلہ مختلف جج صاحبان یا مختلف عدالتیں مختلف طرح سے کرنے لگیں تو صورت حآل کچھ یوں ہو جاۓ گی کہ آپ ایک کام کریں اور آپ کا مقدمہ عدالت "الف" میں لگے تو آپ بری ہو جائیں جبکہ وہی کام میں کروں اور میرا مقدمہ عدالت "ج" میں لگے تو مجھے سزا ہو جائے. یہ قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ افراتفری کی صورت حال ہو گی. 



لہٰذا کامن لا میں ایک طرح کے جھگڑوں  پر جب ایک اعلی عدالت (ہماری عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ) ایک قانون کی ایک خاص انداز میں تشریح کر کے فیصلہ کر دے تو باقی عدالتیں بھی اس قسم کے تمام جھگڑوں کا اسی تشریح کے تحت فیصلہ کرتی ہیں. لہٰذا کامن لا میں یہ قانون ٹھرا کہ مجلس شوریٰ کے احکامات کی وہ تشریح جو اعلی عدالتیں کریں گی وہ باقی عدالتوں کے لئے قانون کا ہی درجہ رکھیں گی. اعلی عدالتوں کی تشریح قوانین کو قانون کا درجہ دینے والے اصول کو Stare Decisis (بولنے میں : stare سٹے.ار  decisis ڈے. سائی.سیس) کہتے ہیں.


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعلی عدالتوں کا ہر فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے. جواب ہے نہیں، کچھ فیصلے قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ نہیں. تو پھر  سوال اٹھتا ہے کہ کیسے پتا چلے کہ ہزارہا فیصلہ جات میں سے کونسے فیصلے قانون کا درجہ رکھتے ہیں تا کہ انھیں Precedent (بولنے میں : پرے.سی.ڈینٹ) کے طور پر اپنے مقدمہ میں پیش کیا جا سکے. 



اعلی عدالتیں جب فیصلے کرتی ہیں تو اس کے تین حصے ہوتے ہیں. (١) فیصلے میں سب سے پہلے وہ حقائق لکھے جاتے ہیں جو جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے دیکھنا ضروری ہوتے ہیں. (٢) فیصلے کے دوسرے حصے میں دلائل ہوتے ہیں. پہلے جج صاحب دونوں فریقین کے وکلا کے دلائل قلمبند کرتے ہیں جس کے بعد جج صاحب وہ دلائل تحریر کرتے ہیں جن کے تحت وہ کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں. (٣) فیصلے کے آخر میں فریقین کے جھگڑے کے حل پر مبنی فیصلہ سنایا جاتا ہے.


فیصلے میں قانون کا درجہ رکھنے والی چیز وہ اصول ہوتا ہے جو فیصلے کے دوسرے حصے میں دلائل دیتے ہوۓ عدالت وضح کرتی ہے. یہ اصول واضح طور پر علیحدہ سے نہیں لکھا ہوتا بلکہ فیصلے کے دلائل میں کہیں گم ہوتا ہے. اور اس اصول کو ڈھونڈنا اکثر کافی مغز ماری کا کام ثابت ہوتا ہے اور یہ وکالت کا ایک اہم ہنر ہے. اس پوشیدہ خزانے نما اصول کی تلاش اسی وقت ممکن ہے جب آپ مقدمہ کے حقایق کی روشنی میں دلائل کو پرکھیں. فیصلے میں وضح کردہ اس اصول کو فیصلے کی Ratio (بولنے میں : رے.شو) کھا جاتا ہے. 


