Saturday, 30 July 2016

Kamiyab Bandar

 کامیاب بندر 





فرض کریں دس لاکھ بندر اسٹاک ایکسچینج پر سٹہ لگانا شروع کر دیں. بندر  ہیں، جس اسٹاک پر اپنا کیلا رکھ دیں گے وہ ان کے لئے خرید لیا جائے گا. شماریات کے  حساب سے قوی احتمال ہے کہ آدھے بندرمنافع کمائیں گے جبکہ باقی آدھے گھاٹا. ناکام بندروں کو گھر بھیج دیجئے. اگلے دن کامیاب بندر پھر سٹہ لگائیں گے اور ناکام بندروں کو گھر بھیج دیا جائے گا. 


دس دن میں صرف ایک ہزار کامیاب بندر رہ جایئں گے جبکہ بیس دن بعد صرف ایک بندر بچے گا. یہ وہ بندر ہے جس نے بیس کے بیس دفع اپنا کیلا منافع بخش کمپنیوں کے حصص پر رکھا. اور اب ارب پتی ہے. 

جیسے ہی ہمیں پتا چلے گا کہ اس بندر نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے تو ہم دو کام کریں گے. ایک یہ کہ اس کا نام عقلمند بندر رکھ دیں گے اور دوسرا اس کی عقلمندی کا راز معلوم کرنے کی کوشش شروع کر دیں گے. 

ضرور یہ بندر زیادہ کیلے کھاتا ہے جس کی وجہ سے اتنا عقلمند ہے. یا شاید درخت سے الٹا لٹکنے کی وجہ سے اس کے دماغ میں زیادہ خون جاتا ہے. یا شاخ شاخ کودنے کی وجہ سے اس کی قوت فیصلہ تیز ہوتی رہتی ہے. وغیرہ وغیرہ وغیرہ.

اس طرح کی جو بھی کہانی ہمیں زیادہ نمک مرچ لگا کر سنائی جاتی ہے ہم اس پر اعتبار کر لیں گے. لیکن اگر شماریات کے ماہرین ہمیں بتایں کہ اگر دس لاکھ لوگ بیس دفع تکا لگائیں تو ایک نہ ایک کا تکا ہر دفع لگنے کا قوی امکان ہے اور اس عمل کے پیچھے چھپے شماریات کے اصول سمجھانے لگیں تو ہم بیزار ہو جائیں گے اور ان کی بات رد کر کہ اپنی من پسند کہانی ہی پر کامل یقین رکھیں گے. 




اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل انسانی نے اپنی عمر کے چند ہزار سال ہی سے دلیل استمعال کرنا شروع کی ہے جبکہ اس سے پہلے لاکھوں سال ان نے کہانیوں ہی پر گزارہ کئے رکھا ہے. بارش کیوں نہیں ہو رہی، بجلی کیوں گری، اچھی فصل کیوں نہیں ہوئی، وغیرہ وغیرہ.

یہ وہ سوال تھے جن کا جواب تلاش کرنے کی صلاحیت حضرت انسان میں نہ تھی تو اس نے ہر سوال کے جواب میں کہانی گھڑنا شروع کردی. بارش نہیں ہوئی کیونکہ دیوتا ناراض ہے، بجلی نے گر کر گناہ کی سزا دی، شیطان نے فصل خراب کر دی. یہ کہانی گھڑنا بڑا مزیدار کام تھا. مغز ماری کے بغیر ہی جواب مل جاتا اور سکون آ جاتا اور یوں انسان کائنات کو "سمجھنے" لگا. 

اب انسان نے عقل کا استمعال سیکھ لیا ہے اور واقعات کے رونما ہونے کی وجوہات ڈھونڈنے لگا ہے. مگر یہ دماغ لڑانے کا کام بس چند ہی لوگ کرتے ہیں. باقی سب مزے سے بیٹھ کر کہانیاں بنتے اور عقلمند کہلاتے ہیں. 




الف امیر اس لئیے ہے کہ وہ بڑا ملنسار ہے. ج کا کاروبار اس لیے نہیں چلتا کیونکہ وہ محنتی نہیں ہے. امریکہ کا برا وقت آ گیا ہے کیونکہ اس نے افغانستان پر حملہ کر دیا ہے. مسلمانوں کا حال برا ہے کیونکہ امریکہ یہودیوں کے قبضے میں ہے. 

اپنے ہمساۓ کے حالات سے لے کر عالمی حالات تک ہم سب جانتے اور سمجھتے ہیں. کہ یہ حالات کیونکر اور کیسے اس نہج پر پہنچے. مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ ہمارے اپنے حالات کیوں نہیں بدل رہے. 

کہانیاں تو کہانیاں ہوتی ہیں، علم نہیں. سنائی تو جا سکتی ہیں مگر ان سے حقیقت نہیں بدلی جا سکتی. 

مگر ہماری کچھ کہانیاں سچ بھی تو ثابت ہو جاتی ہیں. کیوں نہیں. اگر عقلمند بندر کے اتنے سارے تکے لگ سکتے ہیں تو کچھ تکے ہمارے بھی تو لگنے چاہئے. شماریات کے اصول صرف بندروں ہی پر تو لاگو نہیں ہوتے!

3 comments:

  1. Very nice and very well said 😃

    ReplyDelete
  2. Very nice and very well said 😃

    ReplyDelete
  3. Reflects very pragmatic approach of a mentor. But I am very curious how an English style pal writes such a refine Urdu. Great!!

    ReplyDelete