مثال کے طور پر اگر مجلس شوریٰ کے قانون میں لکھا ہو کہ پستول کا لائسنس ان شہریوں کو نہیں دیا جائے گا جو باشعور نہ ہوں یا جو معاشرے کے لئیے خطرناک ہوں. "الف" پستول کے لائسنس کے لئیے درخواست دیتا ہے جسے حکومت رد کر دیتی ہے. "الف" رٹ دائر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایک باشعور شہری ہے، رجسٹرڈ ووٹر ہے، قانون کی پاسداری کرتا ہے، کبھی کسی جرم کا مرتکب نہیں ہوا اور معاشرے کے لئے خطرہ نہ ہے لہٰذا اسے مجلس شوریٰ کے قانون کے مطابق لائسنس ملنا چاہیے. جواب میں حکومت کہتی ہے کہ "الف" باشعور شہری نہ  ہے کیونکہ وہ ان پڑھ ہے اور اس نے کبھی عام انتخابات میں اپنا حق راۓ دہی استعمال نہ کیا ہے. دوسرے "الف" معاشرے کے لئے خطرہ ہے کیونکہ پچھلے سال اس کا ٹریفک چالان ہوا تھا. عدالت یہ تمام حقائق تحریر کر کہ دلائل دیتی ہے کہ باشعور ہونے کے لئے پڑھا لکھا ہونا یا حق راۓ دہی استعمال کرنا شرط نہیں. "الف" کا رجسٹرڈ ووٹر ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک باشعور شہری ہے. دوسرے چونکہ "الف" پر کوئی فوجداری مقدمہ درج نہ ہے لہذا وہ معاشرے کے لئے خطرہ نہ ہے. اس کے بعد عدالت فیصلہ سناتے ہوۓ حکومت کو حکم دیتی ہے کہ "الف" کو پستول کا لائسنس جاری کیا جائے. 



اس فیصلے میں اصول یہ وضح کیا گیا ہے کہ جو شہری ملک میں ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزار رہا ہے اور اس کی شناخت ایک شہری کے طور پر حکومت کے پاس درج ہے وہ اس قانون کے تحت باشعور شہری سمجھا جائے گا اور جو شہری کسی ایسے جرم کا مرتکب نہیں ہوا جو دوسرے شہریوں کے جان و مال کو خطرے میں ڈال دے وہ معاشرے کے لئے خطرناک نہیں ہے.

اب اگر آپ کے پاس "ج" آتا ہے جو رجسٹرڈ ووٹر تو نہیں مگر اس کا قومی شناختی کارڈ بنا ہوا ہے اور اس کا ٹریفک چالان تو نہیں ہوا مگر اس پر پورا ٹیکس جمع نہ کروانے سے متعلق کروائی ہو رہی ہے تو اگرچہ "ج" کے حقائق "الف" سے مختلف ہیں مگر "الف" کے فیصلے میں وضح کئے گئے اصول کے تحت "ج" کے مقدمے کا فیصلہ بھی "ج" کے حق میں ہو سکتا ہے. آپ "ج" کے مقدمے میں "الف" کا فیصلہ بطور Precedent پیش کر سکتے ہیں. 


لیکن اگر ایسا ہی مقدمہ "د" کا ہو جو پڑھا لکھا بھی ہو، ووٹر بھی ہو اور کبھی کسی قسم کا جرم بھی نہ کیا ہو، مگر اس کو نفسیاتی مسلہ ہو جس کے لئے وہ زیر علاج بھی ہو تو اب "الف" کا فیصلہ آپ "د" کے مقدمے میں بطور Precedent پیش نہ کر سکتے ہیں کیونکہ "الف" کے مقدمے میں جو اصول وضح کیا گیا تھا اس میں نفسیاتی مسلئے کا عنصر زیر غور نہ لایا گیا تھا.


اب "د" کے مقدمے میں عدالت ایک نیا اصول وضح کرے گی. کیا ہر طرح کے نفسیاتی مسلئے سے انسان بے شعور ہو جاتا ہے یا صرف کچھ اقسام کے نفسانی مسائل میں. نیز کیا ہر قسم کا نفسیاتی مسلہ انسان کو معاشرے کے لئے خطرناک بنا دیتا ہے یا صرف کچھ قسم کےنفسیاتی مسائل ایسا کرتے ہیں. اور ان اصولوں کے تحت پھر عدالت فیصلہ کرے گی کہ "د" کا نفسیاتی مسلہ کس قسم کا ہے، کیا اسے پستول کا لائسنس مل سکتا ہے ؟ اور یہ فیصلہ  اس نقطہ پر Precedent بن جائے گا. 

No comments:

Post a Comment